• 26 اپریل, 2024

آنحضرتؐ کا اپنے اہل بیت کے ساتھ حسن سلوک

رسول کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے مسلمانوں کی ناواقفیت

اس وقت جب کہ کفر و ضلالت کی گھٹا تمام دُنیا پر چھائی ہوئی ہے اور دُنیا نیکی کے راستہ سے دُور جا پڑی ہے۔ ضرورت ہے کہ اسے راہ راست پر لانے کے لئے ایک ایسا کامل نمونہ دکھایا جائے جو ہر شعبہ زندگی میں دُنیا کے لئے مشعل راہ ہو۔ افسوس ہے کہ اور تو اور بدقسمتی سے خود مسلمان بھی جو ایک ایسے عظیم الشان ہادی و رہبر کے پیرو ہیں جو ہر لحاظ سے بنی نوع انسان کے لئے ایک کامل نمونہ ہے اور جس کی تعلیم اور شریعت ہر ایک مشکل کا حل اپنے اندر رکھتی ہے بہت کم اپنے آقا وسردار صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات ِزندگی اور اسوۂ حسنہ سے واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی کسی پہلوسے بھی غیروں کے لئے قابلِ تقلید مثال پیش نہیں کرسکتی ۔

یوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک سیرت کا ہر پہلو ہی اپنی ذات میں اکمل و اتم ہےاور آپؐ کا مقدس وجود جامع جمیع صفات کاملہ ہے ۔ مگر اسے میری نسائیت کا تقاضاسمجھیں یا حقیقت پر محمول قرار دے لیں کہ دُنیاوی اُمور میں وہ بات جو خصوصیت سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجھے بہت ہی پیاری اور دلکش معلوم ہوئی ہے وہ آپؐ کا اپنے اہل بیت کے ساتھ انتہائی رِفق اور حِلم کے ساتھ پیش آنا ہے ۔

آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت عورت کی حالت

یہ امر اکثر لوگوں سے پوشیدہ نہیں کہ آپؐ کی بعثت کے زمانہ میں اس کمزور طبقۂ اناث کی حالت کس قدر ناگفتہ بہ تھی ۔عدل و راستی کا نام و نشان نہ تھا عورتوں کو حیوانوں کے سے بدتر خیال کیا جاتا تھا اور اس قدر ناگفتہ بہ حالت تھی کہ جس سے بڑھ کر ممکن نہیں۔ اس وقت آپؐ مظلومین کے لئے رحمت بن کر آئے اور جیسا کہ عدل و انصاف کا تقاضا تھا انہیں ان کے حقوق دلوائے ۔

عورت و مرد میں تمدنی مساوات

اُس وقت جبکہ عورت ہونا ہی سخت عیب خیال کیا جاتا تھا اور وہ سوسائٹی میں میں ایک ذلیل ہستی تصوّر کی جاتی تھی، آپؐ نے اُسے قَعر مذلّت سے اُٹھایا اور نقّارہ کی چوٹ سے اَلنِّسَاءُ شِقَائِقُ الرِّجَال فرما کر اُنہیں مَردوں کے پہلو بہ پہلو لاکھڑا کیا اور ایسا ہی ارشادِ خداوندی کے ماتحت وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْف کی تلقین فرما کر اُنہیں تمدّنی طور پر بھی مساوات عطا فرمائی۔

اَزواج ِمطہرات ؓسے آپؐ کا حسن سلوک

آپﷺ نے نہ صرف قولاً عورت کے حقوق کی حفاظت کی بلکہ عملاً بھی اس کی عزت اور محبت کی ایک زبردست مثال قائم کی اور باوجود اس قدر عظیم الشان اور اہم ذمہ داریوں کے جو مختلف جہات سے آپؐ پر عائد ہوئی تھیں، آپ ؐنے جس خوبی کے ساتھ اس بھاری خانگی ذمہ داری کو جو تعدّداَزدواج کی وجہ سے لازماً پیدا ہو گئی تھی نبھاہا، وہ آپؐ کا ہی حصہ تھا۔ آپؐ عدل و انصاف اور حسن معاشرت کا ایک مکمل نمونہ تھے۔ آپؐ کا اپنی بیویوں سے جس قدر محبت اور دلداری کا سلوک تھا وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ آپؐ حتیٰ الوسع اپنی بیویوں کے احساسات اور جذبات کا بہت خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپؐ نے حضرت عائشہ ؓ کو جو آپؐ کی بیویوں میں سے سب سے زیادہ نوعمر تھیں ،ایک کھیل خود اپنی اَوٹ میں کھڑا کر کے دکھلایا اور آپؐ وہاں سے خود نہ ہلے جب تک کہ وہ خود سیر ہو کر ہٹ نہ گئیں۔اسی طرح حضرت عائشہؓ کے ساتھ آپؐ نے دو دفعہ دوڑ میں مقابلہ کیا اور جب دوسری بار آپؐ آگے نکل گئے تو آپؐ نے مسکراتے ہوئے حضرت عائشہؓ سے فرمایا ھٰذِہٖ بِتِلْکِ یعنی لو عائشہؓ اب وہ پہلی بار کا بدلہ اُتر گیا ہے۔

متّبعین کو عورتوں سے حسن سلوک کی تلقین

آپؐ چونکہ علم النفس کے بہترین عالم تھے اس وجہ سے بہت معمولی معمولی باتوں میں بھی آپؐ عورتوں کے احساسات کا احترام فرمایا کرتے تھے۔ نہ صرف یہ کہ آپؐ خود اپنے اہل سے محبت کا برتاؤ فرمایا کرتے تھے بلکہ آپؐ اپنے متّبعین کو بھی بڑے زور کے ساتھ اس امر کی ترغیب دیتے تھے ۔جیسا کہ فرمایا خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ یعنی تم میں سے بہترین وہی شخص ہے جو اپنے بیوی بچوں سے سب سے بہتر سلوک کرتا ہے ۔

اخلاقِ فاضلہ کو پرکھنے کا صحیح معیار

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کسی انسان کے اعلی اخلاق کو پرکھنے کا کوئی صحیح ذریعہ ہو سکتا ہے تو وہ اس کی خانگی زندگی کا مطالعہ ہے ۔کیونکہ جن لوگوں کے ساتھ وہ اپنے اوقات کا بیشتر حصہ گزارتا ہے وہاں کسی بناوٹ یا ظاہر داری کا دخل نہیں ہو سکتا ۔ برخلاف اس کے جس جگہ انسان اپنے اوقات کا کوئی خاص حصہ گزارے ،وہاں وہ تکلف سے بھی اچھا اثر پیدا کرسکتا ہے لیکن وہ لوگ جن کی صحبت میں زندگی کا اکثر حصہ گویا ایک معلّم و مؤدب کی حیثیت میں گزارا جائے اور پھر بھی وہ اس کے لُطف و کرم کی تعریف میں رَطب اللسان ہوں تو یہ امر اس انسان کے اعلی اخلاق کا ایک زبردست ثبوت ہوگا۔

واقعہ افک کے موقع پر آپ ﷺکا رویّہ

اسی اصل کے ماتحت حدیث میں ایک خاص واقعہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے جس سے آپ کا یہ خُلق کمال شان کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے،وہ واقعہ افک ہے جس میں کسی لعین بد باطن منافق نے آپؐ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ ؓ پر بہتان لگایا تھا۔

یہ امر ہمارے قیاس سے بالا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے کس قدر تکلیف اور صدمہ پہنچا ہوگا ۔مدینے آتے ہی حضرت عائشہؓ بیمار ہوگئیں۔ آپؐ معمول کے مطابق ان کے پاس تشریف لاتے اور طبیعت کا حال دریافت فرماتے رہے ۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ان دنوں مجھے آپؐ کے رویّہ میں ایک خفیف سی تبدیلی ضرور نظر آتی تھی مگر مَیں اس کے سبب سے بالکل بےخبر تھی آخر ایک عرصہ کے بعد انہیں بعض انصاری عورتوں سے اس واقعہ کا علم ہوا جس سے سخت رنج پہنچا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے اپنے والدہ کے گھر چلی گئیں۔ اس کے بعد پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ کے پاس تشریف لائے ،اُس وقت تک اس واقعہ ٔ افک کی ابتدا پر ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا ۔آپؐ نے حضرت عائشہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا ۔’’مجھے تمہارے متعلق اس اس قسم کی باتیں پہنچی ہیں۔ تومجھے اُمید ہے کہ خدا ضرور تمہاری بریّت ظاہر کردے گا۔لیکن اگر تم سے لغزش ہوگئی ہے۔ تو تمہیں چاہئے کہ خدا سے مغفرت مانگو۔ جب بندہ خدا کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے تو وہ اس کی توبہ کو قبول کرتا اور اس پر رحم فرماتا ہے‘‘ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ ؐکے اس وعظ کے بعد میرا دل جو انتہائی کرب و قلق کی حالت میں تھا مطمئن ہوگیا اور میرے آنسو جوتھمتے نہ تھے رُک گئے اور مجھے یقین ہو گیا کہ چونکہ مَیں بےگناہ ہوں ،اللہ تعالیٰ ضرور میری بریّت ظاہر کردے گا۔

چنانچہ ابھی زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ حضرت عائشہؓ کی بریّت میں وحی الٰہی نازل ہوئی اور اس طرح جلد ہی اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس تکلیف سے نجات دے دی۔

ہر ایک انسان خیال کر سکتا ہے کہ ایسے موقع پر جب کہ کسی انسان کی عزت معرض ِخطر میں ہو، اس کے احساسات کس قدر نازک ہو جاتے ہیں ۔حتیٰ کہ ایسے اوقات میں گہرے سے گہرے پیار و محبت کے جذبات بھی کافور ہو جاتے ہیں اور یہاں تو معاملہ کی نزاکت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب یہ دیکھا جائے کہ چاروں طرف دشمن ہی دشمن تھے جو ہر وقت نقصان پہنچانے کے درپَے تھے۔ علاوہ ازیں اس واقعہ سے آپ ؐکے اس عظیم الشان مشن کو بھی نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا تھا جو آپؐ کی زندگی کا واحد مقصد تھا اور پھر اس کا اثر بھی کسی خاص مَرد یا خاندان تک محدود نہ تھا بلکہ اس کی وجہ سے ایک قوم کی قوم پر زلزلہ کا احتمال تھا لیکن نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ خدا کا یہ جری حِلم و بُردباری کی ایک مضبوط چٹان بن کر نہایت صبر و برداشت کے ساتھ اس ابتلاءمیں سے گزر جاتاہے ۔گو طبعاً کسی قدر پریشان رہتا ہے مگر اپنے اہلخانہ کے ساتھ اس کے جذباتِ محبت اس واقعہ کے دوران میں بھی مکدّرنہیں ہوتے۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے جب تک کوئی بات پایۂ ثبوت کو نہ پہنچے انسانی عصمت کا آئینہ ہر داغ سے مصفّا سمجھا جانا چاہئے۔

آپﷺ کے اخلاق کا بلند مقام

اللہ اللہ! آپﷺ کے اخلاق کا مقام کس قدر اعلی و ارفع ہے کہ آپؐ رنج و افسوس سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ اپنے گھر تشریف لے جاتے ہیں۔ مگر بجائے رنج اور غصہ کے اظہار کے ایسی نصیحت فرماتے ہیں جس سے آپؐ کی زوجہ کا دل جو اطمینان سے کوسوں دُور اور صدمہ سے چُور چُورتھا سکون اور طمانیت حاصل کرلیتا ہے اور وہ اس یقین سے معمور ہو جاتی ہے کہ جب مظلوم کی اعانت کے لئے خدا موجود ہے تو مجھے کس کا ڈرہے۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ وَ سَلَّم

(الفضل 25۔ اکتوبر 1930ء)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اکتوبر 2020