• 8 مئی, 2025

سنگاپور دورہ پر اپنوں اور غیروں کی کیفیات

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو گننا اور اس کی انتہا جاننا تو ممکن نہیں کیونکہ جب ہم سمجھتے ہیں کہ ہم فضلوں کی حدوں کو چھونے والے ہیں تو اللہ تعالیٰ فوراً ہی ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے اور ہماری اس غلط فہمی کو دور کر دیتا ہے کہ جن باتوں کو تم بیشمار فضل سمجھتے ہو، یہ تو ابھی ابتدا ہے۔ اب میں تمہیں ایک قدم اَور آگے بڑھاتا ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا شمار اور اُس کی انتہا جاننا انسانی بس سے باہر ہے۔ خاص طور پر جب اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کا سلسلہ ہر موڑ پر کھڑا ہمیں ایک اور خوشخبری سنا رہا ہو جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے ہیں اور جن کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ فضلوں کی انتہا کا ذکر تو دور کی بات ہے، مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ کس فضل کو لے کر بات شروع کروں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ایک خلاصہ مَیں پیش کروں گا جو ان سات ہفتوں کے دوران سفر میں ہمیں نظر آئے۔ ان جگہوں کی کچھ تفصیل تو وکیل التبشیر صاحب کی رپورٹس جو الفضل کو وہ بھیج رہے ہیں، اُس میں شائع ہو رہی ہیں، اُس میں سے بعض لوگوں نے پڑھ لی ہوں گی لیکن بعض باتوں کی تصویر کھینچنا، تصویر کَشی کرنا اور بیان کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ غیروں کے تأثرات جو غیر جماعت کا ذکر کرتے ہوئے کرتے ہیں، اُن کا سو فیصد بیان نہ مَیں کر سکتا ہوں، نہ کوئی اور کر سکتا ہے۔ ہاں ایم ٹی اے پر کچھ حد تک یہ دیکھے جا سکتے ہیں، شاید کچھ آبھی گئے ہوں۔ انگریزی دان طبقے کے لئے پریس ڈیسک نے اس دفعہ اچھا انتظام کیا ہوا تھا اور دورے کے جو مختلف خاص اہم مواقع تھے اُن کی خبر دنیا کے احمدیوں تک پہنچتی رہی ہے۔ بہرحال ہر دورہ اور ہر دن ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اُس کے شکر کے مضمون کی نئی آگاہی دیتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ بہرحال اب اس تمہید کے بعد مَیں حالاتِ سفر اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کرتا ہوں۔ ہمارے دورے کی پہلی منزل سنگاپور تھی۔ سنگاپور ائیرپورٹ پر سنگاپور کے احمدیوں کے علاوہ انڈونیشیا اور ملائشیا کے بعض عہدیداران مرد و خواتین بھی آئے ہوئے تھے اور اُن سب کی ایک عجیب جذباتی کیفیت تھی جس کا کچھ اندازہ آپ کو ایم ٹی اے پر خطبے کے دوران بعض جھلکیاں دیکھ کے ہو گیا ہو گا۔ بہرحال سنگاپور کا یہ دورہ تقریباً دس دن کا تھا اور اس میں انڈونیشیا، ملائشیا، برونائی، فلپائن، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، ویتنام، پاپوا نیوگنی، سری لنکا، انڈیا اور میانمار سے آنے والے احمدیوں اور وفود سے ملاقات ہوئی۔ انڈونیشیا سے تقریباً اڑھائی ہزار کی تعداد میں احمدی آئے ہوئے تھے اور ان میں سے اکثر احمدی کوئی ایسے اچھے کھاتے پیتے نہیں تھے لیکن وفا اور اخلاص سے پُر تھے۔ بعض قرض لے کر یا اپنی کوئی چیز بیچ کر یا جائداد بیچ کر سفر کا خرچ کر کے آئے تھے۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی ایک دفعہ شاید سفر کے دوران کسی خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں کہ ان لوگوں کو فکر تھی تو یہ کہ ہمارے دین کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ دین پر قائم رکھے۔ ان میں سے وہ لوگ بھی تھے جو بڑے عرصے سے تقریباً ایک سال سے گھر سے بے گھر ہیں۔ وہاں کے رہنے والوں نے اُن کو اُن کے گھروں سے نکال دیا ہے اور عارضی shelter میں رہ رہے ہیں لیکن انہوں نے اپنے ایمان کو قربان نہیں کیا ہے بلکہ اِن کے ایمان مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ جو جماعتی مصروفیات ہوتی ہیں، meetings ہیں، ملاقاتیں ہیں، کلاسیں ہیں۔ غیروں کے ساتھ جو دوسرے پروگرام تھے، وہ یہاں سنگاپور میں بھی ہوئے۔ ایک پروگرام reception کا تھا، جس میں انڈونیشیا سے آنے والے غیر از جماعت بھی شامل تھے، جن میں پروفیسر بھی تھے، سکالرز بھی تھے، سیاستدان بھی تھے۔ پڑھا لکھا طبقہ تھا اُن میں سے بعض جرنلسٹ بھی تھے۔ دو اخباروں کے جرنلسٹ بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے انٹرویو لیا اور جماعت کے بارے میں تعارف اور جو کچھ جماعت کے ساتھ وہاں ہو رہا ہے اُس کے بارے میں اُن سے کچھ باتیں ہوئیں۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے جو احباب شامل ہوئے اُن میں جیسا کہ میں نے کہا غیر از جماعت بھی تھے، ان کی تعداد اڑتالیس افراد پر مشتمل تھی۔ ان میں یونیورسٹی کے پروفیسر، سابق ممبر پارلیمنٹ، ایک مذہبی جماعت ’’نَہْجَۃُ الْعُلَمَاء‘‘ کے آٹھ نمائندگان بھی اس میں شامل ہوئے اور اُن میں سے ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں جو میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ لیکچر جو تھوڑا سا مختصر خطاب تھا وہ سننے کے بعد کہنے لگے کہ انڈونیشیا آ کے ہماری یونیورسٹی میں بھی لیکچر دیں ہم وہاں arrange کرتے ہیں۔ میں نے کہا اگر آپ کر سکتے ہیں تو بڑی اچھی بات ہے لیکن جو لوگ وہاں شور مچائیں گے اس کا شاید آپ کو اندازہ نہیں۔ بہرحال اُن میں شرافت بہت تھی۔ بعض سعید فطرت تھے حالانکہ علماء کی کونسلوں کے ممبر تھے۔

( خطبہ جمعہ 15؍ نومبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ضروری اعلان بابت اصحاب احمد ضلع گوجرانوالہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 ستمبر 2022