• 18 اپریل, 2024

صحابہ حضرت مسىح موعود ؑ کے قائم کردہ اطاعت کے نمونے

حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز فرماتے ہىں:
حضرت مفتى فضل الرحمن صاحب فرماتے ہىں کہ حضور علىہ السلام گورداسپور مقدمے کى تارىخوں پر تشرىف لے جاتے تھے تو مجھ کو ضرور اردل مىں رکھا کرتے تھے، اُس زمانے مىں ىکّے ہوتے تھے۔ جب آپ صبح کو روانگى کے لئے تشرىف لاتے تو فرماتے، مىاں فضل الرحمن کہاں ہىں؟ اگر مَىں حاضر ہوتا تو بولتا ورنہ آدمى بھىج کر مجھے گھر سے طلب فرماتے کہ جلدى آؤ۔ حضور کا ىکّہ ہمىشہ مَىں ہى چلاتا۔ ىکّہ بان کو حکم نہ تھا کہ چلائے۔ مَىں ىکّہ بان کى جگہ بىٹھ جاتا اور مىاں شادى خان صاحب مرحوم مىرے آگے ساتھ بىٹھ جاتے اور ىکّہ کے اندر اکىلے حضور ہى تشرىف رکھتے۔ مقدمے کے دوران جب ىہ سفر ہوا کرتا تھا اس دوران مىں مىرا دوسرا بچہ بىمار ہو گىا اور اُس کو ٹائىفائىڈ ہو گىا۔ حضور اکثر اُس کو دىکھنے کے لئے تشرىف لاتے تھے۔ تارىخ مقدمہ سے اىک دن قبل مىرى بىوى نے کہا کہ حضور کو دعا کے لئے لکھو۔ مَىں نے کہا جبکہ آپ ہر روز دىکھنے کو تشرىف لاتے ہىں تو لکھنے کى کىا ضرورت ہے؟ مگر اُس نے اصرار کىا تو مَىں نے عرىضہ لکھ دىا، خط لکھ کے ڈال دىا۔ حضرت نے اس پر تحرىر فرماىا کہ مَىں تو دعا کروں گا پر اگر تقدىرِ مبرم ہے تو ٹل نہىں سکتى۔ ىہ الفاظ پڑھ کر مىرے آنسو نکل آئے۔ بىوى نے پوچھا: کىوں؟ مَىں نے کہا اب ىہ بچہ ہمارے پاس نہىں رہ سکتا۔ اگر اس نے اچھا ہونا ہوتا تو آپ ىہ نہ لکھتے۔ خىر دوسرے دن صبح کو روانگى تھى، سب لوگ چوک مىں کھڑے تھے منتظر تھے کہ حضور برآمد ہوئے اور کسى سے کوئى بات چىت نہىں کى اور سىدھے مىرے گھر تشرىف لے آئے۔ بچے کو دىکھا، دَم کىا اور مجھے فرماىا کہ آج تم ىہىں رہو۔ مَىں کل آ جاؤں گا۔ بچے کى حالت تشوىشناک ہے۔ چنانچہ مَىں رہ گىا۔ حضور کے سارے سفروں مىں صرف ىہ اىک دن تھا کہ مَىں معىت مىں نہ جا سکا۔

(رجسٹر رواىات صحابہ غىر مطبوعہ جلد7 صفحہ446-447 رواىات حضرت مفتى فضل الرحمان صاحبؓ)

بچے کا جو افسوس تھا وہ تو ہے لىکن اىک دن نہ جانے کا، سفر مىں معىت نہ ہونے کا بھى بڑا واضح افسوس نظر آتا ہے۔

حضرت حافظ عبدالعلى صاحب ولد مولوى نظام الدىن صاحب فرماتے ہىں کہ ’’زبانى حضرت مىر محمد اسمٰعىل رىٹائرڈ (جو اُس وقت طالبعلم تھے) سول سرجن معلوم ہوا کہ آپ جب لاہور مىڈىکل کالج مىں پڑھنے تشرىف لائے تو حضرت مسىح موعود علىہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرماىا کہ آپ لاہور مىں مکان مىں اکىلے نہ رہىں بلکہ اپنے ساتھ کسى کو ضرور رکھىں۔ اس ارشاد کے ماتحت حضرت مىر صاحب اکىلے کبھى کسى شہر مىں (جہاں تک مىں دىکھتا رہا) نہ رہے، اُس وقت بورڈنگ مىڈىکل کالج کوئى نہ تھا۔ مىر صاحب کراىہ کا مکان لے کر رہتے تھے‘‘۔

(رجسٹر رواىات صحابہ غىر مطبوعہ جلد7 صفحہ217 رواىات حضرت حافظ عبد العلى صاحبؓ)

اور پھر صرف اىک دفعہ حکم نہىں سمجھا بلکہ کہتے ہىں زندگى مىں ہمىشہ جب بھى مَىں نے دىکھا، جہاں بھى رہنا پڑا، کسى نہ کسى کو ضرور ساتھ رکھا کرتے تھے۔

حضرت ملک شادى خان صاحبؓ ولد امىر بخش صاحب فرماتے ہىں کہ مَىں اىک دفعہ مىاں جمال دىن صاحب مرحوم کے ساتھ قادىان مىں آىا اور مسجد مبارک مىں جب ہم آئے تو ظہر کا وقت تھا۔ حضرت صاحب نماز کے لئے جو تشرىف لائے تو مىں نے حضرت صاحب سے مصافحہ کىا۔ مىرے کانوں مىں مُرکىاں پڑى ہوئى تھىں (چھوٹے چھوٹے چھلے تھے) تو حضور نے فرماىا کہ ’’ىہ مُرکىاں کىسى ہىں‘‘، مسلمان تو نہىں ڈالتے‘‘۔ مىاں جمال دىن صاحب نے کہا: حضور! دىہاتى لوگ اىسے ہوتے ہىں کىونکہ اىسے مسائل سے کچھ خبر نہىں ہوتى۔ فرماىا ان کو کانوں سے اُتار دو۔ تو مىر ناصر نواب صاحب مرحوم نے بھى کہا کہ جلدى اُتار دو کىونکہ حضرت صاحب نے حکم فرماىا ہے۔ مىں نے اُسى وقت اُتار دىں۔ جب نماز عصر کے وقت نماز پڑھنے کے لئے آىا تو حضور نے فرماىا کہ ’’اب مسلمان معلوم ہوتا ہے‘‘۔ اُس کے بعد مَىں نے بىعت کر لى‘‘ (اُس وقت بىعت نہىں کى تھى)۔

(رجسٹر رواىات صحابہ غىر مطبوعہ جلد7 صفحہ169 رواىات حضرت ملک شادى خاں صاحبؓ)

آجکل بھى بعض لڑکے فىشن مىں بعض اُوٹ پٹانگ چىزىں ڈال لىتے ہىں۔ بعضوں نے گلے مىں سونے کى چىنىں ڈالى ہوتى ہىں۔ ىہ سارى چىزىں منع ہىں۔ سونا پہننا تو وىسے ہى مردوں کے لئے منع ہے۔ ىہاں کے ماحول کا بعض دفعہ اثر ہو جاتا ہے۔ مَىں نے دىکھا ہے بعض احمدى لڑکے بھى اس قسم کے فىشن کر لىتے ہىں۔ جناب والدہ بشىر احمد صاحب بھٹى ولد عبدالرحىم صاحب بھٹى فرماتى ہىں کہ اىک دفعہ حضرت اقدس علىہ السلام نے گھر مىں تھوڑے سے چاول پکوائے (ىعنى پلاؤ) اور حضرت کے حکم سے حضرت امّ المومنىن نے اُن دنوں ىہاں قادىان مىں جتنے احمدى گھر تھے سب گھروں مىں تھوڑے تھوڑے بھىجے۔ وہ چاول برکت کے چاول کہلاتے ہىں اور حضور کا حکم تھا کہ گھر مىں جتنے افراد ہىں اُن سب کو کھلائىں۔ (ىعنى کہ جس جس گھر مىں بھىجے تھے اُن کو کہا کہ ہر گھر والا چاول کھائے) چنانچہ کہتے ہىں۔ بڑے قاضى صاحب نے اپنے بڑے لڑکے بشىر احمد کے والد عبدالرحىم صاحب کو جو ان دنوں جمّوں مىں ملازم تھے لفافے مىں چند دانے کاغذ کے ساتھ چپکا کر بھىج دئىے۔ اب گھر کے افراد کے لئے حکم تھاکہ اُن کو ىہ چاول کھلاؤ اور اس حکم کى اتنى حد تک تعمىل کى کہ کىونکہ مىرا بىٹا ہے اور وہ وہاں موجودنہىں تھا تو اُس کو اىک لفافے مىں کاغذ کے ساتھ چپکا کر بھىج دئىے اور خط مىں لکھ دىا کہ اتنا کونہ جس مىں چاول چپکائے ہوئے ہىں، کھا لىنا۔

(رجسٹر رواىات صحابہ غىر مطبوعہ جلد7 صفحہ350 رواىات جناب والدہ بشىر احمد صاحب بھٹى)

ىہ تھى اطاعت اور محبت۔

(خطبہ جمعہ 25؍مئى 2012ء بحوالہ الاسلام وىب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

دعائے نعم البدل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اکتوبر 2021