• 26 اپریل, 2024

آنحضرت ﷺ مشاہیر عالم کی نظر میں

سید ولد آدم سیدالانبیاء والا صفیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس کائنات کی علت غائی ہیں۔ آپؐ کے مقدس وجود سے ہی یہ عالمِ رنگ و بو منصۂ شہود پر آیا ۔ آپؐ رحمۃ اللعالمین ہیں ۔آپؐ امنِ عالم کے داعی ہیں۔ آپؐ ہی سلامتی کے شہزادہ ہیں۔ آپؐ کا وجود مجسّم شفقت و محبّت ہے۔آپؐ رواداری اور آزادیٔ ضمیر کے عظیم علمبردار ہیں ۔ عرشِ معلیّٰ پر خدائے ذوالجلال اور ملائکہ آپؐ کے لئے مَدح سرا ہیں ۔قرآن کریم نے آپؐ کی عظمت کو یوں بیان فرمایا ۔

اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْم (القلم : 5)

آپؐ خلق عظیم پر فائز تھے ۔تمام اعلیٰ صفات اور کمالات آپؐ کے مطہّر اور مقدّس وجود میں پائے جاتے ہیں۔ آپؐ مکارم ِاخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوئے ۔آپؐ کے اخلاقِ فاضلہ، قوّتِ قدسیہ اور شفقت و محبت کے بےپناہ جذبہ نے ایک انقلابِ حقیقی برپا کردیا ۔صدیوں کے بگڑے ہوئے مصلح اعظم کی پاکیزہ تعلیم کے باعث جہالت اور تاریکی سے نکل کر علم و معرفت کے نور سے منور ہو گئے ۔عاشق تو عشق کا اظہار کیا ہی کرتے ہیں۔ یہاں پر بعض شہادات اس نوع کی پیش کی جاتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام مخالفوں اور دشمنوں اور غیر اقوام کی نگاہ میں کیا تھا ۔

واللّٰہ درّ القائل: ؎
حسینانِ عالم ہوئے شرمگیں
جو دیکھا وہ حُسن اور وہ نورِ جبیں
پھر اس پہ وہ اخلاقِ اکمل تریں
کہ دشمن بھی کہنے لگے آفریں
زہے خُلقِ کامل زہے حُسن تام
عَلَیْکَ الصَّلوٰۃُ عَلَیْکَ السَّلَام

اب چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔

مسٹر موتی لال ماتھر ایم اے کانپور نے اپنے ایک محقّقانہ مضمون میں بڑی حیرت و استعجاب کے رنگ میں یہ اظہار کیا۔’’ پیغمبر اسلام نے توحید کی ایسی تعلیم دی ۔جس سے ہر قسم کے توہمات کی جڑیں کھوکھلی ہو گئیں اور ہر قسم کے باطل عقائد کی بنیادیں ہل گئیں اور خدا کے سوا ہر قسم کا خوف دِلوں سے نکل گیا ………دوسری چیز مسلمانوں میں اتحاد و اخوّت کا پیدا کرنا تھا۔‘‘

پھر قرآن وحدیث سے اخوّت کی تعلیم کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔

’’یہ تھی وہ تعلیم اخوّت جس نے مٹھی بھر مسلمانوں کے اندر وہ لازوال اور ناقابلِ شکست طاقت پیدا کر دی تھی کہ انہوں نے چند دنوں کے اندر نصف دنیا کو فتح کر ڈالاحقیقت یہ ہے کہ کسی مذہب نے باہمی اخوّت و محبت کی ایسی تعلیم نہیں دی ‘‘

(گزیدہ رسول ص 86 ۔ 87 ،92 بحوالہ رسالہ مولوی دہلی)

آزاد خیال کاؤنٹ ٹالسٹائی جو انقلاب روس کا بانیٔ اول سمجھا جاتا ہے ۔ جس کے مضامین مہذب دنیا میں خاص عزت و توقیر کی نظر سے پڑھے جاتے ہیں۔ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے ۔

’’حضرت محمد (ﷺ) نے قبائل عرب میں وحدانیت کا پاکیزہ تخم بو یا ۔ان کے افکار کو روشن اور بصیرت کو منور فرما کر یکتا و برتر خدا کی معرفت کا سبق پڑھایا تو ان کے تمام بُرے اخلاق خوبیوں سے بدل گئے۔ ان کے طبائع نرم ،قلوب گداز اور عادات اصلاح پذیر ہوگئیں ……… حضرت محمدؐ نے عربوں کو تمام امور نا مشروعہ سے روکا اور خدا کی عبادت کی پاکیزہ تعلیم دی۔ اخوّت، ہمدردی اور مساوات کے سبق سے ان کے دلوں کو لبریز کر دیا اور انتقام کو حرام اور خونریزی کو ممنوع قراردیا۔ حضرت محمد ؐ کی مذکورہ بالا تعلیم اس امر کی مظہر ہے کہ آپ دنیا میں ایک مصلح عظیم بن کر آئے تھے اور آپ میں ایک ایسی برگزیدہ قوّت پائی جاتی تھی جو قوت بشری سے بہت زیادہ ارفع واعلیٰ تھی۔‘‘

(برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول ص 30 ۔31 بحوالہ اسوۃ النبیؐ)

جارج سیل لکھتا ہے ۔
’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کامل طور پر فطری قابلیتوں سے آراستہ تھے ۔شکل میں نہایت ہی خوبصورت، فہیم اور دُوررس عقل والے پسندیدہ و خوش اطوار، غرباء پرور، ہر ایک سے متواضع، دشمنوں کے مقابلہ میں صاحب استقلال و شجاعت، سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا تعالیٰ کا نام نہایت ادب و احترام سے لینے والے، جھوٹی قسمیں کھانے والوں، زانیوں، سفاکوں (خونیوں) جھوٹی تہمت لگانے والوں، فضول خرچی کرنے والوں، لالچیوں اور جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف نہایت سخت، بُردباری و صبوری، صدقہ وخیرات، رحم وکرم، شکرگزاری، والدین اور بزرگوں کی تعظیم کی نہایت تاکید کرنے والے اور خدا کی حمدوثنا میں نہایت کثرت سے مشغول رہنے والے تھے‘‘

(انگریزی ترجمہ قرآن جارج سیل بحوالہ محمد رسول اللہ (ﷺ) ص28)

مسزاینی بیسنٹ نے بڑی جرأت و صداقت سے مدراس کی ینگ مین کریسنٹ سوسائٹی کے اجلاس میں بیان کیا۔
’’…… یہ وہ انسان تھا جس نے پرلے درجے کے وحشی انسانوں کو بدترین زندگی سے نکال کر صداقت شعار انسان بنادیا ……غیر معمولی حِلم،فیّاضی اور تحمل و بردباری حضرت محمد (ﷺ) کے خصائلِ عالیہ کے چند درخشاں پہلو ہیں ۔آپ کی شرافت اور حلیمی ہی آپ کی اصل طاقت تھی ۔‘‘

(بر گزیدہ رسول ص 45 ۔46)

ہیروز اینڈ ہیروز شپ میں مسٹر کارلائل لکھتے ہیں۔
’’بانیٔ اسلام کے ناقابل انکار فضائل کا انکار انصاف کا خون کرنا ہے اور حق پسندی کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکا لگانا ہے۔ ہمارے خیال میں سرورِکائنات (ﷺ) کا وجودجن کا مرتبہ انسانی عظمت کی بلندیوں سے کہیں ارفع ہے ۔دنیا کی با عظمت ہستیوں میں فضائل و صفات کے لحاظ سےبےمثال ہے۔ آپ کی ذات خلوص و صداقت اور سچے اعتقادات کا خزانہ ہے ۔آپ کا ہر فعل تصنّع اور تکلّف سے مبرّا اور حقیقت پر مبنی ہے۔ آپ کا کلام وحی آسمانی تھا ۔ایسی مقدّس ہستی کا وجود خالقِ کائنات کے وجود کی ایک زبردست اور روشن دلیل ہے۔آپ کا دماغ علم و معرفت کا خزانہ اور حکمت و فضیلت کی کان ہے………آپ کی مقدّس سیرت کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ بچپن ہی سے راستباز اور امین تھے ۔ آغازِ شباب سے آخر جوانی تک پاکبازی، زُہد و تقویٰ و عفاف کا ایسا نمونہ پیش فرمایا جس کی مثال مقدس تاریخ پیش نہیں کرسکتی ۔‘‘

(محمد رسول اللہ ﷺص 50)

مسٹر اے آر وادیہ بار ایٹ لاء پروفیسر مہاراج کالج میسور آنحضرت ؐ کی عظمت کا اقرار یوں کرتے ہیں ۔
حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) بلا شبہ نسلِ انسانی میں سے عظیم الشان انسان تھے ……وہ عرب جو کسی زمانہ میں متخاصم اقوام میں منقسم تھے۔ آپ کی بعثت نے انہیں متحد کردیا ۔آپ نے ان میں اپنے حقوق کی نگہداشت اور مخالفین تک دعوتِ حق پہنچانے کی رُوح پیدا کردی ……وہ عرب جس میں طبقۂ نسواں کی زندگیوں کی کوئی قدر و منزلت نہ تھی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انہیں عزّت اور خودداری کا ایک چارٹر مرحمت فرمایا اور اس عطیۂ الہٰی سے فرقہ ذکور و صنفِ نازک اور بےکس غلاموں تک سب کے سب مستفیض ہوئے ……جس مذہب کی حضرت رسالت مآب ؐ کے وقت نشر و اشاعت ہوئی وہ ایک دلکش اور دلربا مذہب تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اکھڑ و وحوش عرب، دنیا کی تہذیب کے علمبردار ہوگئے۔‘‘

(برگزیدہ رسول صفحہ50 ۔51)

’’نہ صرف بنی نو ع انسان تک آپؐ کی شفقت اور محبّت محدود تھی بلکہ عالمِ حیوانات تک اس محبت اور شفقت کا ذخیرہ وسیع تھا ۔اگر ہم یہ کہیں کہ آپ خلوص و محبت کا سرچشمہ تھے تو بے جا نہ ہوگا ۔‘‘

(برگزیدہ رسول صفحہ 54 ۔55)

رسالہ ایمپائر ریویو کے ایک غیر مسلم مضمون نویس نے لکھا۔
’’پیغمبر عرب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان ہے ہر مسلم مرد اور ہر مسلم عورت کو مناسب طور پر تعلیم حاصل کرنی چاہئے۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )ایک لحاظ سے دوسری قوموں کے پیشواؤں سے بڑھ گئے ہیں کہ آپ نے مسلم عورتوں کو دوسرے حقوق کے ساتھ شرعی حقوق بھی دیئے ہیں جن سے دوسری مشرقی اقوام کی عورتیں اب تک محروم ہیں اور مغربی ممالک کی عورتیں اب سے نصف صدی پیشتر محروم تھیں۔

(برگزیدہ رسول ص 60 بحوالہ اخبار تازیانہ 29۔11۔21 )

ڈاکٹر لیبان نے اپنی تصنیف ’’محمد اور اسلام‘‘ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انکساری، رحمدلی، دُور اندیشی اور صائب الرائے ہونے کے بارہ میں تحریر کیا۔

’’حضرت محمد ؐ کو اپنے نفس پر بے انتہا حکومت تھی آپ کی سادگی اور منکسرالمزاجی قابل تعریف ہے۔ آپ بے انتہا صائب الرائے تھے۔ دُوراندیشی آپ میں بہت زیادہ تھی۔ آپ نے وحشی اقوام کی زبردست اصلاح کی۔‘‘

وہ مزید لکھتے ہیں۔
’’ہمارے طبقہ کے سربرآوردہ شخص اور مستند مؤرخ موسیو بارتھیلی سینٹ ہیلرنہایت تحقیقات کے بعد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نسبت لکھ رہے ہیں کہ وہ حد درجہ با خدا ،رحم دل اور اعلیٰ اخلاق رکھنے والے پیغمبر تھے۔ ہائنگر نے ایک لمبی چوڑی فہرست محمد ؐ کے اقوال کی شائع کی ہے ۔بلا طرفداری اسلام یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان مقولوں سے بہتر کوئی دستورالعمل انسان کو عملاً نیکی کی طرف راغب کرنے اور بدی سے محترز رکھنے کے لئے رہنما نہیں ہو سکتا۔‘‘

(برگزیدہ رسول ص85)

ایس پی سکاٹ آپ ؐ کے اوصافِ کریمانہ کے بارے میں لکھتا ہے۔
’’آپ میں متانت تھی مگر اخلاق شریف ایسے تھے کہ ہر شخص آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ گفتگو میں شیرینی ہوتی تھی۔ جہاں آپ تشریف رکھتے تھے وہاں سب پر چھائے ہوئے معلوم ہوتے تھے ……… حضورکی عاداتِ کریمہ اس سے ظاہر ہوتی ہیں کہ آپ کو بچوں سے بہت محبت تھی۔ قرآن مجید میں جانوروں پر بے رحمی کرنے کی جتنی مخالفتیں آئی ہیں ۔ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں جذبات ِ رحم کتنے تھے ………آپ کی دوستی نہایت محکم تھی۔ جس سے ابتداء عمر میں دوستی ہوئی اس کو انتقال کے وقت تک نبھا دیا جو لوگ حضور کے گرویدہ اور حاشیہ نشین تھے بلاامتیاز اس کے کہ وہ آپ کے برابر تھے یا کمتر حضور کا برتاؤ سب کے ساتھ یکساں اور شفیقا نہ تھا۔

حضور کو اپنی ذات والا پر وہ اختیار حاصل تھا اور اپنے جذبات کو حضور اس طرح قابو میں رکھتے تھے کہ سوائے جنگ کے آپ نے کبھی اپنے دشمن پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ کسی خدمتگار کو نہیں دھمکایا ،کسی غلام کو سزا نہیں دی ۔

(برگزیدہ رسول حصہ سوم صفحہ 40 ۔41)

سادھو ٹی ایل وسوانی رقمطراز ہیں۔
’’میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کو رنش بجا لاتا ہوں۔ وہ دنیا کی ایک عظیم الشان ہستی ہیں ۔ وہ ایک قوت تھی جو انسان کی بہتری کے لئے صرف ہوئی۔ ایّام سلف کی داستان کا مطالعہ کرو تاکہ تمہیں اس کی شوکت و سطوت کا پتہ چلے ……… وہ امن اور راستی کی تلقین کرتے رہے۔‘‘

(محمد رسول اللہ غیر وں کی نظر میں صفحہ 44 ۔45 مصنّفہ مولانا محمد حنیف یزدانی)

انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے محقّقین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے سامنے یوں سر تسلیم خم کیا۔
’’ آپ اگرچہ اُمّی سے لیکن عملی ذہانت کا وافر حصہ آپ حاصل کرچکے تھے ۔ آپ کا مذہب حقیقتاً دینِ ابراہیم کا احیاء تھا۔ قانون ساز، ماہر ِحرب، منتظم اور جج آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو تھے، اس خوفناک قبائلی تعصّب کا خاتمہ کرنا جس کی بنا پر ایک خون، طویل جنگ کا باعث بن جاتا تھا ۔عورتوں کو ان کے حقوق خاص کر وراثت کا حصہ دلانا اور دختر کشی کا خاتمہ آپ کی عظیم اصلاحات ہیں ۔‘‘

(بحوالہ محمد رسول اللہ ص 49)

مشہور صحافی سردار دیوان سنگھ مفتون نےاس بارہ میں لکھا ہے کہ۔
’’ حدیث اَفْضَلُ الْجِہَاد ِکَلِمَۃُ الْحَقِّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ سن کر دیوان سنگھ مفتون کہتا ہے کہ ان ہونٹوں کی قدروقیمت کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا جن سے یہ الفاظ نکلے‘‘

(محمد رسول اللہ ص 51)

یہ ہے وہ اعلیٰ و ارفع وجود جس کے لئے اس کائنات کی تخلیق ہوئی اور جو ساری دنیا کے لئے اسوۂ حسنہ ہے جن کی غلامی اور خاکِ پا ہونے کی سعادت انسان کے لئے باعثِ فخر وسعادت ہے۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّی عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ بِعَدَدِ کُلِّ ذَرَّۃٍ فِیْ السَّمَاءِ وَ الْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا بَلْ اَکْثَرَ مِنْہُ۔

٭…٭…٭

(حافظ فرید احمد خالد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اکتوبر 2020