• 8 مئی, 2024

کامیاب ترین انسان


حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
دنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تراس مردِ خدا کو پایاہے جس کا نام ہے محمد صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم۔ {اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا}۔ (الاحزاب : ۵۷)

(چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۰۱۔۳۰۲)

پھر آپ ؑ فرماتے ہیں :
’’رسول اللہ ﷺ کے واقعات پیش آمدہ کی اگر معرفت ہو اور اس بات پر پوری اطلاع ملے کہ اس وقت دنیا کی کیا حالت تھی اور آپ نے آکر کیا کیا تو انسان وجد میں آکر اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کہہ اٹھتا ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے۔ قرآن شریف اور دنیا کی تاریخ اس امر کی پوری شہادت دیتی ہے کہ نبی کریم نے کیا کیا۔ ورنہ وہ کیا بات تھی جو آپ کے لئے مخصوصاً فرمایا گیا {اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} (الاحزاب : ۵۷) کسی دوسرے نبی کے لئے یہ صدا نہیں آئی۔ پوری کامیابی پوری تعریف کے ساتھ یہی ایک انسان دنیا میں آیا جو محمد کہلایا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘

(الحکم جلد ۵نمبر ۲مورخہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۰۱ ء صفحہ ۳)

آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’خداکے کلام سے پایا جاتاہے کہ متقی وہ ہے جو حلیمی اور مسکینی سے چلتے ہیں، وہ مغرورانہ گفتگو نہیں کرتے۔ ان کی گفتگو ایسی ہوتی ہے جیسے چھوٹا بڑے سے گفتگو کرے۔ ہم کو ہر حال میں وہ کرنا چاہئے جس سے ہماری فلاح ہو۔ اللہ تعالیٰ کسی کا اجارہ دار نہیں ۔وہ خاص تقویٰ کو چاہتا ہے۔جو تقویٰ کرے گا وہ مقام اعلیٰ کو پہنچے گا۔ آنحضرت ﷺ یا حضرت ابراہیم علیہ السلام میں سے کسی نے وراثت سے عزت نہیں پائی۔ گو ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت ﷺ کے والد ماجد عبداللہ مشرک نہ تھے لیکن اس نے نبوت تو نہیں کی۔ یہ تو فضل الٰہی تھا، ان صدقوں کے باعث جو ان کی فطرت میں تھے، یہی فضل کے محرک تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو ابو الانبیاء تھے انہوں نے اپنے صدق و تقویٰ سے ہی بیٹے کو قربان کرنے میں دریغ نہ کیا۔ خود آگ میں ڈالے گئے۔ ہمارے سیدو مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا ہی صدق وصفا دیکھئے۔ آپ ؐ نے ہرایک قسم کی بدتحریک کا مقابلہ کیا۔ طرح طرح کے مصائب و تکالیف اٹھائے لیکن پرواہ نہ کی۔ یہی صد ق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} اللہ تعالیٰ اوراس کے تمام فرشتے رسول پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو! تم بھی نبی پر درود سلام بھیجو۔‘‘

پھر فرمایا: رسول کریم ﷺ کے بندہ ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ آپؐ پر درود پڑھو اور آپؐ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو، سب حکموں پر کاربند رہو۔‘‘

(البدر۔ جلد ۲، نمبر ۱۴۔ بتاریخ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ ء۔ صفحہ ۱۰۹)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اکتوبر 2020