رکھ پیش نظر وہ وقت بہن جب زندہ گاڑی جاتی تھی
گھر کی دیواریں روتی تھیں جب دنیا میں تو آتی تھی
گویا تو کنکر پتھر تھی احساس نہ تھا جذبات نہ تھے
توہین تو اپنی یاد تو کر ! ترکہ میں بانٹی جاتی تھی
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ یعنی آپؐ کو ہم نے تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔ آپؐ کا نزول دنیا میں اس وقت ہوا جب عرب سمیت ساری دنیا جہالت اور ظلم و بربریت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اور اس زمانہ میں عورت ہونا کسی جرم سے کم نہ سمجھا جاتا تھا، جس کا نقشہ خود خدا تعالیٰ نے سورۃ النحل آیت 60 میں کچھ یوں کھینچا ہےکہ ’’جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خبر ملتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ سخت غمگین ہو جاتا ہے۔ وہ لوگوں سے اس بری خبر کی وجہ سے چُھپتا پھرتا ہے کہ آیا وہ اس ذلت کو قبول کرلے یا اُسے مٹی میں دبا دے۔ کتنا برا ہے وہ جو فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘
وہ ایسا زمانہ تھا جہاں بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا، شوہر کے مرنے کے بعد عورت کو وراثت کی طرح مرنے والے کے رشتہ داروں میں تقسیم کیا جاتا، اس کو پاؤں کی جوتی سمجھ کر ہر قسم کا ظلم و جبر اس پر ڈھایا جاتا اور انسانی حقوق تو درکنار اس کو انسان سمجھنا بھی روا نہ رکھا جاتا تھا۔ ایسے زمانے میں خدا تعالیٰ نے عرب کے صحرا میں آپؐ کو ایسے چراغ کی مانند روشن کیا جس نے طبقہ نسواں کو ملامت اور شرمساری سے نکال کر اسے قدموں تلے جنت رکھنے والی اور اُمہات المومنین جیسے رُتبہ پر فائز فرمادیا۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم جاہلیت میں عورت کو چنداں اہمیت نہیں دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق کے بارے میں قرآن شریف میں احکام نازل فرمائے اور وراثت میں بھی حقدار بنادیا۔ ایک دن میں اپنے کسی معاملہ میں سوچ رہا تھا کہ میری بیوی بولی آپ اس طرح کرلیتے تو ٹھیک ہوتا میں نے کہا تمہیں میرے معاملہ میں دخل اندازی کی جرات کیوں ہوئی؟ وہ کہنے لگی تم چاہتے ہو کہ تمہارے آگے کوئی نہ بولے اور خود تمہاری بیٹی رسول اللہؐ کے آگے بولتی ہے۔
آپؐ کی خوبصورت تعلیم نے اس طبقہ کے نا صرف بنیادی حقوق قائم فرمائے بلکہ اس کو زندگی کی دوڑمیں مردوں کے ساتھ کھڑا کردیا۔ پس وہی عورت جو مرد کے برابر بیٹھنے سے بھی محروم تھی میدان جنگ میں مردوں کے شانہ بشانہ لڑنے لگی، وہی عورت جس کو ورثہ میں تقسیم کیا جاتا تھاوہ وراثت میں حقدار قرار پائی، وہی عورت جس کو زبردستی نکاح میں یا نکاح کے بغیر رکھا جاتااس کی مرضی اور پسند کو نکاح کے لئے لازمی قرار دیا۔ فرمایا کہ بیوہ اپنی ذات کے بارہ میں فیصلہ کے متعلق ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔ (صحیح بخاری)
آپؐ ہمیشہ عورتوں سے نرم سلوک کا حکم دیتے ان کو ریڑھ کی ہڈی سے مشابہت دے کر فرمایا کہ ان پر اتنی سختی مت کرو کہ وہ ٹوٹ جائیں۔ پھر فرمایا ’’سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو عورتوں سے حسنِ سلوک کرتے ہیں اور میں تم میں عورتوں سے سلوک میں سب سے بہتر ہوں۔‘‘
مضمون کے دوسرے حصّہ میں دورِ حاضر میں عورت کے مقام پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ آج کل دیگر مذاہب اور خاص طور پر مغربی دنیا اسلام پر عورت کے حقوق کو غصب کرنے کا الزام لگاتی ہے، یہاں تک کہ کچھ نئی نسل کے مسلمان بھی کم علمی کی وجہ سے ان الزامات کو کسی حد تک درست خیال کرنے لگتےہیں۔ آج یہ ترقی یافتہ ممالک جہاں عورت کو بیسویں صدی کی پہلی دہائی تک ووٹ ڈالنے کا حق دینے سے قاصر رہے، وہ 1400 سال قبل جنگِ احدکے موقعہ پر دشمن سے لڑتی حضرت اُمِ عمارہ ، جو سرورِ دو جہاں کی حفاظت میں دشمنوں کے ہر وار کو ناکام بنا دیتی ہیں کہ آپؐ یہ پکار اُٹھتے ہیں کہ من یطیق ما یطیقین یا ام عمارہ! یعنی اے ام عمارہ !جتنی طاقت تجھ میں ہے اور کسی میں کہاں ہوگی،کا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہیں۔
جہاں 1900ء تک عورت کے لئےتعلیم، یا کم از کم اعلیٰ تعلیم کے لیے بے شمار رکاوٹیں درپیش تھیں، وہیں 1400 سال قبل جہاں ام المومنین حضرت عائشہ مردوں اور عورتوں کو دینی مسائل کے بارے میں وعظ کرتی تھیں اور آپؓ سے 2000 سے زائد احادیثِ نبویؐ آپؓ سے مروی ہیں جو کہ تاریخ میں گراں قدر اہمیت رکھتی ہیں۔ اور جہاں 1930ء تک انگلستان، سویڈن، نیو زی لینڈ اور دیگر بیشتر مغربی ممالک میں عورت کو طلاق کے لیے خاوند کے شدید تشدّد، طویل عرصہ کی ذہنی بیماری اور دیگر انتہائی غیر مناسب ثبوت ہونا لازمی تھے۔ آج یہ نام نہاد ممالک جو کہ عورت کو مرد کے مساوی کام کرنے کے باوجود عورت کو برابر تنخواہ تک نہیں دے سکے وہ اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کا مقابلہ کس طرح کرسکتے ہیں جس نے گھر بیٹھی عورت کو گھر کی ملکہ بنادیا اور بن مانگے اس کو وہ حقوق دئیے جن کے حصول کے لئے مغرب میں اور ساری دنیا میں آج تک عورتیں کوشش کر رہی ہیں۔ یقیناً نہیں کرسکتے اور کبھی کر بھی نہیں سکیں گے جب تک آپؐ کی دی ہوئی مکمل تعلیم کی پیروی نہیں کرتے۔
ایک امریکی مصنف جان ڈیوںنپورٹ اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں۔
’’محمدؐ نے 1300 سال قبل اسلام میں ماؤں، بیویوں اور بیٹیوں کے لئے وہ مقام اور وقار یقینی بنادیا جو ابھی تک مغرب کے قوانین میں عورت کو نہ مل سکا‘‘۔
(Muhammad & Teaching of Quran by John Davenport)
وہ رحمتِ عالم آتا ہے تیرا حامی ہوجاتا ہے
تو بھی انساں کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے
بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار
پاک محمد مصطفیٰؐ نبیوں کا سردار
٭…٭…٭
(سدرۃ المنتہیٰ۔ ڈنمارک)