• 29 جون, 2025

کیلنڈر کی آپ بیتی

جوں جوں انسانی عقل نے ترقی کی۔ اپنی ضرورت اور سمجھ کے مطابق زندگی کے مختلف پہلووٴں کے لئے نئی سے نئی ایجادات وجود میں آتی رہیں۔ ایسی ہی ایجادات میں ایک کیلنڈر بھی ہے۔ جو دنیاوی اور مذہبی ہر دو نظاموں کی ضروریات کا ایک اہم حصہ ہے۔

دن رات کے اوقات اور مہ وسال دُنیا کے ہر مذہب میں ایک مرکزی کردار ادا کرتےہیں۔ آج دُنیا میں جو کیلنڈر استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کا وجود پہلے زمانے کے بہت سے کیلنڈروں کی مدد سے ڈھالا گیا ہے۔ گویا یہ ایک لمبے مرحلے اور بہت سے مدارج سے گزر کر موجودہ ترقی یافتہ شکل کو پہنچا۔

اس ایک کیلنڈر کے علاوہ بھی بہت سے کیلنڈر ہیں جو مختلف مذاہب والے اپنی مذہبی اور تاریخی ضروریات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس قسم کے ہر ایک کیلنڈر کا دائرہ اس کے اپنے مسلک اور ماحول تک ہی رپتا ہے۔

تقریباًہر قسم کے کیلنڈر کی بنیاد چاند اور سورج کے طلو ع و غروب ہونے کے اوقات پر ہے۔ اس وقت دُنیا میں تین قسم کے کیلنڈر ہیں جو عالمی سطح پر استعمال میں ہیں :

  1. قمری کیلنڈر
  2. شمسی کیلنڈر
  3. شمسی و قمری کیلنڈر

قمری کیلنڈر

کیلنڈر کی یہ قسم سب سے قدیم تصور کی جاتی ہے۔ اس کے مہینے کی لمبائی ایک چاند کے پہلے دن کے طلو ع ہونے سے دوسرے چاند کے پہلے دن تک ہوتی ہے۔ اس میں مذہبی تہواروں کے دن اور اوقات چاند کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔

شمسی کیلنڈر

اس کیلنڈر میں چاند کے بڑھنے یا گھٹنے کا عمل دخل نہیں ہوتا اور اس میں تین سو پینسٹھ اعشاریہ پچیس دن ہوتے ہیں۔ یہ مغرب اور عیسائی دُنیا کا کیلنڈر کہلاتا ہے۔ اس میں مذہبی دن اور تہوار ہمیشہ سے مخصوص اوقات پر منائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں Easter اور Pinse کے تہوار اسرائیلی روایات کے مطابق منائے جاتے ہیں۔

شمسی وقمری کیلنڈر

یہ کیلنڈر چاند کے ساتھ منسلک ہو کر سال کے مختلف اوقات متعین کرتا ہے۔ اس میں مذہبی تہوار اور دن ہمیشہ مخصوص اور متعین تاریخوں اور مہینوں میں منائے جاتے ہیں۔ اس کیلنڈر میں اکثر مخصوص دن محض مذہبی ربط سے ہی بندھے نہیں ہوتے۔بلکہ یہ اوقات بعض خاص تہواروں کی خصوصیت اور انفرادیت کی ایک خاص وجہ بن جاتے ہیں۔ یعنی سال کے مختلف اوقات اور تہوار آپس میں ایسے لازم وملزوم بن جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کو ہر ایک نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مثلاً ہندو وٴں کی دیوالی یہودیوں کی Chanukka عیسائیوں کا کرسمس وغیرہ وغیرہ۔

کیلنڈر وں کے اصول وضوابط اور طریقِ کار
رومن کیلنڈر

رومن تہذیب دُنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک تہذیب ہے۔ پہلا کیلنڈر جو ان کے ہاں تیار کیا گیا۔ اس میں مہینے کے پہلے دن کو Kalendra کہا جاتا تھا۔ یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے آواز دینا، واضع کرنا یا جان پہچان کرنا۔

قدیم رومی کیلنڈر دس مہینوں پر مشتمل تھا، یہ قمری کیلنڈر تھا اور اسکے ایک سال میں 295 دن شمار کئے جاتے تھے۔ سال کا پہلا مہینہ مارچ تھا، ساتویں آٹھویں نویں اور دسویں مہینے کا ماخذ لاطینی تھا بعد میں گیارھویں اور بارھویں مہینے کا اضافہ بھی کر دیا گیا۔

قدیم رومن تہذیب میں یہ دستور تھا کہ ہر چاند کی پہلی تاریخ کو نئے مہینے کی پہلی تاریخ کا اعلان کیا جاتا تھا۔

جولین کیلنڈر۔عالمی متعین اوقات سے چھیالیس سال پہلے کی بات ہے کہ ایک رومن بادشاہ جولیس سیزر نے قدیم رومی کیلنڈر میں اصلاح کی اُ س نے قمری مہینوں کے انداز کو ترک کر کے شمسی انداز میں ترتیب دیا۔ جولیس سیزر کی اس ترتیب کے مطابق سال میں 365,25 دن ہوتے تھے۔ اور ہر چوتھا سال لیپ کا سال ہوتا تھا۔ اس تبدیلی سے پہلے والے کیلنڈر میں ایک مہینے کے دنوں کی تعداد 29-30 تھی، اور تبدیلی کے بعد جولیس سیزر والے کیلنڈر میں ایک ماہ کے دنوں کی تعداد 30- 31 کر دی گئی۔ قدیم رومن کیلنڈر میں جولائی اور اگست کے مہینوں میں 30,30 دن تھے، مگر جولیس سیزر نے اپنے نام کے مہینے یعنی جولائی کو ممتاز کرنے کے لئے قدیمی سال کے آخری مہینے یعنی فروری سے ایک اور دن نکال کر اسے مستقل طور پر جولائی میں شامل کر لیا۔ جولیس سیزر نے اپنے نئے کیلنڈر میں ایک اور تبدیلی بھی کی کہ مارچ کے پہلے مہینے کو چھوڑ کر جنوری کو سال کا پہلا مہینہ قرار دیا۔ البتّہ مہینوں کے نام وہی رہنے دئے گئے۔اس کیلنڈر کی رُو سے شہرِ روم کی بنیاد کا دن 20 04 .753 قبل عالمی تعین اوقات بتایا جاتا ہے۔ اس کے بعد جب شاہِ آ گسٹس تخت پر بیٹھا تو اس نے بھی فروری کے مہینے سے ایک دن لے کر اپنے نام کے مہینے یعنی اگست میں مستقلاًشامل کر لیا۔ اس طرح فروری کے پاس کُل 28 دن باقی رہ گئے۔ البتّہ لیپ کے سال میں فروری کا مہینہ 29 دن کا ہونا شروع ہو گیا۔

عیسائی کیلنڈر۔اگرچہ عیسائی دُنیا عملی طور پر اصلاح شدہ رومی کیلنڈر یعنی جولیس سیز ر کا کیلنڈر ہی استعمال کرتی ہے۔ مگر وقت کا حسابی آغاذ روم کی بنیاد کے دن کی بجائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے دن سے کرتے ہیں۔ اس سلسلے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کادن مہینہ اورسال کا صحیح تعین ابھی تک بھی نہیں ہو سکا۔

عیسائی کیلنڈر کا آ غاز محض ایک متعین دن اور سال سے ہوتا ہے۔ اسے In the year of love کانام دیا گیا ہے۔ اس میں عیسائیوں نے قدیم اسرائیلی سات دنوں کا ہفتہ برقرار رکھا۔ مگر سبت کے دن کی بجائے رومی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اتوار کے دن کو تعطیل قرا ر دے کر مذہبی تقدس کا درجہ دے دیا۔

گریگورین کیلنڈر۔اب مسئلہ یہ ہوا کہ جولین کیلنڈر بھی اپنی تعین اوقات کے لحاظ سے پورا نہیں ٹھہرتا تھا۔ ہر سال گزرے ہوئے وقت میں گیار ہ منٹ اور چودہ سیکنڈ کا اضافہ ہوتا رہا۔ اس طرح ہر 128 سال کے بعد’’وقت‘‘ پورا ایک دن آگے ہوجاتا اور 1582ء میں ’’وقت‘‘رائج تاریخ سے دس دن آ گے نکل گیا۔ پوپ گریگوری ہشتم نے جولیس کیلنڈر میں مزید اصلاح کی، وہ اس طرح کہ کیلنڈر میں سے دس دن کم کر دئے۔ یعنی 04 .1 0. 1582 کو 15.10.1582 قرار پائی۔ مگر لیپ کا سال اپنی جگہ پر برقرار رہا۔ اور صدی کا سال صرف وہی لیپ کا سال کہلاتا، جو چار کے بجائے چار سو پر تقسیم ہوتا ہو۔

دُنیا کے تمام ملکوں نےگریگورین اصلاح کو فوری طور پر اختیار نہیں کیا، بلکہ پہلے پہل صرف انہی ریاستوں نے اسے اختیار کیا جو رومن کیتھولک عقیدے کے حامل تھے۔ دیگر ممالک جو رومن پوپ سے منسلک نہیں تھے۔ یعنی قدیم یونانی اور پروٹسٹنٹ ممالک، اُنہوں نے اسے فوراً نہیں بلکہ کچھ پس وپیش کے بعد اختیار کیا،

مغربی یورپ کے غیر کیتھولک ممالک نے سترویں اور اٹھارویں صدی اور مشرقی یورپ کے قدیمی یونانی آرتھوڈکس عقیدے کے حامل ملکوں نے تو بہت بعد میں جا کر اس کیلنڈر کو اپنے ممالک میں رائج کیا۔ ناروے میں اس کیلنڈر کا اجراء 1700ء میں ہوا اور اس وقت تک ان دونوں کیلنڈروں کا آپس کا فرق 13 دنوں کا ہو چکا تھا۔ یونان روس، سربیا اور رومانیہ نے اس کیلنڈر کا نظام اپنے ملک میں 19ویں صدی میں رائج کیا۔ مگر یہ لوگ مذہبی ایام جولیس کیلنڈر کے حساب سے ہی منایا کرتے تھے۔

مختصر یہ کہ ترمیم شدہ رومن کیلنڈر کو گریگورین کیلنڈر میں شامل کر دیا گیا۔ جو آج کی دُنیا میں عام استعمال میں ہے اس بین الاقوامی جاری شدہ کیلنڈر کے علاوہ اور بھی بہت سے کیلنڈر ایسے ہیں جو اپنے اپنے دائرہ اور مسلک میں جاری ہیں۔ جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

چینی کیلنڈر۔ دُنیا میں سب سے پرانا شمسی و قمری کیلنڈر چین سے منسوب کیا جاتا ہے۔ چودہ سو سال پہلے ان کے ہاں ایک سال بارہ مہینے کا ہوتا تھا۔ ہر مہینہ 29 یا 30 دنوں پر مشتمل ہوتا۔ اور ہر 245 سال کے بعد لیپ کا سال آتا تھا۔ اس کیلنڈر میں بھی مذہبی دن موسموں کے حساب سے آتے تھے۔ اس زمانہ میں لوگوں کے تہوار فصلوں کی کٹائی اور بوائی کے اوقات سے منسلک ہوتے تھے۔ سال کا آغاز موسمی سال کے دوسرے چاند کی پہلی تاریخ کو سردیوں کا سورج چڑھنے کے بعد ہوتا۔ ان کے کیلنڈر کا ایک سرکل 12 سال پر مشتمل ہوتا۔

ہر سال کا نام ایک جانور کے نام پر رکھا گیا کیونکہ جانوروں کی خصوصی عادات ان کے نزدیک ایک معنی رکھتی تھیں۔ کسی مخصوص نام کے جانور کے سال میں پیدا ہونے والے واقعات اور اس سال کے دوران پیدا ہونے والے لوگوں کی عادات و اطوار کی آپس میں مناسبت ہوتی تھی۔

ایرانی کیلنڈر۔ چونکہ ملکِ ایران میں قدیم سے زرتشتی مذہب رائج تھا۔ لہٰذا کیلنڈر بھی زرتشتی مذہب کے تحت ہی جاری تھا۔ جب مسلمانوں نے ایران فتح کیا تو ایرانی کیلنڈر میں اسلامی کیلنڈر کے تحت کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔ یعنی شمسی کے ساتھ قمری کیلنڈر کے کچھ اصول بھی شامل کر دئے گئے۔ ہذا قومی تہوار یعنی نو روز وغیرہ مغربی کیلنڈر کے تحت اور باقی اسلامی تہوار اسلامی کیلنڈر کے مطابق منائے جاتے ہیں۔

بدھ کیلنڈر۔ اپنے آغاز میں بدھ مت نے ہندؤوں کا روائتی کیلنڈر استعمال میں رکھا۔ مگر جوں جوں بدھ لوگ دُنیا میں پھیلتے گئے انہوں نے دوسرے کیلنڈر بھی استعمال کرنا شروع کر دئے۔ بدھ مت کی تعلیم کا ایک مرکزی نکتہ یہ ہے کہ باہر کی دنیا میں ہر وہ چیز اچھی ہو مگر انکے عقائد سے نہ ٹکراتی ہو تسلیم کی جاتی ہے۔ اور پھر یہ ’’اچھی بات ‘‘ایک بدھ (Budhist) کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ ان کے ہاں صرف نئے سال کے جشن کا تہوار ہی 13 اپریل کو کیا جاتا ہے۔ وگرنہ بدھ مت کے دوسرےتمام تہوار پورے چاند کی تاریخ کو منائے جاتے ہیں۔ ان کے کیلنڈر کے مطابق ایک ماہ میں چار دن مقدس کہلائے جاتے ہیں۔ گویا ہر ہفتے میں ایک دن مقدس ہوتا ہے، اسے یہ لوگ روزے کا دن بھی کہتے ہیں۔

یہودی کیلنڈر۔ یہودی لوگ شمسی وقمری کیلنڈر استعمال کرتے ہیں۔ ان کے ہاں مذہبی تہوار منانے کے لئے بھی شمسی و قمری اصول استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی مذہبی تہوار ہر سال مخصوص تاریخوں میں ہی منائے جاتے ہیں۔ اُنیس برسوں کے دوران ایک دفعہ ایک نیا مہینہ بنایا جاتا ہے۔ جو کہ مندرجہ ذیل اعداد میں سے کسی ایک عدد والے سال کا بنتا ہے۔ یہ اعداد : 3،6،8،11،14،17،19 ہیں نئے سال کا آغاز سال کے ساتویں چاند کی پہلی تاریخ کو ہوتا ہے، یہ مہینہ تشری کہلاتا ہے

اسلامی کیلنڈر۔قمری نظام کے بارے میں قرآنی ارشادات

1۔ بےشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہے۔اللہ کی کتاب میں،جب سے آسمان اور زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ (التوبہ: 36) ہجری کیلنڈر کے اعتبار سے غروب آفتاب سے نئی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔اسلامی کیلنڈر کے مہینوں کے اسماء اور ترتیب عرب دنیا میں قدیم سے رائج ہے۔ احادیث شریفہ میں ان اسماء کا ذکر کئی اہم واقعات کے سلسلہ میں ملتا ہے۔اگر چہ مہینوں کے یہی نام تھے جو قبلِ اسلام بھی عرب معاشرہ میں انہی ناموں کے ساتھ رائج تھے۔

سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں جب اسلامی حکومت دور دور تک پھیل گئی۔ایک مرتبہ حضرت ابو موسی اشعریؓ جب کوفہ کے گورنر تھے۔انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی۔ ’’آپ کی طرف سے ہمیں جو احکامات ملتے ہیں ان خطوط پر تاریخ نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں حکم نامہ کی تاریخ کا وقت معلوم نہیں ہوپاتا۔ جس کی وجہ سے ان پر عمل کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔‘‘

اس پر حضرت عمرؓ نے صحابہ کرام کی ایک کمیٹی ترتیب دی جو اسلامی کیلنڈر مرتب کرے۔اس سلسلہ میں چند ایک تجاویز زیر غور آئیں۔حضرت علیؓ کی پیش کردہ تجویز کہ اسلامی کیلنڈر کا آغاز آنحضرت نبی کریمﷺ کی مکہ سے مدینہ کی ہجرت کے وقت سے شروع کی جائے۔ کیونکہ پہلی اسلامی مملکت ہجرت کے بعد ہی مدینہ میں قائم ہوئی تھی۔حضرت عمر فاروقؓ کو حضرت علیؓ کی یہ تجویز پسند آئی اور اسی کی آپ نے منظوری عطا فرمائی جو اللہ تعالی کے فضل سے آج تک دنیائے اسلام میں رائج ہے۔

(الفضل آن لائن یکم جنوری 2022ء)

احمدیہ کیلنڈر۔ : تقویم ہجری شمسی کا آغاز سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 1940ء میں جاری کیا تا یہ اسلامی کیلنڈر عیسوی کیلنڈرکی جگہ استعمال کیا جاسکے۔ اس کے مہینوں کے نام تاریخ اسلام کے مشہور واقعات سے ماخوذ ہیں جو درج ذیل ہیں۔مضمون کی طوالت کے خوف کی وجہ سے ہم صرف موجودہ عالمی کیلنڈر کے مہینوں کے ناموں کے ساتھ نام لکھ رہے ہیں۔

1۔ صلح (جنوری)
2۔ تبلیغ (فروری)
3۔ امان (مارچ)
4۔ شہادت (اپریل)
5۔ ہجرت (مئی)
6۔ احسان (جون)
7۔ وفا (جولائی)
8۔ ظہور (اگست)
9۔ تبوک (ستمبر)
10۔ اخاء (اکتوبر)
11۔ نبوت (نومبر)
12۔ فتح (دسمبر)

اسلامی تاریخ اور حضرت محمدﷺ کی زندگی کے واقعات کو عالمی کیلنڈر کے مہینوں کے ناموں پر رکھنا جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیرالدین محمودؓ کا ایک سنہری کارنامہ ہے، اس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جماعتِ احمدیہ اسلام اور آنحضورﷺ کی زندگی کے واقعات کو کس قدر اہمیت دیتی ہے۔

(نبیلہ رفیق۔ ناروے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی