• 25 ستمبر, 2025

آنحضرت ﷺکی سیرت و سوانح کے دلکش پہلو

’’شمائل نبویؐ‘‘ میں اپنے آقا و مطاع حضرت محمد ﷺکے ان پاکیزہ عادات و اطوار کا ایک نقشہ پیش کرنا مقصود ہے جن کے بارہ میں قرآن شریف کی یہ گواہی ہے کہ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ یعنی آپؐ عظیم الشان اخلاق پر فائز تھے۔ (سورۃ القلم:5) اس آسمانی شہادت سے بہتر آپؐ کے اخلاق کی تصویر کشی کون کرسکتا ہے؟

رسول اللہؐ کی رفیقہ ٔحیات حضرت عائشہ ؓ کی یہ شہادت ہے کہ اللہ کی رضا کے تابع آپؐ کے سب کام ہوتے تھے اور جس کام سے خدا ناراض ہو، آپؐ اس سے دور رہتے تھے۔

(نوادرالاصول فی احادیث الرسول حکیم ترمذی جلد4 ص215 دارالجیل بیروت)

حضرت یزید ؓبن بابنوس بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا اے ام المؤمنین ! رسول اللہؐ کے اخلاق کیسے تھے؟ انہوں نے فرمایا رسول اللہؐ کے اخلاق قرآن تھے۔ پھر فرمانے لگیں تمہیں سورۃ المؤمنون یا د ہے تو سناؤ۔ حضرت یزید ؓنے اس سورت کی پہلی دس آیات کی تلاوت کی جو قَدْاَفْلَحَ المُوْمِنُوْنَ سے شروع ہوتی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ وہ مومن کامیاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں عاجزی اختیار کرتے ہیں ۔وہ لغو چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں۔ وہ اپنے تمام سوراخوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے یا جن کے مالک ان کے داہنے ہاتھ ہوئے کہ ان پر کوئی ملامت نہیں اور جو اس کے علاوہ چاہے وہ لوگ زیادتی کرنے والے ہیں اور وہ جو اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ حضرت عائشہؓ نے ان آیات کی تلاوت سن کر فرمایا کہ یہ تھے رسول اللہؐ کے اخلاق فاضلہ۔

(مستدرک حاکم جلد2 ص426 و مسلم(7)کتاب الصلاۃ المسافر باب 18)

الغرض حضرت عائشہؓ کی چشم دید شہادت کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ؐ کے اخلاق قرآن تھے۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ اوّل۔ قرآن شریف میں بیان فرمودہ تمام اخلاق اور مومنوں کی جملہ صفات کی تصویر آنحضرت ﷺ کی ذات تھی۔ چنانچہ قرآن کی اخلاقی تعلیم پر عمل کر کے آپؐ نے ایسا حسین عملی نمونہ پیش کیا جسے قرآن کریم نے اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔ (سورۃ الاحزاب:22)

دوم۔ قرآن نے جو حکم دیئے وہ سب آپؐ نے پورے کر دکھائے۔ گویا آپؐ چلتے پھرتے مجسم قرآن تھے۔

قرآن شریف میں رسول کریم ؐ کی شخصیت ،آپؐ کے لباس، حقوق العبادکی نازک ذمہ داریوں،بے پناہ روز مرہ مصروفیات ،انقطاع الیٰ اللہ ،عبادات، ذکرالہٰی، تبلیغ اور پاکیزہ اخلاق، سچائی، راستبازی، استقامت، رأفت و رحمت، عفووکرم وغیرہ کے واضح اشارے ملتے ہیں اور احادیث نبویہ میں ان اخلاق فاضلہ کی تفاصیل موجود ہیں۔

رسول کریم ﷺ کی پر کشش شخصیت کا عکس آپؐ کے خوبصورت اور پرکشش چہرہ سے خوب نمایاں تھا، جس کے ہزاروں فدائی اور عاشق پیدا ہوئے۔ بلاشبہ آپؐ کا بھرا بھرا ،کھلتے ہوئے سفید رنگ کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہوتا تھا،شرافت و عظمت کا نور اس پر برستا تھا اور بشاشت و مسکراہٹ اس پاکیزہ چہرہ کی رونق تھی۔

آپؐ کاسر بڑا تھا او ر بال گھنے ۔ ریش مبارک گھنی تھی، ناک پتلی کھڑی ہوئی، کالی خوبصورت آنکھیں اور رخسار نرم و ملائم تھے۔ دہانہ کشادہ، دانت فاصلے دار اور سفید موتیوں کی طرح چمکدار تھے۔ گردن لمبی، سینہ فراخ ،بدن چھریرا اور پیٹ سینہ کے برابر تھا۔ قد درمیانہ اور متناسب تھا۔ پُشت مبارک پر کندھوں کے درمیان کبوتری کے انڈے کے برابر سُرخ رنگ کا گوشت کا ایک ٹکڑا اُبھرا ہوا تھا جو مہر نبوت سے موسوم ہے اور جس کا ذکر قدیم نوشتوں میں رسول اللہؐ کی شناخت کی ایک جسمانی نشانی کے طور پر موجود ہے۔

(شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہؐ)

روز مرہ معمولات

کہتے ہیں کسریٰ شاہ ایران نے اپنے ایام کی تقسیم اس طرح کررکھی تھی کہ جس دن بادِ بہار چلے وہ سونے اور آرام کے لئے مقررہوتا تھا، ابر آ لود موسم شکار کیلئے مختص تھا، برسات کے دن رنگ و طرب اور شراب کی محفلیں سجتی تھیں۔ جب مطلع صاف اور دن روشن ہوتا تو دربار شاہی لگایا جاتا اور عوام و خواص کو اذن باریابی ہوتا۔تو یہ ان اہل دنیا کا حال ہے جو آخرت سے غافل ہیں۔

ہمارے آقاو مولا حضرت محمد مصطفیٰؐ نے ہر حال میں عسرہویایُسر اپنے دن کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہواتھا۔دن کا ایک حصہ عبادت الہٰی کیلئے، ایک حصہ اہل خانہ کے لئے اور ایک حصہ اپنی ذاتی ضروریات کیلئے مقرر تھا۔ پھر اپنی ذات کیلئے مقرر وقت میں سے بھی ایک بڑا حصہ بنی نوع اِنسان کی خدمت میں صرف ہوتا تھا۔

(الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد1 ص136دارالکتاب العربی)

دعویٰ نبوت کے بعدرسول کریم ﷺ کی 23سالہ زندگی میں سے 13 سالہ مکی دور نزول قرآن، تبلیغی جدوجہد، اسلام قبول کرنے والوں کی تعلیم و تربیت اور ابتلاء و مصائب کا ایک ہنگامی دور تھا۔ اس کے دور معمولات کی تفصیلات اس طرح نہیں ملتیں جس طرح دس سالہ مدنی دور کے معمولات روز و شب کی تفاصیل احادیث میں ملتی ہیں اور جن سے مکی دور کی بھرپور مصروفیات کا ایک اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

احادیث کے مطابق آپؐ روزانہ اپنی مصروفیات کا آغاز نماز تہجد سے فرماتے تھے۔ نماز سے قبل وضو کرتے ہوئے مسواک استعمال فرماتے اور منہ اچھی طرح صاف کرتے۔نہایت خوبصورت اور لمبی نماز تہجد ادا کرتے جس میں قرآن شریف کی لمبی تلاوت کرتے، اتنی لمبی کہ زیادہ دیر کھڑے رہنے سے پاؤں پرورم ہوجاتے۔ نماز کے بعد آپؐ کچھ دیر لیٹ جاتے۔اگر آپؐ کے گھر والوں میں سے کوئی جاگ رہا ہوتا تو اس سے بات کرلیتے ورنہ آرام فرماتے۔ پھر جونہی نماز کے لئے حضرت بلال ؓ کی آواز کان میں پڑتی فوراً نہایت مستعدی سے اُٹھتے اور دو مختصر رکعت سنت ادا کرکے نماز فجر پڑھانے مسجد نبوی میں تشریف لے جاتے۔ کبھی نماز تہجّد بیماری وغیرہ کے باعث رہ جاتی تو (بخاری(25) کتاب التہجد باب 3،6،8،9،15) (کیونکہ وہ ایک اضافی جملہ ہے وضاحت کے لئے۔ اس کے علاوہ بقیہ صفحات پر حوالہ جات بھی اپنی باتوں کی تائید میں insert کئے گئے ہیں۔ بعض مضمون نگاروں کا یہ اسلوب ہوتا ہے اور خاص طور پر کیونکہ یہ حضور کی طرف منسوب باتیں ہیں اس لئے فوری اپنی تائید میں ساتھ ہی حوالہ بھی دے دیا ہوا ہے۔) نماز فجر کے بعد سے طلوع آفتاب تک صحابہؓ کے درمیان تشریف فرما ہوتے ۔ذکرِ الٰہی سے فارغ ہو کر صحابہؓ سے احوال پرسی فرماتے ،زمانہ جاہلیت کی باتیں بھی ہوتیں۔ آپؐ پوچھتے کہ اگر کسی کو کوئی خواب آئی ہو تو سنائے ۔اچھی خواب پسند فرماتے اور اس کی تعبیر بیان کرتے۔ کبھی اپنی کوئی خواب بھی سنا دیتے۔

(بخاری(95) کتاب التعبیر الرؤیاء باب 48 ۔ مسلم(6) کتاب المساجد باب 19)

رسول کریم ؐ صبح ہی اپنے دن کا پروگرام مرتب فرمالیتے۔اگر کسی صحابی کو تین دن سے زیادہ غیرحاضر پاتے اس کے بارہ میں پوچھتے اگر وہ سفر پر ہوتا تو اس کے لئے دعا کرتے ۔شہر میں ہوتا تو اس کی ملاقات کو جاتے۔ بیمار ہوتا تو اس کی عیادت کو تشریف لے جاتے۔

(کنزالعمال جلد7 ص153)

رسول کریمؐ کی مجالس صحابہؓ سے ملاقات اور تعلیم و تربیت کا بھی ایک نہایت عمدہ موقع ہوتی تھیں۔ صبح صبح مدینہ کے بچے حصول تبرّ ک کے لئے برتنوں میں پانی وغیرہ لے کر آجاتے تھے۔ آپؐ برتن میں انگلیاں ڈال کر تبرّ ک عطا فرماتے۔

(مسلم(44) کتاب الفضائل باب 19)

قومی کاموں سے فارغ ہوکر آپؐ گھر تشریف لے جاتے۔ اہل خانہ سے پوچھتے کہ کچھ کھانے کو ہے۔ مل جا تا تو کھا لیتے اور اگر کچھ موجود نہ ہوتا تو فرماتے اچھا آج ہم روزہ ہی رکھ لیتے ہیں۔

(ترمذی(6) کتاب الصوم باب 35)

بادشاہ اور بڑے لوگ اپنے کام وزراء اور دوسروں کے سپرد کر کے خود عیش و عشرت سے زندگی گزارتے ہیں مگر بادشاہ ہر دوسرا ہمارے نبی ﷺ پنجوقتہ نمازیں، جمعہ، عیدوغیرہ خود پڑھاتے تھے۔ پھرگھر میں جو وقت گزرتا کام کاج میں اہل خانہ کی مدد فرماتے۔ ہاتھ سے کام کرنا عار نہ سمجھتے۔ عام آدمی کی طرح گھر میں کام کرتے، کپڑے خود سی لیتے، پیوندبھی لگائے ،ضرورت پرجوتا بھی ٹانک لیا، جھاڑو بھی دیا، حسب ضرورت جانوروں کو باندھ دیتے اورچارہ بھی ڈال دیتے، دودھ دوہ لیا کرتے۔ خادم تھک جاتے تو ان کی مدد فرماتے۔ بیت المال کے جانوروں کو نشان لگانے کی خاطر خود داغ دیتے۔

(مسلم (38)کتاب اللباس باب30، مسند احمد جلد6 ص121،اسد الغابہ جلد1 ص17)

آپؐ اپنے ہمسایوں کا بہت خیال رکھتے ،ان کی بکریوں کادودھ اُن کو دوہ کردیتے۔

(مسند احمد جلد5 ص111،18)

رسول کریمؐ کی ایک بہت اہم اور نازک ذمہ داری نزول قرآن اور اس کی حفاظت کی تھی۔ اس کے لئے اپنے اوقات کا بڑا حصہ آپؐ کو وقف کرنا پڑتا تھا۔ گھر یا مجلس میں جہاں اورجب بھی وحی الہٰی کا نزول ہوتا اس کے بوجھ سے ایک خاص کیفیت آپؐ پر طاری ہوتی۔ جسم پسینہ سے شرابور ہوجاتا جس کے فوراً بعد کاتب کو بلواکر وحی الہٰی لکھوا لیتے۔

(بخاری (1)بدء الوحی باب 1)

وحی قرآن کے یاد رکھنے اور نمازوں میں تلاوت کے لئے گھر پراس کا اعادہ اور غورو تدّبر ایک الگ محنت طلب کام تھا۔

ذکر الہٰی و دعا

نبی کریمؐ ہر کام اللہ کا نام لے کر شروع کرتے، فرماتے تھے کہ اس کے بغیر کام بے برکت ہوتے ہیں۔ (مجمع الزوائد لہیثمی جلد1ص 526،جلد 3ص 536) آپؐ فراغت و مصروفیت ہر حال میں اللہ کو یاد رکھتے تھے۔ الغرض آپؐ ’دست درکارودل بایار‘ کے حقیقی مصداق تھے۔

ہر موقع اور محل کے لئے آپؐ سے دعائیں ثابت ہیں۔ صبح اٹھتے ہوئے خیرو برکت کی دعا مانگتے تو شام کو انجام بخیر کی۔ گھر سے جاتے اور آتے ہوئے، مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے ہوئے، کھانا کھانے سے پہلے اور بعدمیں، بیت الخلاء جاتے آتے، بازار جاتے ہوئے، سفر پر روانہ ہوتے ہوئے، سوتے اور جاگتے وقت ہر حال میں خدا کی طرف رجوع کرتے اور اسے سہارا بنا کر دعا کرتے۔ مجلس میں بیٹھے 70مرتبہ استغفار فرماتے تھے۔

(بخاری (83)کتاب الدعوات باب 14،12،15،52)

دعاؤں میں زیادہ الحاح اور تضرّع کے وقت یَاحَیُّ یَا قَّیُّوْمُ کی صفات الہیہ (یعنی اے زندہ اے قائم رکھنے والے) پڑھ کر دعا کرتے۔ مصیبت کے وقت آسمان کی طرف سر اٹھا کر سُبْحَانَ اللّٰہِ العَظِیْمُ پڑھتے۔ یعنی پاک ہے اللہ بڑی عظمت والا۔ مجلس میں چھینک آنے پر دھیمی آواز میں الحمدللہ کہتے اور کسی دوسرے کو چھینک آنے پر یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کی دعا دیتے کہ اللہ تم پر رحم کرے۔

(بخاری(81) کتاب الادب باب 126)

صحابہؓ سے عام ملاقاتیں ، وعظ و نصیحت اور سوال و جواب کی مجالس کے پروگرام نمازوں کے اوقات میں ہو جاتے تھے۔ اکثر اپنے اصحاب خصوصاً انصار کے گھروں میں تشریف لے جاتے۔ (مسند احمد جلد6 ص30) حضرت ابو طلحہ انصاری ؓ کے گھر بھی تشریف لے گئے، کبھی ان کے باغ میں جاکر وقت گزارتے۔

(بخاری(68) التفسیر سورۃ آل عمران باب 63،(30)کتاب الزکاۃ باب 43)

نماز عصر کے بعد باری باری سب ازواج مطہرات کے گھر جایا کرتے تھے۔ (مسنداحمد جلد6 ص59) یہ گھر ایک حویلی میں مختلف کمروں کی صورت میں پاس پاس ہی تھے۔ مغرب کے بعد سب بیویاں اس گھر میں جمع ہوجاتیں جہاں حضورؐ کی باری ہوتی وہاں ان کے ساتھ مجلس فرماتے۔ ظہر کے بعد گھر میں حسب حالات کچھ قیلو لہ فرمالیتے اور فرمایا کرتے کہ قیلولہ کے ذریعے رات کی عبادت کیلئے مد دحاصل کیا کرو۔

(المعجم الکبیرللطبرانی جلد11 ص245)

عشاء سے قبل سونا آپؐ کو پسند نہ تھا تاکہ نماز عشاء نہ رہ جائے اور عشاء کے بعد بلاوجہ زیادہ دیر تک فضول باتیں اور گپ شپ پسند نہ فرماتے تھے۔ البتہ بعض اہم دینی کاموں کیلئے آپؐ نے حضرت ابو بکرؓ اور عمر ؓسے عشاء کے بعد بھی مشورے فرمائے۔ (مسند احمد1 ص26) دن کے کاموں کا اختتام نماز عشاء سے پہلے پہلے کر کے عشاء کے بعد آرام کرنا پسند کرتے تاکہ تہجد کیلئے بروقت بیدار ہو سکیں۔

(بخاری (13 کتاب مواقیت الصلوۃ باب 39)

پھر آدھی رات کے قریب جب آنکھ کھلتی اپنے مولیٰ سے راز و نیاز میں محو ہوجاتے۔ آپؐ نے رات کے ہر حصہ میں نماز تہجّد ادا کی ہے۔ مگر اکثر رات کی آخری تہائی میں عبادت کرتے تھے۔

(بخاری (25) کتاب التہجد باب 14،15)

خوراک و غذا

نبی کریمؐ کھانے سے پہلے اوربعدمیں بھی ہاتھ دھونے کی ہدایت فرماتے تھے۔ (مجمع الزوائدلہیثمی جلد5 ص21) نیز اللہ کا نام لے کر اپنے سامنے سے اور دائیں ہاتھ سے کھانے کی تلقین فرماتے۔ (بخاری(73) کتاب الاطعمہ باب 1) آپؐ کی خوراک نہایت سادہ تھی۔ بسا اوقات رات کے کھانے کی بجائے دودھ پر ہی گزارا ہوتا تھا ۔ (بخاری(77) کتاب الاشربۃ باب11) مشروب پیتے ہوئے تین مرتبہ سانس لیتے اور اللہ کے نام سے شروع کرتے اور اس کی حمد پرختم کرتے۔

(مجمع الزوائدلہیثمی جلد5ص102،129)

جَو ملی گندم کے اَن چَھنے آٹے کی روٹی استعمال کرتے تھے کیونکہ اس زمانہ میں چھلنیاں نہیں ہوتی تھیں۔ یوں تو حضورؐ کو دستی کا گوشت پسند تھا مگر جو میّسر آ تاکھا کر حمدوشکر بجالاتے۔ سبزیوں میں کدّو پسند تھا۔ سرکہ کے ساتھ بھی روٹی کھائی اور فرمایا یہ ’’بھی کتنا اچھا سالن ہوتا ہے۔‘‘

(بخاری(73) کتاب الاطعمہ باب25،32)

عربی کھانا ثَرِید (جس میں گندم کے ساتھ گوشت ملا ہوتا ہے) مرغوب تھا۔ اسی نوع کا ایک اور کھانا ہریسہ بھی استعمال فرمایا ۔سنگترہ کھجور کے ساتھ ملاکر کھانے کالطف بھی اٹھایا۔ اللہ کی ہر نعمت کے بعد اس کا شکر ادا کرتے۔

(بخاری(73) کتاب الاطعمۃ باب 24، مجمع الزوائد جلد5ص 47)

پھلوں میں تربوز بہت پسند تھا دائیں ہاتھ سے کھجور اوربائیں سے تربوز لے کر کھاتے اور فرماتے ہم کھجور کی گرمی کا علاج تربوز کی ٹھنڈک سے کرتے ہیں۔

(مستدرک حاکم جلد4 ص134)

میٹھے میں شہد کے علاوہ حلوہ اور کھیر پسند تھی۔

(مسند احمد6 ص59)

آپؐ ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھاتے تھے۔ سخت گرم کھانا کھانے سے پرہیز کرتے تھے۔

(مستدرک حاکم جلد4 ص132)

طہارت و صفائی

ارشاد ربّانی ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی رکھنے والوں کوپسند کرتا ہے ۔ (سورۃ البقرہ:23) یہی وجہ ہے کہ رسول کریمؐ نے باطنی طہارت کیلئے ظاہری طہارت کو ضروری قراردیا اور اس کے تفصیلی آداب سکھائے۔ دن میں پانچ مرتبہ ہر نماز سے پہلے وضو کا حکم دیا۔جسم کی صفائی کیلئے ہفتہ میں کم از کم دو مرتبہ نہانے کی ہدایت فرماتے۔ کم از کم ایک صاع (یعنی قریباً تین لٹر) پانی سے نہالیتے تھے۔ غسل کی عادت زیادہ تھی۔ (ترمذی(1) کتاب الطہارۃ باب 44) آنکھوں کی حفاظت کے لئے رات کو آپؐ سرمہ لگاتے تھے۔

(شمائل الترمذی باب ماجاء فی کحل رسول اللہؐ)

دانتوں کی صفائی پر بہت زور دیتے، فرماتے تھے۔ ’’اگر اُمت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو ہر نماز کے ساتھ (دن میں پانچ مرتبہ) مسواک کا حکم دیتا۔‘‘ اپنا یہ حال تھا کہ گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے مسواک فرماتے۔ مسواک دانتوں کے آڑے رُخ یعنی نیچے سے اوپر کرتے تھے۔ تاکہ درزیں خوب صاف ہوں۔ (مسلم(3) کتاب الطھارۃ باب 15) بوقت وفات بھی مسواک دیکھ کر اس کی خواہش کی تو

(بخاری(67) کتاب المغازی باب 78)

آپؐ عمدہ خوشبوپسند کرتے تھے۔ اپنی مخصوص خوشبو سے پہچانے جاتے تھے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ کے پسینے سے جو خوشبو آتی تھی وہ مشک سے بھی بڑھ کر ہوتی تھی۔ (سنن الدارمی جلد1 ص31) سر کے بال کانوں کی لَو سے بڑھ کر کندھوں پر آجاتے تو کٹوا دیتے۔ داڑھی حسب ضرورت لمبے اور چوڑے رخ سے ترشواتے تھے۔ جو مشت بھر رہتی تھی۔ بالوں پر مہندی لگاتے تھے۔

(شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہؐؐ)

لباس

قرآنی ارشاد کے مطابق لباس میں پردہ اور زینت کی بنیادی شرائط ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔عام طور پر ایک تہبند اور ایک اوڑھنے کی چادر عربوں کا لباس تھا جو آپؐ نے بھی پہنا مگر سلا ہوا لمبی آ ستین والا کُرتہ زیادہ پسند تھا۔ بغیر آستین بھی پہنا۔ (ابن ماجہ(32) کتاب اللباس باب 1) سادہ موٹے کپڑے استعمال فرماتے ۔آپؐ جبہ، پاجامہ اور سردی میں تنگ آ ستین والی روئی بھری صدری بھی استعمال فرماتے تھے۔ حسب موقع وضو کے بعد پونچھنے کیلئے تولیہ بھی استعمال فرماتے۔

آپ ؐنے ٹوپی بھی استعمال فرمائی۔ جمعہ کے روز کلاہ کے اوپر پگڑی پہنتے۔ جمعہ عیدین اور وفود کی آمد پرعمدہ کپڑے اور خاص طور پر ایک سرخ قبا زیب تن فرماتے۔ ایک چاند رات میں سرخ قبا پہنی ہوئی تھی۔دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ اس رات آپؐ چاند سے زیادہ خوبصورت لگ رہے تھے۔سفید کپڑے زیادہ پسند تھے۔ مگر سرخ، سبز اور زعفرانی رنگ بھی استعمال فرمائے۔نیا کپڑا پہننے پر دو رکعت نماز ادا فرماتے اور پرانا کپڑا کسی ضرورت مند کو دے دیتے تھے۔ چمڑے کے موزے استعمال فرماتے اور بوقت وضو ان پر مسح فرماتے۔چمڑے کے کھلے جوتے دو تسمے والے (ہوائی چپل ، سلیپر نما) استعمال فرماتے۔

(ترمذی(25) کتاب اللباس باب 4،45،33)

آپؐ کی چاندی کی انگشتری پر مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کندہ تھا جو خطوط پر مہر لگوانے کے لئے بنوائی تھی۔ ایک عرصہ تک یہ انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہنتے رہے پھر بائیں ہاتھ میں بھی پہنی۔ بیت الخلاء جاتے تو یہ انگوٹھی اتار دیتے۔ وضو کرتے وقت اسے حرکت دے کر انگلی کو دھوتے۔ ہاتھ میں بالعموم کھجور کی شاخ کی چھڑی رکھتے تھے۔

(بخاری(3) کتاب العلم باب 7،مسلم(53)کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ باب5، ترمذی(25)کتاب اللباس باب16،کنزالعمال جلد7 ص125و جلد9 ص515)

جنگ میں آپؐ نے خود اور زرہ بھی پہنی ہے۔ غزوۂ احد میں تو دو زرہیں پہن رکھی تھیں۔ ایک زرہ کی کڑیاں ٹوٹ کر رخسار مبارک میں دھنس گئی تھیں۔

(بخاری (67) کتاب المغازی باب 22)

چال ڈھال اور گفتگو

نبی کریم ؐچال ڈھال میں نہایت پُر وقار انسان تھے۔ چال ایسی سبک تھی جیسے ڈھلوان سے اتر رہے ہوں۔ حضرت ابوھریرہ ؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہؐ سے زیادہ تیز رفتار کوئی نہیں دیکھا ایسے لگتا تھا کہ زمین آپؐ کے لئے لپٹتی جارہی ہے۔ ہم ساتھ چل کر تھک جاتے مگر حضورؐ پر تھکاوٹ کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ آپؐ گردن اکڑا کر نہ چلتے بلکہ نظریں نیچی رکھتے تھے۔

(شمائل ترمذی باب ماجاء فی مشیۃ رسول اللہؐ)

حضرت علی ؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ آگے کو جھک کر چلتے تھے یوں لگتا تھا جیسے گھاٹی سے اتر رہے ہوں، مَیں نے آپؐ سے پہلے اور آپؐ کے بعد ایسی رفتار والا شخص نہیں دیکھا۔

(ترمذی(50) کتاب المناقب باب 8)

حضرت حسن بن علیؓ اپنے ماموں ھندؓ بن ابی ھالہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ لمبے لمبے اور تیز قدم اُٹھاتے تھے۔ نظر یں نیچی رکھتے تھے مگر جب دیکھتے تو نظر بھر کر پوری توجہ فرماتے ،چلتے ہوئے اپنے صحابہ سے آگے نکل جاتے تھے، اور جو بھی راستہ میں ملتا اسے سلام کرنے میں پہل فرماتے تھے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1 ص422)

حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ چلتے ہوئے اِدھر اُدھرتوجہ نہیں فرماتے تھے۔ بسا اوقات آپؐ کی چادر کسی درخت یا کانٹوں وغیرہ سے الجھ جاتی تو بھی توجہ نہ فرماتے اور صحابہ اس وجہ سے بعض دفعہ بے تکلفی سے باتیں کرتے ہوئے ہنستے اور سمجھتے تھے کہ حضورؐ کا دھیان ادھر نہیں۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1 ص379)

حسب ارشاد باری کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے آپؐ کو نرم کر دیا ۔(سورۃآل عمران:107) آپؐ کی گفتگو میں تلخی تھی نہ تیزی ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھا کر وضاحت اور نرمی سے آپؐ اس طرح کلام فرماتے کہ بات ذہن نشین ہوجاتی۔ تین دفعہ بات دہراتے تھے۔

(مسند احمد3 ص213 وبخاری کتاب العلم)

کوئی بھی عزم کرلینے کے بعدآپؐ خدا پر کامل بھروسہ رکھتے۔ جب آپؐ تین دفعہ کوئی بات کہہ دیتے تو اسے کوئی ٹال نہیں سکتا تھا۔ (مسند احمد جلد3 ص423) لیکن آپؐ کبھی صحابہ کی طاقت سے زیادہ ان کو حکم نہ دیتے تھے۔

(مسند احمد6 ص56)

آنحضورؐبغیر ضرورت کے گفتگو نہ فرماتے تھے اور جب بولتے تھے تو فصاحت و بلاغت سے بھر پور نہایت بامعنی کلام فرماتے ۔خود بات شروع کرتے اور اسے انتہا تک پہنچاتے ۔آپؐ کی گفتگو فضول باتوں اور ہر قسم کے نقص سے مبرا اوربہت واضح ہوتی تھی۔ اپنے ساتھیوں سے تلخ گفتگو نہیں کرتے تھے۔نہ ہی انہیں باتوں سے رسوا کرتے تھے۔ معمولی سے معمولی احسان کا ذکر بھی تعظیم سے کرتے اور کسی کی مذمت نہ کرتے۔ کسی پر محض دنیوی بات کی وجہ سے ناراض نہ ہوتے البتہ جب کوئی حق سے تجاوز کرتا تو پھر آپؐ کے غصہ کوکوئی نہ روک سکتا تھا اور ایسی بات پر آپؐ سزا ضرور دیتے تھے مگر محض اپنی ذات کی خاطر غصے ہوتے تھے نہ انتقام لیتے تھے۔ غصے میں منہ پھیر لیتے تھے۔ خوش ہوتے تو آنکھیں نیچی کرلیتے۔مسکراتے تو سفید دانت اس طرح آبدارہوتے جیسے بادل سے گرنے والے اولے۔

(الشفاء للقاضی عیاض جلد1 ص160،طبقات ابن سعد جلد1 ص422)

حضرت جابرؓ کی روایت کے مطابق رسول کریمؐ کی گفتگو میں بھی ایک ترتیب اور حُسن ہوتا تھا۔

(ابوداؤد (42) کتاب الادب باب 21)

امّ معبد کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ شیریں بیان تھے۔ آپؐ کی گفتگو کے وقت ایسے لگتا تھا جیسے کسی مالا کے موتی گررہے ہوں۔

(مستدرک حاکم جلد3 ص10)

حضرت عائشہؓ کی ایک اور روایت ہے کہ رسول کریم ؐ کو جھوٹ سے زیادہ ناپسند اور قابل نفرین اور کوئی بات نہیں تھی۔ اور جب آپؐ کو کسی شخص کی اس کمزوری کا علم ہوتا تو آپؐ اس وقت تک اس سے کھچے کھچے رہتے تھے جب تک کہ آپؐ کو معلوم نہ ہو جائے کہ اس شخص نے اس عادت سے توبہ کرلی ہے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1 ص378)

زیادہ تر آپؐ کی ہنسی مسکراہٹ کی حد تک ہوتی تھی۔ مسکرانا تو آپؐ کی عادت تھی۔ صحابہ کہتے ہیں ’’ہم نے حضور سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔ خوش ہوتے تو آپؐ کا چہرہ تمتما اُٹھتا تھا۔‘‘

(مسنداحمد جلد4 ص358)

آپؐ کی گفتگو خشک نہ تھی۔ بلکہ ہمیشہ شگفتہ مزاح فرماتے تھے۔ مگر مذاق میں بھی کبھی دامن صدق نہ چھوٹا۔ فرماتے ’’میرے منہ سے صرف حق بات ہی نکلتی ہے۔‘‘

(المعجم الکبیرلطبرانی جلد12 ص391)

ایک صحابی نے ایک دفعہ سواری کیلئے آپؐ سے اونٹ مانگا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا میں تجھے اونٹ کا بچہ دے سکتا ہوں ۔وہ سراسیمہ ہوکر بولے حضورؐ اونٹنی کا بچہ لے کر میں کیا کروں گا؟ مجھے تو سواری چاہئے فرمایا ’’بھئی! اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔‘‘

(شمائل الترمذی باب ماجاء فی مزاح رسول اللہؐ)

صحابہ کو وعظ و نصیحت کرنے میں ناغہ کرتے تاکہ وہ اکتا نہ جائیں۔ آپؐ کی تقریر نہایت فصیح و بلیغ دلکش اور جوش سے بھر ی ہوئی ہوتی تھی۔بعض دفعہ خطبہ میں یہ جوش و جلال بھی دیکھا گیا کہ آنکھیں سرخ ہیں اور آواز بلند۔ جیسے کسی حملہ آور لشکر سے ڈرا رہے ہوں جو صبح یا شام حملہ آور ہونے والا ہے۔ ایک دفعہ صفات الہٰیہ کے بیان کے وقت منبر آپؐ کے جوش کے باعث لرزرہا تھا۔ (مسلم (8)کتاب الجمعہ باب 14) رسول کریم ؐ کے خطبہ ونماز میں میانہ روی اور اعتدال ہوتا تھا۔

(مسلم (8) کتاب الجمعہ باب 14)

حالت جنگ میں آپؐ عجب مجاہدانہ شان کے ساتھ کمان حمائل کئے ایک سپہ سالار کے طور پر صحابہ سے مخاطب ہوتے۔ عام حالات میں جمعہ وغیرہ کے موقع پر عصا ہاتھ میں ہوتا۔ (ابن ماجہ (5)کتاب اقامۃ الصلوۃ باب 85) بعد میں منبر بن گیا تو اس پر خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔

آپؐ جو کہتے تھے وہ کر کے بھی دکھاتے تھے۔ گفتگو میں الفاظ کے چنائو میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے اور الفاظ کے بے محل استعمال کی اصلاح فرما دیتے ،عرب میں غلام اپنے آقائوں کو ’’رب‘‘ کہتے تھے جس کے معنے ہیں پالنے والا۔ اور جو حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ آقا کو سید کہا کرو۔ یعنی سردار۔ آقا اپنے غلام کو ’’عبد‘‘ کہتے تھے یعنی نوکر۔ فرمایا فتٰی کہہ کر مخاطب کرو۔ یعنی نوجوان یا بچے تاکہ ان کی عزت نفس قائم رہے۔ (بخاری(54)کتاب العتق باب 17) نبی کریمؐ کو زبان وادب کا عمدہ ذوق تھا۔ آپؐ موزوں کلام اور عمدہ شعر پسند فرماتے اور داد دیتے تھے۔ حضرت شریدؓ سے روایت ہے کہ میں ایک دن رسول کریمؐ کے ساتھ آپؐ کی سواری کے پیچھے بیٹھا۔ آپؐ نے فرمایا تمہیں مشہور شاعر امیہ بن الصلت کے کوئی شعریاد ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو آپؐ نے کچھ شعر سنانے کی خواہش کی۔ میں نے ایک شعر سنایا تو فرمایا ’’ہاں اور سنائو‘‘ پھر ایک شعر سنایا تو فرمایا اور سنائو۔ یہاں تک کہ میں نے سوشعر سنائے۔ (مسلم (42) کتاب الشعر باب1) رسول کریمؐ اشعار کی محض ظاہری فصاحت پر خوش نہ ہوتے بلکہ ان کے مضامین کی گہرائی اور لطافت پر نظر ہوتی اور کہیں کوئی بات کھٹکتی تو دریافت فرما لیتے۔

مشہور شاعر نابغہ ابولیلیٰ نے حاضر خدمت ہوکر جب اپنا کلام سنایا اور یہ شعر پڑھا۔

عَلَوْنَا العِبَادَ عِفَّۃً وَتَکَرُّمًا
وَاِنَّا لَنَرْجُوا فَوقَ ذٰلِکَ مَظْھَرا

یعنی اسلام قبول کر کے ہم تمام دنیا سے عفت اور عزت میں بلند ہوگئے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر ایک ’’مظہر‘‘ کی اُمید رکھتے ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ ہماری اور عزت وکرامت ظاہر فرمائے گا۔ رسول کریمؐ نے فوراً پوچھا ’’مظہر‘‘ سے تمہاری کیا مراد ہے؟ نابغہ نے عرض کیا یارسول اللہؐ جنت مراد ہے۔ فرمایا ہاں ٹھیک ہے اگر اللہ نے چاہا تو ضرور یہ نعمت بھی عطا ہوگی۔ اور جب نابغہ کلام سنا چکے تو رسول کریمؐ نے فرمایا تم نے بہت خوب کہا اور پھر ان کو دعا بھی دی۔

(مجمع الزوائدلھیثمی جلد8 ص233)

حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ نبی کریمؐ کبھی شعر وغیرہ بھی گنگناتے تھے تو فرمانے لگیں کہ ہاں! اپنے صحابی شاعر عبداللہؓ بن رواحہ کے شعر گنگناتے تھے۔ مثلاً یہ مصرع وَیَاتِیْکَ بِالَاخْبَارِمَالَمْ تُزَوِّ دٖ

کہ تیرے پاس ایسی ایسی خبریں آ ئیں گی جو پہلے تمہیں میسّر نہیں۔

(ترمذی (44) کتاب الادب باب70)

حضرت جندب ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں نبی کریمؐ پیدل جارہے تھے۔ پتھر کی ٹھوکر لگنے سے ایک انگلی زخمی ہوگئی آپؐ نے انگلی کو مخاطب کر کے یہ شعر کہا

ھَلْ اَنْتِ اِلَّااِصْبَعٌ دَمِیتِ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَالَقِیْتِ

تو ایک انگلی ہی تو ہے جو خون آ لود ہوئی اور خدا کی راہ میں ہی تو نے یہ تکلیف اُٹھائی۔

(بخاری (81) کتاب الادب باب90)

آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت سے جوا مع الکلم عطا کئے گئے تھے یعنی مختصر کلام میں ایسے گہرے مضمون بیان فرماتے تھے کہ دریا کو کوزے میں بند کردیتے تھے۔ نہایت لطیف خوبصورت محاورات میں کلام فرماتے تھے۔

حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں وفدنہد آیا تو رسول اللہؐ نے ان کی درخواست پر ان کے حق میں دعا کی اور پھر انہیں ایک معاہدہ لکھ کردیا کہ جو نماز قائم کرے مومن ہے،جو زکوۃ ادا کرے مسلمان ہے جو کلمہ شہادت لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھ لے وہ غافل نہیں لکھا جائے گا وغیرہ۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں اس معاہدہ کی فصیح و بلیغ عبارت دیکھ کر میں نے عرض کیا یارسول اللہؐ! ہم ایک باپ کے بیٹے۔ ایک شہرکی گلیوں میں پلے بڑھے ۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ وفود عرب سے آپؐ ایسی زبان میں کلام کرتے ہیں کہ اس کا جواب نہیں۔ فرمایا اللہ نے مجھے ادب سکھایا ہے اور بہت بہترین سکھایا ہے اور میں بنی سعد میں پروان چڑھا ہوں۔

(الشفاء للقاضی عیاض جلد1 ص72)

حضرت بُریدہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ سب لوگوں سے زیادہ فصیح تھے۔ بعض دفعہ رسول کریم ؐ ایسا کلام کرتے تھے کہ لوگوں کو اس کے معنی کی سمجھ نہ آتی تھی، یہاں تک کہ آپؐ خود اس کے معنے بیان فرماتے تھے۔

(الوفاء باحوال المصطفی ابن جوزی ص332 بیروت)

حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ یہی سوال کیا کہ اے اللہ کے نبیؐ! آپؐ کی زبان ہم سب سے بڑھ کر فصیح وبلیغ ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل ؑ آئے اور انہوں نے مجھے میرے باپ اسماعیل ؑ کی زبان سکھائی۔

(کنزالعمال جلد7 ص219)

رسول کریمؐ کواچھے نام پسند تھے جیسے عبداللہ، عبدالرحمن وغیرہ۔ کسی نام کے اچھے معنے نہ ہوتے تو اسے بدل دیتے۔ ایک شخص کانام حُزن تھا جس کے معنی غم کے ہیں آپؐ نے اس کا نام سہل رکھ دیا جو آسانی کے معنی دیتا ہے۔ ایک عورت کا نام عاصیہ تھا جس میں نافرمانی کا مفہوم ہے اس کا نام جمیلہ رکھ دیا یعنی خوبصورت۔

(بخاری (81) کتاب الادب باب 108)

معاشرت

رسول کریمؐ کی معاشرت اپنے اہل خانہ اور صحابہ کرام کے ساتھ رافت و رحمت کی آئینہ دار تھی۔ فرمایا ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کیلئے بہتر ہو۔ اور میں تم میں سب سے بڑھ کر اپنے اہل کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔‘‘

(ابن ماجہ (9) کتاب النکاح باب 50)

گھر میں بے تکلفی سے خوش خوش رہتے ۔کبھی بیویوں کو کہانیاں اور قصے بھی سناتے۔ اہل خانہ سے حد درجہ کی نرمی اور اکرام کا سلوک فرماتے۔

(بخاری (70) کتاب النکاح باب82)

گھریلو زندگی کا ایک نہایت دلکش اور قابل رشک نظارہ خود حضرت عائشہ ؓ کی زبانی سنیئے۔ آپؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں گھر میں بیٹھی چرخے پر سوت کات رہی تھی اور نبی کریمؐ اپنے جوتے کی مرمت فرمارہے تھے کہ آپؐ کی پیشانی مبارک پر پسینہ آگیا، پسینہ کے قطرے آپؐ کے پُرنور چہرے پر دمک رہے تھے اور ایک روشنی ان سے پھوٹ رہی تھی۔ میں محو حیرت ہوکر یہ حسین نظارہ دیکھنے میں مگن تھی کہ ناگہاں رسول اللہؐ کی نظر مجھ پر پڑگئی۔ آپؐ نے میری حالت بھانپ کر فرمایا عائشہؓ! تم اتنی کھوئی کھوئی اور حیران وششدر کیوں ہو؟میں نے عرض کیا ابھی جو آپؐ کی پیشانی مبارک پر پسینہ آیا تو اس کے قطرات سے ایک عجب نور پھوٹتے میں نے دیکھا اگر شاعر ابوکبیر ھُذلی آپ ؐ کو اس حال میں دیکھ لیتا تو اسے ماننا پڑتا کہ اس کے شعر کے مصداق آپؐ ہی ہیں۔ رسول کریمؐ نے فرمایا اچھا! ابوکبیر کے وہ شعر تو سناؤ۔ میں نے شعر سنائے جن میں ایک یہ تھا۔

فَاِذَا نظَرْتَ اِلیٰ اَسِرَّۃِ وَجْھِہٖ
بَرَقَتْ کَبَرْقِ العَارِضِ المُتَھَلِّلٖ

کہ تم میرے محبوب کے روشن چہرے کے خدوخال کو دیکھو تو تمہیں اس کی چمک دمک بادل سے چمکنے والی بجلی کی طرح معلوم ہو۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں یہ شعر سن کر رسول کریمؐ جوش محبت اور فرطِ مسرت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور میری پیشانی کا بوسہ لے کر فرمانے لگے۔ اے عائشہؓ ! اللہ آپ کو بہترین جزا عطافرمائے۔ شاید تم نے مجھے اس حال میں دیکھ کر اتنا لطف نہیں اُٹھایا ہوگا۔ جتنا مزا مجھے آپ سے یہ شعر سن کر آیا ہے۔

(الخصائص الکبریٰ جلد1 ص 116)

اپنے صحابہؓ کی ضروریات اور جذبات کا بے حد احساس تھا ۔ان کے حالات سے باخبر رہتے مگر کسی کے خلاف یکطرفہ کوئی بات سننا گوارہ نہ کرتے۔ فرماتے تھے کہ اپنے اصحاب کیلئے میراسینہ صاف رہنے دو۔

(ابوداؤد (42) کتاب الادب باب 33)

صحابہ کو فاقہ کی تکلیف ہوتی تو اپنے گھر لے جاکر تواضع فرماتے یا پھر صحابہ کو تحریک کردیتے۔ (بخاری(68) کتاب التفسیر سورۃ الحشر باب 366) وہ بیمار ہوتے تو اُن کی عیادت کرتے ۔اپنے یہودی خادم کا حال پوچھنے اس کے گھر گئے۔بوقت عیادت مریض پر ہاتھ پھیرتے اور شفا کی دعا کرتے۔

(بخاری(78) کتاب المرضیٰ باب 11)

اپنے ساتھیوں پرخاص توجہ فرماتے۔ کوئی ساتھی راستہ میں مل جاتا تو رک کر اس سے ملتے اور کھڑے رہتے یہاں تک کہ وہ خوداجازت لیتا۔کسی سے مصافحہ کرتے تو اس وقت تک ہاتھ نہ چھوڑتے جب تک وہ نہ چھوڑے۔

(ترمذی(38) کتاب صفۃ القیامہ باب46)

اپنے ساتھیوں سے تحائف قدردانی کے ساتھ وصول فرماتے تھے۔ خوشبو اور دودھ کا تحفہ کبھی رد نہ فرماتے اور بدلہ میں بہتر تحفہ عطا فرماتے تھے۔

(مسند احمد جلد3 ص133، فتح الباری لابن حجر جلد4 ص361)

تحفہ میں زمزم کا پانی دینا پسند فرماتے تھے۔صدقہ کا مال اپنی ذات کے لئے نہ لیتے تھے۔ انصار کے گھروں میں ملاقات کے لئے تشریف لے جاتے۔ (مسند احمد جلد4 ص398) ان کے بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرتے ۔پیار دیتے اور دعا کرتے۔ بعض بچوں کی پیدائش پر کھجور کی گھٹی بھی دی۔

(بخاری (81) کتاب الادب باب 109)

گھر میں بیک وقت نو بیویاں رہیں ہمیشہ ان میں عدل فرماتے، ان میں سے کسی کو سفر پر ہمراہ لے جانے کے لئے فیصلہ قرعہ انداز ی سے فرماتے۔(مسند احمد جلد 6ص 117) مدینہ سے رخصت ہوتے وقت سب سے آخر میں اپنی لختِ جگر حضرت فاطمہ ؓ سے مل کر جاتے اور واپسی پر مسجد نبوی میں دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ سے ہی آکر ملتے۔ (مسند احمد جلد3 ص455) سفر سے واپس تشریف لاتے تو خاندان کے بچے اور اہل مدینہ آپؐ کا استقبال مدینہ سے باہر جا کر کرتے۔

(بخاری (67) کتاب المغازی باب 76)

آپؐ عام مسلمانوں کی دعوت طعام بلا تفریق قبول فرماتے۔ (بخاری (73) کتاب الاطعمۃ باب 33) اپنے صحابہؓ کے جنازہ اور تدفین میں شامل ہوتے تھے۔ سوائے اس کے کہ کوئی شخص مقروض ہو تو اس کے بارہ میں فرماتے تھے کہ اس کا جنازہ خود پڑھ لو۔

(بخاری (43) کتاب الحوالات باب3)

صحابہؓ کے ساتھ قومی کاموں میں برابر کے شریک ہوتے۔مسجد نبوی کی تعمیر میں ان کے ساتھ مل کر اینٹیں اٹھائیں تو غزوئہ احزاب کے موقع پر خندق کی کھدائی میں حصہ لیا اور مٹی باہر نکالی۔

(بخاری (67) کتاب المغازی باب 27)

آپؐ خادموں سے بہت حسن سلوک فرماتے تھے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے کبھی آپؐ نے مجھے اُف تک نہیں فرمایا کبھی کسی بات پر نہیں ٹوکا۔

(بخاری (81) کتاب الادب باب 39)

حضرت علیؓ نے امام حسینؓ کے اس سوال پر کہ رسول کریمؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ سلوک کیسا ہوتا تھا۔ حضورؐ کی معاشرت کا دلآویز نقشہ یوں کھینچا کہ:۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ مسکراتے تھے۔ عمدہ اخلاق والے اور نرم خوُ تھے۔تُرش رو تھے نہ تند خو،نہ کوئی فحش کلمہ زبان پر لانے والے نہ چیخ کر بولنے والے۔عیب چیں تھے نہ بخیل۔جو بات ناگوار ہوتی اس کی طرف توجہ ہی نہ فرماتے نہ ہی اس کے بارے میںکوئی جواب دیتے۔آپؐ نے اپنے آپ کو تین باتوں سے کلیتہً آزاد کرلیا ہواتھا۔ جھگڑے ،تکبر اور لا یعنی و فضول باتوں سے اور تین باتوں میں لوگوں کو آزاد چھوڑ رکھا تھا یعنی آپؐ کسی کی مذمت نہ کرتے تھے، کسی کی غیبت نہ کرتے تھے اور کسی کی پردہ دری نہ چاہتے تھے۔ آپؐ صرف اس امر کے بارے میں گفتگو کرتے جس میں ثواب کی اُمید ہو ۔جب آپؐ خاموش ہوجاتے تو لوگ بات کرلیتے تھے مگر آپؐ کے سامنے ایک دوسرے سے باتیں نہ کرتے اور جب آپؐ کے سامنے کوئی ایک بات کر رہا ہوتا تو باقی لوگ اس کی بات خاموشی سے سنتے یہاں تک کہ وہ بات پوری کرلے۔آپؐ اپنے صحابہ کی باتوں میں دلچسپی لیتے۔ان کی مذاق کی باتوں میں ان کا ساتھ دیتے اور تعجب کا موقع ہوتا تو تعجب فرماتے ۔کبھی کوئی اجنبی مسافر آجاتا تو اس کی گفتگو یا سوال نہایت توجہ سے سماعت فرماتے۔

(الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ قاضی عیاض جلد1 ص160 دارالکتاب العربی)

صحابہ ؓمہمانوں کو حضورؐ کی خدمت میں بڑے شوق سے لایا کرتے تھے۔ وہ خود اَزراہِ ادب آپؐ سے اکثر سوال نہ کرتے تھے بلکہ اس انتظار میں رہتے کہ کوئی بدّو آکر مسئلہ پوچھے تو ہم بھی سنیں ۔

(بخاری (3) کتاب العلم باب 59)

آپؐ کی ہدایت تھی کہ اگر کوئی ضرورت منددیکھو تواسے کچھ دے دو ورنہ اس کی مدد کے لئے تحریک کردیا کرو۔ فرماتے تھے کہ نیک سفارش کا بھی اجر ہوتا ہے۔ مبالغہ آمیز تعریف و ستائش آپؐ کو قطعاً پسند نہ تھی۔ سوائے اس کے کہ جائز حدود کے اندر ہو۔

(بخاری (81) کتاب الادب باب 37)

آپؐ کسی کی قطع کلامی پسند نہ فرماتے تھے سوائے اس کے کہ وہ اپنی حد سے تجاوز کرے۔ ایسی صورت میں اسے روک دیتے تھے یا خود اس مجلس سے اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔

متفرق معمولات

آپؐ ہفتہ کے روز کبھی پیدل اور کبھی سواری پر مسجد قبا جایا کرتے تھے جو بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں مدینہ سے چند میل دور تھی۔یوں ہفتہ وار تفریح بھی ہوجاتی اوراس محلہ کے صحابہ سے ملاقات بھی۔ حضورؐ کو سبزے اور جاری پانی کو دیکھنابہت پسند تھا۔

(مسند احمد جلد2 ص4، کنزالعمال جلد7 ص150)

جمعہ کا دن تو جمعہ کی تیاری اور اس کی مصروفیات میں گزرتا ۔کوئی مہم بھجوانا ہوتی تو بالعموم جمعرات کو دن کے پہلے حصہ میں بھجواتے۔ (مسند احمد جلد3 ص456) اور تین یا اس سے زائد افراد پر امیر مقرر فرماتے۔

(بخاری (60) کتاب الجہادباب 167 و مسند احمد جلد5ص358، مسلم (33) کتاب الجہاد باب 2)

نبی کریمؐ عیدین کے موقع پر قربانیوں اور عبادتوں کی قبولیت کی دعا کرنا پسند کرتے تھے۔ حضرت واثلہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریمؐ کو عید کے دن ملا۔ اور عرض کیا کہ اللہ ہم سے اور آپؐ سے (عبادات وغیرہ) قبول فرمائے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ہاں! تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا ومِنْکَ یعنی اللہ ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے۔

(فتح الباری لابن حجر جلد2 ص336)

ہر کام میں دائیں پہلو کو ترجیح دیتے۔ جوتا پہننے، کنگھی کرنے، وضو کرنے، نہانے وغیرہ میں یہی معمول تھا۔ دایاں ہاتھ کھانے پینے، مصافحہ کرنے کے لئے استعمال فرماتے۔

(بخاری (4) کتاب الوضوء باب 30)

دیگر طہارت وغیرہ کے کام بائیں ہاتھ سے کرتے۔ دائیں پہلو پر سوتے۔ جوتا پہننے میں پہلے دایاں پاؤں پہنتے اور اتارتے وقت پہلے بایاں اتارتے۔

(مسلم(3) کتاب الطہارۃ باب 18،19)

مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پاؤں اندر رکھتے اور باہر نکلتے وقت پہلے بایاں پائوں باہر رکھتے۔کسی کے بارے میں کوئی شکایت پہنچتی تو نام لئے بغیر (بعض لوگ کہہ کر) مجلس میں سر زنش یا تنبیہہ فرماتے۔

(بخاری (11) کتاب المساجد باب 15)

کسی کا نام بھول جاتا تو یا ابن عبداللہ کہہ کر پکارتے یعنی اے اللہ کے بندے کے بیٹے! کوئی کام یاد رکھنے کیلئے انگلی پر دھا گہ باندھ لیتے۔

سفر پر جاتے تو مدینہ میں امیر مقرر فرماتے۔ موسم گرما کی سخت گرمیوں کے بعدجب موسم سرما کی آمد آمد ہوتی توخوش ہو کر اسے مرحبا کہتے۔بادل یا آندھی کے آثار دیکھ کر فکر مند ہو جاتے اور چہرہ متغیّر ہوجاتا کہ یہ طوفان بادوباراں کہیں گزشتہ قوموں کی طرح عذاب کا پیش خیمہ نہ ہو اور پھر دعائے خیر میں لگ جاتے۔

(بخاری (68) کتاب التفسیر سورۃ الاحقاف باب 319)

مگر موسم گرما کی عام بارش سے خوش ہوتے اور اسے بڑے شوق سے سر پر لے کر فرماتے۔ ’’میرے رب کی طرف سے یہ تازہ رحمت آئی ہے‘‘ (مسند احمد جلد1ص 2)

خوش ہوتے تو چہرہ خوشی سے تمتما اٹھتا۔ ناراض ہوتے تو چہرے کا رنگ سرخ ہوجاتا اور چہرے پر اس کے آثار ظاہر ہوجاتے۔

(مسند احمد جلد2 ص436 و مجمع الزوائدلھیثمی جلد8 ص346)

کوئی غم پہنچتا توفرماتے بندوں کی بجائے میرا رب میرے لئے کافی ہے۔ اور نماز کی طرف توجہ فرماتے۔

(مسند احمد جلد5 ص388)

کسی کو سرزنش کرتے تو اتنا فرماتے۔ ’’اللہ اس کا بھلا کر ے اسے کیا ہوا؟‘‘ زیادہ سوالات اور قِیل وقال سے منع فرماتے تھے۔

(بخاری(84) کتاب الرقاق باب 22)

مسائل میں الجھنیں اور مشکلات پیدا کرنے سے بھی روکتے اور فرماتے ’’آسانی پیدا کرو مشکل پیدا نہ کرو۔‘‘

مجلس میں چھینک آتی تو منہ پر ہاتھ یارومال رکھ لیتے۔ جمائی آتی تو ہاتھ منہ پر رکھ لیتے۔ تھوک پر مٹی ڈال کر اسے دفن کر دیتے ۔

(بخاری(81) کتاب الادب باب 128)

کبھی آپؐ کو درد شقیقہ کی تکلیف بھی ہوجاتی تھی جو ایک یا دو دن رہتی تھی۔ ایسی صورت میں گھر میں آرام فرماتے۔

اخلاق فاضلہ

وہ ہستی جس کے بارے میں عرش کے خدا نے گواہی دی کہ اے نبی تو عظیم اخلاق پر فائز ہے۔وہ اخلاق کیسے شاندار ہونگے۔

حضورؐ کے عام اخلاق کے بارہ میں حضرت خدیجہ ؓ کی پندرہ سالہ رفاقت کے بعد وہ گواہی کیسی زبردست ہے کہ آپؐ صلہ رحمی کرنے والے، دوسروں کے بوجھ بانٹنے والے، گمشدہ اخلاق اور نیکیوں کو زندہ کرنے والے، مہمان نواز اور راہ حق میں مصائب پر مدد کرنے والے ہیں اس لئے آپؐ جیسے انسان کو اللہ ضائع نہیں کرے گا۔

(بخاری(1)کتاب بدء الوحی باب 1)

پھر حضرت عائشہ ؓ کا آپؐ کے اخلاق کے بارہ میں بیان ہے کہ آپؐ کبھی فحش کلامی نہ فرماتے تھے۔نہ ہی بازاروں میں آوازے کسنا آپؐ کا شیوہ تھا۔ آپؐ بدی کابدلہ بدی سے نہیں لیتے تھے بلکہ عفو اور درگذر سے کام لیتے تھے۔

(بخاری (81)کتاب الادب باب 80)

صحابہ بیان کرتے ہیں کہ سب لوگوں کے محبوب ترین انسان آپؐ تھے۔ (مسند احمد جلد3 ص402) جب کبھی آپ ﷺ کو دو معاملات میں اختیار دیا جاتا تو آسان امر کو اختیار کرتے۔ آپؐ سے زیادہ اپنے نفس پر ضبط کرنیوالا کوئی نہ تھا۔

(بخاری(65) کتاب المناقب باب 20)

٭حیا ایسی تھی کہ آپؐ کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔

(مسند احمد جلد3 ص71)

٭حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول کریمؐ سب سے بڑھ کر سخی تھے ۔

(مسلم(44) کتاب الفضائل باب 12)

٭جب بھی آپؐ سے سوال کیا گیا آپؐ نے عطا فرمایا۔

(مسند احمد جلد3 ص190)

مال فئی (غنیمت) جس روز آتا اسی روز تقسیم فرمادیتے تھے۔ توکل ایسا تھا کہ کبھی کل کے لئے کچھ بچا کر نہ رکھتے تھے۔

(بخاری(88) کتاب الفرائض باب 2)

آپؐ تمام لوگوں سے بڑھ کر زاہد اور دنیا سے بے رغبت تھے (مسند احمد جلد4 ص198) اپنے آپؐ کو دنیا میں ایک مسافر سمجھتے تھے جو سستانے کے لئے ایک درخت کے نیچے آرام کیلئے کچھ دیررکتا اور پھر آگے روانہ ہوجاتاہے۔

(ترمذی(37) کتاب الزھد باب 44)

شجاعت ایسی تھی کہ جنگوں میں تن تنہا بھی مرد میدان بن کر لڑے اور کبھی قدم پیچھے نہ ہٹایا۔ اشجع الناس اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔

(مسلم (44) کتاب الفضائل باب 11)

آپؐ کا عفو ایسا کہ جانی دشمنوں اور قاتلانہ حملہ کرنے والوں کو بھی معاف کردیا۔

(بخاری (67) کتاب المغازی باب 26)

الغرض رسول کریم ﷺجامع اخلاق فاضلہ تھے۔ آپؐ صفات الٰہیہ کے مظہر اتم تھے۔ آپؐ خلق عظیم پر فائز تھے اور بنی نوع انسان کے لئے ایک خوبصورت اور کامل نمونہ تھے۔ ایسانمونہ جس کی پیروی کی برکت سے آج بھی خدا مل سکتا ہے اور آج بھی وہ ہمارا خالق و مالک یہ پاکیزہ اخلاق نبوی ؐاپنے بندوں میں دیکھ کر ان سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔سچ ہے۔

محمدؐ ہی نام اور محمدؐ ہی کام
عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَام

(مرسلہ: حافظ مظفر احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اکتوبر 2020