• 27 اپریل, 2024

خلاصہ اختتامی خطاب مجلس انصار الله یوکے 2022

خلاصہ اختتامی خطاب برموقع اُنتالیسواں نیشنل سالانہ اجتماع مجلس انصار الله یوکے

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 18؍ستمبر 2022ء بمقام اولڈپارک فارم کنگسلے، یوکے

جماعت کا عقل و حکمت اور تجربہ کے لحاظ سے جو بہتر حصہ کہلا سکتا ہے وہ، وہ لوگ ہیں جو آپ انصار کی عمر کے ہیں۔ پس عبادتوں کے معیار، اعلیٰ اخلاق اور دوسری نیکیوں کے لحاظ سے بھی انصار الله ہی وہ تنظیم ہونی چاہئےجو نمونے قائم کرنے والی ہو۔ ۔۔ اگر ہمارا نعرہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ کا ہے تو اپنے نفس کو پہلےپاک صاف کرنا ہو گا، پس اصل کام اب انصار الله کا مامور زمانہ کے ساتھ جُڑ کر دنیا کو خدائے واحد کے آگے جھکانا اور حضرت محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لاناہے

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا! ابھی کچھ دیر پہلے مَیں نے لجنہ سے خطاب کیا تھا اور اُنہیں بعض باتوں کی طرف توجہ دلائی تھی، یہ باتیں صرف عورتوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں اِن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کر کےیہ نیکیاں اپنانے اور اُن کی طرف توجہ کرنے کا کہا ہے۔

خلیفۂ وقت کی کہی گئی بات کا ہر ایک احمدی اپنے آپ کو مخاطب سمجھے

بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ نصائح کا مخاطب اپنے آپ کو نہیں سمجھتے اور اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے بلکہ جماعت کے کسی مخصوص طبقہ یا ملک کو اِس کا مخاطب قرار دیتے ہیں، اِس تناظر میں حضور انور ایدہ الله نے تصریح فرمائی! جب اب کہ ٹی وی کے ذریعہ تمام دنیا رابطوں کے لحاظ سے ایک ہو گئی ہے، ہر احمدی، ہر بات کا جو خلیفۂ وقت کی طرف سےجماعت کی بہتری کے لئےکہی جا رہی ہے، مخاطب سمجھے اور اُس پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو ایک انقلاب ہے جو ہم اپنی حالتوں میں لا سکتے ہیں۔پس پہلی بات تو یہ ہےجو باتیں مَیں نے لجنہ میں کی ہیں اِن کا انصار اپنے آپ کو بھی مخاطب سمجھیں۔

انصار الله کو خاص طور پر اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے

پس انصار الله کی عمر کو پہنچے ہوئے مردجو اپنی سوچ کی بلوغت کو بھی اپنی عمر کے لحاظ سے پہنچ چکے ہیں اُنہیں خاص طور پر اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہر نیکی کی بات جماعت کے کسی بھی طبقہ کو مخاطب کر کے کی جا رہی ہے اِسے ہم نے نہ صرف اپنے پر لاگو کرناہے بلکہ دوسروں کے سامنےنمونہ بن کر حقیقی اسلامی معاشرہ قائم کرنا ہے۔

اپنے جائزے لیں

حضور انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا!حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جماعت کو ببات تقویٰ جو مختلف مواقع پر نصائح فرمائیں، اِس حوالہ سے چند باتیں آپ سے کرنا چاہوں گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا! انصار الله کی عمر کے لوگ اپنی عقل اور تجربہ کے لحاظ سےانتہاء کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں، پس یہ بات اِن سے یہ بھی تقاضہ کرتی ہے کہ وہ اپنی دینی، روحانی اور اخلاقی حالتوں کےبھی اعلیٰ نمونے دکھائیں۔ اپنے جائزے لیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کو مان کر ہم نے اپنے اندر کیا تبدیلی پیدا کی ہے اور دوسروں کو اِس سے کیا فائدہ ہم پہنچا رہے ہیں۔

انصار الله ہی وہ تنظیم ہونی چاہئےجو نمونے قائم کرنے والی ہو

ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا! ہماری جماعت کو الله تعالیٰ ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے، پس جماعت کا عقل و حکمت اور تجربہ کے لحاظ سے جو بہتر حصہ کہلا سکتا ہے وہ، وہ لوگ ہیں جو آپ انصار کی عمر کے ہیں۔ پس عبادتوں کے معیار، اعلیٰ اخلاق اور دوسری نیکیوں کے لحاظ سے بھی انصار الله ہی وہ تنظیم ہونی چاہئےجو نمونے قائم کرنے والی ہو اور یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب انسان کے دل میں تقویٰ ہو، تبھی انسان کا الله تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوتا ہے، تبھی انسان کے عبادتوں اور اخلاق کے اعلیٰ معیار قائم ہوتے ہیں، تبھی ایک انسان حقیقی انصار میں شمار ہو سکتا ہے۔

تبھی ہم حقیقی انصار کہلا سکتے ہیں

حضرت مسیح موعودؑ اِسی وجہ سے اپنے ماننے والوں کو بے شمار جگہ بڑے درد کے ساتھ تقویٰ پر چلنے کے بارہ میں بار بار نصیحت فرماتے رہے کیونکہ تقویٰ ایک بنیادی چیز ہے، چنانچہ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں۔ بجز تقویٰ کےاور کسی بات سےالله تعالیٰ راضی نہیں ہوتا، الله تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّالَّذِیۡنَ ھُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ (النحل:129) یقیناً الله اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو احسان کرنے والے ہیں۔ پس ہر ایک ہم میں سے جائزہ لےکہ کس حد تک ہم میں تقویٰ ہے اور ہمارے احسان کرنے کے کیا معیار ہیں تبھی ہم حقیقی انصار کہلا سکتے ہیں۔

ہم جب یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم انصار الله ہیں

الله تعالیٰ کے مددگار ہیں، اُس کے دین کے مددگار ہیں تو پھر یہ خصوصیت بھی پیدا کرنی ہو گی کہ تقویٰ بھی ہو اور محسن بھی ہم ہوں۔ الله تعالیٰ کو ہماری کسی مدد کی ضرورت نہیں، وہ سب طاقتوں کا ملک ہے، یہ اُس کا احسان ہے کہ اُس نے ایک نظام قائم فرمایا اور یہ نظام بنا کر فرمایا کہ تم اِس نظام کا حصہ بن جاؤ اور میرے دین کے مددگار بن جاؤ تو مَیں تمہیں اِس طرح سمجھوں گاجس طرح تم الله تعالیٰ کے دین کے مددگار ہو لیکن یہ یاد رہے کہ مَیں صرف اُنہیں دین کے مددگار سمجھوں گا جو تقویٰ کو اختیار اور احسان کرنے والے ہیں۔

پس یہ سوچ ہے جو ہم میں سے ہر ناصر کی ہونی چاہئے

اگر الله تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو انسان کی حیثیت ہی کیا ہے کہ یہ دعویٰ کرے مَیں انصار الله ہوں، الله تعالیٰ کا مددگار ہوں۔ ہم تو اُس کے فضل کے بغیر ایک کے بعد دوسرا سانس بھی نہیں لے سکتے، پس وہ فرماتا ہے کہ مَیں تمہیں اپنےدین کا مددگار قبول کرتا ہوں اور میری مد دتمہارے ساتھ ہو گی بشرطیکہ تم تقویٰ پر چلو اور نیکیاں بجا لانے والے ہو۔ پھر ہمارے کاموں کے جو ہم اُس کی خاطر کرتے ہیں ایسے بھرپور نتائج نکلیں گےکہ نظر آئے گا کہ واقعی یہ لوگ انصار الله ہیں اور اِس وجہ سے الله بھی اِن کے کاموں میں بے انتہاء برکت عطاء فرماتا ہے۔ پس یہ سوچ ہے جو ہم میں سے ہر ناصر کی ہونی چاہئے کیونکہ اِس کے بغیر ہماری بیعت کا مقصد ہی کوئی نہیں رہتا۔۔۔ اگر ہمارا نعرہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ کا ہے تو اپنے نفس کو پہلےپاک صاف کرنا ہو گا، پس اصل کام اب مامور زمانہ کے ساتھ جُڑ کر انصار الله کا یہ ہے کہ دنیا کو خدائے واحد کے آگے جھکانا اور حضرت محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا۔

ہم حقیقی انصار اُس وقت بن سکتے ہیں جب عمدہ بیج بنیں

حضرت مسیح موعودؑ اپنے اندرونی جائزے لینےکی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں۔میری جماعت سمجھ لےکہ وہ میرے پاس آئے ہیں اِس لئے کہ تخم ریزی کی جائے کہ جس سے وہ پھل دار درخت ہو جائیں، پس ہر ایک اپنے اندر غور کرے کہ اُس کااندرونہ اور باطنی حالت کیسی ہے۔ فرمایا! اگر ہماری جماعت بھی خدانخواستہ ایسی ہے کہ اُس کی زبان پر کچھ اور دل میں کچھ ہےتو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہو گا(اِس عمر کو پہنچ کر پھر خاتمہ بالخیر کی بھی فکر ہوتی ہے) فرمایا! الله تعالیٰ جب دیکھتا ہے ایک جماعت جو دل سے خالی اور زبانی دعوے کرتی ہے، وہ غنی ہے پرواہ نہیں کرتا۔ پس ہم حقیقی انصار اُس وقت بن سکتے ہیں جب عمدہ بیج بنیں۔ اِس کے لئے الله تعالیٰ اور آنحضرتؐ کے حکموں پر چلنا اور زمانہ کےامام اور مامور کی کامل پیروی اور اطاعت کرنا ضروری ہے۔ ۔۔ ہمارے قول و فعل کا ایک ہونا جہاں ہمیں الله تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہو گا وہاں ہماری نسل کی اصلاح کا بھی ذریعہ ہو گا اور ہمیں یہ تسلی ہو گی کہ ہم اپنی نسلوں میں بھی تقویٰ اور نیکی کی جَڑ لگا کر جا رہے ہیں، وہ پیوند لگا کر جارہے ہیں جس سے اگلی نسل بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ جُڑ کر وہ پھل دار درخت بنیں گےجن پر نیکیوں کے پھل لگتے ہیں۔

چالیس سال کی عمر میں ایسی سوچیں زیادہ شروع ہو جاتی ہیں

ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جب لوگ ایسی بڑی عمر کو پہنچتے ہیں اُن کے بچے بھی بڑے ہو رہے ہوتے ہیں تو اُن کی ضروریات(تعلیم و متفرق) کی اُنہیں زیادہ فکر شروع ہو جاتی ہے، چالیس سال کی عمر ایسی ہے جب یہ سوچیں زیادہ شروع ہو جاتی ہیں اور پھر بعض لوگ جو دنیا میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں یا جن کو خدا تعالیٰ پر توکل کم ہوتا ہےوہ اِن اخراجات کو پورا کرنے کے لئے مختلف (جائز یا ناجائز)حیلےاور طریقے تلاش کرتے ہیں جو بسا اوقات ناجائز بھی ہوتے ہیں۔۔۔حتّی کہ بعض احمدی بھی یہ کام کرتے ہیں اور پھر دنیاوی معاملات میں نہیں بلکہ چندوں کی ادائیگی میں بھی اپنی آمد غلط بتا دیتے ہیں حالانکہ اِس میں اِن کے لئے واضح کر دیا گیا ہے کہ اگر شرح سے چندہ نہیں دے سکتے تو چھوٹ لے لیں لیکن غلط بیانی نہ ہو۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے اگر تمہارے اندر تقویٰ ہے تو وہ خود انتظام کر دے گا یا تھوڑے میں ایسی برکت عطاء فرما دے گا کہ غیر محسوس طریقہ پر اخراجات پورے ہونے کےسامان ہوتے ہیں۔

وہ مقام جب الله تعالیٰ اپنے بندہ کے لئے کافی ہو جاتا ہے

حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا! یہ نہ سمجھو کہ الله تعالیٰ کمزور ہے، وہ بڑا طاقت والا ہے۔ جب اُس پر کسی امر پر بھروسہ کرو گےتو وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا، پس الله تعالیٰ پر توکل ضروری ہے اور یہ بغیر تقویٰ کے پیدا نہیں ہو سکتا۔پس اگر ہم اپنی حالتوں حقیقت میں ایسی تبدیلی پیدا کر لیں جب دین دنیا پر مقدم ہو جائے تو یہی حقیقی تقویٰ اور یہی وہ مقام ہے جب الله تعالیٰ اپنے بندہ کے لئے کافی ہو جاتا ہے۔

حقیقی انصار ہونے کی روح

حضور انور ایدہ الله نے خطاب کے اختتامی حصہ میں ارشاد فرمایا! الله تعالیٰ متّقی کے راستہ کی تمام دُنیوی روکیں دُور فرما دیتا ہے جو اُس کے دین کے کام میں حارج ہوں، پس اگر دنیاوی کاموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نمازوں کی وقت پر ادائیگی ہم کر رہے ہیں اور اِسی طرح دوسرے دنیاوی کاموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جماعتی اور دینی کاموں کو ترجیح دے رہے ہوں تو وہ سب طاقتوں کا مالک خدا فرماتا ہے کہ مَیں تمہارے ساتھ ہوں، تمہاری فکروں کو دُور کروں گا۔ پس انسان نے خدا تعالیٰ کی کیا مدد کرنی ہے، الله تعالیٰ ہے جو ہمیں دینی خدمت کا موقع دیتا ہے، ہماری نیکیوں کے ہمیں اجر دیتا ہے، ہماری ضروریات پوری فرماتا ہے اور پھر اِن تمام نوازشوں کے بعد ہمیں اپنے دین کے مددگاروں میں شامل کرنے کا اعلان فرما دیتا ہے۔ کتنا مہربان ہے ہمارا خدا، کس قدر دیالو ہے ہمارا خدا، اِس کا کبھی ہم احاطہ ہی نہیں کر سکتے۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم الله تعالیٰ کے حقیقی شکر گزار بندے بنتے ہوئے، اُس کے حکموں پر چلتے ہوئے، تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے والے بنیں اور یہی ہمارے حقیقی انصار ہونے کی روح ہے۔ الله تعالیٰ اِس کی ہم سب کو توفیق عطاء فرمائے۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

ضروری اعلان بابت اصحاب احمد ضلع گوجرانوالہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 ستمبر 2022