• 20 اپریل, 2024

آخری زمانہ میں عالمی مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ اسلام کا پیغام (قسط دوم۔ آخری)

آخری زمانہ میں عالمی مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ اسلام کا پیغام پہنچنے کی حیرت انگیز خوشخبری
قسط دوم۔ آخری

گزشتہ کل سے مضمون جاری ہے

حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئیاں

حضرت مسیح موعودؑ کو بھی خداتعالیٰ نے بعینہ انہی الفاظ میں آسمانی ندا کی بشارت دی جن الفاظ میں آنحضرتﷺ اور بزرگان امت نے خبر دی تھی۔ آپ کو 12؍دسمبر 1902ء کو الہام ہوا۔ ینادی مناد من السماء

(بدر 19؍دسمبر 1902ء تذکرہ صفحہ365)

ایک منادی آسمان سے پکارے گا۔

حضرت مسیح موعودؑ کے 1897ء کے الہامات میں یہ عظیم الشان الہام بھی شامل ہے۔ الارض والسماء معک کماھو معی۔ اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒفرماتے ہیں:
اس الہام کو حضرت مسیح موعودؑ نے ایک ایسے ترجمے کے ساتھ پیش کیا ہے جو خود اپنی ذات میں ایک تشریح اور تفسیر کے معنی رکھتا ہے۔ فرماتے ہیں یعنی آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمانی طاقتیں اور خدائی نوشتے تیری تائید کریں گے۔ اس زمین پر تو اپنی کوشش کر لیکن آسمان سے ایسی ہوائیں چلائی جائیں گی جو تیری مددگار ثابت ہوں گی۔ اس زمانہ میں آسمان کس طرح ساتھ تھا یہ فرشتوں کا نزول ہو رہا تھا۔ قادیان میں طرح طرح کے آسمانی نشان دکھائے جارہے تھے۔ خود اس سال میں یعنی 1897ء یعنی 97 کے لحاظ سے دہرایا جارہا ہے۔ عظیم الشان نشانات اس سال دکھائے گئے تھے۔ ان کا ذکر بعد میں کروں گا لیکن یہاں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہی الہام ایک نیا رنگ اختیا رکر جاتا ہے جب اس کو1997ء میں پڑھتے ہیں۔ آسمان کا ساتھ ہونا ایم ٹی اے کی طرف بھی اشارہ کررہا ہے اور یہ امر واقعہ ہے کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ کل عالم میں آسمان نے جو گواہیاں دی ہیں وہ حیرت انگیز ہیں۔ اس کثرت کے ساتھ وحدت نصیب ہوئی ہے کہ جب ہم اس الہام کو 1897ء کی بجائے 1997ء میں پڑھتے ہیں تو پھر اس کے معنی ہیں آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہیں۔ یعنی خداتعالیٰ کی وہ آسمانی طاقتیں جو ابھی ظہور میں نہیں آئیں وہ بھی تیرے ساتھ ہوں گی جیسا کہ وہ میرے ساتھ ہیں۔ یعنی آنحضرت ﷺ نے جس خدا کو پیش کیا وہ جیسا کہ آسمان پر تھا ویسا ہی زمین پر ظاہر ہوا۔ مراد یہ نہیں ہے کہ نعوذباللہ مسیح موعودؑ کو باقی انبیاء پر فوقیت عطا ہوئی ہے۔ ہر نبی کے ساتھ آسمان کا خدا اترتا رہا ہے اور اس کے زمین پر اترنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زمینی طاقتیں آسمانی طاقتوں کے سائے تلے اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ پس اس پہلو سے ہم جب اس سال اس الہام کو پڑھتے ہیں تو آسمان ہمارے ساتھ ہے اس سے مراد یہ کہ آسمان کی متحرک طاقتیں وہ ریڈیائی وجود جس کا پہلے علم نہیں تھا اب کلیةً جماعت احمدیہ کی تائید میں ظاہر ہوچکا ہے اور رونما ہورہا ہے اور اس کے نتیجے میں ان شاء اللّٰہ تعالیٰ دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوگا اور پہلے سے بڑھ کر ہوگا۔

(خطبہ جمعہ 25؍جولائی 1997ء)

؎ہو گیا غلبہ ہواؤں پر نصیب آج اپنا بادباں ہے ایم ٹی اے
تیرتے ہیں ہم ہوا کے دوش پر برکتوں کا سائباں ہے ایم ٹی اے

ہوا میں تیرنے کا لطیف کشف

حضرت مسیح موعودؑ کے مندرجہ الہام سے 4 دن پہلے ایک کشف میں ہوا میں تیرنے کا ذکر ہے۔ جس سے حضرت مصلح موعودؓ نے لطیف استنباط فرمایا ہے۔

آپ کا 8؍دسمبر 1902ء کا کشف ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر وضو کرنے لگا تو معلوم ہوا کہ وہ زمین پولی (نرم) ہے اور اس کے نیچے ایک غار سی چلی جاتی ہے میں نے اس میں پاؤں رکھا تو دھس گیا اور خوب یاد ہے کہ پھر میں نیچے ہی نیچے چلا گیا پھر ایک جست کر کے میں اوپر آ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ہوا میں تیر رہا ہوں اور ایک گڑھا ہے مثل دائرہ کے گول اور اس قدر بڑا جیسے یہاں سے نواب صاحب کا گھر (مسجد مبارک سے نواب محمد علی خان صاحب کا گھرجو حضور کے گھر سے متصل تھا) اور میں اس پر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر تیر رہا ہوں۔ سید محمد احسن صاحب کنارہ پر تھے میں نے ان کو بلا کر کہا کہ دیکھ لیجئے کہ عیسیٰ تو پانی پر چلتے تھے اور میں ہوا پر تیر رہا ہوں اور میرے خدا کا فضل ان سے بڑھ کر مجھ پر ہے۔حامد علی میرے ساتھ ہے اور اس گڑھے پر ہم نے کئی پھیرے کئے نہ ہاتھ نہ پاؤں ہلانے پڑتے ہیں اور بڑی آسانی سے ادھر ادھر تیر رہے ہیں۔(البدر 12؍دسمبر 1902ء صفحہ55) سیدنا حضرت مصلح موعودؓ اس کشف کی تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حضرت مسیح ؑکے متعلق انجیل میں ذکر آتا ہے کہ وہ پانی پر چلے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ واقعہ میں حضرت مسیح علیہ السلام پانی پر اپنے پاؤں سے چلتے تھے۔ حالانکہ یہ ان کا ایک کشف تھا جس میں انہیں بتایا گیا تھا کہ ان کی قوم کی بحری طاقت زیادہ ہوگی مگر اس عقدہ کو حضرت مسیح موعودؑ کے کشف نے ہی حل کیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ میں ہوا میں تیر رہا ہوں۔ اس کشف میں جہاں یہ اشارہ ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے جب کہا کہ میں پانی پر چل رہا ہوں تو درحقیقت آپ نے اپنا ایک کشف ہی بیان فرمایا تھا جسے لوگوں نے بعد میں بگاڑ کر کچھ کا کچھ بنادیا اور اس کشف کا مطلب یہ تھا کہ میری قوم کسی زمانے میں بہت بڑی بحری طاقت حاصل کرے گی۔ وہاں اس کشف میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ آئندہ ہوائی جہازوں کا زور زیادہ ہو جائے گا اور بحری جہاز صرف سیر و سیاحت کے لئے رہ جائیں گے زیادہ تر کام ہوائی جہازوں سے ہی لیا جائے گا اور بحری جہازوں کے مقابلہ میں ان کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں اب ایسا ہی ہورہا ہے۔

(روزنامہ الفضل قادیان 3؍جون 1944ء)

غار میں دھنسنے سے مراد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی ہجرت لندن اور جماعت کا سخت اذیت ناک دور ہے پھر جماعت جست کر کے باہر آئی اور اڑنا شروع کر دیا۔

اس رؤیا میں گول گڑھے سے ڈش مراد لینا بعید ازقیاس نہیں ہے۔ جس پر تیرنے کے لئے ہاتھ پاؤں ہلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ حامد علی حضرت مسیح موعودؑ کے خادم تھے۔ اس رؤیا میں حامد علی سے مراد چوتھا خلیفہ بھی ہوسکتا ہے۔ جو علی کی طرح ہمہ وقت آقا کی خدمت میں کمربستہ ہے اور اس کو حامد کہہ کر اس لئے پکارا ہے کہ وہ کثرت سے حمد کرنے والا ہے اور مسیح موعودؑ کے ساتھ ہوا میں تیر رہا ہے۔ اس زمانہ میں ہوا میں تیرنے کے یہ معنی بھی ظاہر ہوتے ہیں کہ مسیح موعودؑ کو ہواؤں پر غلبہ دیا جائے گا اور ان فضائی ذرائع سے وہ مسیح کی قوم پر غالب آئیں گے۔ ہواؤں میں اڑنے اور تیرنے کے اس مضمون کو حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے حمد اور شکر کے ساتھ باندھ کر یوں بیان فرمایا ہے۔

اسلام کی ترقی کی راہ پر آگے بڑھتے رہیں۔ آپ جو کل چل رہے تھے، آج دوڑ رہے ہیں۔ آپ جو آج دوڑ رہے ہیں ان کو فضا میں اڑنا بھی نصیب ہوا ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا اب یہ فیصلہ ہے کہ مسیح محمدی کے لئے آسمان کی فضائیں مسخر کی جائیں گی اور ان تمام مراتب میں جو آسمان سفروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے غلاموں کو سب دنیا کی دوسری قوموں اور انسانوں پر ایک برتری عطا ہوگی۔ پس یہ آسمانی سفر کا آغاز ہوا ہے۔ یہ ایم ٹی اے کی لہریں جو تمام دنیا میں آسمان سے اترتی ہیں یہ اس سفر کا آغاز ہے۔ ابھی بہت کچھ ہے جو آگے آنے والا ہے اگلی صدیاں جو کچھ دیکھیں گی آپ یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود تصور بھی نہیں کرسکتے کہ کتنی بڑی عظمتوں کی بنا ڈالی جاچکی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا شکر ادا کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔

؎لے گیا ہم کو فضائی دور میں
مثلِ طائر پر فشاں ہے ایم ٹی اے
دور اونٹوں، گاڑیوں کا لد چکا
راکٹوں کا ترجماں ہے ایم ٹی اے

نزول بجلی کی مانند

اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے روحانی غلبہ کی کیفیات اور ذرائع کی خبر دیتے ہوئے الہا می خطبہ میں فرمایا:

وينْزل الأمْر من الْفوْق منْ غيْر تدْبيْر الْمدبريْن كأن الْمسيْح ينْزل كالْمطر من السماء واضعاً يديْه على أجْنحة الْملائكة لا على أجْنحة حيل الدنْيا والتدابيْر الإنْسانيةوتبْلغ دعْوته وحجته إلى أقْطار الأرْض بأسْرع أوْقاتٍ كبرْقٍ يبْدوْ منْ جهةٍ فإذا هى مشْرقةٌ فىْ جهاتٍ فكذالك يكوْن فىْ هذا الزمان فلْيسْمعْ منْ يكنْ له أذنان وينْفخ فىْ الصوْر لإشاعة النوْر وينادىْ الطبائع السليْمة للإهْتداء فيجْتمع فرق الشرْق والْغرْب والشمال والْجنوْب بأمْرٍ منْ حضْرةالْكبْرياء

(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد16 صفحہ284)

یعنی مدبروں کی تدبیر کے بغیر تمام چیزیں اوپر سے نیچے آئیں گی گویا مسیح بارش کی طرح فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھ کر آسمان سے اترے گا۔ انسانی تدبیروں اور دنیاوی حیلوں کے بازوؤں پر اس کا ہاتھ نہیں ہوگا اور اس کی دعوت اور حجت زمین میں چاروں طرف بہت جلد پھیل جائے گی۔ اس بجلی کی طرح جو ایک سمت میں ظاہر ہو کر ایک دم میں سب طرف چمک جاتی ہے۔ یہی حال اس زمانہ میں واقعہ ہوگا جس کے کان ہیں وہ سن لے کہ نور کی اشاعت کے لئے صور پھونکا جائے گا اور سلیم طبائع ہدایت کے لئے پکاریں گی اس وقت مشرق اور مغرب شمال اور جنوب کے فرقے خدا کے حکم سے جمع ہو جائیں گے۔

اس پیشگوئی میں آسمان سے نازل ہونے والی بارش، فرشتوں، بجلی اور چاروں سمتوں کا ذکر قابل توجہ ہیں۔ کیونکہ یہ سب باتیں اس پیشگوئی میں مشترک ہیں جو حضرت مسیح نے اپنی آمد ثانی کے لئے کی ہے۔ دوبارہ ملاحظہ فرمائیں۔

ایک مقدس خواہش

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: میری بڑی آرزو ہے کہ ایسا مکان ہو کہ چاروں طرف ہمارے احباب کے گھر ہوں اور درمیان میں میرا گھر ہو اور ہر ایک گھر میں میری ایک کھڑکی ہو کہ ہر ایک سے ہر ایک وقت واسطہ و رابطہ رہے۔

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی صفحہ24 سٹیم پریس قادیان طبع سوم 1935ء)

دنیا کے کسی بھی قانون اور طریق سے اس خواہش کے پورا ہونے کا قطعاً کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ ایک مکان کے گرد کروڑوں بلکہ اربوں احمدیوں کے مکانات ہوں اور ہر ایک گھر میں اس کی کھڑکی کھلے ناممکن ہے۔ مگر اس خدا نے جس نے خود ایک پاک دل میں یہ خواہش پید اکی تھی اسے ممکن کر دکھایا ہے اور آج ایم ٹی اے کی شکل میں حضرت مسیح موعودؑ کو ایک ایسا عالمی مکان میسر آگیا ہے جس کے چاروں طرف احمدی بستے ہیں اور ہر گھر سے ہر وقت رابطہ ہے۔مسیح موعودؑ کا جانشین اور اس کا مقرر کر دہ نظام ہمہ وقت تمام احمدیوں کی رہنمائی پر مستعد ہے۔ صرف ٹیلی ویژن کی کھڑکی کھولنے کی دیر ہے اور روحانی مائدہ سے سیرابی شروع ہو جاتی ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کی اس خواہش کو حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے جنوری 1900ء میں تحریر فرمایا اور 1994ء سے خداتعالیٰ نے اس خواہش کی تکمیل کے سامان شروع فرما دیئے جو اس زمانہ میں اپنے کمال کو پہنچ گئے ہیں اور مزید دو طرفہ تعلقات کے ذریعہ ٹیلی ویژن کی یہ کھڑکی اور زیادہ مؤثر ہوتی جا رہی ہے۔؎

جس مکاں کی آرزو مہدی کو تھی
ہو بہو ویسا مکاں ہے ایم ٹی اے
سب گھروں میں احمدی احباب کے
کُھلنے والی کھڑکیاں ہے ایم ٹی اے

خلفائے سلسلہ کی پیشگوئیاں
حضرت مصلح موعودؓ کی بشارت

حسن و احسان میں حضرت مسیح موعودؑ کے نظیر حضرت مصلح موعودؓ نے مختلف رنگوں میں اس عالمی مواصلاتی نظام کی خبر دی۔ کہیں واضح بشارات اور کہیں ایسی پاک خواہش کے طور پر جسے خدا نے پیشگوئی میں تبدیل کر کے پورا فرمایا: 1936ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر پہلی دفعہ لاؤڈ سپیکر استعمال کیا گیا۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس ایجاد کو بھی حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا نشان قرار دیتے ہوئے فرمایا:
’’میں سمجھتا ہوں یہ بھی حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا ایک نشان ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے یہ خبر دی تھی کہ مسیح موعودؑ اشاعت کے ذریعہ دین اسلام کو کامیاب کرے گا اور قرآن کریم سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ مسیح موعودؑ کازمانہ اشاعت کا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نشان کی صداقت کے لئے پریس جاری کر دیئے اور پھر آواز پہنچانے کے لئے لاؤڈ سپیکر اور وائر لیس وغیرہ ایجاد کرائے اور اب تو اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ایسا دن بھی آسکتاہے کہ مسجد میں وائر لیس کا سیٹ لگاہوا ہو اور قادیان میں جمعہ کے روز جوخطبہ پڑھا جارہاہو وہی تمام دنیا کے لوگ سن کربعدمیں نماز پڑھ لیا کریں۔

(روزنامہ الفضل قادیان 19؍دسمبر 1936ء)

عالَمی درس القرآن

مسجد اقصیٰ قادیان میں پہلی دفعہ 7؍جنوری 1938ء کو لاؤڈ سپیکر لگا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس دن خطبہ جمعہ میں فرمایا: اب وہ دن دور نہیں کہ ایک شخص اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا ساری دنیا میں درس وتدریس پر قادر ہوگا۔ ابھی ہمارے حالات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے، ابھی ہمارے پاس کافی سرمایہ نہیں اور ابھی عملی دقتیں بھی ہمارے راستے میں حائل ہیں۔ لیکن اگریہ تمام دقتیں دورہو جائیں اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ ہمیں ترقی دے رہا ہے اور جس سرعت سے ترقی دے رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب زمانہ میں ہی یہ تمام دقتیں دورہوجائیں گی توبالکل ممکن ہے کہ قادیان میں قرآن اور حدیث کا درس دیا جارہاہو اورجاوا کے لوگ اورامریکہ کے لوگ اور انگلستان کے لوگ اور فرانس کے لوگ اور جرمن کے لوگ اور آسٹریلیا کے لوگ اور ہنگری کے لوگ اور عرب کے لوگ اور مصر کے لوگ اور ایران کے لوگ اور اسی طرح تمام ممالک کے لوگ اپنی اپنی جگہ وائرلیس سیٹ لئے ہوئے وہ درس سن رہے ہوں۔ یہ نظارہ کیا ہی شاندار نظارہ ہوگا اور کتنے ہی عالیشان انقلاب کی یہ تمہید ہوگی کہ جس کا تصور کرکے بھی آج ہمارے دل مسرت و انبساط سے لبریز ہو جاتے ہیں۔

(روزنامہ الفضل قادیان 13؍جنوری 1938ء)

1995ء کے عالمی درس قرآن کے ایام میں الفضل کے مطالعہ کے دوران حضرت مصلح موعود ؓکا یہ ارشاد خاکسار کے علم میں آیا تو اسے حضور کی خدمت میں بھجوانے کی توفیق ملی۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے 19؍فروری 1995ء کو عالمی درس قرآن میں خلافت احمدیہ کی آسمانی نصرت اور تائید کے ضمن میں یہ پیشگوئی بیان کرتے ہوئے فرمایا:
اب میں آپ کو بتاتا ہوں دیکھیں حضرت مصلح موعودؓ کی پیشگوئی یہ اس موقعے کے لئے استعمال ہوسکتی تھی۔ بہت عمدہ بات تھی مجھے تو خیال نہیں گیا مگر عبدالسمیع خان صاحب ربوہ نے اس عالمی درس سے متاثر ہو کر ایک پیشگوئی بھجوائی ہے جو اس بات کی مؤید ہے بڑی کھلی کھلی مؤید ہے جو میں بیان کررہا ہوں کہ اگر آپ نے ایک خلیفہ کی بیعت کی ہے تو درست کی ہے اس خلیفہ کو خدا نے مقرر فرمایا ہے وہ کمزور ہو، ناکارہ ہو خدا اپنے تقرر کی غیرت رکھتا ہے اور حفاظت فرماتا ہے اور اس کے مخالفین کو ضرور نامراد کیا کرتا ہے۔ پس ہر وہ اختلاف جو مخالفت سے اگا ہے وہ اس پودے کی طرح ہے اجۡتُثَّتۡ مِنۡ فَوۡقِ الۡاَرۡضِ مَا لَہَا مِنۡ قَرَارٍ (ابراہیم: 27) اسے تو ضرور اکھاڑا جائے گا وہ شجرہ خبیثہ ہے اس کو قرار نہیں ملے گا۔ یہ میں بتا دیتا ہوں Warning کے طور پر۔ لیکن سچے پاک اختلاف جو کثرت سے مجھے ملتے ہیں ان کے خلاف کوئی ردعمل نہیں ہے ہرگز نعوذباللّٰہ من ذالک۔ نہ کسی ایک معین شخص کے متعلق میں اعلان کررہا ہوں کہ وہ منافق ہے ہرگز نہیں۔ وہ اپنا حال مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ اصول میں نے بتادیا ہے۔ سمجھا دیا کہ کس طرح پہچانتے ہیں پھر ان کا معاملہ اور خدا کا معاملہ ہے پھر میں بیچ میں سے ایک طرف ہٹ جاؤں گا۔

یہ سنیے! مسجد اقصیٰ قادیان میں پہلی دفعہ 7؍جنوری 1938ء کو لاؤڈ سپیکر لگا۔ 1938ء کو سات جنوری کو لاؤڈ سپیکر لگتا ہے اور یہ اتنا بڑا واقعہ ہے اس زمانے کے لحاظ سے کہ حضرت مصلح موعودؓ اس پہ خطبہ دیتے ہیں اور اس وقت میں دس سال کا تھا۔ 1928ء میں پیدا ہوا ہوں آخر پر۔ تو اس وقت وہ خطبے میں فرمارہے ہیں۔ اب وہ دن دور نہیں کہ ایک شخص اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا ساری دنیا میں درس و تدریس پر قادر ہوسکے گا۔ اب بتائیں کہ میرے جیسے جاہل نادان بچے کا وہاں موجود ہونا کوئی تصور بھی کرسکتا تھا کہ یہ وہ لڑکا ہوگا جو اٹھے گا اور اس پیشگوئی کا مصداق بنے گا۔ فرماتے ہیں:
’’ابھی ہمارے حالات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ ابھی ہمارے پاس کافی سرمایہ نہیں اور ابھی علمی دقتیں بھی ہمارے راستے میں حائل ہیں لیکن اگر یہ تمام دقتیں دور ہو جائیں اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ ہمیں ترقی دے رہا ہے اور جس سرعت سے ترقی دے رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب زمانہ میں ہی یہ تمام دقتیں دور ہو جائیں گی تو بالکل ممکن ہے کہ قادیان میں قرآن اور حدیث کا درس دیا جارہا ہو اور جاوا کے لوگ اور امریکہ کے لوگ اور انگلستان کے لوگ اور فرانس کے لوگ اور جرمنی کے لوگ اور آسٹریلیا کے لوگ اور ہنگری کے لوگ اور عرب کے لوگ اور مصر کے لوگ اور ایران کے لوگ اور اسی طرح تمام ممالک کے لوگ اپنی اپنی جگہ وائرلیس کے سیٹ لئے ہوئے وہ درس سن رہے ہوں۔‘‘

اس طرح خدا اپنے نشان ظاہر کرتا ہے پھر کیوں شکوک اور وہموں میں مبتلا ہو کر تم اپنی عاقبت کے درپے ہوتے ہو لیکن اگر خالص ہو اپنے عہد بیعت میں اور خدا کی تائیدیں تمہیں یقین دلارہی ہیں کہ یہ درست فیصلہ تھا بیعت کا تو پھر اپنے طرز عمل میں وہ ادب اختیار کرو جو لازم ہے۔ میرے جیسے کمزور انسان کے لئے نہیں بلکہ نفخ روح کے تقاضے کی وجہ سے کیونکہ جس خلیفہ کو خدا بناتا ہے جو اس کے مسند پر بیٹھتا ہے وہ اسی نفخ روح سے برکت پاتا ہے۔ نئی نفخ روح اس پر نہیں ہے لیکن اسی نفخ روح سے برکت پاتا ہے۔ نئی نفخ روح اس پر نہیں ہے لیکن اسی نفخ روح سے برکت پاتا ہے اس لئے اس مقام کو کبھی نظر سے نہیں ہٹانا اور ذاتی طور پر جو میں اپنے آپ کو سمجھتا ہوں مجھے بہتر پتہ ہے، میں نہایت ناکارہ انسان ہوں، علمی لحاظ سے کمزور، بسااوقات اتنی غلطیاں کرتا ہوں کہ سارے خلفاء نے مل کر جو ظاہری علم کی غلطیاں ہیں۔ میں پھر بتارہا ہوں ظاہری علوم کی وہ اتنی ان کی نہیں ہوں گی جتنی میں اکیلا ہی کرچکا ہوں اب تک پھر بھی اللہ برداشت فرمارہا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ غلطیاں بشری کمزوریاں ہیں، بچپن کی غلط Schooling کے نتیجے میں۔ میری تربیت اللہ اور طرح فرمارہا تھا سکول کے وہ پڑھنے والے مولوی بن رہے تھے۔ وہ اور طرح بن رہے تھے۔ ظاہری علوم پہ جو انہیں دسترس ہوئی وہ مجھے نصیب نہیں ہوئی میں جانتا ہوں مگر اگر وہ ہوتی تو یہ نہ ہوتا جو اب نصیب ہے اس لئے جن تقاضوں کے پیش نظر اللہ مجھے تیار کررہا تھا ان میں ان غلطیوں کا شامل ہونا ایک لازمی حصہ ہے اس لئے ان سے کوئی غلط نتیجے نہ نکالیں مگر خدا کی تائید بہرحال میرے ساتھ ہی رہے گی اور ہر خلیفہ کے ساتھ ہے جب تک مسیح موعودؑ کے اعلیٰ مقاصد پورے نہیں ہوتے اسی طرح جاری رہے گی اور جو شخص اس سے تعلق کاٹ لے گا اس کا خدا سے تعلق کاٹا جائے گا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے۔ اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اپنے وفا کے تقاضوں کو کماحقہ اد اکریں۔

اور ایک اور لطیف بات جو عبدالسمیع خان صاحب نے اس میں بیان کی ہے یہ بیان ہے کہ عجیب اللہ کی شان ہے کہ 7؍جنوری 1938ء کو حضرت مصلح موعودؓ یہ پیشگوئی کررہے ہیں اور ماریشس سے اس عالمی پروگرام کے آغاز کا آپ نے اعلان کیا ہے۔ 7؍جنوری کے متعلق بتایا تھا کہ 7؍ جنوری سے یہ عالمی پروگرام جو ٹیلی ویژن کے ذریعے تمام عالم کو مربوط کرنے کا انتظام ہے یہ شروع ہو جائے گا۔ تو عین اسی دن یہ پیشگوئی پوری ہوتی ہے اور اللہ کی شان دیکھیں۔ میں تو نکما سا، کھلنڈرا سا لڑکا تھا وہاں بیٹھا ہوتا تھا اپنے کپڑوں کا بھی ہوش نہیں تھا … تو لوگ مجھے دیکھ کر ہنسا کرتے تھے یہ کس قسم کے بیہودہ لباس میں پھرتا ہے لیکن اللہ کی شان ہے جس کو چاہے جو بنادے اور اس کی تائید پھر ایسی کرتا ہے کہ اس کو پھر کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی وہ آسمان پر چمکتی ہے … اپنی ذات کو مرکزی نقطہ بنانے کے طور پر پیش نہیں کررہا محض بعض لوگوں کے شکوک دور کرنے کی خاطر بتا رہا ہوں کہ اس الٰہی منصوبے میں جو اول اور آخر طور پر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی خاطر بنایا گیا تھا اور مسیح موعودؑ کے زمانے میں اس کا ظہور مقدر تھا اس عاجز کو اس کا ایک معمولی ذریعہ بنایا گیا ہے۔ اس لئے یہ سعادت بھی کوئی کم سعادت نہیں ہے۔

(الفضل 7؍جنوری 1999ء)

؎زمین سے دیکھ لو جاتی ہے یہ کیسے ستاروں تک
امامِ وقت کی آواز دنیا کے کناروں تک
ادھر بولے اُدھر پہنچے کروڑوں جاں نثاروں تک
حصاروں سے نکل کے مرغزاروں، ریگزاروں تک
برستی آسماں سے ہے مئے عرفان ایم ٹی اے

احمدیت کی فجر

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے سورة الفجر کی ابتدائی آیات وَالۡفَجۡرِ ۙ﴿۲﴾ وَلَیَالٍ عَشۡرٍ ۙ﴿۳﴾ وَّالشَّفۡعِ وَالۡوَتۡرِ ۙ﴿۴﴾ وَالَّیۡلِ اِذَا یَسۡرِ ۚ﴿۵﴾ سے استنباط کرتے ہوئے ٹھوس دلائل کے ساتھ احمدیت کی ترقی کے کئی ادوار کا ذکر کیا اور 1945ء میں پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا: آخری ترقی خواہ کچھ لمبے عرصے کے بعد ہو احمدیت کی ایک فتح آج سے آٹھ سال بعد ہوگی یا آج سے 34 سال بعد یا 37 سال بعد ہوگی یا آج سے 46 سال بعد ہوگی یا ان سالوں کے لگ بھگ وہ فتح ظاہر ہوجائے گی کیونکہ پیشگوئیوں میں دن نہیں گنے جاتے بلکہ ایک موٹا اندازہ بتایا جاتاہے اور جیساکہ میں نے بتایاہے یہ بھی ہو سکتاہے کہ ان چاروں اوقات میں چار مختلف قسم کی فتوحات ظاہر ہوں۔

(تفسیر کبیر جلد8 صفحہ529)

1945ء میں جب حضرت خلیفة المسیح الثانی کے بیان کردہ سالوں کوجمع کیاجائے تویہ علی الترتیب 1953 ٫ 1979، 1982ء اور 1991ء قرار پاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے بعد جماعت ترقیات کے نئے ادوار میں داخل ہوتی ہے۔

1945+8= 1953ء پاکستان میں فسادات کے بعد جماعت احمدیہ ایک نئی عظمت کے ساتھ ظاہر ہوئی۔

1945+34 = 1979ء۔ یہ وہ سال ہے جب ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے فزکس میں نوبیل انعام حاصل کیا۔

1945+37 = 1982ء۔ میں خلافت رابعہ قائم ہوئی۔تبلیغ اور پھر ہجرت کے بعد عالمی ترقیات کا دور شروع ہوا۔

1945+46 = 1991ء میں حضور قادیان کے صد سالہ جلسہ سالانہ میں تشریف لے گئے۔

اگست 1992ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے خطبات چار براعظموں میں نشر ہونے شروع ہوئے۔ اس طرح چاروں پہلوؤں سے سورةالفجر کے باریک اشارے اظہر من الشمس ہو گئے۔

سلسلہ سوال و جواب

سیدنا حضرت مصلح موعود ؓکی ایک رؤیا میں ایم ٹی اے پر ٹیلی فون کالوں اور اعتراضوں کا جواب دینے کا ذکر بھی موجود ہے۔ فرماتے ہیں: اس رؤیا کے شروع میں میں نے دیکھا کہ کسی سرکاری افسر نے کوئی تقریر ایسی کی ہے جس میں احمدیت پر کچھ اعتراضات ہیں اس کو سن کر حضرت مسیح موعودؑ ایک پبلک فون کی جگہ پر چلے گئے ہیں اور فون پر اس کی تردید شروع کی ہے مگر بجائے آپ کی آواز فون میں جانے کے ساری دنیا میں پھیل رہی ہے اس فون میں آپ نے سب اعتراضوں کو رد کیا ہے جو اس افسر کی طرف سے کئے گئے ہیں۔

(الفضل 5؍اکتوبر 1954ء صفحہ3)

خلافت خامسہ میں ایم ٹی اے پر Live سوال و جواب کے پروگرام کئی زبانوں میں نشر ہورہے ہیں۔ جو دشمنوں کے ہر اعتراض کو رد کر رہے ہیں۔ ٹیلی فون پر وہ سوال آتا ہے اور پھر ساری دنیا میں وہ آواز پھیل جاتی ہے۔ ان میں راہ ھدیٰ خصوصیت سے ذکر کے قابل ہے۔؎

بٹتا رہتا ہے ڈشوں میں مائدہ
سب کی بھرتا جھولیاں ہے ایم ٹی اے
جلوہ فرما جس پہ ہے مہدی مرا
اب وہ تختِ قادیاں ہے ایم ٹی اے

بلاد عرب میں قبولیت

حضرت مصلح موعود ؓکی درج ذیل رؤیا میں خلافت خامسہ میں بلاد عربیہ میں احمدیت پھیلنے کی طرف خاص اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ خطبہ جمعہ 23؍نومبر 1945ء میں فرماتے ہیں:
’’تین چار دن ہوئے، میں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ میں عربی بلاد میں ہوں اور ایک موٹر میں سوار ہوں۔ ساتھ ہی ایک اور موٹر ہے جو غالباً میاں شریف احمد صاحب کی ہے۔ پہاڑی علاقہ ہے اور اس میں کچھ ٹیلے سے ہیں۔ جیسے پہل گام، کشمیر یا پالم پور میں ہوتے ہیں۔ ایک جگہ جا کر دوسری موٹر جو میں سمجھتا ہوں میاں شریف احمد صاحب کی ہے کسی اور طرف چلی گئی ہے اور میری موٹر اور طرف۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری موٹر ڈاک بنگلے کی طرف جارہی ہے۔ بنگلہ کے پاس جب میں موٹر سے اترا تو میں نے دیکھا کہ بہت سے عرب جن میں کچھ سیاہ رنگ کے ہیں اور کچھ سفید رنگ کے، میرے پاس آئے ہیں میں اس وقت اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرف جانا چاہتا ہوں لیکن ان عربوں کے آجانے کی وجہ سے گیا ہوں۔ انہوں نے آتے ہی کہا:
السلام علیکم یاسیدی۔ میں ان سے پوچھتا ہوں۔ من أین جئتم؟ کہ آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ
جئنا من بلاد العرب وذھبنا الٰی قادیان وعلمنا أنک سافرت فاتبعناک علمنا أنک جئت الٰی ھذاالمقام۔ یعنی ہم عربی بلاد سے آئے ہیں اور ہم قادیان گئے اور وہاں معلوم ہوا کہ آپ باہر گئے ہیں اور ہم آپ کے پیچھے چلے یہاں تک کہ ہمیں معلوم ہوا کہ آپ یہاں ہیں۔ اس پر میں نے ان سے پوچھا کہ لاٴٔی مقصد جئتم؟ کس غرض سے آپ تشریف لائے ہو؟ تو ان میں سے لیڈر نے جواب دیا کہ جئنا لنستشیرک فی الأمور القتصادیة والتعلیمیة اور غالباً سیاسی اور ایک اور لفظ بھی کہا۔ اس پر میں ڈاک بنگلہ کی طرف مڑا اور ان سے کہا کہ مکان میں آجایئے، وہاں مشورہ کریں گے۔ جب میں کمرہ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ میز پر کھانا چنا ہوا ہے اور کرسیاں لگی ہیں اور میں نے خیال کیا کہ شاید کوئی انگریز مسافر ہوں۔ ان کے لئے یہ انتظام ہو اور میں آگے دوسرے کمرے کی طرف بڑھا۔ وہاں فرش پر کچھ پھل اور مٹھائیاں رکھی ہیں اور اردگرد اس طرح بیٹھنے کی جگہ ہے جیسے کہ عرب گھروں میں ہوتی ہے۔ میں نے ان کو وہاں بیٹھنے کو کہا اور دل میں سمجھا کہ یہ انتظام ہمارے لئے ہے۔ ان لوگوں نے وہاں بیٹھ کر پھلوں کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ اس رؤیا سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے بلاد عرب میں احمدیت کی ترقی کے دروازے کھلنے والے ہیں۔

(مطبوعہ الفضل 17؍دسمبر 1945ء)

خاکسار کے خیال میں:
حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ سے حضور انور خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مراد ہیں۔

ان کی موٹر حضرت مصلح موعودؓ کی موٹر سے دوسری طرف جانے سے مراد الگ الگ حکمت عملی ہے جو پہلے اور تھی یعنی کتب اور اخبارات کے ذریعہ تبلیغ ہو رہی تھی اور اب ایم ٹی اے کے ذریعہ نیا رخ اختیار کر گئی ہے۔

عرب حضور سے قادیان میں نہیں ملے بلکہ سفر کے دوران باہر ملے ہیں۔ اس سے مراد حضور کا مستقر لندن ہے۔ اسی لئے رؤیا میں انگریزوں کا ذکر بھی ہے۔

پھلوں سے مراد بیعتیں ہیں۔

چنانچہ پیشگوئیوں کے مطابق عربوں میں دعوت الیٰ اللہ کا جو وسیع کام ہورہا ہے اس کی تفاصیل حضور انور ایدہ اللہ جلسہ سالانہ کے خطابات اور خطبات جمعہ میں ارشاد فرماتے رہتے ہیں۔ یہاں اس کو دہرانے کی گنجائش نہیں۔

حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒکی تصریحات
25-30 سال میں انقلاب

جوں جوں ان پیشگوئیوں کے رو بہ عمل ہونے کازمانہ قریب آتا گیا۔ الٰہی تفہیمات بھی واضح ہوتی چلی گئیں اور حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒکو خدا تعالیٰ نے ان معین سالوں کی بھی خبر دے دی جن میں اس واقعہ کا آغاز ہونا تھا۔ چنانچہ آ پ نے منصب خلافت پر متمکن ہونے کے ایک ماہ بعد فرمایا:
میں جماعت کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آئندہ پچیس تیس سال جماعت کے لئے نہایت اہم ہیں کیونکہ دنیا میں ایک روحانی انقلاب پیدا ہونے والا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کون سی خوش قسمت قومیں ہوں گی جو ساری کی ساری یا ان کی اکثریت احمدیت میں داخل ہوں گی۔ وہ افریقہ میں ہوں گے یا جزائر میں یا دوسرے علاقوں میں لیکن میں پورے وثوق اور یقین کے ساتھ آپ کوکہہ سکتاہوں کہ وہ دن دور نہیں جب دنیا میں ایسے ممالک پائے جائیں گے جہاں کی اکثریت احمدیت کو قبول کر لے گی اور وہاں حکومت احمدیت کے ہاتھ میں ہوگی۔

(خطبہ جمعہ 10؍دسمبر 1965ء روزنامہ الفضل ربوہ 19؍جنوری 1966ء)

پچیس تیس سال کا یہ زمانہ 1990ء اور 1995ء کا درمیانی عرصہ ہے۔ چنانچہ آپ نے بعد میں ان معین سالوں کاذکر کرتے ہوئے فرمایا: 1990ء سے 1995ء کے درمیان خدا تعالیٰ دنیا کو ایک ایسی روحانی تجلی دکھائے گا جس سے غلبہ اسلام کے آثاربالکل نمایاں اور واضح ہو جائیں گے۔ (روزنامہ الفضل ربوہ 14؍اگست 1973ء) اس کو کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔

حضرت خلیفة ا لمسیح الرابع ؒکی بشارات

1۔ ایم اٹی اے خلافت رابعہ کے 12 ویں سال میں شروع ہوا مگر اس کےاجرا٫ سے پہلے ہی غیر محسوس طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ کے منہ سے ایسے الفاظ نکلوا دیئے اور ایسی خواب بھی دکھائی جو ایم ٹی اے پر پوری اترتی ہے حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکی نظم جو پہلی دفعہ 27؍دسمبر 1983ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر پڑھی گئی اس میں آپ نے دشمنوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ؎

یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا پھیلتی جائے گی شش جہت میں سدا
تیری آواز اے دشمن بدنوا دو قدم دور دو تین پل جائے گی

یہ الفاظ تو حضور کے تھے مگر الٰہی تقدیر اور تصرف کے تابع تھے جن میں شش جہات میں حضور کی آواز پہنچنے کی تحدی کی گئی تھی۔ حضور نے اس شعر کے متعلق ایک خط کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ایک صاحب نے یہ لکھا کہ جب ہم یہ خطبہ سن رہے تھے تو مجھے آپ کا وہ شعر یاد آ گیا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے کہ: ؎

یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا پھیلتی جائے گی شش جہت میں سدا
تیری آواز اے دشمن بدنوا دو قدم دور دو تین پل جائے گی

اس نے لکھاکہ اب میں دیکھ رہاہوں کہ یہ آواز ساری دنیامیں پھیل رہی ہے۔اس پرمجھے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو بظاہر اتفاقی باتیں ہوتی ہیں خدا تعالیٰ جب ان میں تقدیر ڈالتاہے تو الفاظ درست ہو جایا کرتے ہیں۔ عام طور پر چاردانگ عالم میں ساری دنیا میں چاروں طرف کے محاورے استعمال کئے جاتے ہیں۔ آواز کے شش جہات میں پھیلنے کا محاورہ میرے علم میں نہیں آیا کہ پہلے کبھی استعمال ہوا ہو۔ لیکن اس وقت میں نے بغیر سوچے ہوئے یعنی بغیر کوشش کے کہ میں کیا کہنا چاہتاہوں یاکیا کہہ رہا ہوںشش جہت کا لفظ مجھے اچھا لگا اور وہی محاورہ میرے منہ سے نکلا اور اب ٹیلی ویژن کے ذریعے شش جہات میں جو استعمال ہو رہی ہیں کیونکہ چاروں طرف کا سوال نہیں ہے۔ آواز اور تصویر پہلے آسمان کی طرف جاتی ہے پھرآسمان سے زمین کی طرف اترتی ہے پھر چاروں طرف پھیلتی ہے تو خدا تعالیٰ نے شش جہات کے لفظ بھی پورے فرما دیئے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ بعض دفعہ تصرفات کے تابع بعض الفاظ انسان کے منہ سے نکلتے ہیں خودکہنے والے کو ان کی کنہ کا علم ہی نہیں ہوتا کہ میں کیوں کہہ رہاہوں اور بعدمیں یہ بات کیا بن کرنکلے گی۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں۔

(روزنامہ الفضل 12؍جنوری 1993ء)

؎بلند سے بلند تر عظیم سے عظیم تر
قریب سے قریب تر خدائے مہربان ہے
ہے گونج شش جہات میں صدائے حق شناس کی
اب احمدی جیالوں کی زد میں آسمان ہے

2۔ نصرت جہاں کی آمد

سیدنا حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے 9؍جون 1986ء کو خطبہ عیدالفطر میں اپنی تازہ رؤیا بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں نے رؤیا میں دیکھا کہ قادیان میں بہشتی مقبرہ کے ساتھ جو بڑا باغ کہلاتا ہے وہاں سڑک کے پاس کھڑا ہوں اور حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم ایسی صحت کے ساتھ کہ اس سے پہلے میں نے اپنی زندگی میں آپ کو ایسی صحت میں کبھی نہیں دیکھا تھا سیدھی چلتی ہوئی اور تنہا ہیں، کوئی اور ساتھ نہیں ہے وہ میری طرف ایک عجیب پیاری مسکراہٹ کے ساتھ بڑھتی ہوئی چلی آ رہی ہیں۔ گویا میری ہی آپ کو تلاش تھی۔ اس وقت میرے دل کی کیفیت عجیب ہے۔ میں بے قرار ہوں کہ دونوں ہاتھوں سے آپ کا ہاتھ تھاموں اور اسے بوسے دیتا چلا جاؤں۔

حضرت اماں جان (جن کا نام نصرت جہاں پیش نظر رہنا چاہئے۔ اسی میں دراصل بڑی خوشخبری ہے۔ ویسے آپ کی ذات بھی بڑی مبارک تھی اس میں بھی کوئی شک نہیں۔ لیکن ذات کے ساتھ نام مل کر ایک مکمل خوشخبری بنتی ہے) آپ مجھے دیکھ کر ایک شعرپڑھتی ہیں۔ وہ شعر تو مجھے یاد نہیں رہا اور میں اسے خواب کے دوران بھی شرمندگی اور انکساری کی وجہ سے یاد رکھنا نہیں چاہتا تھا، یعنی مجھے دہراتے ہوئے بھی شرم محسوس ہو رہی تھی۔ اس شعر کا مضمون کچھ اس قسم کاتھا کہ جیسے شمع کو خود اپنے پروانے کی تلاش تھی اور شمع اپنے پروانے کے پاس آگئی ہے۔ناقابل بیان لذت تھی اس شعر میں۔ایسا روحانی سرورتھا کہ کوئی دوسرا انسان جو اس تجربے سے نہ گزرا ہو اس کو اس کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ اس شعر کو حضرت اماں جان نے دو تین مرتبہ پڑھا اور وہی پاکیزہ فرشتوں کی سی مسکراہٹ آپ کے چہرے پرتھی … اس کے ساتھ وہ زیر لب وہ شعر پڑھتی رہیں اور میں نے جواب میں کوئی شعر پڑھا اور یہ بتانے کی خاطر کہ میں اس لائق کہاں۔ اس شعر میں ایک پنجابی لفظ استعمال کیا جی آیاں نوں۔ حضرت اماں جان مسکرائیں اور مجھے فوراً خیال آیاکہ اس لئے مسکرا رہی ہیں کہ تم اپنے جوش میں یہ بھول گئے ہو کہ اردو میں پنجابی ملا رہے ہو لیکن خواب میں اس رؤیا کے وقت اس سے بہتر محاورہ مجھے نظر نہیں آیا کہ آپ آئی ہیں تو جی آیاں نوں۔ اہل پنجاب اس محاورے کی لذت سے آشنا ہیں۔ بے اختیار جب بہت ہی پیار آئے کسی آنے والے پر اور انسان اپنے آپ کو اس لائق نہ سمجھے کہ وہ آنے والا اسے اعزاز بخش رہاہے، اس کے گھر چلا آیا ہے،تو بے اختیار پنجاب میں خصوصاً عورتوں کے منہ سے یہ آواز نکلتی ہے، یہ نعرہ بلند ہوتاہے جی آیاں نوں۔جی آیاں نوں۔ اس کے ساتھ حضرت اماں جان مجھے لے کر جو دارالشیوخ کا علاقہ ہے سڑک کے پار کوئی حویلی ہے اس میں لے جاتی ہیں اور اس پر وہ خواب ختم ہوگئی۔۔۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے اس رؤیا کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ:
اس میں جماعت کے لئے بھی پیغام ہے اور دشمنوں کے لئے بھی کہ تم ایک ملک میں اس کی ترقی روکنا چاہتے ہو مگر خدا سارے جہان میں اپنی نصرتیں لے کر آئے گا اور تمام جہان میں اس جماعت کو غلبہ نصیب فرمائے گا۔ (خطبہ عیدالفطر 9؍جون 1986ء) اس نصرت الٰہی کی تفصیل میں خصوصی بشارت بھی موجود تھی کہ امام یعنی شمع جو اپنے پروانوں کیلئے بے قرار ہے اسے خدا یہ توفیق عطا فرمائے گاکہ وہ اپنے پروانوں کے پاس پہنچ جائے۔ اور اردو میں پنجابی ملانے سے یہ مراد ہو سکتی ہے کہ یہ واقعہ اردو دانوں اور اہل پنجاب کے لئے خاص طورپر خوشی کاموجب ہوگاجیساکہ واقعات ظاہر کر رہے ہیں۔

الغرض ان تمام پیشگوئیوں کے الفاظ مختلف ہیں، تمثیلات مختلف ہیں مگر ان کے اندر ایک ربط موجود ہے۔ سب کامنشاء ایک ہی ہے۔ سب کی انگلی ایک سمت اٹھ رہی ہے اور سب نے مل کر ایم ٹی اے کے وہ رنگ پیدا کئے ہیں جو آجکل احمدیت کی سچائی کو دنیا پر آشکار کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا کے متعلق پیشگوئیاں اور خلافت خامسہ

اللہ تعالیٰ علم الغیوب جانتا تھا کہ انسان ٹیلی ویژن کے بعد سوشل میڈیا کے دور میں داخل ہو گا اس لئے اس نے یہ پیشگویئاں بھی کروا دیں کہ امام مہدی اسے اسلام کی ترقی کے لئے استعمال کرے گا۔ ایسی تمام پیش خبریاں خلافت خامسہ میں پوری ہو رہی ہیں اور احمدیت کا پیغام بڑی تیزی اور وسعت کے ساتھ پھیل رہا ہے ملاحظہ ہوں۔

امام مہدی کے متعلق یہ پیش گوئی بھی تھی کہ ان کے لیے دنیا ایک ہتھیلی کی مانند ہوجائے گی اور کسی شخص کے ہاتھ پر بال بھی رکھا ہو گا تو امام اسے دیکھ لے گا۔

(بحار الانوار جلد12 صفحہ330)

اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ امام مہدی کے زمانہ میں سائنسی ترقی اپنے عروج پر ہوگی اور تمام دنیا کے حالات سے آگاہ رہنا ممکن ہوگا اور امام مہدی بھی اس سے فائدہ اٹھا کر تمام عالم کی رہنمائی کرے گا۔ یہ عجیب پیش گوئی بھی خلافت خامسہ میں پوری ہو رہی ہے جدید مواصلاتی نظام کے ذریعہ ساری دنیا گویا سمٹ کر ایک ہتھیلی میں آ گئی ہے اور امام بھی تمام معاملات سے ہمہ وقت باخبر ہے اور اس کی روشنی میں ہدایات جاری کرتا ہے۔

اسی مضمون میں آگے چل کر سوشل میڈیا اورسمارٹ فون کا بھی ذکر ہے حیرت انگیز طور پر امام مہدی کے زمانہ اور اس کے کاموں کی عجیب تفصیل بیان کی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں جب امام قائم ظہور و قیام فرمائیں گے تو آپ روئے زمین پر جتنے ممالک ہیں ان میں اپنا ایک ایک آدمی روانہ کریں گے اور اس سے فرمائیں گے کہ تمہارے لیے کچھ ہدایات تمہارے ہاتھ کی ہتھیلی میں ہیں جب بھی کوئی ایسا معاملہ در پیش ہو جو تمہاری سمجھ میں نہ آئے کہ تم اس میں کیا فیصلہ کرو تو تم اپنی ہتھیلی پر نظر کرو اور اس پر جو ہدایت درج ہو پڑھ کر اس پر عمل کرو۔

(بحار الانوار جلد12 صفحہ405)

اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ امام مہدی کے مبلغین اور نمائندے اور عہدے دار دنیا کے تمام ممالک میں موجود ہوں گے اور سمارٹ فون،فیس بک اور سوشل میڈیا کے ذرائع میسر ہوں گے اور امام وقت کی ہدایات کے حصول کا سبب ہوں گے اور جب بھی کوئی الجھن یا مسئلہ پیدا ہو گا تو وہ ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھے سمارٹ فون سے ہی امام وقت کی ہدایات حاصل کر سکیں گے یہ پیش گوئی بھی اسی مبارک دور میں پوری ہو رہی ہے جب ہتھیلی میں پکڑے ہوئے موبائل فون رہنمائی کا تیز ترین ذریعہ ہیں اس پر ایم ٹی اے، الاسلام لائبریری،حضور کے خطبات، کلاسز، تحریکات اور ہدایات ہمہ وقت میسر ہیں یہ عجیب تمثیلی کلام جو مختلف رنگوں میں اپنی بہار دکھا رہا ہے امام مہدی کی صداقت اور خلافت کی حقانیت کا ثبوت ہے۔

یہ بھی حیرت انگیز بات ہے کہ سوشل میڈیا کے تمام اہم وسائل خلافت خامسہ ہی میں منظر عام پر آئے ان اہم WEBSITES کی تاریخ اجرا٫ ملاحظہ ہو۔ان سب کا عوامی استعمال کثرت کے ساتھ گزشتہ 15 سالوں میں ہی ہوا ہے اور اب جماعت احمدیہ حتی الامکان ان سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔

@Yahoo – 2 March 1995
@google – 4 September 1998
@Wikipedia – 15 January 2001
@Skype – 29 August 2003
@Gmail – 1 April 2004
@facebook – 4 February 2004
@YouTube – 2 February 2005
@Twitter – 21 March 2006
@WhatsApp – January 2009
@Instrgram – 6 October 2010

الغرض ایم ٹی اے ایک چمن ہے جو خدا کے کلمات نے ہمارے لئے سجایا ہے۔ جو محمد رسول اللہ ﷺ کی خوشبو کل عالم تک پہنچا رہا ہے۔ اس کی روش روش ڈالی ڈالی اور کلی کلی اسلام سے منسوب ہے۔ اس کے پھل اور پھول احمدیت کے شیریں ثمر ہیں۔ یہ ایک مائدہ ہے جس میں ہر قوم کے ذائقے موجود ہیں۔ ہر بے قرار دل کی تسلی اور ہر روح کی سیرابی کا سامان موجود ہے۔ ہر کان کے لئے بہترین آواز اور آنکھ کے لئے قابل دید نظارے موجود ہیں۔ ہر ملک اور ہر نسل کے رنگ موجود ہیں اور سب میں بہار کا اثبات ہے۔؎

مختلف لہجے زبانیں مختلف
سب کو کرتا ہم زباں ہے ایم ٹی اے
برکتِ روح القُدس سے ہے بھرا
بولتا سب بولیاں ہے ایم ٹی اے
عالمی بیعت کا منظر دیکھ لو
شکر میں سجدہ کناں ہے ایم ٹی اے

(عبدالسمیع خان۔ استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

فقہی کارنر