بنیادی مسائل کے جوابات
قسط 33
سوال: ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ تفسیر میں سے حاملہ عورتوں پر چاند گرہن کے اثرات کے بارہ میں ایک اقتباس بھجوا کر دریافت کیا کہ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت حاملہ عورت نہ سوئے اور نہ ہی کوئی چھری چاقو وغیرہ استعمال کرے، اس کی کیا حقیقت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 مارچ 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا:
جواب: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اس نے اپنے حکم سے چاند، سورج، سیاروں اور ستاروں کو انسان کی خدمت پر مقرر فرمایا ہے۔ اس لئے ان اجرام فلکی سے نکلنے والی شعاعیں اور ذرات مختلف انداز سے زمین اور زمین پر موجود اشیاء پر کئی طریقوں سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ عام زندگی میں سورج کی طرف دیکھنے سے ہماری بینائی پر کوئی بہت زیادہ بُرا اثر نہیں پڑتا لیکن سورج گرہن کے وقت بعض صورتوں میں سورج کی طرف دیکھنا انسائی بینائی کے ضائع کرنے کا باعث ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ہمارے مشاہد میں یہ بات بھی ہے کہ سورج کی روشنی کئی قسم کی زمینی بیماریوں کو دور کرنے کا موجب ہوتی ہے اور پھل،پھول،سبزیوں اور فصلوں پر مختلف طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ نیز چاند کی روشنی بھی پھلوں میں مٹھاس پیدا کرنے اور کئی قسم کی سبزیوں اور پھل پھولوں پر اثر ڈالتی ہے۔
اگرچہ سائنس کی اب تک کی تحقیق چاند گرہن کےحاملہ عورتوں پر اثر انداز ہونے کی نفی کرتی ہے لیکن سائنسدان اس بات کے بہرحال قائل ہیں کہ چاند کی روشنی انسانی نیند پر اثر انداز ہوتی ہے، اسی طرح سورج سے نکلنے والے خاص قسم کے Neutrinos نامی لاکھوں ذرات انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں اور جسم میں موجود ایٹم ان ذرات کو جذب کرنے کی وجہ سے ایک نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن اس تغیر کا کوئی بد اثر انسانی جسم پر یا حاملہ عورت کے جنین پر نہیں ہوتا ہے۔
انسانی علم اور سائنسی تحقیقات اللہ تعالیٰ کے لا محدود علم کے مقابلہ پر بہت ہی معمولی حیثیت رکھتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ خود سائنسی تحقیقات بھی مختلف زمانوں میں بدلتی رہی ہیں اور اب بھی ان میں رد ّو بدل ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:۔
گو رات اور دن ان اجرام فلکی کی تاثیرات کے ظہور کا نام ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ بھی سورج اور چاند اور ستاروں کے اثرات ہیں اور ان سے ایسی تاثیرات بھی دنیا پر پڑتی ہیں جو آنکھوں سے نظر آنے والی شعاعوں کے علاوہ دوسرے ذرائع سے انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ جیسے برقی یامقناطیسی اثرات۔ اوران کے سوااورکئی قسم کی تاثیرات ہیں جوسائنس روز بروز دریافت کررہی ہے۔ اورکئی وہ شاید کبھی بھی دریافت نہ کرسکے۔
(تفسیر کبیر جلد چہار صفحہ 138)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی مختلف تصانیف میں قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں چاند، سورج، ستاروں اور سیاروں کی زمین اور اہل زمین پر تاثیرات کے مضامین کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔چنانچہ تحفہ گولڑویہ میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں۔
یہ ستارے فقط زینت کیلئے نہیں ہیں جیسا عوام خیال کرتے ہیں بلکہ اِن میں تاثیرات ہیں۔ جیسا کہ آیت وَزَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ سے، یعنی حفظًا کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے اُسی قسم کا دخل جیساکہ انسانی صحت میں دوا اور غذا کو ہوتا ہے جس کو الوہیت کے اقتدار میں کچھ دخل نہیں بلکہ جبروت ایزدی کے آگے یہ تمام چیزیں بطور مردہ ہیں۔ یہ چیزیں بجز اذن الٰہی کچھ نہیں کر سکتیں۔ ان کی تاثیرات خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس انسان سے زیادہ تر کوئی دنیا میں جاہل نہیں کہ جو بنفشہ اور نیلوفر اور تربد اور سقمونیا اور خیار شنبر کی تاثیرات کا تو قائل ہے مگر اُن ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہے جو قدرت کے ہاتھ کے اوّل درجہ پر تجلی گاہ اور مظہر العجائب ہیں جن کی نسبت خود خدا تعالیٰ نے حفظًا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ لوگ جو سراپا جہالت میں غرق ہیں اس علمی سلسلہ کو شرک میں داخل کرتے ہیں۔ نہیں جانتے جو دنیا میں خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت یہی ہے جو کوئی چیز اس نے لغو اور بے فائدہ اور بے تاثیر پیدا نہیں کی جبکہ وہ فرماتا ہے کہ ہر ایک چیز انسان کیلئے پیدا کی گئی ہےتو اب بتلاؤ کہ سماء الدنیا کو لاکھوں ستاروں سے پُر کر دینا انسان کو اس سے کیا فائدہ ہے؟ اور خدا کا یہ کہنا کہ یہ سب چیزیں انسان کیلئے پیدا کی گئی ہیں ضرور ہمیں اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ان چیزوں کے اندر خاص وہ تاثیرات ہیں جو انسانی زندگی اور انسانی تمدّن پر اپنا اثر ڈالتی ہیں۔ جیسا کہ متقدمین حکماء نے لکھا ہے کہ زمین ابتدا میں بہت ناہموار تھی خدا نے ستاروں کی تاثیرات کے ساتھ اس کو درست کیا ہے۔
(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 282-283 حاشیہ)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
یاد رہے کہ سائنس کی موجود ہ تحقیق نے سپکٹرم کے ذریعہ سے جو ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعہ سے روشنی کی شعاعوں کو پھاڑ کر الگ الگ کرلیا جاتا ہے۔ یہ معلومات حاصل کی ہیں کہ فلاں ستارے میں فلاں قسم کی دھاتیں ہیں اور فلاں میں فلاں قسم کی۔ جس سے معلوم ہوتاہے کہ صرف روشنی ہی نہیں بلکہ روشنی کے ساتھ مختلف دھاتوں کی تاثیرات بھی دنیا پر اُترتی رہتی ہیں اور ان سے اہل دنیا کے دماغ اور قویٰ پر مختلف اثرات نازل ہوتے رہتے ہیں۔ چاند کی شعاعوں کی تاثیرات توکئی رنگ میں دنیا پر ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ عام طور پر ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ چاند گرہن جب مکمل ہو توحاملہ عورتوں پر اس کا برا اثر پڑتا ہے۔ چنانچہ ایسے وقت میں حاملہ عورتیں کمروں سے باہر نہیں نکلتیں۔ گو عام طور پر اسے وہم سمجھا جاتا ہے۔ مگر میں نے اس سوال پر خاص طورپر غور کیا ہے اور معلوم کیا ہے کہ جب چاند گرہن مکمل ہو تو اس کے بعد بہت سی عورتوں کی زچگی سخت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اور ان میں بکثرت موتیں ہوتی ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ تکلیف اٹھانے والی عورتیں وہ ہوتی ہیں جو ایسے وقت میں چاند کو دیکھتی ہیں۔ یا اس کے بغیر بھی ان پر یہ تاثیر عمل کرتی ہے۔ مگر بہرحال میں نے کئی دفعہ اس کا تجربہ کیا ہے اور دوسروں کو بھی بتایا ہے۔ جنہوں نے اپنے تجربہ سے اس کی تصدیق کی ہے۔
(تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 138، 139)
پس چاند، سورج اور دیگر سیاروں اور ستاروں کی تاثیرات کا زمین اور اہل زمین پر اثر انداز ہونا تو ثابت ہے لیکن گرہن کے وقت حاملہ عورت کے چاقو چھری وغیرہ استعمال کرنے یا اس کے اس وقت میں سونے یا نہ سونے سے اس کا کوئی تعلق نہیں،یہ محض توہمات ہیں۔
سوال: سنت اور نفل نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعات میں سورۃ الفاتحہ کے ساتھ قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھنے کے بارہ میں ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے راہنمائی چاہی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 مارچ 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل راہنمائی فرمائی:۔
جواب: احادیث میں جس طرح فرض نمازوں کی صرف پہلی دو رکعات میں سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھنے کی بابت صراحت پائی جاتی ہے۔ اس طرح کتب احادیث خصوصاً صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کہیں یہ وضاحت نہیں ملتی کہ سنت اور نفل نمازوں کی چاروں رکعات میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ قرآن کا کچھ حصہ ضرور پڑھا جائے۔
فقہاء کا بھی اس بارہ میں اختلاف ہے۔ چنانچہ مالکی اور حنبلی مسالک والے سنت اور نفل نمازوں کی تمام رکعات میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھتے ہیں جبکہ حنفی اور شافعی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کا کوئی حصہ نہیں پڑھتے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جیسا کہ آپ نے بھی اپنے خط میں ذکر کیا ہے اس معاملہ میں فرض اور سنت نماز میں کوئی فرق نہیں۔ جس طرح فرض نمازوں کی صرف پہلی دو رکعات میں سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھا جاتا ہے اسی طرح سنت اور نفل نمازوں کی بھی صرف پہلی دو رکعات میں ہی سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھا جائے گا اور تیسری اور چوتھی رکعات میں صرف سورۃ فاتحہ پر ہی اکتفاء کیا جائے گا۔ اور یہی میرا موقف ہے۔
سوال: ایک دوست نے آنحضورﷺ کے ارشاد کہ ’’میں اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جب حضرت آدم ابھی اپنی پیدائش کے بالکل ابتدائی مراحل میں تھے‘‘ کی ایک تشریح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کر کے اس بارہ میں راہنمائی چاہی نیز اس مضمون کے حوالہ سے اس دوست نے دو حدیثوں کا حوالہ بھی حضور سے دریافت کیا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 مارچ 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے:
جواب: آنحضورﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے غیر معمولی اور بلند مرتبہ مقام کے حوالہ سے حضورﷺ کے ارشاد ’’ إِنِّي عِنْدَ اللّٰهِ مَكْتُوْبٌ خَاتَمُ النَّبِيّٖنَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ‘‘ (مشکوۃ المصابیح کتاب الفضائل باب فضائل سید المرسلینﷺ) کہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت سے خاتم النبیین لکھا ہوا ہوں جب آدم (علیہ السلام) ابھی اپنی گندھی ہوئی مٹی میں پڑے ہوئے تھے۔ نیز حدیث قدسی لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ۔ (روح المعانی از علامہ آلوسی جزو اوّل صفحہ70 تفسیر سورۃ الفاتحہ۔ داراحیاء التراث العربی بیروت ایڈیشن 1999ء) کہ اے محمد! (ﷺ) اگر تو نہ ہوتا تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا، کی تشریح میں آپ نے جو نکتہ بیان کیا ہے کہ ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھی حضورﷺ کے مقام خاتم النبیین کے بعد آئے اور زمین و آسمان بھی اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو اس مقام پر فائز کرنے کے بعد بنائے، ٹھیک ہے۔ جس کا پرانے علماء نے بھی ذکر کیا ہے اور یہ جماعتی لٹریچر میں بھی بیان ہوا ہے۔
چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بانیٔ دیو بند حضرت محمد قاسم نانوتوی کا ایک حوالہ کہ ’’اوّل معنیٰ خاتم النبیین معلوم کرنے چاہئیں تا کہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو۔ سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہؐ کا خاتم ہونا بایں معنیٰ ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں۔مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تأخر زمانی بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ پھر مقام مدح میں وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے۔ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقام مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تأخر زمانی صحیح ہوسکتی ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی۔۔۔۔ اگر بالفرض بعد زمانہ نبویﷺ کوئی نبی پیدا ہو توپھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔‘‘بیان کر کے اس مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے حضور ؒفرماتے ہیں:
یہی ہمارا عقیدہ ہے۔حضرت اقدس محمدﷺ تو اس وقت بھی خاتم تھے کہ جبکہ انسان کا ابھی Blue Print تھا۔ ابھی وہ تخلیق کے تشکیلی مراحل سے گزر رہا تھا۔ تخلیق کو تشکیل دی جارہی تھی۔ حضرت محمد مصطفیﷺ فرماتے ہیں میں اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جبکہ آدم ابھی اپنی تخلیق کی مٹی میں لت پت تھا۔ کتنا عظیم الشان مضمون ہے۔خاتمیت زمانہ سے بالا ہے۔زمانہ کے ماتحت نہیں ہے۔ خاتم سے پہلے بھی کوئی نبی اس کی نبوت کا مقابلہ نہیں کر سکتا، نہ بعد میں کوئی نبی ایسا آسکتا ہے جو اس کے مقابل پر ہو۔لیکن بعد میں ایک لازم شرط ہےکہ مطیع ہوگا تو ہوگا ورنہ بالکل نہیں ہوگا۔غلام آسکتا ہے غیر غلام نہیں آسکتا۔اور پہلے بھی وہی نبی ہیں جن پر آپ کی مہر تصدیق ہے۔اس مضمون کو سمجھنے کی لوگ کوشش نہیں کرتے، بہت عظیم الشان مضمون ہے۔ آنحضرتﷺ کو مسلمان خاتم کہہ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں بہت عظیم الشان ایک منفرد مرتبہ ہے جو کسی نبی کو حاصل نہیں۔ پوچھو کہ ثبوت کیا ہے؟ تو ان علماء سے پوچھ کے دیکھ لیجئے، کچھ ثبوت ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔کیسے پتہ چلا، کیسے دنیا پہ ثابت کر سکتے ہو؟ یہاں جب مغربی دنیا میں مجالس میں لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ تم لوگوں کے پاس کیا ثبوت ہے؟ میں کہتا ہوں میں تمہیں ثبوت دکھاتا ہوں۔اس کا جواب نکال کے دکھاؤ۔ ساری دنیا میں جتنے انبیاء آئے ہیں ایک بھی نبی ایسا نہیں جس نے اپنے سلسلہ کے علاوہ دنیا کے دوسرے نبیوں کی تصدیق کی ہو۔چراغ لے کے ڈھونڈو،تلاش کر کے مجھے دکھاؤ۔ایک بھی نہیں۔ آمَنْتُ بِاللّٰهِ وَكُتُبِهٖ وَ رُسُلِہٖ میں تمام انبیاء پر اور سب رسولوں پر جو ایمان کو لازم قرار دیا ہےوہ ایک ہی تو ہے ہمارے آقاو مولا حضرت محمد مصطفیﷺ۔ تو تصدیق کی مہر کس کے ہاتھ میں ہے۔حضرت اقدس کے سوا کوئی ہاتھ دکھاؤ تو سہی۔یہ خاتمیت ہے۔ اس خاتمیت کے اعلیٰ اور ارفع مضمون کوچھوئے بغیر تم زمانی ختم کے اوپر آپڑے ہو اور کچھ پتہ نہیں کہ باتیں کیا کر رہے ہو۔زمانی ختم مقام مدح میں نہیں ہے۔مگر یہ ختم جو قرآن بیان فرما رہا ہے یہ ایسی مدح ہے کہ جس کی کوئی مثال دنیا میں دکھائی نہیں جاسکتی۔ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے۔ میں تو سب دنیا کو بتا رہا ہوں۔کسی دنیا کے مذھب کو چیلنج دے دیں آپ کہ تمہارا اگر نبی کوئی بھی نبی صاحب خاتم تھاتو اس کی دوسرے نبیوں پہ تصدیق تو دکھاؤ۔ محمد رسول اللہﷺ کے سوا ایک بھی نہیں جو خاتم النبیین ہو۔ تمام نبیوں کا مصدق ہو۔ پس آئندہ بھی اگر کوئی آئےتو آپ کی تصدیق کے بغیر نہیں آسکتا۔اسی لئے ہم حقیقت میں جب کہتے ہیں کہ امتی نبی تو مراد امام مہدی اور وہ مسیح موعود ہیں جن کی پیشگوئی کی گئی ہے، اس کے سوا ہماری کوئی مراد نہیں ہوتی۔اس لئے کہ اس پر مہر تصدیق ثبت ہے۔امام مہدی کے سوا ہم نے کب کسی کو نبی کہا ہے۔پس وہی امام مہدی ہے اسی کو ہم امتی نبی کہتے ہیں۔
(ملاقات پروگرام مؤرخہ 31 جنوری 1994ء)
باقی جو آپ نے حدیثوں کے حوالے پوچھے ہیں تو مشکوۃ میں درج حدیث اور اس کا حوالہ اس طرح ہے۔
’’عنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أنَّهُ قَالَ: إِنِّي عِنْدَ اللَّهِ مَكْتُوْبٌ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ وسَاُخْبِرُكُمْ بِأَوَّلِ أمْرِيْ دَعْوَةُ إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةُ عِيسَى وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ حِيْنَ وَضَعَتْنِيْ وَقَدْ خَرَجَ لَهَا نُورٌ أَضَاءَ لَهَا مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ۔
(مشکوۃ المصابیح کتاب الفضائل باب فضائل سید المرسلینﷺ)
یعنی حضرت عرباض ابن ساریہؓ سے مروی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت سے خاتم النبیین لکھا ہوا ہوں جب آدم (علیہ السلام) اپنی گندھی ہوئی مٹی میں پڑے تھے۔ اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میرا امر (یعنی میری پیدائش کے معاملہ کی ابتداء) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور میری والدہ کا خواب ہے جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا کہ میری والدہ کے سامنے ایک نور ظاہر ہوا تھا جس نے شام کے محلات کو ان پر روشن کردیا تھا۔
اور حدیث قدسی لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ کو علامہ آلوسی اور علامہ اسماعیل حقی نے اپنی تفاسیر میں درج کیا ہے۔ جبکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے اِنِّیْ مَعَ الْاِکْرَامِ۔ لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ کے الفاظ میں اسے الہام فرمایا۔ نیز حضور علیہ السلام نے اس کا اپنی کتب میں بھی ذکر فرمایا ہے۔تفاسیر اور حضور علیہ السلام کی ان کتب کے حوالے حسب ذیل ہیں:
۱۔ (روح المعانی از علامہ آلوسی جزو29 صفحہ306 تفسیر سورۃ النبأ زیر آیت38۔ داراحیاء التراث العربی بیروت ایڈیشن 1999ء) ۲۔ (روح البیان از علامہ حقی بروسوی جلد6 صفحہ24 تفسیر سورۃ النور زیر آیت 36۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت ایڈیشن 2004ء) ۳۔ (تذکرہ صفحہ525 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ) ۴۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22 صفحہ102)
سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ حال ہی میں امریکہ کے ڈاکٹروں نے انسانی جان بچانے کیلئے سؤر کے دل کو بیمار انسان کے جسم میں ٹرانسپلانٹ کیا ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 02 فروری 2022ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا:
جواب: میں پہلے بھی کسی موقعہ پر اس بارہ میں بتا چکا ہوں کہ جہاں انسانی جان بچانے کا سوال ہو، وہاں اس قسم کے طریق علاج میں کوئی حرج کی بات نہیں۔شراب کو بھی اسلام نے حرام قرار دیا ہے لیکن دوائیاں جو انسانی جان بچانے کا موجب ہوتی ہیں، ان میں اس کا استعمال جائز ہے۔ کیونکہ یہ سب اضطرار کی حالتیں ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں سؤر کے گوشت کی حرمت بیان فرمائی ہے وہاں اضطراری حالت میں اس کے استعمال کی اجازت بھی دی ہے۔
پس علاج کے طور پر جان بچانے کیلئے انسانی جسم میں سؤر کے دل کی ٹرانسپلانٹیشن کرنا جو دراصل ایک اضطرار ہی کی حالت ہے، جائز ہے اور اس میں کوئی ممانعت نہیں۔
پرانے علماء و فقہاء میں سے بعض کا کہنا ہےکہ سؤر کا گوشت کھانا منع ہے لیکن اس کے بال اور کھال وغیرہ کا استعمال جائز ہے اور بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اس کی چربی کھانا بھی جائز ہے۔ اگرچہ ہمارے نزدیک عام حالات میں سؤر کی کسی بھی چیز کا ایسا استعمال جو کھانے کے مفہوم میں شامل ہو جائز نہیں۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ البقرہ کی آیت 174 کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
اس آیت میں جو لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ فرمایا اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے کہ لحم میں چربی بھی شامل ہے یا نہیں۔جہاں تک لغت کا سوال ہے شَحْم یعنی چربی کو لَحۡم سے الگ قسم کا خیال کیا جاتا ہے۔لیکن مفسرین کہتے ہیں کہ لحم کے نام میں شحم شامل ہے۔گو مفسرین کی دلیل ذوقی ہے اور لغت والوں کی بات اس مسئلہ میں زیادہ قابل اعتبار ہے۔مگر اس کے باوجود میرے نزدیک سؤر کی شحم یعنی چربی جائز نہیں۔اور اس کی دلیل میرے پاس یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ مردہ جانور کی چربی حرام ہے۔ اور سؤر کی حرمت اور مردہ کی حرمت ایک ہی آیت میں اور ایک ہی الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔پس دونوں کا حکم ایک قسم کا سمجھا جائے گا۔لیکن سؤر کی جلد کا استعمال جائز ہوگا کیونکہ وہ کھائی نہیں جاتی۔
(تفسیر کبیر جلد چہارم تفسیر سورۃ النحل صفحہ 260)
اسی طرح اس سوال کہ ٹوتھ برش کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے، یہ برش اکثر سؤر کے بالوں سے بنائے جاتے ہیں؟ کا جواب دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
’’ہماری تحقیقات تو یہ ہے کہ سب کے سب برش سؤر کے بالوں کے نہیں ہوتے۔ باقی رہا سؤر کے بالوں کا استعمال۔ یہ شرعی لحاظ سے جائز ہے۔کیونکہ سؤر کا گوشت حرام کیا گیا۔ جو کھانے کی چیز ہے۔ اور بال کوئی کھاتا نہیں۔ایک بڑے بزرگ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ سؤر کی چربی بھی جائز ہے کیونکہ سؤر کا لحم حرام کیا گیا ہے نہ کہ چربی۔ دوسرے فقہاء نے کہا ہے۔ یہ فتویٰ دینے والے کی بزرگی میں تو کلام نہیں مگر اُن کا یہ استدلال غلط ہے۔ان کوزبان کے لحاظ سے غلطی لگی ہے۔کیونکہ چربی لحم میں شامل ہوتی ہے۔ انہوں نے علیحدہ سمجھی ہے۔‘‘
( اخبار الفضل قادیان دارالامان نمبر5 جلد16 مؤرخہ17جولائی 1928ء صفحہ7)
یہودی مذہب میں بھی سؤر کی افزائش اوراس کا کھانا حرام ہے لیکن انسانی جان بچانا چونکہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے اس لئے عصر حاضر کے یہودی علماء کے نزدیک سؤر سے دل کا حصول یہودی ضوابط خوراک کی کسی بھی طرح خلاف ورزی نہیں ہے۔
اسی طرح عصر حاضر کے بعض مسلمان علماء نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے کہ اگر مریض کی زندگی ختم ہونے، اس کے کسی عضو کی ناکامی، مرض کے پھیلنے اور شدید تر ہونے، یا جسم کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو سؤر کے دل کے Valve انسان کو لگائے جا سکتے ہیں۔
(باقی آئندہ بروز جمعہ ان شاء اللہ)
(ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)