ایڈیٹر کے قلم سے
ربوہ، ربوہ ای اے
نوٹ از اىڈىٹر:۔ تىن سال قبل خاکسار کى اىک تحرىر پىارے حضور کى نظروں سے گزرى جس مىں حضور کا بھى کچھ ذکر تھا۔ دو روز بعد اىک نجى ملاقات مىں حضور نے جہاں نفس مضمون پر خوشنودى کا اظہار فرماىا وہاں مجھے مخاطب ہو کر فرماىا کہ ’’مىرے متعلق کچھ لکھىں تو دکھلا لىا کرىں‘‘
اس ہداىت کے پىش نظر خاکسار نے اپنى اىک تازہ تحرىر ’’ربوہ، ربوہ اى اے‘‘ بغرض ملاحظہ، دعا اور الفضل مىں اشاعت کى اجازت کے لئے حضور کى خدمت مىں بھجوائى (تحرىر کا پس منظر مضمون کى ابتداء مىں درج ہے) تو حضور نے بعد ملاحظہ خاکسار کو تحرىر فرماىا۔ کہ
’’آپ نے مىرى ہداىت‘‘ پھر کىا کھائىں۔ اعتدال ضرورى ہے ’’اور ربوہ کى تارىخ پر جو مضامىن لکھ کر بھجوائے ہىں وہ مل گئے ہىں۔ ماشاء اللہ آپ نے ان پر بڑى محنت کى ہے اور دونوں کے نفس مضمون کو بىان کرنے کے لئے اىک اچھى کوشش کى ہے۔ اللہ قبول فرمائے۔ اگر آپ ان مضامىن کو الفضل مىں شائع کرنا چاہتے ہىں تو کر لىں۔ اللہ تعالى توفىق دے اور آپ کے علم و عرفان مىں مزىد برکتىں ڈالے۔ آمىن‘‘
قارئىن کرام! حضور کى اس اجازت پر ربوہ کى ىاداشتوں پر مشتمل ىہ مائدہ اىک ہى قسط مىں ىکجائى طور پر دعا کى درخواست کے ساتھ حوالہ قارئىن کىاجا رہاہے۔ اللہ قبول فرمائے۔
حضور کے خط مىں بىان دوسرى تحرىر مورخہ 16 اکتوبر کو حوالہ قارئىن کى جا چکى ہے۔
مؤرخہ 30اگست 2021ء کو خاکسار اور خاکسار کى اہلىہ محترمہ کى حضرت اقدس خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز کے ساتھ اىک نجى ملاقات مىں ربوہ کى ىاد اور گلى کوچوں کے تذکرہ کى بات چل نکلى تو پىارے حضور نے جذباتى انداز مىں فرماىا۔
‘‘ لوگ کہتے ہىں کہ لاہور، لاہور اے۔ پر ربوہ،ربوہ اى اے’’
پىارے امام کى زبان مبارک سے اردو اور پنجابى مىں ملے جُلے فقرے بالخصوص ’’ربوہ، ربوہ اى اے‘‘ سُن کر ہم دونوں بہت محظوظ ہوئے۔ ملاقات ابھى جارى تھى کہ مىرے ذہن مىں مرحوم و مغفور آقا حضرت خلىفۃ المسىح الرابع رحمہ اللہ تعالىٰ کے درج ذىل دو اشعار گروشکرنے لگے جس سے خلىفۃ المسىح کى ربوہ سے اداسى عىاں ہے۔
؎ پىغام آرہے ہىں کہ مسکن اُداس ہے
طائر کے بعد اُس کا نشىمن اُداس ہے
؎ اک باغباں کى ىاد مىں سرو و سمن اُداس ہے
اہلِ چمن فسردہ ہىں گلش اُداس ہے
اور ساتھ ہى اىک ہفتہ قبل جرمنى کے خدام سے ورچوئىل ملاقات کى طرف دھىان چلا گىا۔ جس مىں اىک نوجوان نے حضور پُر نور سے سوال کىا تھاکہ حضور! اگر آپ کو اللہ تعالىٰ واپس ربوہ جانے کا موقع دے تو آپ سب سے پہلے کہاں جانا پسند کرىں گے تو حضور انور نے چند لمحات توقف فرماىا اور مسکراتے ہوئے خوش بخت نو جوان سے مخاطب ہو کر فرماىا کہ
’’موقع فراہم کرا دو پھر مىں تمہىں ساتھ لے جاؤں گا پھر خود ہى دىکھ لىنا جا کے۔ ظاہر ہے کہ پہلے انسان جب ربوہ جاتا ہے تو جو بزرگ ہىں جن کو ہم چھوڑ کر آئے جو وہىں رہے جنہوں نے ربوہ آباد کىا۔ ان کى ىادىں ہى ربوہ سے وابستہ ہىں۔ تو عموماً ىہى ہوتا ہے کہ انسان سب سے پہلے ان بزرگوں کے مزاروں پر حاضرى دے کر ان کے لئے دُعا کرتا ہے اور پھر پُورے شہر کے لئے دُعا کرتا ہے اور پھر اپنے کاموں مىں مصروف ہو جاتا ہے۔ جس طرح ہم قادىان جاتے ہىں تو حضرت مسىح موعود علىہ السلام کے مزار پر جاتے ہىں سب سے پہلے۔ کوشش بھى ىہى ہوتى ہے۔ مکہ مدىنہ جائىں،مدىنہ جائىں تو سب سے پہلے روضہ مبارک پر جاتے ہىں تو ىہاں بھى جو بزرگ دفن ہىں جنہوں نے ربوہ کو آباد کىا اور ربوہ کو سىنچا،ربوہ کو بناىا۔ سو ان کى ىادىں وابستہ ہىں تو پرانے بزرگوں کى ىادىں تازہ کرنے کے لئے عموماً تو ىہى ہوتا ہے کہ ان کے وہاں جاىا جائے دُعا کرنے کے لئے۔‘‘
اس طرح کى بے شمار وڈىوز اور آڈىوذ سوشل مىڈىا پر موجود ہىں جن مىں بچوں اور بچىوں، ناصرات، اطفال اور خدام نے حضرت خلىفۃ المسىح الرابع رحمہ اللہ اور اب حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ سے ربوہ کے حوالہ سے سوالات کر کے خلفاء کى ربوہ مىں بىتے دنوں کى ىادوں کا پوچھ کر جذبات کى تاروں کو حرکت دى ہے۔ اور بڑى اىمان افروز، روح پرور ىادىں تارىخِ احمدىت کا حصہ بنى ہىں۔
کسى قوم اور خاص طور پر جماعت کى مضبوطى کے لئے مرکز کا ہونا بہت ضرورى اور اہم ہوتا ہے۔ اور دنىا کى تارىخ نے ىہ محفوظ کىا ہے کہ جن قوموں اور جماعتوں کے مراکز تھے اور انہوں نے ان کى عزت و تکرىم کا خىال رکھا۔ ان کى حفاظت کرتے رہے۔ وہى قومىں فلاح پا گئىں۔ وہى طاقتور ہوئىں۔ انہوں نے اپنى طاقت کا لوہا دوسرى قوموں سے منواىا اور زىادہ دىر تک زندہ رہ کر اپنے نام تا ابد محفوظ کروا گئىں۔
اسلامى تارىخ کو دىکھىں تو مکہ معظمہ اور مدىنہ منورہ کے بعد اس زمانہ کے موعود مسىح و مہدى حضرت مرزا غلام احمد قادىانى علىہ السلام کے ذرىعہ مشرقى دنىا مىں قادىان دارالامان کے نام سے تىسرا مرکز بنا۔جس کى عزت و توقىر جماعت احمدىہ کے ہر فرد نے نہ صرف خود کى بلکہ اوروں سے بھى کروائى۔ پھر اللہ تعالىٰ نے مامور زمانہ کى پىشگوئى کى بابت حضرت مصلح موعودؓ (حضرت صاحبزادہ مرزا بشىر الدىن محمود احمدؓ) کى باون علامات مىں سے اىک علامت ’’تىن کو چار کرنے والا ہوگا‘‘ کو پورا کرتے ہوئے مکہ، مدىنہ اور قادىان کے بعد اسلام احمدىت کے چوتھے مرکز ’’ربوہ دارالہجرت‘‘ کى بنىاد رکھى۔ جس کا تفصىل سے ذکر کرنا آج مىرے قلم کا مقصد ہے۔ اللہ تعالىٰ اس کى مجھے توفىق فرمائے۔ قَالَ رَبِّ اشۡرَحۡ لِىۡ صَدۡرِىۡ ﴿ۙ۲۶﴾ وَ ىَسِّرۡ لِىۡۤ اَمۡرِىۡ ﴿ۙ۲۷﴾ وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِىۡ ﴿ۙ۲۸﴾ ىَفۡقَہُوۡا قَوۡلِىۡ ﴿۪۲۹﴾۔۔۔۔ کَىۡ نُسَبِّحَکَ کَثِىۡرًا ﴿ۙ۳۴﴾
سرزمىن ربوہ کى ہزاروں سال قبل کى حىثىت وکىفىت
ربوہ نام کى وجہ تسمىہ، زمىن کى تلاش، تعمىر اور موجودہ صورتِ حال بىان کرنے سے قبل پُرانے وقتوں مىں اس زمىن کى دنىوى حىثىت بىان کرنى ضرورى معلوم ہوتى ہے۔
محترم مولانا دوست محمد شاہد مورّخ احمدىت نے اىک مضمون بعنوان ’’سر زمىن ربوہ اور اس کے ماحول کا تارىخى اور روحانى پس منظر‘‘ مىں بہت دلچسپ اور اىمان و عرفان سے بھرى تحقىق رقم فرمائى ہے۔ جس کا ملخص پىش ہے۔
جھنگ کے مشہور وقائع نگار جناب بلال زبىرى کے مطابق ہندو دَور مىں چنىوٹ کے دوسرے کنارے کو اپنى تمدنى اور مذہبى سرگرمىوں کى آماجگاہ بناىا۔ ىہاں سے سنسکرت کے قلمى نسخے بھى ملے۔ 1956ء مىں ربوہ مىں ڈوىژنل صحافىوں کا اجلاس ہوا تھا اور جماعت احمدىہ کے دوسرے خلىفہ (حضرت) مىاں بشىر الدىن محمود بھى شامل تھے۔ لائل پور (آجکل فىصل آباد) کے اىک صحافى اىم اىم شىدا نے اىک مقالہ پڑھا تھا۔ جس مىں انہوں نے مختلف کتابوں کے حوالے سے بتاىا تھا کہ ربوہ کے مقام پر سکندرِ اعظم کے حملے سے پہلے سنسکرت ىونىورسٹى تھى۔
قدىم مسلم تارىخ مىں دو رواىات کا تذکرہ
اىک رواىت کے مطابق جرنىل محمد بن قاسم کا ىہاں سے گزر ہوا اور دوسرى رواىت کے مطابق سلطان محمود غزنوى کى مقامى ہندو راجہ سے خونرىز جنگ ہوئى تھى اور آج ان شہىدوں کى تدفىن کا ذکر ان پہاڑى سلسلوں کے ساتھ ملتا ہے۔ (ہم جب چھوٹے تھے تو ہمارے بزرگ بھى ان شہىدوں کى قبروں کا ذکر کىا کرتے تھے جہاں آج کل جماعت احمدىہ کا عام قبرستان ہے اس کے اوپر پہاڑى کى طرف شمالى جانب قبروں کا سلسلہ آج بھى ملتا ہے۔ جہاں پتھر کھڑے کر کے قبروں کے نشان بنائے گئے تھے جو آج بھى وہىں موجود ہىں، اس کو کسى زمانے مىں شاہى قبرستان بھى کہا جاتا تھا۔ ناقل مضمون نگار)
اولىاء اور بزرگوں کا سلسلہ سر زمىن ربوہ کے ماحول مىں
محترم مولانا دوست محمد شاہد، بلال زبىرى ہى کى کتاب تارىخ جھنگ کا حوالہ دے کر مزىد لکھتے ہىں کہ ازاں بعد ىہ علاقہ شىر شاہ سورى اور اکبر جىسے بادشاہوں کے زىرِ نگىن رہا اور اس سنہرى دور مىں سر زمىن ربوہ سے متصل حضرت شاہ بو على قلندر (1206ء۔1324ء) محو عبادت رہ کر چلہ کشى کرتے رہے اور آج بھى ان کا حجرہ مرجع خاص و عام ہے۔
اس کے علاوہ ضلع جھنگ کا علاقہ بے شمار صوفىاء و اولىاء اور اہلِ اللہ کے مزاروں سے بھرا پڑا ہے۔ جىسے حضرت مولوى محمد صدىق لالىؒ (آف لالىاں)، حضرت شاہ محمد بہلولؒ (شىخ بہلول)، حضرت شاہ عبدالقادر جىلانى ثانىؒ (پىر کوٹ سدھانہ)، حضرت غازى پىرؒ (شورکوٹ)، حضرت سلطان باہو، سلطان العارفىن، ندوۃ السالکىن (شور کوٹ) اجل قسم کے اہلِ اللہ شامل ہىں۔
ربوہ کى نسبت تىن حىرت انگىز آسمانى خبرىں
1۔ حضرت مصلح موعود ؓ اور بعض محبوب بندوں کو قىام ربوہ کے بارے مىں خبرىں دى گئىں جن کا خلاصہ ىہ ہے کہ قادىان پر دشمن حملہ آور ہو گا۔ قادىان سے جالندھر تک خوفناک تباہى آئے گى اور لوگ نىلے گنبد ىعنى آسمان تلے پناہ لىں گے۔ مسجد مبارک محفوظ رہے گى اور حضرت امام جماعت احمدىہ پہاڑوں کے دامن مىں واقع اىک مىدان مىں نىا مرکز تعمىر کرىں گے۔ ىہ واقعہ پسرِ موعود سے متعلق انکشاف (1944ء) کے 5سال بعد ہو گا۔ اس انقلاب انگىز واقعہ کے بعد خدا کا نور تمام دنىا مىں جائے گا (آج ہم دىکھتے ہىں کہ بذرىعہ اىم ٹى اے نور پھىل رہا ہے)۔
2۔ داتہ ضلع ہزارہ کے اىک بزرگ سىد مىر گل شاہ صاحب نے حضرت مسىح موعود علىہ السلام کى خدمت اقدس مىں بذرىعہ مکتوب ىہ اطلاع دى کہ
’’آج ىکم رمضان شرىف کى شب کو مجھے اللہ تعالىٰ نے دکھلاىا۔ اىک نقشہ کاغذ کا ہے جس کى خوبصورتى نہاىت اعلىٰ درجہ کى ہے اور اس نقشہ پر جلى قلم سے قادىان کا نام لکھا ہوا ہے اور اس نقشہ سے اوپر کى طرف اىک اور نقشہ ہے جو کسى اور مقدس شہر کا ہے جس کا نام فدوى کو بھول گىا ہے۔‘‘
(ىہ مکتوب عسل مصفٰى از مرزا خدا بخش مىں شائع شدہ ہے)
3۔ تىسرى آسمانى خبر مکرم ڈاکٹر عبد السلام کے تاىا جان حضرت چوہدرى غلام حسىن کو دى گئى۔ جب آپ نے اللہ تعالىٰ سے تىن کو چار کرنے مىں راز آشکار ہونے کے لئے دعائىں کىں۔ اس پر آپ کو عالمِ رؤىا مىں ىہ حقىقت افروز نظارہ دکھاىا گىا کہ ’’دو پہاڑىاں ہىں جن کے درمىان مىدان ہے اىسا معلوم ہوتا ہے کہ مصلح موعود کا جلسہ ہے اور خوب چہل پہل ہے۔ خدام کام کر رہے ہىں اور دو پہاڑوں کے درمىان اىک سڑک بنا ڈالى ہے۔‘‘ ربوہ اس خواب کى عملى تعبىر ثابت ہوا۔
(الفضل انٹرنىشنل 17 ستمبر 2019ء صفحہ13-15)
قادىان سے ہجرت اور نئے مرکز کا قىام
حضرت مسىح موعود علىہ السلام کے الہام ’’داغِ ہجرت‘‘ کى اىک عملى تعبىر تقسىم برصغىر کے وقت 1947ء مىں دىکھنے کو ملى۔ جب حضرت مصلح موعود ؓ کو جماعت احمدىہ کے دائمى مرکز کو الوداع کہہ کر پاکستان آنا پڑا۔ جہاں کچھ عرصہ لاہور مىں قىام کرنے کے بعد چک ڈھگىاں کے علاقہ پر ربوہ نام سے اىک بستى بسائى۔ اور اىک خط مىں آپؓ نے فرماىا ’’مرکز کے بغىر کوئى جماعت نہىں رہ سکتى۔ پس مىں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ہمىشہ اس بات کو مدنظر رکھىں کہ انہوں نے بے مرکز کبھى نہىں رہنا۔‘‘
(خطبہ جمعہ 15 اپرىل1949ء از خطبات محمود جلد30 صفحہ95)
چک ڈھگىاں
حضرت مصلح موعودؓ نے لاہور پہنچ کر مرکز کے قىام کے لئے اىک کمىٹى مقرر فرمائى جس نے پنجاب مىں مختلف جگہوں کا معائنہ کىا۔ طوىل بحث مباحثہ کے بعد مکرم چوہدرى عزىز احمد باجوہ نے چک ڈھگىاں کے حوالہ سے ىہ رپورٹ پىش کى۔
’’ىہ قطعہ زمىن زراعت کے ناقابل، بالکل کلّر تھوہر ہے جہاں صرف اىک بوٹى ’’لانى‘‘ کے جو اونٹوں کا چارہ ہے اور جو خود زمىن کے ناقابل زراعت ہونے کا ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ اور کسى قسم کى سبزى، درخت وغىرہ کا وہاں نشان تک نہىں۔ بعض سرماىہ داروں نے لمبى مىعاد کے پٹہ پر گورنمنٹ سے ىہ زمىن لے کر اس کو آباد کرنے کى کوشش کى لىکن وہ کامىاب نہ ہو ئے۔‘‘
(تارىخِ احمدىت جلد11 صفحہ286)
بظاہر ىہ رپورٹ ماىوس کن تھى مگر سىدنا حضرت مصلح موعود ؓ نے اس سارے علاقہ کا مؤرخہ 18اکتوبر 1947ء کو بنفسِ نفىس جائزہ فرمانے کے بعد اسے مرکز سلسلہ بنانے کے فىصلہ کا اعلان فرما دىا۔ مکہ کى طرح اس وادى غىر ذى ذرع اور بنجر وادى کو گل و گلزار اور لالہ زار بنانے کے لئے آپ نے سعى فرمائى۔ دعائىں کىں۔ وفادار صحابہ نے آپ کا ساتھ دىا اور اپنے خون و پسىنہ سے اس زمىن کو سىنچا۔ جن مىں حضرت ام المو منىن نصرت جہاں بىگمؓ بھى شامل تھىں۔ اس زمىن کے حوالے سے تارىخ ہمىں بتاتى ہے کہ کروڑ پتى ہندو نے اِسے قابلِ کاشت بنانے کے لئے ہزار ہا روپىہ صرف کىا مگر ناکامى کے سوا کچھ نہ ملا۔ جماعت احمدىہ نے اُس وقت 10روپے فى اىکڑ کے بھاؤ پر ىہ بنجر اور تھوہر زدہ 1034اىکڑ زمىن 12000روپے مىں نئے مرکز کے قىام کے لئے خرىد لى۔ اور ىوں اس بے آب و گىاہ وادى کو مادى اور روحانى ہر دو معنوں مىں سر سبز و شاداب بنانے کا آغاز 1948ء مىں ہوا۔ حضرت خلىفۃ المسىح الثانى ؓ نے جلالى انداز مىں اىک موقع پر فرماىا۔
’’ىہ خدا تعالىٰ کا ہى کام ہے کہ اس نے ہزار ہا سال کے بعد اس زمىن کو جس کے آباد کرنے سے لوگ عاجز آگئے تھے اپنى پاک جماعت کے ذرىعہ آباد کىا۔‘‘
(انوار العلوم جلد21 صفحہ351)
ربوہ کا نام
حضرت مولانا جلال الدىن شمسؓ کى تجوىز پر حضرت مصلح موعود ؓ نے اس جگہ کو ’’ربوہ‘‘ کا نام دىا اور 20ستمبر 1948ء دو شنبہ (پىر) کو آپ نے اس جگہ نماز ظہر با جماعت پڑھائى اور اىک خطاب فرماىا۔ اس خطاب مىں حضرت ابراہىم و حضرت اسماعىل علىہما السلام کى وہ دعائىں جو ان دونوں بزرگ انبىاء نے مکہ کى تعمىر اور خانہ کعبہ کى بنىاد رکھتے ہوئے پڑھى تھىں، بلند آواز سے دہرائىں۔ اور شاملىن نے بھى ساتھ ساتھ دُہراىا۔ ربوہ کے چاروں کونوں اور وسط مىں اىک اىک بکرے کى قربانى دى گئى۔ (تارىخ احمدىت جلد12 صفحہ443) ىہى وہ جگہ ہے جہاں آج کل مسجد ىاد گار ہے جو اب فضلِ عمر ہسپتال کے احاطہ مىں شامل ہوگئى ہے۔ شاىد دنىا مىں مکہ کے علاوہ کوئى بستى اىسى نہ ہو جس کى آباد کارى کے لئے دو انبىاء کى مقبول دعائىں پڑھى گئى ہوں اور شاىد کوئى اىسى بستى دنىا مىں نہ ہو جس کى آباد کارى کے لئے چاروں اطراف بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے ہوں۔ اور پىشگوئى مصلح موعود ؓ کے الفاظ ’’دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ‘‘ اىک دفعہ پھر پورے ہوئے۔
مىں آج کے ربوہ کا موازنہ آگے چل کر کروں گا۔ لىکن تعمىر ربوہ مىں جن دشوارىوں کا سامنا جماعت کو کرنا پڑا۔ اس وقت زمىن کى کىا کىفىت تھى۔ اور کن مشکلات سے گزر کر اللہ تعالىٰ نے حضرت مصلح موعودؓ، بزرگ کبار صحابہ، بزرگان سلسلہ اور احبابِ جماعت کى دُعاؤں سے بھاگ لگائے۔ اور نعماء سے اس زمىن کو بھر دىا۔ جس مىں مىٹھے پانى کى دستىابى شامل ہے۔ اس بنجر زمىن پر اگر پانى نکلا تو وہ کھارا اور کڑوا پانى تھا۔ 10,9نلکے لگ چکے تھے مگر مىٹھا پانى ندارد۔ حضور ؓ نے درىا کے قرىب بھى بور کرواىا۔ کسى حد تک مىٹھا پانى دستىاب ہوا۔ مگر جلسہ سالانہ 1949ء کے اختتام پر حضورؓ کو اىک الہام کے ذرىعہ جگہ بتلائى گئى بلکہ الہام کے الفاظ ’’پاؤں کے نىچے سے مىرے پانى بہا دىا‘‘۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کى تعبىر حضرت اسماعىل علىہ السلام کے پاؤں رگڑنے اور زمزم کے پھوٹنے سے فرمائى اور فرماىا ’’پاؤں کے نىچے‘‘ سے مراد ىہ ہے کہ خدا تعالىٰ نے مجھے اسماعىل قرار دىا ہے جس طرح وہاں اسماعىل علىہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے پانى بہہ نکلا تھا اُسى طرح ىہاں خدا تعالىٰ مىرى دُعاؤں کى وجہ سے پانى بہا دے گا۔‘‘
(خطبہ جمعہ 22اپرىل 1949 ءاز خطبات محمود جلد30 صفحہ106-107)
سو اللہ تعالىٰ نے اس جلسہ کى برکات سے شاملىن کو مىٹھے پانى کا تحفہ عطا فرما دىا ىعنى اس طرح اس دفعہ خدا تعالىٰ نے کہا۔ مىرے بندے آئے ہىں چلو انہىں تحفہ کے طور پر مىٹھا پانى ہى دے دو۔
(انوار العلوم جلد21 صفحہ361-362)
ربوہ کا ذکر قرآن کرىم مىں اور ربوہ نام کى عملى تصوىر
اللہ تعالىٰ نے قرآن کرىم مىں دو مقامات پر ’’ربوہ‘‘ کے لفظ کا استعمال نہاىت ہى خوبصورت اور اچھوتے معنوں مىں فرماىا ہے۔ اور اگر ربوہ مىں گزرنے والے واقعات اور حالات کو ان دونوں آىات پر چسپاں کرىں تو ہُو بہو وہ تصوىر اُبھرتى ہے جو قرآن کرىم کے ہر دو مقامات بالخصوص سورۃ البقرہ آىت 266مىں بىان ہوئى ہے۔ اللہ تعالىٰ فرماتا ہے۔
وَ مَثَلُ الَّذِىۡنَ ىُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثۡبِىۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ کَمَثَلِ جَنَّۃٍۭ بِرَبۡوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُکُلَہَا ضِعۡفَىۡنِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ ىُصِبۡہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِىۡرٌ ﴿۲۶۶﴾
ترجمہ: اور ان لوگوں کى مثال جو اپنے اموال اللہ کى رضا چاہتے ہوئے اور اپنے نفوس مىں سے بعض کو ثبات دىنے کے لئے خرچ کرتے ہىں، اىسے باغ کى سى ہے جو اونچى جگہ پر واقع ہو اور اُسے تىز بارش پہنچے تو وہ بڑھ چڑھ کر اپنا پھل لائے، اور اگر اسے تىز بارش نہ پہنچے تو شبنم ہى بہت ہو۔ اور اللہ اس پر جو تم کرتے ہو گہرى نظر رکھنے والا ہے۔
(ترجمہ بىان فرمودہ حضرت خلىفۃ المسىح الرابعؒ)
اس طرح سورۃ المومنون آىت 51 مىں اللہ تعالىٰ حضرت مرىم علىہا السلام کے ذکر مىں فرماتا ہے۔
وَ جَعَلۡنَا ابۡنَ مَرۡىَمَ وَ اُمَّہٗۤ اٰىَۃً وَّ اٰوَىۡنٰہُمَاۤ اِلٰى رَبۡوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِىۡنٍ ﴿۵۱﴾
ترجمہ: اور ابن مرىم کو اور اس کى ماں کو بھى ہم نے اىک نشان بناىا تھا اور ان دونوں کو ہم نے اىک مرتفع مقام کى طرف پناہ دى جو پُر امن اور چشموں والا تھا۔
(ترجمہ بىان فرمودہ حضرت خلىفۃ المسىح الرابعؒ)
اس بات پر سبھى کو اتفاق ہے اور خلفائے احمدىت اس بات کا اکثر ذکر فرما چکے ہىں کہ حضرت مرىم سے مراد مرىمى صفات ىعنى نىک صالح، اللہ کے وفادار اور مطىع بزرگ ہىں جن کا اىک حصہ ربوہ بستى مىں مقىم ہے۔
مخالفىن کا اس قرآنى لفظ پر تبر
مخالفىن و معاندىن احمدىت جماعت کى برق رفتار ترقى سے ہمىشہ ہى ششدراور پرىشان رہےہىں اور اس اعلائے کلمہ اللہ کو روکنے کے لئے کئى قسم کى پابندىاں لگاتے رہے۔ حتىٰ کہ ربوه کانام تبدىل کرنے کى ٹھانى، مطالبے کئے، جلوس نکالے، جلسے منعقد کئے۔ بالآ خر پنجاب اسمبلى کے ذرىعہ ظاہرى طور پر نام تبدىل کروانے مىں کامىاب ہو گئے۔ لىکن انہوں نے کئى نام تجوىز کئے۔ کبھى احمد آباد، کبھى قادىان ثانى، کبھى کچھ اور کبھى کچھ، اىک نے تو مخالفت مىں حد کرتے ہوئے چک ڈھگىاں نام ہى رکھنے کى تجوىز دے ڈالى، جو بعض مفاد پرست عناصر کى طرف سے برى طرح رد کر دى گئى۔ انہى مىں سے بعض مولوى مخالفت بھى کرتے رہے کہ اگر قادىان ثانى نام رکھا تو اىک قادىان کى آواز تو ہم پورى کوششوں کے باوجود دبا نہىں سکے۔ اور ہم اپنے ہى ہاتھوں سے اىک اور قادىان کى بنىاد رکھىں۔ ىہى کىفىت احمد آباد کے نام پر سامنے آئى۔ بالآخر چناب نگر نام منظور ہوا۔ مخالفىن ىہ نام منظور کروا کر بھى پہلے پہل پچھتاتے رہے کىونکہ احمدىوں نے اس نام کى بھى بہت سى مثبت تاوىلىں کر ڈالىں۔ مجھے ىاد ہے کہ خاکسار جب لاہور مىں بطور مربى ضلع کام کر رہا تھا مىرا اىک مضمون اس نام کے حوالہ سے ہفت روزہ ’مہارت‘ لاہور مىں شائع ہوا تھا۔ اور مىں نے اس نام کى ىہ توجىہہ کى تھى کہ چناب نگر اصل مىں ’’چن آب نگر‘‘ ہے کہ اىسا چمکتا اور دمکتا چاند جس کى شبىہ صاف ستھرے پانى (درىائے چناب) مىں پڑے تو اس سے زىادہ روشن ہو کر اس کى شعائىں انسانى آنکھوں کو خىرہ کر دىں۔ اور اس سے برعکس چنىوٹ اصل مىں ’’چن دى اوٹ‘‘ ہے کہ چاند کے پىچھے۔ چناب نگر نام رکھنے سے درىائے چناب تکنىکى لحاظ سے ربوہ سے ہى منسوب ہوتا ہے، کوئى اور اب اس پر اجارہ دارى قائم نہىں رکھ سکتا۔ جماعت کے بہت سے شعراء نے چناب نگر کى مدح مىں بہت سى نظمىں بھى کہىں جن مىں سے مجھے نامور احمدى شاعر جناب رشىد قىصرانى کى نظم بہت عمدہ لگى تھى۔
ربوه بستى کى ترقى کا اعتراف
ربوہ بستى سے تحرىک ِ احمدىت اس کے اولو العزم قافلہ سالار اور دوسرے مظہر قدرت ثانىہ حضرت مصلح موعودؓ کى قىادت مىں اس تىزى کے ساتھ ابھرى کہ بعض وقائع نگاروں اور صحافىوں نے لکھنا شروع کر دىا کہ پاکستان اگر ترقى چاہتا ہے تو اس کا دارالسلطنت ربوہ کو بنا دىا جائے۔ چنانچہ جناب نسىم حجازى نے اپنے اخبار کوہستان ىکم جنورى 1955ء مىں الطاف سرحدى کے قلم سے نکلے الفاظ کو ىوں محفوظ کىا ہے۔
’’مغربى پاکستان کے دارالسلطنت کے لئے نہ لاہور موزوں ہے، نہ پشاور، نہ راولپنڈى۔ اس کے لئے موزوں جگہ قادىا نىوں کا مرکز ربوہ ہے۔‘‘
(مضمون مولانا دوست محمد شاہد از الفضل انٹرنىشنل 17ستمبر 2019ء)
ربوہ شہر کا قىام اعلائے کلمۃ اللہ اور تبلىغ اسلام کے لئے
بانى ربوہ حضرت مرزا بشىر الدىن محمود احمد خلىفۃ المسىح الثانى ؓ نے اپنے اىک خطاب مىں ربوہ کے قىام کا مقصد اس بستى سے اٹھنے والى مبارک آواز کو قرار دىا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے پُر شوکت الفاظ اىک پُرجلال پىشگوئى کا بھى رنگ رکھتے ہىں۔ آپؓ فرماتے ہىں۔
’’ربوہ کے چپے چپے پر اللہ اکبر کے نعرے لگ چکے ہىں اور رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم پر درود بھىجا جاتا ہے۔ ىہ بستى ان شاء اللہ قىامت تک خدا کى محبوب بستى رہے گى۔ ىہ بستى ان شاء اللہ کبھى نہىں اجڑے گى بلکہ قادىان کى اتباع مىں اسلام اور محمد رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کے جھنڈے کو بلند سے بلندتر کرتى رہے گى۔‘‘
(الفضل 11جنورى 1957ء)
؎ ربوہ رہے کعبہ کى بڑائى کا دعا گو
ربوہ کو پہنچتى رہىں کعبہ کى دُعائىں
؎ ربوہ کو تىرا مرکز توحىد بنا کر
اىک نعرہ تکبىر فلک بوس لگائىں
اعلائے کلمۃ اللہ ىا ىوں کہہ لىں دعوت الى اللہ کے دو حصے ہىں۔
اوّل: اپنے آپ کو ىا اپنوں کو اسلام کى تعلىم اور اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد صلى اللہ علىہ وسلم اور آخرى کتاب الہٰى کى محبت، عشق مىں رنگىن کرنا۔
دوم: غىروں مىں اسلام احمدىت کا حقىقى پىغام پہنچانا۔
جہاں تک ربوہ بستى کے مکىنوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جوڑنے کا تعلق ہے۔ پسر مسىح کى کوششىں اور توقعات قابلِ قدر ہىں۔ آپ کى دلى خواہش تھى کہ ربوہ کے مکىنوں کے اندر اللہ، اس کے رسول ؐ کى محبت جاگزىں ہو۔ اىک دفعہ مسجد مبارک ربوہ مىں سىرت النبىؐ کےجلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرماىا۔
’’ىہ جلسہ نہاىت اہم ہے۔ ىہ جلسہ اس عظىم الشان انسان کے حالات اور سوانح بىان کرنے کے لئے ہے جو نہ صرف خود اىک عظىم الشان انسان تھا بلکہ اس نے ہمىں بھى عظىم الشان بنا دىا ہے۔ اس جلسے مىں چھوٹے بچوں کو گھسىٹ کر لانا چاہئے تاکہ معلوم ہو کہ تمہىں رسول کرىم صلى اللہ علىہ وسلم سے والہانہ محبت ہے محض خىالى محبت نہىں۔‘‘
(تارىخ مجلس خدام الاحمدىہ جلد2 صفحہ172)
ترقى کرتا ربوہ آج کے دور مىں
ربوہ نے جس تىزى اور برق رفتارى سے ترقى کى منازل طے کى ہىں وہ بھى دنىا کے شہروں مىں ىکجا مقام رکھتا ہے۔ قوموں اور جماعتوں کى تارىخ مىں 74سال (1947 تا 2021ء) کا سفر آنکھ جھپکنے کے برابر بھى نہىں ہوتا۔ مگر اس عرصہ مىں ربوہ نے ہر مىدان مىں غىر معمولى ترقى کى ہے۔ ہم بالعموم دىکھتے ہىں کہ قوموں، شہروں، ملکوں حتى کہ شخصىات کى بناوٹ اور ان کا Built Up بہت آہستہ آہستہ ہوتا ہے جبکہ گراوٹ کا سفر لمحوں مىں طے ہو جاتا ہے۔ لىکن ربوہ نے اپنى ترقى کا سفر اىسے ناگزىر حالات مىں برق رفتارى سے طے کىا جس کى مثال کم ہى دىکھنے کو ملتى ہے۔ بالخصوص 1974ء کى مخالفت سے شروع ہونے والے سفر مىں مخالفىن و معاندىن نے بہت سى روکىں راستوں مىں کھڑى کىں مگر قانونِ الہٰى The more you press ,more will rise کے تحت جماعت احمدىہ ہنستى،کودتى اور خوشى سےاللہ کے حضور جھکتى ہوئى ان تمام روکوں کو پھلانگتى، عبور کرتى آگےسے آگے بڑھتى چلى گئى۔ دشمنوں نے اىک در بند کرنے کى کوشش کى تو خدا تعالىٰ نے اس اىک در کے بدلے ترقى کے لئے کئى اور درکھول دىئے۔ مىں نے اىک دفعہ ربوہ مىں مقىم مولوى اللہ ىار (جو مخالفت احمدىت پر دن رات کمر بستہ تھا) کو اس کى مخالفت پر اسلام آباد سے اىک خط رقم کىا تھا کہ تمہارى جماعت احمدىہ کى مخالفت، جماعت احمدىہ کى ترقى و بہترى کے لئے روڑى (کھاد) کا کام کر رہى ہے۔ تم جتنى مخالفت کرتے ہو جماعت اتنى ہى ترقى کرتى چلى جا تى ہے۔
سىاسى جماعتوں کا ىہ نعره ’’روک سکتے ہو تو روک لو‘‘ حقىقت مىں تو ہم پر پورا اُترتا معلوم ہوتا ہے کىونکہ خدا ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ الله کا ىہ وعدہ ہے۔ ’’انى معک ىا مسرور‘‘
ربوه کى مادى و روحانى ترقى
قوموں اور شہروں کا ىہ Built up دو طرح کا ہوتا ہے۔ اىک مادى اور اىک روحانى۔ ربوہ شہر کا بھى ان دو مناسبتوں سے جائزہ لىں گے۔ پہلے ہم مادى ترقى کا جائزہ قارئىن الفضل کے سامنے رکھتے ہىں۔
اس جگہ کى جو مادى حىثىت تھى اس کا اختصار سے ذکر ہم گزشتہ صفحات مىں کر آئے ہىں۔ کہ ىہ سارا علاقہ نا قابل زراعت، کلر زدہ، تھوہر سے بھرپور، کوئى درخت نہىں ما سوائے جنگلى کىکر اور اونٹوں کے چارہ مىں استعمال ہونے والى ’’لانى‘‘ بوٹى کے علاوہ سبزى وغىرہ نہ اگتى تھى۔ پانى کا نام و نشان نہ تھا۔ حتى کہ ربوہ کے قىام کے بعد بھى کچھ سال ىہى کىفىت رہى۔ خاکسار کى جم پل ربوہ ہى کى ہے۔ مىں نے خود دىکھا کہ کچى سڑکىں اور کلر سے اٹاٹوٹ بھرى ہوئىں۔ اىک دفعہ باہر کا چکر لگا آئىں تو غسل کرنا پڑتا تھا۔ گرمى اتنى کہ سستانے کے لئے سڑک کے کنارے کوئى درخت نہ ملتا۔ بارش ہو جائے تو ىہى کلر کىچڑ مىں بدل جاتا تو اس زمانہ مىں زىرِ استعمال آنے والا جوتا (ہوائى چپل جو قىنچى بھى کہلاتى تھى) کىچڑ مىں دھنس جاتا، نکالتے تو اس کى ودھر (strap) ٹوٹ جاتى۔ اتنى رقم نہ ہوتى کہ اس کى موچى (جوتے مرمت کرنے والے)سے مرمت کروالىں۔ خود جنگلى کىکر ىا دىسى کىکر کا کانٹا توڑ کر جوتے کو نىچے سے جوڑ لىتے۔ جونہى بارش کے آثار نماىاں ہوتے اس ڈر سے کہ ہوائى چپل زمىن مىں دھنس کر ٹوٹ نہ جائے ہاتھ مىں پکڑ کر اپنى پتلون، پاجا مہ ىا شلوار کو گھٹنوں تک چڑھا کر گھر آتے اور سىدھا پانى کے نلکے کے پاس جا کر اپنے آپ کو صاف کرتے۔ اگر کبھى کبھار سائىکل مىسر ہوتى تو بارش مىں کاندھوں پر اٹھا کر ىا رىلوے لائن پر چل کر اپنى منزل کو پہنچتے۔ لوگ ىہ عجىب دلچسپ منظر دىکھتے کہ جس سائىکل نے انسان کو اٹھا کر منزل تک پہنچانا ہوتا ہے، آج انسان اس کو اپنے اوپر اٹھا کر لے جا رہا ہے۔ ’’لانى‘‘ بوٹى کے علاوہ آک کا پودا کثرت سے نظر آتا ىا آہستہ آہستہ چند بوٹىاں۔ کار ىا گاڑى تو نہ ہونے کے برابر تھىں۔ کافى دىر تک تىن کارىں نظر آتى تھىں۔ تانگہ قرىب سے گزر جاتا تو ناک پر کپڑا رکھنا پڑتا تھا۔ سڑکىں نہىں تھىں جس کا ذکر اوپر کر آىا ہوں۔ گھر، مساجد، دفاتر مٹى کے بنے ہوتے۔ ہمارى مائىں گھروں کى دىواروں پر گىلى مٹى کا پوچا لگاىا کرتىں۔
مقدس مقامات
ربوہ آمد پر ہمارے دادا مکرم مىاں حبىب اللہ مرحوم کے حصہ کى جو زمىن خرىدنے کے لئے الاٹ ہوئى وہ اتفاق سے مبارک اور مقدس جگہ تھى جہاں حضرت مصلح موعودؓ نے سب سے پہلے کچا قصر ِ خلافت بناىا۔ چھوٹى سى کچى مسجد مبارک تعمىر ہوئى۔ اس کى نشاندہى جب ہمارے والد محترم چوہدرى نذىر احمد سىالکوٹى مرحوم نے ہم سے کى تو کھدائى کے دوران قبلہ نما پتھروں کى دىوارىں زمىن کے اندر سے نکلىں جو پہلى مسجد مبارک کى تھىں۔
خاکسار نے اس مقدس جگہ کى تفصىل لىنے کے لئے مکرم استا ذى المحترم سىد مىر محمود احمد ناصر صاحب اور مکرم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب سے علىحدہ علىحدہ رابطہ کىا تو مجھے ہر دو نے قصرِ خلافت کے مختلف گھروں کى Location بتائى۔ اىک دفعہ مکرم مىر صاحب موصوف مىرے چھوٹے بھائى برادرم ڈاکٹر مبارک احمد شرىف (مرىم ہسپتال والے) کے لان مىں اىک تقرىب کے سلسلہ مىں بىٹھے تھے تو خاکسار نے اىک بار پھر ان مقدس مقامات اور مسجد مبارک کى تفصىل کے بارے مىں پوچھا تو آپ نے کھڑے ہو کر اپنى کھونٹى سے مجھے سمجھاىا کہ حضرت مصلح موعود ؓ کا گھر ىہاں ہوتا تھا اور آپ اس راستہ سے مسجد مبارک نماز پڑھنے کے لئے تشرىف لاىا کرتے تھے۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے باقاعدہ نور ہسپتال کى لوکىشن بھى بتلائى جو کچے کمروں کى عمارت پر مشتمل تھا۔ حضرت اماں جان کاىادگار کچا کمرہ کافى عرصہ تک اىوان ِ محمود روڈ (جو بعد مىں ىادگار روڈ کہلائى) کے درمىان مىں قائم رہا۔ جس مىں اىک لمبا عرصہ خاکسار نے بحىثىت زعىم خدام الاحمدىہ دارالصدر جنوبى اپنا دفتر بنائے رکھا۔ ىوں اس مبارک کمرہ سے فىض اٹھانے کى توفىق ملتى رہى۔ آج کل ىہ چوک ىاد گار کہلاتا ہے۔ مىں نے کچا لنگر خانہ مسجد مبارک سے ملحقہ مشرقى جانب بھى دىکھا ہوا ہے۔ بازار اور دکانىں کچى تھىں بلکہ دارالرحمت کا بازار کہلاتا بھى ’’کچا بازار‘‘ ہى تھا۔ اب بھى بعض لوگ اسے کچابازار کہہ کر ہى پکارتے ہىں۔
لىکن جب اس بابرکت شہر کى تعمىرات کا کام شروع ہوا تو اللہ تعالىٰ نے اپنے فضلوں اور برکتوں کى بارش کر دى اور 74سالہ تارىخ مىں پختہ بلند و بالا، عالىشان، فلک سے باتىں کرتى خوبصورت عمارتوں نے ربوہ کى خوبصورتى اور شان مىں رنگ بھر دىئے ہىں۔ شاىد ہى آج کوئى گھر کچا ہو گا۔ اکثر حصوں مىں سڑکىں تار کول کى ہىں۔ بعض جگہوں پر سولنگ ہے۔ اور چند اىک سڑکوں کے علاوہ پہاڑى پتھرىلے لال رنگ کى کىرى ڈال دى گئى ہے جوپانى کے چھڑکاؤ اور گاڑىوں کے چلنے سے اىسے دب جاتى ہے کہ پختہ سڑک ہى لگتى ہے۔ دارالصدر مىں دفاتر اور مسجد مبارک کے ارد گرد فٹ پاتھ پر ٹف ٹائلىں لگا کر paveبنا دىئے گئے ہىں۔
تزئىن ربوہ کمىٹى
سڑکوں کى پختگى کى بات چلى ہے تو سڑکوں کے کنارے خوبصورت پودے آہنى جنگلوں مىں لگے نظر آتے ہىں۔ جنگلوں کے اوپر خوشخطى مىں اخلاقىات کى نہاىت پىارى اور دلربا باتىں لکھى ہوئى ہىں۔ جن کو دىکھ اور پڑھ کر دل کو جہاں طراوت ملتى ہے وہاں اپنے اندر پائى جانے والى کمى کو دور کرنے کا عزم باندھنے کا موقع ملتا ہے۔
شاىد ربوہ کے علاوہ ىہ پُر کشش نظارہ دنىا بھر مىں کسى شہر مىں نظر نہ آتا ہو۔ اس کا سہرا ’’تزئىن ربوہ کمىٹى‘‘ کو جاتا ہے۔ جس کى انتظامىہ اور تمام کارکنان بہت محنت، لگن اور جوش کے ساتھ کام کرتے ہىں۔ انہى کى محنتِ شاقہ اور پُر جوش جذبہ نے سرگودھا فىصل آباد روڈ اور رىلوے لائن کے ارد گرد تمام جگہوں پر درخت لگوا کر ربوہ کى خوبصورتى مىں اضافہ کر دىا ہے۔ ان جگہوں کو جنگلے لگوا کران مىں لگے درختوں کو محفوظ کر دىا گىا ہے۔ خاکسارجب 1990ء مىں سىر الىون مغربى افرىقہ مىں خدمات دىنىہ بجالانے کے بعد واپس ربوہ آىا تو ساڑھے سات سال بعد ربوہ آمد پر جن باتوں نے مجھے بہت متاثر کىا ان مىں سے مادى لحاظ سے سرسبز درختوں کى بہتات اور روحانى لحاظ سے مساجد مىں نمازىوں کى تعداد کى بڑھوتى تھى۔ اُن دنوں ىہ امور خاکسار نے حضرت خلىفۃ المسىح الرابعؒ کو تحرىر بھى کئے تھے۔
اىک وقت تھا کہ لانى بوٹى، پہاڑى کىکر اور آک کے علاوہ کوئى درخت ىا پودہ نہ ہوتا تھا۔ آج خاکسار نے بعض ڈىروں پرلىچى، الائچى اور زىتون کے پودوں کو پھل دىتے دىکھا ہے۔ ربوہ کے تقرىباً ہر گھر مىں تىن پھلدار درخت لگے ہوئے ہىں۔ ان کے علاوہ اکثر گھروں مىں آم، لىموں، انجىر، پپىتا، شہتوت، انگور، کىلا، سىب، جامن، کىنو، گرىپ فروٹ، امرود وغىره شامل ہىں۔ ہر گھر مىں تىن پھلدار درخت لگانے کى تحرىک حضرت خلىفۃ المسىح الرابع رحمہ اللہ تعالىٰ نے فرمائى تھى اور بعد مىں ہمارے موجودہ امام حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ نے اس کى تجدىد فرمائى اور اہالىان ربوہ نے لبىک اور سمعنا امىر المومنىن کى صدائىں بلند کرتے ہوئے اپنے خرچے پر اپنے گھروں کو سر سبزو شاداب کر ڈالا۔ مجھے اچھى طرح ىاد ہے کہ گھروں کے باہر درخت لگانے کى حضرت خلىفۃ المسىح الثالث رحمہ اللہ نے تحرىک فرمائى تھى۔ اور ہم نے سفىدے (U.Cliptus) کے درخت گھروں کے باہر لگائے تھے۔
احمد گلشن نرسرى
تزئىن ربوہ کمىٹى کے ذکر مىں ’’گلشن احمد نرسرى‘‘ کا ذکر ضرورى ہے۔ جہاں سے جماعتى سطح پر بھى اور نجى طور پر بھى ربوہ کے مکىن خوبصورت پودے خرىد کر لے جاتے اور اپنے مکانوں کو خوبصورت بناتے ہىں۔ نت نئے پُر کشش رنگوں کے پھولوں سے سجے گملوں سے بھى بعض جگہوں پر سڑکىں آراستہ ہىں۔ گلشن احمدنرسرى کے علاوہ احمد نگر کے قرىب بھى بعض لوگوں نے ذاتى طور پر خوبصورت نرسرىاں بنا رکھى ہىں جو ربوہ کى خوبصورتى مىں اضافه کا ذرىعہ بنتى ہىں۔
صحت کى سہولتىں
ربوہ کے آغاز مىں ہمارى کھىلوں مىں مىرو ڈبہ، باڑى، پٹھو گرم، گُلى ڈنڈاوغىرہ ہوا کرتى تھى۔ گراؤنڈز توہوتى نہ تھىں۔ اگر تھىں تو گرد اور کلر سے اٹى ہوتىں۔ کلر کى وجہ سے زمىن نے سفىد چادر اوڑھى ہوتى۔ ىہاں اگر کھىلنے کا ارادہ کرىں تو گرد وغبار کى وجہ سے گُلى ىا گىند کىا، اپنا ساتھى کھلاڑى بھى نظر نہ آتا تھا۔ مجھے ىاد ہے کہ ہم ىہ گىمز کھىلنے کے لئے کسى سڑک کا سہارا لىا کرتے تھے کىونکہ ٹرىفک چلنے کے دباؤ کى وجہ سے ىہ کسى حد تک پختہ نظر آتى تھىں۔ محلہ دارالصدر جنوبى کے بچوں کو حضرت اماں جان ؓ کے کمرہ کے ارد گرد جگہ پختہ ہونے کى وجہ سے کھىلنے کے لئے پسند آتى۔ مگر آج کھىلنے کے لئے گراؤنڈ مختلف جگہوں پر موجود ہىں۔ ان ڈور (Indoor) گىمز کے لئے تىنوں ذىلى تنظىموں نے جم خانے بنا رکھے ہىں۔ جہاں انصار، خدام اور ممبرات لجنہ جا کر اپنى صحت کو برقرار رکھنے کى کوشش کرتى ہىں۔ صدران محلہ جات ىا صدر صاحب عمومى کى طرف سے بعض محلوں مىں مختلف کھىلوں کا انتظام ہے۔ جلسہ گاہ مىں کرکٹ گراؤنڈ، فٹ بال گراؤنڈ، باسکٹ بال کے کورٹس کے علاوہ صحت برقرار رکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ جدىد طبى سہولىات کے حوالہ سے طاہر ہارٹ انسٹىٹىوٹ مىں بہت بڑے جم خانہ کى بات نہ کرىں تو ىہ مضمون ادھورا رہتا ہے جہاں فزىو تھراپى کے Advised شدہ مرىضوں کے علاوہ معمولى فىس پر مردوں اور مستورات کے لئے الگ الگ وقت مقرر ہىں جہاں سىنکڑوں مرد وخواتىن جا کر ذہنى، جسمانى ورزش کرتى ہىں۔ اس کے علاوہ بہت سى مساجد مىں ٹىبل ٹىنس، بىڈ منٹن کے علاوہ ورزش کے چھوٹے موٹے Tools موجود ہىں۔ خدام الاحمدىہ نے بھى فىکٹرى اىرىامىں جم خانہ اور ٹىنس کے کورٹس وغىرہ کا انتظام کر رکھا ہے۔
سوئمنگ پولز
مجلس خدام الاحمدىہ پاکستان کے زىرِ نگرانى بىن الاقوامى طرز پر سوئمنگ پول قائم ہے جہاں سوئمنگ کے رموز سکھائے جاتے ہىں۔ اس کے علاوہ اب تو بعض صاحب ِ استطاعت لوگوں نے اپنے گھروں مىں چھوٹے چھوٹے سوئمنگ پولز بنا رکھے ہىں۔ بعض لوگوں نے ربوہ کے نواح مىں اپنے ڈىروں پر سوئمنگ پول بنائے ہىں۔ احمدى خدام متعلقہ لوگوں سے اجازت لے کروہاں پکنک مناتے ہىں۔ ان مىں اىک اہم خوبصورت سوئمنگ پول حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ کے ڈىرہ پر واقع ہے۔ حضرت خلىفۃ المسىح الرابع رحمہ اللہ کے ڈىرہ پر بھى سوئمنگ پول موجود ہے۔
مجلس صحت
العقل السلىم فى الجسم السلىم کے رہنما اصول کے مطابق صحت مندانہ جسمانى سرگرمىوں کو فروغ دىنے کے لئے اىک مرکزى مجلس صحت قائم ہے جس کا قىام حضرت خلىفۃ المسىح الثالث رحمہ اللہ نے 1972ء مىں فرماىا تھا۔ اس کا مقصد نوجوان طبقہ کو گراؤنڈ اور ورزش کے لئے ضرورى سامان مہىا کروانا ہے۔ اور آج بفضلِ الله تعالىٰ احمدى نوجوان ان کاوشوں اور ذرائع کى بدولت ملکى سطح پر بعض ٹىموں مىں شامل ہىں اور بىن الاقوامى طور پر اپنے ملک کى نمائندگى بھى کرتے ہىں۔
ٹورنامنٹس
اىک وقت مىں آل پاکستان ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ اور آل پاکستان طاہر کبڈى ٹورنامنٹ سالانہ بنىاد پر ربوہ مىں منعقد ہوتے تھے۔ جن مىں پاکستان بھر سے نىشنل سطح کے کھلاڑى حصہ لىتے اور تىن روز خوب رونق رہتى۔ گھڑ دوڑ کے مقابلوں کا ذکر نہ کىا جائے تو مضمون تشنہ رہے گا۔ پاکستان بھر کے احمدى اس سالانہ ٹورنامنٹ مىں حصہ کے لئے بہت پىار سے گھوڑے پالتے اور نىزہ بازى اور ان کى رىس کى پرىکٹس بھى کرتے، اور گھڑ دوڑ کے تارىخى اىونٹ مىں شرکت کرتے۔ حضرت خلىفۃ المسىح الثالثؒ کو گھوڑوں سے بہت دلچسپى تھى۔ حضور کے گھوڑے بھى ان کى دىکھ بھال کرنے والے ان کو بنا سنوار کر مىدان مىں اترتے۔ جب ان گھوڑوں کے انچارج چوہدرى اللہ دادا صاحب، اعلىٰ نسل کے گھوڑے اشکر پر سوار ہو کر مىدان مىں آتے تو اپنے اور غىر بہت محظوظ ہوتے۔ پھر مخالفت کى وجہ سے ان تفرىحى ٹورنامنٹس کو بند کرنا پڑا۔ تاہم اندرون ربوہ خدام و انصار کے مابىن ضلعى سطح پر ٹورنا منٹس اور گىمز کا سلسلہ کبھى کبھار جارى رہتا ہے۔ جن مىں اِ ن ڈور گىمز بھى شامل ہىں۔ مجلس صحت کے تحت کرکٹ کا اىک ٹورنامنٹ مربىان اور کارکنان کے درمىان الگ الگ طور پر ہوتا رہاہے جن کے درمىان دن مىں اىک بڑا کھانا بھى ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بىن الاضلاع کرکٹ کے مقابلہ جات بھى منعقد ہوتے ہىں۔
طبّى ادارے
ربوہ کى بنىاد کے وقت نور ہسپتال کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ قادىان مىں چونکہ نور ہسپتال قائم تھا۔ اس کى مناسبت سے ربوہ مىں اىوانِ محمود روڈ، جو آجکل ىاد گارروڈ کہلاتى ہے پر چھوٹى سى عمارت مىں اس ہسپتال نے کام کرنا شروع کر دىا۔
اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے فضلِ عمر ہسپتال کا افتتاح 21مارچ 1958ء کو فرماىا جو اب اللہ تعالىٰ کے فضل سے ترقى کرتا ہوا مختلف وارڈز کے تقرىباً 150بستروں پر مشتمل ہو چکا ہے۔ اور تمام بنىادى سہولىات سے آراستہ ہے۔
زبىدہ بانى ونگ فضلِ عمر ہسپتال: فضل عمر ہسپتال کا اىک اہم ونگ خواتىن کے لئے گائنى ڈىپارٹمنٹ پر مشتمل ہے جو نہاىت کامىابى سے چل رہا ہے۔
طاہر ہارٹ انسٹىٹىوٹ: امراضِ قلب کے لئے اس ہسپتال نے 2009ء مىں کام شروع کىا۔ اس کى عمارت 6منزلوں پر مشتمل ہے۔ جس مىں جدىد ترىن سہولتىں موجود ہىں۔ اس انسٹىٹىوٹ نے تھوڑے سے وقت مىں پورے پاکستان بلکہ بىرون ملک مىں بھى اپنا نام پىدا کر لىا ہے۔ پاکستان کے طول و عرض سے مرىض علاج کى غرض سے ىہاں آتے ہىں۔ صفائى، خدمتِ انسانىت کے جذبہ کى وجہ سے ىہ ہسپتال نىک نام پىدا کر رہا ہے۔
ان ہسپتالوں مىں دنىا بھر سے تعلىم ىافتہ، پروفىشنلز اور کوالىفائىڈ ڈاکٹر حضرات جذبہ خدمت انسانىت کے ساتھ جز وقتى وقف کر کے تشرىف لاتے ہىں۔
ہومىو پىتھى علاج : سر زمىن ربوہ ہومىو پىتھى علاج کے حوالہ سے مشہور ہے۔ آغاز مىں وقفِ جدىد مىں ہومىو پىتھى ڈسپنسرى قائم تھى۔ جو حضرت خلىفۃ المسىح الرابع رحمہ اللہ نے قائم فرمائى تھى اور اىک لمبا عرصہ مرىضوں کا کامىاب علاج بھى آپ خود ہى فرماتے تھے۔ ىہ علاج فرى تھا۔ اب بھى ىہ ڈسپنسرى قائم ہے۔
اس کے علاوہ تىنوں ذىلى تنظىموں کے مرکزى دفاتر مىں ہومىو پىتھى ڈسپىنسرىز قائم ہىں جہاں سىنکڑوں مرىضوں کا فرى علاج ہوتا ہے۔
ہومىو پىتھى کا اىک اہم ادارہ جو نىک نامى کے جھنڈے گاڑ رہا ہے وہ طاہر ہو مىو پىتھى رىسرچ انسٹىٹىوٹ ہے جو خدام الاحمدىہ کے تحت خدمات بجا لا رہا ہے اور جس کى الگ سے عالى شان عمارت زىرِ تعمىر ہے جس مىں ماہانہ ہزاروں مرىضوں کا مفت علاج ہوتا ہے ان مىں سىنکڑوں غىر از جماعت مرىض بھى شامل ہىں جو دور دراز علاقوں سے بغرضِ علاج ربوہ تشرىف لاتے ہىں۔ ىہ انسٹىٹىوٹ رىسرچ انسٹىٹىوٹ ہے جہاں ادوىات بھى تىار کى جاتى ہىں اور ان کى علامات کو سامنے رکھتے ہوئے تجربات بھى کئے جاتے ہىں، اس طرح نئى نئى اقسام کى ادوىات کى پروونگ ہوجاتى ہے۔
ہومىوپىتھى کے ان اداروں کے علاوہ خدمتِ انسانىت کے جذبہ سے سرشار اور حضرت خلىفۃ المسىح الرابع کى ہومىوپىتھى کلاس سے فائدہ اٹھاتے ہوئےبے شمار احمدىوں نے ربوہ مىں اپنے گھروں مىں فرى ڈسپنسرىاں قائم کر رکھى ہىں۔ نىز مارکىٹ مىں بىسىوں ہو مىو پىتھى ڈاکٹرز اور پرائىوىٹ ىونانى حکماء نے معمولى رقم پر علاج کے لئے کلىنکس کھول رکھے ہىں۔
مجلس خدام الاحمدىہ کے زىرِ انتظام عطىہ خون اور عطىہ چشم کا اىک اہم اداره بنام ’’نور العىن دائرۃ الخدمت الانسانىہ‘‘ کے نام سے قائم ہے۔ اس کے لئے چند سال قبل اىک عالىشان، خوبصورت عمارت تعمىر ہو چکى ہے۔ جہاں ’’بلڈ بنک‘‘ کے نام سے اىک اہم ادارہ بھى قائم ہے۔ جہاں خدام فلاحى طور پر خون عطىہ کرتے ہىں جو مرىضوں کے کام آتا ہے۔ ىہ کام بھى فرى ہے۔ ہاں آپ کو خون لىتے وقت کسى کا خون جمع کروانا ہوتا ہے۔ اس بلڈ بنک سے تھىلىسىمىا کے مرىضوں کو مفت خون مہىا کىا جاتا ہے۔
نور آئى ڈونرز اىسوسى اىشن : اس ادارہ مىں بے شمار لوگوں نے اپنى آنکھىں اپنى وفات کے بعد وقف کرنے کى وصىت کر رکھى ہىں اور اس اىسوسى اىشن کے تحت کارنىا کى بىمارى کے شکار سىنکڑوں احمدى و غىر از جماعت نابىنا افراد کوکرىٹوپلاسٹى کے آپرىشن کے ذرىعہ بىنائى فراہم کى جاچکى ہے۔
دنىوى تعلىمى ادارے
ہر متمّدن اور مہذب معاشرہ مىں علم کى اہمىت مسلم ہے۔ سر زمىن ربوہ دىنى و دنىوى علوم کى آماجگاہ ہے۔ اىک وقت تھا کہ پاکستان مىں سب سے زىادہ تعلىم ىافتہ ربوہ مىں موجود تھے۔ حضرت خلىفۃ المسىح الثالث رحمہ اللہ نے ہر نو جوان بچے اور بچى پر مىٹرک تک تعلىم لازمى قرار دے رکھى تھى۔ دىنى اور روحانى تعلىمى اداروں کا ذکر روحانى تعلىم کے تحت آئندہ آئے گا۔ جبکہ دنىوى تعلىم کے حوالے سے سرکارى تعلىمى اداروں مىں تعلىم الاسلام پرائمرى اسکول، تعلىم الاسلام ہائى اسکول، تعلىم الاسلام ڈگرى کالج، جامعہ نصرت برائے خواتىن اور نصرت گرلز ہائى اسکول مشہور ادارے ہىں۔ اس کے علاوہ جماعتى سطح پر مختلف محلہ جات مىں بىسىوں اسکولز و کالجز اعلى تعلىم طلبہ و طالبات مىں بانٹ رہے ہىں۔
دىگر سرکارى ادارے
اىک وقت تھا کہ سرکارى کام کروانے کى خاطر ربوہ سے باہر جانے کے لئے مىلوں سفر کرنا پڑتا تھا۔ مجھے ىاد ہے جب ربوہ مىں فونز کا سسٹم نہ تھا تو اپنے کسى عزىز کى کال سننے کے لئے نظارت علىا صدر انجمن ىا وکالت علىا تحرىک جدىدکا رُخ کرنا پڑتا تھا۔ خط کى posting کے لئے ربوہ سے باہر جانے والے کسى دوست سے درخواست کرنى پڑتى تھى۔ مگر اب ڈاکخانہ، ٹىلى فون اىکسچىنج، ٹاؤن کمىٹى، عدالت مجسٹرىٹ،کچہرى اور تھانہ وغىرہ شہر کے اندر موجود ہىں۔
بنکارى
آغاز ربوہ مىں جماعتى سطح پر امانتىں بلا سود رکھنے کا طرىق موجود تھا۔ لىکن اب ربوہ مىں نىشنل سطح کے سرکارى و نىم سرکارى اور پرائىوىٹ بىنکس بىسىوں کى تعداد مىں موجود ہىں۔
رىسٹورىنٹس وغىرہ
آغاز مىں غربت کے باعث گھر سے باہر جا کر کھانے کا رواج نہ تھا۔ مگر جب ىہ شوق Develop ہوا تو حسبِ توفىق ربوہ کے مکىن چنىوٹ ىا فىصل آباد جا کر کھانا کھاتے اور ىوں outing بھى ہو جاتى۔ مگر اب ربوہ مىں مختلف کارنرز اور رىسٹورىنٹس مىں ہر قسم کا دىسى و انگرىزى کھانا دستىاب ہے اور بىٹھنے کا عمدہ انتظام بھى ہے۔ خواتىن بھى پردے مىں آزادانہ ماحول مىں Enjoy کرتى ہىں۔ نىز Fastfood اور شوارما کے بے شمار کارنر شاپس موجود ہىں۔ مجھے ىاد ہے کہ شکور بھائى گلى مىں آج سے 40سال قبل Fastfoodکى اىک دکان کھلى تھى مگر ربوہ کے مکىنوں مىں fastfood کا Taste چونکہ developنہىں ہوا تھا اس لئے ىہ کاروبار جلد بند ہو گىا۔ مگر اب انجوائےمنٹ کے مختلف اسپاٹس موجود ہىں۔ صرف ناشتے کے لئے نہارى پائے، حلوہ پورى وغىرہ کے ہى چار پانچ اسپاٹس ہىں۔
سفر کى سہو لىات
شروع کے دنوں مىں اىک ہى رىل گاڑى اىک دن مىں گزرتى تھى پھر آہستہ آہستہ کراچى جانے کے لئے سپر اىکسپرىس اور چناب اىکسپرىس جارى ہوئىں اور لاہور جانے والى رىل گاڑى جس کو عرف عام مىں ڈبہ کہتے تھے۔ صبح کو جاتا اور رات کو واپس آجاتا۔ ىہ آجکل بھى جارى ہے۔پہلے پہل اىک کچا کمرہ پر مشتمل رىلوے اسٹىشن ہوتا تھا، پلىٹ فارم بھى کچا تھالىکن اب اىک خوبصورت عمارت موجود ہے۔ ىا اس کے علاوه محدود بسوں کى آمدو رفت تھى اور کئى گھنٹے بس اڈہ پر ىا رىلوے اسٹىشن پر انتظار کى صعوبتىں برداشت کرنى پڑتى تھىں مگر اب پاکستان کے کسى بھى کونے مىں جانے کے لئےائر کنڈىشنڈ بسىں اور کوچز چلتى ہىں۔ جن کے اوقات مقرر ہىں اور انتظار کى صعوبتوں سے آزادى مل گئى ہے۔
وىسے تو مىں اوپر لکھ چکا ہوں کہ سارے ربوہ مىں تىن کارىں تھىں جس پر اىک مضمون روزنامہ الفضل کى زىنت بنا تھا۔ مگر اب تمام ربوہ مىں ہزاروں کى تعداد مىں مکىنوں کے پاس اپنى گاڑىاں ہىں۔ بعضوں نے کاروبار بھى شروع کر رکھا ہے اس کام کے لئے باقاعدہ ٹىکسى اسٹىنڈ کے لئے بہت بڑى جگہ الاٹ کى جا چکى ہے۔
سبزى، فروٹ منڈى
ربوہ کى بنىاد رکھے جانے کے کئى سالوں تک ربوہ مىں سبزىاں،فروٹ ملنا بہت مشکل تھا۔ چھوٹے پىمانہ پر چنىوٹ سے سبزى ىا فروٹ لاکر فروخت ہوتا تھا اور Buying power بہت کم تھى مگر اب سبزى، فروٹ منڈى خواہ چھوٹے پىمانہ پر ہے ربوہ مىں موجود ہے۔
بازار و مارکىٹس
اىک وقت مىں صرف کچا بازار تھا جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے پھر منڈى کا ذکر سننے کو ملا پھر گول بازار establish ہوا۔ اب تو مارکىٹوںکاسلسلہ محلہ محلہ مىں پھىل چکا ہے۔ بڑى بڑى مارکىٹىں موجود ہىں جن مىں دنىا جہان کى اشىاء دستىاب ہىں۔ بىرون از ربوہ سے غىر از جماعت دوست و خواتىن بھى خرىد و فروخت کے لئے ربوہ آتى ہىں۔ مجھے ىاد ہے لاہور مىں اىک بزرگ مکرم شىخ مبارک محمود پانى پتى ہوا کرتے تھے وہ کہا کرتے تھے کہ مىں ٹوپى اورعىنک کى خرىد ربوہ سے ہى کرتا ہوں۔ کئى لوگ تبرک کى خاطربھى ربوہ سے خرىدارى کرنا پسند کرتے ہىں۔
اىک دفعہ تىن غىرازجماعت صحافى حضرات لاہور سے مىرے ساتھ ربوہ تشرىف لائے۔ خاکسار نے ساراربوہان کو Visit کرواىا۔ انہوں نے ربوہ کو اىک طرز کا دنىا سے جدا شہر قرار دىا۔ اىک نے کہا کہ ىہ تو جزىرہ نما ہے جس طرح جزىرہ دنىا کى آلائشوں اور آب و ہوا سے پاک ہوتا ہے ىہ بھى اىسے ہى معلوم ہوتا ہے۔ واقعتاً ىہ اىک جزىرہ تھا اور ابھى بھى ہے۔ مجھے ىاد ہے کہ بازار مىں رىڈىو کى آواز سنائى نہ دىتى تھى۔ سگرىٹ پىنے والے حضرات اسٹىشن پر موجود کھوکھے پر جاىا کرتے تھے کہ شہر مىں سگرىٹ نہىں ملتى تھى۔ مگر ان مولوىوں نے کھلا شہر، کھلا شہر کا رولا ڈلوا کر ىہ چىزىں شہر مىں لے آئے ہىں۔ ہم ابھى بھى دوسرے شہروں کے مقابلے مىں ربوہ کو دىکھىں تو ىہ اىک جنت ہے۔ مىں صحافىوں کے تاثرات کى بات کر رہا تھا۔ اىک نے اپنے تاثرات کو ىوں بىان کىا کہ ىہاں ٹوپى، سائىکل اور بُرقعوں کى بہتات ہے۔ لگتا ہے کہ ہم اگر ٹوپىوں ىا سائىکلوں کا کاروبار کرىں تو بہت سود مند ثابت ہوگا۔ ان کو جب بہشتى مقبرہ دکھاىا گىا۔ جن کو غىر ، جنت کے نام سے ىاد کرتے ہىں تو قبروں کى ترتىب، حسن انتظام و انصرام کو دىکھ کر حىران رہ گئے اور اىک نے بے ساختہ کہا کہ ان کے مُردوں مىں جب ترتىب ہے تو زندوں مىں حسن ترتىب کا کىا حال ہوگا۔
ربوہ کى ترقى اىک اور زاوىہ سے
ربوہ کى آبادکارى کے وقت حضرت خلىفۃ المسىح الثانى رضى اللہ عنہ کے پىش نظر جو عظىم مقصد تھا اور خلفائے عظام کے نزدىک ابھى بھى ہے وہ تھا اعلائے کلمۃ اللہ اور اعلائے کلمۃ الاسلام۔ اور ىہ بات ڈنکے کى چوٹ پرکہى جا سکتى ہے کہ اس مقصدِ عظىم کو پانے کے لىے جہاں مرکزى سطح پر جماعت اور ذىلى تنظىموں نے کوشش کى وہاں ربوہ کے مکىنوں اور باشندوں نے بھى اپنى تمام تر قوتوں، طاقتوں اور استعدادوں کو بروئے کار لاکر اللہ، اس کے رسول، اس کے مذہب اسلام اور اس کى پىارى کتاب قرآن کے نام کو بلند کىے رکھا۔ اس کے لىے جان، مال ووقت اور دولت و عزت کى کوئى پروا نہ کى۔ اس غرض کے حصول کے لىے ماسٹر عبدالقدوس جىسے بے شمار وفاداروں نے اپنے ربوہ، اپنے پىارے خلىفہ اور اپنى تعلىمات کى لاج رکھتے ہوئے اسلام اور احمدىت کا عَلم بلند کرتے ہوئے اپنى جان جان آفرىں کے سپرد کر دى۔ اور آج بھى ربوہ کے بے شمار باسى احمدىت کى خاطر قىد و بند کى صعوبتىں برداشت کر رہے ہىں جىسے ملک عثمان احمد صاحب، حافظ طارق احمد صاحب، ملک ظہىر احمد صاحب، روحان احمد، شہزاد صاحب اور شکور بھائى جىسے بے شمار احمدى اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے جىل کى مشکلات برداشت کرکے اپنے نام تارىخ اسلام احمدىت مىں سنہرى حروف سے رقم کروا چکے ہىں اور ابھى بھى جىلوں کى صعوبتىں برداشت کر رہے ہىں۔ آج جو روحانى بہار ربوہ کى سرزمىن اور فضاؤں پر نظر آتى ہے ىہ انہى قربانىوں کى مرہون منت ہے۔ کسى شاعر نے کىا خوب کہا ہے۔
؏ خون دل نذر کىا ہے تو بہار آئى ہے
دىنى درس گاہ
وىسے تو کہتے ہىں کہ ماں کى گود بچے کى پہلى درسگاہ ہوتى ہے۔ اس سے کسى کو انکار نہىں ہونا چاہىے اور نہ ہى ہے۔ مگر حضرت خلىفۃ المسىح الثانى رضى اللہ عنہ نے ذىلى تنظىموں کى بنىاد رکھ کر جماعت پر اىک عظىم احسان وانقلاب فرماىا ہے۔ جو نہى بچہ چلنے پھرنے کے قابل ہوتا ہے اور کسى حد تک سُدھ بُدھ رکھ کر باہر کے دروازے کى دہلىز پر قدم رکھنے کے قابل ہوتا ہے تو جماعتى بچوں اور بچىوں کو سنبھالنے اور نىک پرورش کرنےوالى دو اہم مبارک تنظىمىں مجلس اطفال الاحمدىہ اور ناصرات الاحمدىہ کے عہدے داران اپنى باہىں کھولے ان کا انتظار کر رہے ہوتے ہىں۔ اس نظام مىں حضرت خلىفۃ المسىح الثالث رحمہ اللہ تعالى نے اس حوالے سے بعض بنىادى لائحہ عمل تشکىل دئىے پھر حضرت خلىفہ المسىح الرابع رحمہ اللہ نے وقف نواسکىم پىش کر کے اس نظام کو مزىد مستحکم کر دىا اور اب ہمارے موجودہ امام حضرت امىر المومنىن خلىفتہ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز نے اپنے خطبات اور خطابات اور بچوں کى کلاسز کے ذرىعہ مندرجہ بالا ہردو نظام مىں حسىن اور پىارى تبدىلىاں اور مرمتىں فرمائى ہىں۔ اس کا حسىن نظارہ ہم اپنے بچپن مىں ربوہ مىں دىکھتے رہے۔ ہم جب بھى ربوہ جاتے ہىں اپنى آنکھوں سے ىہ روح پرور نظارے دىکھ کر ٹھنڈک کے سامان پىدا کرتے ہىں۔
اىک اعتراف کا مىں ذکر کرنا بھول نہ جاؤں۔ مجھے لاہور مىں مربى ضلع کے طور پر خدمت کى توفىق ملى۔ اس دوران خاکسار کےمذہبى جماعتوں،مختلف فرقوں کے سربراہوں اور اخبارى صحافىوں کے ساتھ اىک مربوط تعلق قائم تھا۔ ہمارا اىک دوسرے کى طرف آنا جانا تھا۔ اىک دفعہ علامہ غامدى کے دفتر واقعہ گارڈن ٹاؤن سے اىک پانچ رکنى وفد مجھے ملنے کے لىے مىرے پاس آىا جن مىں ان کے جنرل سىکرٹرى بھى شامل تھے۔ انہوں نے اپنا تعارف کرواىا۔ خاکسار نے جماعت احمدىہ کا تعارف کرواىا۔ مىرے تعارف کروانے کے بعد جنرل سىکرٹرى بے ساختہ بولے کہ آپ اپنى جماعت کا تعارف کرواتے ہوئے دو باتىں بھول گئے ہىں جو آپ کے اندر ’’وادھا‘‘ ہىں (ىعنى زىادتى و خوبى) ہىں۔ مىں نے ذہن مىں سوچا کہ مىں نے اپنى طرف سے تو تعارف کروانے مىں کوئى کسر نہىں چھوڑى وہ کون سى خوبى ہے جو بىان ہونے سے رہ گئى؟۔ تو جنرل سىکرٹرى ىوں گوىا ہوئے کہ آپ تعارف مىں ىہ بىان کرنا بھول گئے کہ سرکارى دفاتر مىں اگر کوئى رشوت نہىں لىتا تو وہ احمدى ہے، نماز پڑھتا دکھلائى دے تو وہ احمدى ہے، اپنے سرکارى کام مىں دىانت دار ہے تو وہ احمدى ہے۔ نىز کہا اورجس کا مىرى تحرىر سے تعلق ہے کہ آپ کى ذىلى تنظىمىں چھوٹى عمر مىں ہى بچوں کو گھروں کى دہلىز سے اچک لىتى ہىں اور ان کى تعلىم و تربىت مىں جُت جاتى ہىں۔
ىہ کىفىت ہم نے ربوہ مىں اپنى آنکھوں سے دىکھى جب تک مجلس خدام الاحمدىہ اور مجلس اطفال الاحمدىہ مىں خدمت کرنے کا موقع ملا خود بھى اس پر عمل پىرا رہے۔
درسگاہىں
آغاز مىں چوک ىاد گار کے جنوبى جانب صرف اىک چھوٹى سى مسجد مبارک تھى۔ بعد مىں قصرِ خلافت اس جگہ منتقل ہوا جہاں آج ہے اس کے ساتھ مسجد مبارک کى تعمىر ہوئى۔ جس مىں مختلف مراحل مىں اضافہ ہوتا رہا۔ جوں جوں ربوہ کى آبادى مىں اضافہ ہوتا گىا۔ مساجد بھى ساتھ ساتھ بننے لگىں۔ حضرت خلىفۃ المسىح الثالث رحمہ اللہ کے دور مىں قادىان کى طرز پر مسجد اقصىٰ کى تعمىر شروع ہوئى۔ اور تىن سالوں مىں مکمل ہو کر تارىخ احمدىت کى مساجد کى تارىخ مىں اضافہ ہوا۔ اس کى اىک خوبى ىہ ہے کہ بڑے ہال مىں ستون نہىں ہىں تا خطىب کى نظر خطبہ کے دوران تمام سامعىن پر بىک وقت پڑسکے۔ اىک وقت تھا کہ جلسہ ہائے سالانہ کے اسٹىج اس کے صحن مىں بنتے رہے۔ بعض دفعہ ذىلى تنظىموں کے اجتماعات بھى اس کے صحن مىں منعقد ہوئے۔ جب تک دہشت گردى سے حالات مبرا تھے جمعہ کا اجتماع بھى اسى مسجد مىں ہوتا تھا۔ اب اللہ تعالى کے فضل سے 70 سے زائد محلہ جات مىں 80 سے زائد اللہ کے گھر موجود ہىں۔ جن مىں سے بعض پاکستان مىں قانونى پابندىوں کے پىش نظر گنبد اور محراب کے بغىر ہىں۔ ربوہ مىں مساجد کى اىک بہت بڑى خوبى ىہ ہے کہ ىہ اس قدر قرىب ہىں کہ اگر کسى سے اىک مسجد مىں نماز باجماعت کسى مجبورى سے رہ جائے تو وہ فوراً دوسرى قرىبى مسجد مىں جاکر نماز باجماعت ادا کرسکتا ہے۔ ىہ خوبى ربوہ کے لئے اس لئے ىکتا ہے کہ بعض دوسرے شہروں مىں بھى مساجد قرىب قرىب ہوں گى اور ہىں بھى،آپس مىں جُڑى بھى ہوتى ہوں گى مگر شىعہ،سُنى، وہابى، دىوبندى کے اختلافات کى وجہ سے وہ قرىب واقع مسجد مىں نماز ادا نہىں کرسکتے۔
رمضان مىں تعلىم و تربىت
مساجد کى بات چلى ہے تو رمضان مىں مساجد اور ان تربىت گاہوں کا تذکرہ ضرورى ہے۔ پا بندى سے قبل اىک وقت مىں مرد و خواتىن سے مساجد بھر جاتى تھىں۔ بہشتى مقبرہ کا رخ کرتے تو اىک جم غفىر وہاں نظر آتا۔ على الصبح ربوہ کى سڑکىں مرد حضرات اور خواتىن سے پُر رونق ہوتىں اور ان کو بہشتى مقبرہ جاتے اور آتے دىکھا جاتا۔ اب سالہا سال سے خواتىن پر رمضان مىں کىا،عام دنوں مىں نماز جمعہ پر بھى پابندى ہے۔ ان کى تعلىم و تربىت کے لىے مسجدوں مىں ہونے والا خطبہ گھروں مىں مہىا کىا جاتا ہے۔ خواتىن کے مساجد مىں نہ جانے پر ان کے جذبات الگ نوعىت کے ہىں۔ وہ ہر دم اس دعا مىں لگى رہتى ہىں کہ دہشت گردى کے سبب لگنے والى پابندىاں جلد ختم ہوں اور ہم مساجد مىں جا کر اپنى روحانى پىاس بجھا سکىں۔
مىں آج سے کوئى دس سال قبل لندن مىں عىدالفطر کے موقع پر موجود تھا۔ اس سال مىرے تمام بچے بچىاں اپنے بچوں کے ساتھ ہمىں (اپنے والدىن) ملنے آئے ہوئے تھے کہ حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ کى طرف سے عىد کے موقع پر ہونے والى دعوت مىں ہم دونوں کو بلواىا گىا۔ چاند رات فون پر حضور انورکا محبت بھرا ىہ پىغام بھى موصول ہوا کہ آپ اپنے تمام بچوں کے ساتھ دعوت مىں مدعو ہىں۔ خاکسار اور بچوں کى کىا روحانى کىفىت تھى۔ خاکسار تو اچھل اچھل کر ىہ شعر پڑھ رہا تھا۔
؎ شاه کے در سے فقىروں کو بلاوا آىا
مىرے آقا، مىرے سلطان، مىں آىا، مىں آىا
عىد کے روز مسجد بىت الفتوح مىں نماز عىد حضور انور اىدہ اللہ کى اقتداء مىں ادا کى۔ مىرے سوا تمام بچوں کا کاروں مىں مسجد فضل لندن جانے کا انتظام تھا۔ خاکسار نے فورى رىل گاڑى (under ground) کا سہارا لىا اور ان سے قبل مسجد فضل پہنچ گىا۔ PS کے دفتر مىں داخل ہوا تو سامنے حضرت خلىفہ المسىح اىدہ اللہ تعالى اپنے روحانى چہرے کے ساتھ کرسى پر براجمان تھے اور اپنے عملے سے عىد مل رہے تھے۔ خاکسار نے بھى السلام و علىکم حضور! عرض کى۔ حضور نے عىد کے حوالے سے خاکسار سے پوچھنا شروع فرماىا۔خصوصا ًپوچھا۔ بىگم صاحبہ کو عىد کىسى لگى۔ خاکسار نے ان کے جذبات عرض کر دىے تو فرماىا
’’ربوہ کى خواتىن کا سوچىں جنہوں نے سالہا سال سے مسجد کا چہرہ تک نہىں دىکھا اور وہ بے چىن ہىں کہ کب حالات بدلىں اور ہم نمازوں مىں شامل ہوں۔‘‘
اىک وقت تھا کہ مسجد مبارک مىں دوپہر کو درس القرآن ہوتا تھا جس سے فىض پانے کے لىے ربوہ کے ہزاروں مکىن دوپہر کو درس قرآن، درس الحدىث، اور نماز عشاء کے بعد نماز تراوىح کے لئے مسجد مبارک کا رخ کرتے تھے۔ آج کل محدود تعداد کے پىش نظر بارى بارى سب کو موقع ملتا ہے۔
بہشتى مقبرہ روحانى تربىت گاہ
وىسے تو تمام قبرستانوں مىں جا کر روح کو آسودگى ملتى ہے۔ خدا ىاد آتا ہے۔ قبرستان مىں جانے کى دعا پڑھنے سے آخرت ىاد آتى ہے لىکن ربوہ مىں واقع بہشتى مقبرہ مىں جانے اور دعا کرنے کا الگ سے لطف اور مزہ ہے۔ اندر داخل ہوتے ہى جماعت کے بزرگوں اور عزىزوں کے مزاروں پر نظر پڑتے ہى ان کے ساتھ تعلق، ان کى ىادىں،ان کى قربانىاں ىاد آنے لگتى ہىں۔ اپنے پىارے والدىن اور عزىزوں کے مزاروں کو چھوڑ کر ہم مىں سے ہر اىک قطعہ خاص کى طرف بڑھتا اور مرحوم خلفاء اور ان کى بىگمات کى دائمى آرامگاہ اور خاندان حضرت اقدس علىہ السلام کے افراد و خواتىن کے مزاروں پر دعا کرتا ہے۔ ان کى مغفرت،اُن کے اعلىٰ علىىن کے لئے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر ان بزرگوں کى خوبىوں کى جب دعا کرتا ہے تو روح کى اىک الگ ہى کىفىت ہوتى ہے جو روحانى اور اخلاقى تربىت کا موجب ہوتى ہے۔ شہداء اور عزىز و اقارب کے مزاروں پر حاضرى دىنے سے بھى اندر اىک انقلابى کىفىت پىدا ہوجاتى ہے۔ ىہ بہشتى مقبرہ پہاڑوں کے دامن مىں آباد ہے۔ اب تو جلسہ گاہ کى طرف اىک وسىع و عرىض حصہ خرىد کر بہشتى مقبرہ بناىا گىا ہے۔
دارالضىافت کو دىکھ کر روحانى کىفىت پىدا ہونا
خاکسار ربوہ بننے کے آغاز پر دارالضىافت کا ذکر کسى حد تک کرآىا ہے۔ ىہ پہلا مرکزى ادارہ تھا جس کى بنىاد ربوہ کى بنىاد کے معاً بعد رکھى گئى۔ ہم نے وہ کىفىت بھى دىکھى جب صفوں پر بٹھا کر کھانا کھلاىا جاتا تھا۔ مگر اب عالىشان عمارت موجود ہے جدىد فن تعمىرات کے تحت اضافے کا سلسلہ جارى ہے۔ جو حضرت مسىح موعود علىہ السلام کے الہام ’’وَسِّعْ مَکَانَکَ‘‘ کے تحت وسعتىں اختىار کر گىا ہے۔ اس کے سارے نظام کو گہرائى سے دىکھ اور پڑھ کر اور سىنکڑوں کى تعداد مىں روزانہ کھانا کھاتے لوگوں کو دىکھ کر انسان ىہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ىہ جماعت خدا کى جماعت ہے اور خدا کى تائىد و نصرت اس کى پشت پر ہے۔
دارالضىافت کے علاوہ جلسہ سالانہ کے شاملىن کو کھانا مہىا کرنے والے دو تىن لنگر خانوں سے تعداد بڑھ کر 11تک پہنچ چکى ہے جس مىں روٹى بنانے والى مشىنىں بھى شامل ہىں۔
جلسہ سالانہ حکومت کى جبرى پابندىوں کى وجہ سے 1983ء سے منعقد نہىں ہو پاىا۔ مگر اس کى شاخىں بہت تىزى کے ساتھ دنىا بھر مىں پھىلى ہىں۔ ہم امىد اور دعا کرتے ہىں کہ اللہ تعالى جلد ان روکوں کو دور فرمائے اور ہم جلسوں کا روحانى سماں اىک بار پھرربوه مىں دىکھ سکىں جس کے لىے اىک وسىع و عرىض جلسہ گاہ کى تىارى مکمل ہوچکى ہے الحمدللہ۔ اور مہمانوں کى رہائش کے انتظامات حسب توفىق کىے جا رہے ہىں اور سرائے مسرور سمىت مختلف گىسٹ ہاؤسز بھى تعمىر ہىں۔
تعلىمى ادارے
سرکارى اداروں کا ذکر تو اوپر ہو چکا ہے اس ضمن مىں مزىد تحرىر ہے کہ برصغىر پاک و ہند کى تقسىم کے بعد لاہور پہنچتے ہى حضرت مصلح موعود رضى اللہ عنه نے اپنى نوجوان نسل کو تعلىمى زىور اور دىنى و اسلامى رواىات اور اعلى اقدار سے آراستہ کرنے کے لىے پاکستان مىں ان تعلىمى اداروں کے قىام کا اعلان فرماىا جو قادىان مىں قائم تھے۔ جماعت کے سر کردہ افراد نے مالى بوجھ کى وجہ سے حضور ؓسے درخواست کى کہ ابھى جماعت پر ىہ بوجھ نہ ڈالا جائے تو حضور ؓنے نہاىت جلالى الفاظ مىں فرماىا ’’کالج چلے گا اور کبھى بند نہىں ہوگا۔ آسمان کے نىچے پاکستان کى سرزمىن مىں جہاں کہىں بھى جگہ ملتى ہے لے لو اور کالج شروع کرو۔‘‘
(تارىخ احمدىت جلد10 صفحہ86)
آج دنىوى علوم کے ان تعلىمى اداروں جن کو بھٹو سرکار نے قومىا لىا تھا اور اب ىہ سرکار کے تحت چل رہے ہىں کہ علاوہ جماعت کے بىسىوں کے قرىب تعلىمى ادارے ربوہ مىں موجود ہىں۔ جن مىں نوجوان بچوں اور بچىوں کو دىن اور دنىا کى تعلىم پڑھائى جاتى ہے اور قرىبا ًہر سال نماىاں نمبر لے کر پاکستان بھر مىں پوزىشن ہولڈر ٹھہرتے ہىں…………………..کے علاوہ صنعت و تجارت سکھلانے کى اکىڈمى اور ادارے موجود ہىں۔ جن کى الگ سے جدىد طرز پر بلند و بالا عمارات ہىں۔
جماعتى تعلىم عام ہونے کاغىروں پر اس قدر اثر ہے کہ ہم ربوہ کے اردگرد بسنے والے جانگلىوں کو دىکھا کرتے تھے کہ اپنے کسى عزىز کى وفات پر واوىلا کرتے تھے بلکہ ربوہ سے باہر سے آنے والے جانگلى بس ىا ٹرىن سے اُترتے اپنى جوتىاں سر پر رکھ کر روتے پىٹتے واوىلا کرتے اپنے گاؤں کو جاىا کرتے تھے۔ اب ىہ لوگ ہمارے احمدىوں کے گھروں مىں کام کرتے۔ باتىں اور طرز زندگى دىکھتے رہے۔ مگر اپنے آپ کو اس حد تک مہذب کرلىا ہے کہ نہ ان کو جوتىاں سر پر رکھتے روتے ہوئے دىکھا ہےبلکہ شلوار قمىض مىں اب ملبوس نظر آتے ہىں۔
محلہ جات کے نام
ربوہ، ربوہ اى اے کے تحت اس خوبى کا ذکر کرنا بھى ضرورى ہے کہ تمام محلہ جات کے نام اسلامى ہىں۔ اسلامى ناموں کے ساتھ دنىا مىں شاىد ہى کوئى شہر ہو۔ سڑکوں پر اسلامى ناموں کے ساتھ محلہ جات کى تقسىم اىک عجىب خوبصورت سماں پىدا کرتى ہے اور ان ناموں کى مناسبت سے مکىنوں کو درس و تدرىس اور تقارىر مىں توجہ دلا کر ان ناموں جىسا بننے کى تلقىن بھى خاکسار نے علماء کو کرتے ہوئے سنا ہے۔
جس کى گلىوں مىں بکھرا ہے سرماىہ گزرے سالوں کا
کسى حد تک خاکسار نے اس روحانى سرماىہ کو قلمبند کرنے کى کوشش کى ہے لىکن ىہ اىک اىسا بکھرا ہوا جماعت احمدىہ کا روحانى سرماىہ ہے کہ تا قىامت قلمکار اور مؤرخىن ان کو لکھتے رہىں تو ىہ ختم نہ ہوگا۔ مضمون مکمل کرنے اور کمپوزنگ کے مراحل کے دوران بعض بھولى بسرى ىادوں نے دماغ مىں آ بسىرا کىا ہے۔ جو ربوہ کى زىنت مىں اضافہ کا موجب ہوگا۔
ربوہ کى عمارات پر عربى عبارات، قرآنى آىات، کلمہ طىبہ اور دوسرى نصائح کثرت سے دىکھنے کو ملتى تھىں۔ ربوہ کى اىک درسگاہ پر ’’وَاَشۡرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوۡرِ رَبِّہَا‘‘ دُور سے نماىاں لکھى نظر آتى تھى۔
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ تو بہت گھروں پر لکھا ہوا ملتا ہے۔ مساجد کى پىشانىوں پر مساجد سے متعلقہ آىات نماىاں طور پر دکائى دىتى تھىں۔ بس اڈے پر اىک سرکارى دفتر کا کمرہ ہوا کرتا تھا (آج بھى ہے) اس پربس پرسے گزرنے والى سوارى کى نگاہ اس عبارت پر پڑا کرتى ہے ’’خدا تعالىٰ کہنے مىں بڑى برکات ہىں۔‘‘ کشتى نوح مىں ہمارى تعلىم سے تو گھروں کى دىوارىں بھرى ہوتى تھىں۔ اىک بزرگ عبدالحق شاکر جو بہت خوش خط لکھا کرتے تھے۔ اپنى ذاتى جىب سے ربوہ کى مختلف اہم جگہوں اور چوراہوں پر حضرت مسىح موعود علىہ السلام کے تربىتى اقتباسات لکھا کرتے تھے اور لکھ کر بعد مىں نگاہ رکھا کرتے تھے۔ جونہى بارش کى وجہ سے عبارت مدھم ہوتى تو دوبارہ چونا پھىر کر نئى عبارت لکھ دىتے۔ مجھے اچھى طرح ىاد ہے کہ اىک دفعہ مىں نے آپ کو اپنے گھر کے باہر کى دىوار پرکشتى نوح کى ىہ عبارت تىن چار رنگوں مىں نہاىت خوبصورتى کے ساتھ لکھتے ہوئے دىکھا تھا۔
’’ہر اىک صبح تمہارے لئے گواہى دے کہ تم نے تقوىٰ سے رات بسر کى اور ہر اىک شام تمہارے لئے گواہى دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کىا۔
(کشتى نوح ،روحانى خزائن جلد19 صفحہ12)
جلسہ سالانہ کے دنوں مىں تو سارا ربوہ دلہن کى طرح سج جاىا کرتا تھا۔ جگہ بجگہ اسلامى عبارتوں سے دىوارىں سج جاتىں۔ رنگ برنگے بىنرز پر مختلف عبارات لکھى جاتىں۔
ذىلى تنظىموں کے اجتماعات ہوتے۔ گو ہم انصاراللہ کے اجتماعات پر بھى شامل ہو کر حضرت خلىفۃ المسىح الثالث رحمہ اللہ کے خطاب سنا کرتے تھے۔ مسجد اقصى کے صحن مىں انصاراللہ کے اىک اجتماع پر جب پہلى دفعہ وىڈىو رىکارڈنگ ہوئى تو بہت تىز روشنى کے بلبوں کى وجہ سے ہمارى آنکھىں چندھىا رہى تھىںتو حضوررحمہ اللہ نے فرماىا کہ ىہ اب ہمارى مجبورى ہے اس کو برداشت کرنا سىکھىں۔
مجلس خدام الاحمدىہ کے اجتماع گھوڑ گراؤنڈ مىں ہوا کرتے تھے۔ جہاں خىموں کى بستى تىن دنوں کے لئے تىار ہوتى تھى۔ ہم خدام گھروں سے چادرىں اکٹھى کر کے کسى بزرگ خاتون سے سلوا کر خىمے تىار کرتے تھے۔ پھر تىن دن اس روحانى ماحول مىں گزارتے۔ اور خوب فىض حاصل کرتے۔
مجھے ىاد ہے کہ ہم جامعہ کے طلباء اىک اىسے گىٹ پر متعىن تھے جو صرف حضرت خلىفتہ المسىح کے لئے مختص تھا۔ جامعہ کے پرنسپل مکرم سىد مىر داؤد احمد مرحوم طلباء کو سبق دىنے کے لئے مختلف راستے اپنا تے رہتے تھے۔ آپ اجتماع مىں اجتماع گاہ کے غالباً ناظم تھے۔ آپ اپنى سائىکل پر اس خاص گىٹ کى طرف آئے۔ طلبہ نے ىہ جان کر کہ اىک تو ىہ پرنسپل ہىں اورناظم بھى۔ انہوں نے بانس جس سے راستہ بلاک کىا گىا تھا آپ کے گزرنے کے لئے اٹھا دىا۔ آپ گزر کر رک گئے اور طلبہ کو مخاطب ہو کر ہداىت کى ىاد دہانى کروائى کہ ىہ راستہ کس کے لىے مخصوص ہے۔ آپ نے مجھے کىوں گزرنے دىا؟
ربوہ کى ىاد ستاتى ہے
ىہ حقىقت ہے کہ انسان جس جگہ رہتا ہو اس کى بہت اہمىت سے با علم ہونے کے باوجود اس کى قدر مىں کمى رہ جاتى ہے۔ خاکسار جب تک ربوہ مىں مقىم رہا۔ بىرون از ممالک سے بہت سے احمدى احباب ربوہ کے بارے مىں مختلف باتىں لکھ کر ىا سوشل مىسىجز اور آڈىو وىڈىو بھجوا تے رہتے تھے۔ جسے ہم دىکھ اور سن لىتے تھے۔ اب خود بىرون ملک پرواز کى ہے تو ربوہ کى اہمىت، افادىت پہلے سے زىادہ اجاگر ہوئى ہے اور ربوہ کى انمول ىادىں ستا رہى ہىں۔ اب اُن پوسٹوں کو دىکھ کر اور سُن کر مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ ان مىں سے اىک نے تو دارالرحمت منڈى کى ىادوں کو اور اىک نے کوارٹرز صدر انجمن احمدىہ کى ىادوں کو نظموں کى صورت مىں فلماىا ہے۔ مىں خود بھى کوارٹرز صدر انجمن مىں رہا ہوں اور منڈى مىں عزىزوں، دوستوں اور خرىد و فروخت کے لئے آنا جانا رہتا تھااس لىے ہر دو نظمىں کانوں مىں رس گھولتى ہىں جو برادرم عبدالصمد احمد اور برادرم ہادى على چوہدرى کى آواز مىں ہىں۔ اب تو بىرون ملک مىں بسنے والے احمدىوں کے لىے بہت سے V.Log لوگوں نے تىار کر دىے ہىں۔ بعض دوستوں نے ان پُرانى ىادوں کو اپنے نوک قلم مىں محفوظ کر لىا ہے۔ جىسے الفضل مىں شائع ہونے والے مضامىن از پروىز پروازى اور فرىد احمد ملک مجھے ىاد ہىں۔ جناب محمد داؤد طاہر نے قرىہ جاوداں کے نام پر انہى ىادوں کوقلم بند کىا ہے جبکہ عبدالرشىد آرکىٹىکٹ نے ربوہ کے نام پر باتصوىر مجلہ بھى طبع کروا رکھا ہے۔ ربوہ نام پر اس سے قبل بھى پرانے وقتوں کى کتاب ہے جوربوہ دارالہجرت اور تارىخ احمدىت مىں مکرم مولانا دوست محمد شاہد مرحوم مؤرخ احمدىت نے کافى مواد آئندہ نسلوں کے لئے جمع کر چھوڑا ہے۔ ہاں ابتداءً ربوہ مىں جناب خان عبد الرزاق خان واقفِ زندگى جو آغاز ربوہ کمىٹى مىں شامل تھے نے تعمىر مرکز کے ابتدائى حالات کو نہاىت اىمان افروز رنگ مىں قلمبند کر رکھا ہے۔
الغرض ربوہ دارالہجرت کى سرزمىن اور اس کى فضائىں اس حد تک متبرک ہىں۔ جہاں ہمارے تىن متبرک خلفاء نے خلافت پر فائز ہونے سے قبل اور اس کے بعد بھى، جب کہ ہمارے پىارے امام حضرت مرزا مسرور احمد خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ مسند خلافت پر سرفراز ہونے سے قبل اس ربوہ کى گلى کوچوں مىں پھرے، مختلف مساجد، اداروں کا وزٹ کىا وہاں حکمت کے موتى بکھىرے اور ان چاروں خلفاء، حضرت ام المومنىن نصرت جہاں بىگم ؓ۔ دىگر صحابىات و صحابہ کرام و بزرگ اجل علماء اورربوہ کے تمام مکىنوں اور باسىوں کى تسبىح و تحمىداور ذکرواذکار پر دنىا مىں سب سے پىارے وجود سىدنا وامامنا ومولانا حضرت محمد مصطفى صلى اللہ علىہ وسلم پر دل و جان سے درود شرىف سے روح کى فضائىں معطر رہىں۔ اب بھى ہىں اور ان شاء اللہ تا ابدرہىں گى۔ ان گلى کوچوں کى خاک نے ہمارے بزرگ خلفاء کے پاؤں چومے ہىں۔ جہاں سے ان کا گزر ہوا۔ خدا جانتا ہے وہ جگہىں بہت مبارک ہىں جن کو آئندہ ہمارے تارىخ دان نہاىت ادب سے قلمبند کرنے پر فخر کرىں گے۔ کسى شاعر نے کىا خوب کہا ہے
؎ ہر راہ کو دىکھا ہے محبت کى نظر سے
شائد کہ وہ گزرے ہوں اسى راہ گزر سے
ربوہ کا چپہ چپہ ان بزرگ خلفاء کى مقبول دعاؤں کى گواہى دے رہا ہے اور ببانگ دہل اس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ اگر اہا لىان ربوہ اس حقىقى تعلىم کو Follow کرىں گے جو حضرت محمد مصطفےٰ صلى اللہ علىہ وسلم پر اُترى، آپؐ اس پر عمل کر کے ہمارے لئے نمونہ بنے۔ اور آج اُخروى دور مىں اس پىارى تعلىم کى تشرىح و تفسىر حضرت مسىح موعود علىہ السلام اور خلفاء کرام نے کى اور آج نمائندہ رسول حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ اس کى تعلىم کى بے مثال تشرىح و فلسفہ اپنے خطبات، خطابات، تقارىر، درس و تدرىس اور ورچوئل و دىگر کلاسز مىں بىان فرماتے ہىں اور ہم اىم ٹى اے سے استفادہ کرتے ہىں۔ ىه ہمارے لئے مشعلِ راہ ہىں۔
آج ضرورت اس امر کى ہے که دنىا بھر مىں پھىلے احمدى احباب بالعموم اور ربوہ کے باشندے با لخصوص اس اخلاص، جوش و جذبہ اور محبتِ الہٰى، محبتِ رسول، محبت قرآن، محبت خلافت سے اپنے آپ کو سر شار رکھىں۔ جن کا ذکر ہمارے پىارے امام اىدہ اللہ تعالىٰ نے مؤرخہ 3ستمبر 2021ء کے خطبه جمعہ مىں مکرم سىد طالع احمد شہىد کے حالات و واقعات اور سىرت بىان کرتے ہوئے ان الفاظ مىں مرحوم شہىد کو خراجِ تحسىن پىش فرماىا۔ ’’ہمارے بہت ہى پىارے‘‘, ’’اے پىارے طالع! مىں گواہى دىتا ہوں کہ ىقىناً تم نے اىسے وقف اور عہد کے اعلىٰ ترىن معىاروں کو حاصل کر لىا۔‘‘ اور ’’آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم اور حضرت مسىح موعود علىہ الصلوۃ والسلام کى جسمانى اور روحانى آل ہونے کا حق بھى ادا کر دىا‘‘
پس ہمىں اپنے عہدوں کا جائزہ لے کرانهىں کھنگالنے کى ضرورت ہے۔ اور ہم مىں سے ہر اىک کو آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم اور حضرت مسىح موعود علىہ السلام کى روحانى آل اولاد مىں شامل کرنے کى سعى کرنى ہے اور نئے عہد وفا باندھنے ہوں گے۔
اہا لىان ِربوہ سے حضرت خلىفۃ المسىح الثانى ؓ کى توقعات
ىہاں مضمون کى طوالت سے بچتے ہوئے صرف بانى ربوہ حضرت مصلح موعودؓ اور موجودہ سالار قافلہ احمدىت حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ کى ربوہ کے رہائشىوں کے بارے خواہشات و توقعات بىان کى جارہى ہىں۔
حضرت مصلح موعودؓ مؤرخہ 21مئى 1954ء کو اپنے اىک خطبہ جمعہ مىں ربوہ کى غرض و غاىت، اشاعت اسلام کے مشن کو پاىہ تکمىل تک پہنچانے کے بارے مىں بىان کرتے ہوئے فرماتے ہىں۔
’’ربوہ کى بنىاد کى غرض ىہ تھى کہ ىہاں زىادہ سےزىادہ نىکى اختىار کرنے والوں کو اس غرض سے بسنا چاہئے کہ وہ ىہاں رہ کر دىن کى اشاعت مىں دوسروں سے زىادہ حصہ لىں۔ ہم نے اس مقام کو اس لئے بناىا ہے کہ تا اشاعت دىن مىں حصہ لىنے والے لوگ ىہاں جمع ہوں اور دىن کى اشاعت کرىں اور اس کى خاطر قربانى کرىں۔ پس تم ىہاں رہ کر نىک نمونہ دکھاؤ اور اپنى اصلاح کى کوشش کرو۔ تم خدا تعالى سے تعلق قائم کر لو۔ اگر تم اس کى رضا کو حاصل کر لو تو سارى مصىبتىں اور کوفتىں دور ہو جا ئىں گى اور راحت کے سامان پىدا ہو جائىں گے۔
(تارىخ احمدىت جلد13 صفحہ172)
’’صرف اىسے ہى لوگوں کو ربوہ مىں رہنے کى اجازت دى جائے گى جو اپنى زندگى عملى طور پر دىن کى خدمت کے لىے وقف کرنے والے ہوں…… جب بھى سلسلہ کو ضرورت ہوگى وہ بلا چون و چرا اپنا کام (کاروبار) بند کر کے سلسلہ کى خدمت کرنے کا پابند ہوگا۔‘‘
(خطبہ جمعہ 21 ستمبر 1949ء)
ہر شخص کو……..اىک ماہ خدمت دىن کے لئے ضرور وقف کرنا ہوگا……..ہر فرد بشر کے لئے اسلامى اخلاق کو اس درجہ اپنانا ضرورى ہوگا کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ بن سکىں مثلاً نماز باجماعت کى پابندى……وغىرہ۔
(الفضل 20 اپرىل 1949ء)
اللہ تعالىٰ نے موقع دىا ہے کہ ہم اىک نئى بستى اللہ تعالى کے نام کو بلند کرنے کے لئے بسائىں۔ پس اس موقع پر ہمىں بھى اور ىہاں کے رہنے والے سب افراد کو بھى ىہ عزم کر لىنا چاہىے کہ انہوں نے خدا سے مانگنا ہے کسى بندے سے نہىں مانگنا۔
(الفضل 6 اکتوبر 1949ء)
دوسروں کى نسبت آپ (اہلِ ربوه) پر زىاده ذمہ دارى ہے۔ دوسروں کى نسبت اللہ تعالى نے دنىوى سہولتىں آپ کو زىادہ دى ہىں اور اللہ تعالىٰ ىہ چاہتا ہے کہ سب سے زىادہ نىکىوں مىں آپ آگے بڑھىں…… دکاندار ربوہ کے ماحول مىں مہنگى اشىاء بىچتے ہىں اور خوش ہوتے ہىں لىکن اپنے رب کى راہ مىں زىادہ اموال خرچ کرنے کى طرف متوجہ نہىں ہوتے……..پھر مىں ربوہ مىں جو ہمارے کارکن ہىں ان کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ مىں سے کچھ ہىں جو پورا وقت نہىں دىتے ان کو ىہ سوچ کر شرم آنى چاہىے کہ انہوں نے دوسروں کے لىے اىک نمونہ بننا تھا۔ اس مسابقت کے مىدان مىں لىکن ان سے زىادہ وقت دىتے ہىں کراچى کے بعض احمدى جو دفاتر وغىرہ مىں سات آٹھ گھنٹے لگانے کے بعدسات گھنٹے جماعت احمدىہ کے کاموں پر خرچ کرتے ہىں اور ہمارے کلرک ربوہ مىں رہتے ہوئے گزارہ لے کر چھ گھنٹے کام نہىں کرتے…….. اىک نىکى ربوہ سے تعلق رکھنے والى خاص طور پر ىہ ہے کہ ىہاں کسى قسم کى لڑائى جھگڑا نہ ہو……..خاص طور پر ربوہ مىں کوئى لڑائى اور جھگڑا اور گالى گلوچ نہىں ہونا چاہىے۔
(روزنامہ الفضل 29مارچ 1968ء)
حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ کى توقعات
ربوہ کے بچے سلام کو رواج دىں
حضور اىدہ اللہ نے 7 جون 2003ء کو بچوں کى کلاس مىں فرماىا :
’’ربوہ کے بچوں کے لئے ىہى مىرا پىغام ہے کہ ربوہ کے ماحول کو اىسا بنا دىں کہ ہر طرف سے سلام سلام کى آوازىں آ رہى ہوں۔ بڑے بھى،چھوٹے بھى،بچے بھى بعض دفعہ بڑوں سے سستى ہو جاتى ہىں تو بچے اس کى پابندى کرىں کہ انہوں نے بہرحال ہر اىک کو سلام کہنا ہے اور سلام کرنے مىں پہل کرنى ہے تو اس طرح ربوہ کے ماحول پر بڑا خوشگوار اثر پڑے گا ان شاءاللّٰہ۔ دوسرے مساجد کو آباد کرنے کے لئے۔ ربوہ کے ماحول مىں جو خالصتا ًاحمدىت کا ماحول ہے بچوں کو چاہىے کہ اپنے بڑوں کو توجہ دلائىں اور خود بھى خاص توجہ کرىں اور مساجد مىں زىادہ سے زىادہ جائىں اور مساجد کو آباد کرىں تاکہ احمدىت کى فتح کے نظارے دعاؤں کے طفىل ہمىں ان شاءاللّٰہ تعالىٰ ملنے ہىں وہ ہم جلد دىکھىں۔‘‘
پىر بنىں پىر پرست نہ بنىں
پھر آپ خطبہ جمعہ 22 اکتوبر 2004ء مىں فرماتے ہىں:
’’حضرت مسىح موعود علىہ السلام نے فرماىا ہے کہ ’’پىر بنىں پىر پرست نہ بنىں‘‘ پاکستان مىں بھى اور دوسرى جگہوں مىں بھى بعض جگہ ربوہ مىں بھى احمدىوں نے اپنے دعاگو بزرگ بنائے ہوئے ہىں اور وہ بزرگ مىرے نزدىک نام نہاد ہىں جو پىسے لے کر ىا وىسے ہى تعوىذ وغىرہ دىتے ہىں ىادعا کرتے ہىں ىہ سب فضولىات اور لغوىات ہىں۔ مىرے نزدىک تو وہ احمدى نہىں ہىں جو اس طرح تعوىذ وغىرہ کرتے ہىں۔‘‘
ہر گھر کے سامنے صاف ستھرا ماحول ہو
حضرت خلىفہ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالى نے 23 اپرىل 2004ء کوخطبہ جمعہ مىں فرماىا۔
’’ربوہ مىں جہاں 98 فىصد احمدى آبادى ہے، اىک صاف ستھرا ماحول نظر آنا چاہىے۔ اب ماشاء اللہ تزئىن ربوہ کمىٹى کى طرف سے کافى کوشش کى گئى ہے ربوہ کو سرسبز بناىا جائے اور بنا بھى رہے ہىں۔ پودے، درخت، گھاس وغىرہ سڑکوں کے کنارے لگائے گئے ہىں اور نظر بھى آتے ہىں۔کافى سبزہ ربوہ مىں نظر آتا ہے …….. اس لئے اہلِ ربوہ خاص توجہ دىتے ہوئے اپنے گھروں کے سامنے نالىوں کى صفائى کا اہتمام کرىں اور گھروں کے ماحول مىں بھى کوڑا کرکٹ سے جگہ کو صاف کرنے کا بھى انتظام کرلىں تاکہ کبھى کسى راہ چلنے والے کو اس طرح نہ چلنا پڑے کہ گند سے بچنے کے لىے سنبھل سنبھل کر قدم رکھ رہا ہو اور ناک پر رومال ہو کہ بو آ رہى ہے۔‘‘
پھر اسى خطبہ جمعہ مىں فرماىا:
’’صفائى کے ضمن مىں اىک انتہائى ضرورى بات جو جماعتى طور پر ضرورى ہے وہ ہے جماعتى عمارات کے ماحول کو صاف رکھنا …….. اس کا باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے …….. اس مىں سب سے اہم عمارات مساجد ہىں۔مساجد کے ماحول کو بھى پھولوں، کىارىوں اور سبزے سےخوبصورت رکھنا چاہىے
(الفضل7 مئى 2004ء)
اختتامىہ
اے دلہا!ربوہ کى بستى تىرى رہ تک رہى ہے!
اس مضمون کا اختتام کرتے ہوئے، مىں جذباتى ہو رہا ہوں کہ جب تک مىں ربوہ مىں مقىم رہا خلىفۃ المسىح کى ىاد ستاتى رہى۔ گوخدائى نعمت اور انعام اىم ٹى اے نے اس ىاد مىں کمى پىدا کى اور کم از کم سات دنوں مىں اىک جمعہ کے روز حضور سے آدھى ملاقات اىم ٹى اے کے ذرىعہ ہو جاتى رہى اور دل اور آنکھىں تسکىن پاتى رہىں۔ اور جب ىہاں لندن آگىا ہوں تو ربوہ کى ىاد ستاتى ہے۔ مضمون کے اختتام پر جسم کے اندر پىدا ہونے والے جذباتى ماحول مىں مجھے حضور انور کى ہمشىرہ مکرمہ صاحبزادى امتہ القدوس بىگم کى اىک نظم کے چند اشعار ىاد آرہے ہىں۔آپ لکھتى ہىں:
؎ مجبور سہى، لاچار سہى ہے کرب و بلا کا دور مگر!
پُر عزم بھى ہىں با حوصلہ بھى رہتے ہىں جو سارے ربوہ مىں
؎ تسکىن سماعت پاتى ہے، ذہنوں کو جلا بھى ملتى ہے
پر دىد کى پىاس کا کىا کىجئے، بھڑکى ہے جو سارے ربوہ مىں
؎ کب سا قى بزم مىں آئے گا،کب جام لنڈھائے جائىں گے
دو قطروں سے کب ہوتے ہىں،رندوں کے گزارے ربوہ مىں
کم و بىش ىہى کىفىت ربوہ کے ہر شہرى،ہر باسى،ہر مکىن اور ہر رہائشى کى ہے۔ ىہ کہتے ہوئے وہ خلىفہ المسىح کى راہ تک رہے ہىں۔
؎عرفان کى بارش ہوتى تھى جب روز ہمارے ربوہ مىں
اے کاش! کہ جلدى لوٹ آئىں وہ دن وہ نظارے ربوہ مىں
مگر اہلِ ربوہ کو ىہ پىغام ىاد رکھنا چاہىے۔
’’اگر سو فىصد پاکستانى خالص ہوکر اللہ تعالى کے آگے جھک جائىں تو ان حالات کا خاتمہ چند راتوں کى دعاؤں سے ہوسکتا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 7 اکتوبر2011ء)
(روزنامہ الفضل 12 جون 2003ء)