• 25 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت الٰہی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت الٰہی سے متعلق کچھ تحریرات پیش کروں گا، ارشادات پیش کروں گا جن میں آپ نے محبت الٰہی کی حقیقت اور تعریف بھی بیان فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا راز اور طریق اور اس کی گہرائی اور فلاسفی بھی بیان فرمائی ہے اور ہمارے سے، جو آپ کے ماننے والے ہیں جو آپ کی جماعت میں شامل ہیں محبت الٰہی کے بارے میں کیا توقعات رکھی ہیں۔ یہ سب بھی بیان فرمایا کہ ہماری کیا کوشش ہونی چاہئے اور اس کے کیا معیار ہونے چاہئیں۔ پس اس لحاظ سے ہر حوالہ ہی قابل غور ہے اور ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اس لئے توجہ سے سننے کی ضرورت ہے تا کہ ہم محبت الٰہی کے مضمون کی روح کو سمجھتے ہوئے اس میں بڑھنے والے ہوں اور اضافہ کرنے والے ہوں اور اپنی اصلاح کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’محبت کوئی تصنع اور تکلف کا کام نہیں بلکہ انسانی قویٰ میں سے یہ بھی ایک قوت ہے۔ اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ دل کا ایک چیز کو پسند کر کے اس کی طرف کھنچے جانا اور جیسا کہ ہریک چیز کے اصل خواص اس کے کمال کے وقت بدیہی طور پر محسوس ہوتے ہیں (بہت کھلے اور واضح محسوس ہوتے ہیں) یہی محبت کا حال ہے کہ اس کے جوہر بھی اس وقت کھلے کھلے ظاہر ہوتے ہیں کہ جب اتم اور اکمل درجہ پر پہنچ جائے۔‘‘ (کمال اور اِتمام ایسی ہو جو اپنے انتہا کو پہنچ جائے) فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُشْرِبُوْا فِی قُلُوْبِھِمُ الْعِجْلَ (البقرۃ: 94)۔ یعنی انہوں نے گو سالہ سے ایسی محبت کی کہ گویا ان کو گو سالہ شربت کی طرح پلا دیا گیا۔ درحقیقت جو شخص کسی سے کامل محبت کرتا ہے تو گویا اسے پی لیتا ہے یا کھا لیتا ہے اور اس کے اخلاق اور اس کے چال چلن کے ساتھ رنگین ہو جاتا ہے اور جس قدر زیادہ محبت ہوتی ہے اسی قدر انسان بالطبع اپنے محبوب کی صفات کی طرف کھینچا جاتا ہے یہاں تک کہ اسی کا روپ ہو جاتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ یہی بھید ہے کہ جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے وہ ظلّی طور پر بقدر اپنی استعداد کے اس نور کو حاصل کر لیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے اور شیطان سے محبت کرنے والے وہ تاریکی حاصل کر لیتے ہیں جو شیطان میں ہے۔‘‘ یعنی فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنانا یہی محبت کا راز ہے۔ معرفت کے ضمن میں بتایا گیا تھا کہ جب تک تمام صفات کا علم نہ ہو معرفت نہیں ہو سکتی اور معرفت کے بعد جب انسان مزید آگے بڑھتا ہے تو وہ محبت ہے اور محبت اسی وقت کامل ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنایا بھی جائے۔ صرف علم حاصل کرنا ہی ضروری نہیں بلکہ اسے اپنایا بھی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہوا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کا نور حاصل ہوتا ہے۔)

(نورالقرآن نمبر 2۔ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 430)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ
’’…محبت کی حقیقت بالالتزام اس بات کو چاہتی ہے کہ انسان سچے دل سے اپنے محبوب کے تمام شمائل اور اخلاق اور عبادات پسند کرے اور ان میں فنا ہونے کے لئے بدل و جان ساعی ہو تا اپنے محبوب میں ہوکر وہ زندگی پاوے جو محبوب کو حاصل ہے۔ سچی محبت کرنے والا اپنے محبوب میں فنا ہو جاتا ہے۔ اپنے محبوب کے گریبان سے ظاہر ہوتا ہے اور ایسی تصویر اس کی اپنے اندر کھینچتا ہے کہ گویا اسے پی جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس میں ہوکر اور اس کے رنگ میں رنگین ہوکر اور اس کے ساتھ ہوکر لوگوں پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ درحقیقت اس کی محبت میں کھویا گیا ہے۔‘‘

(نورالقرآن نمبر 2۔ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 431)

(خطبہ جمعہ 4؍ اپریل 2014ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 ستمبر 2020