• 18 اپریل, 2024

عہدیداران کوانصاف کےتقاضےپورےکرنےکی ہدایت

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتےہیں۔
عہدیداروں کو تو ایک اصولی ہدایت قرآن نے دے دی ہے کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے ہیں ۔ اگر کوئی غور کرے اور سوچے کہ انصاف کے کیا کیا تقاضے ہیں تو اس کے بعد کچھ بات رہ نہیں جاتی۔ لیکن ہر کوئی اس طرح گہری نظر سے سوچتا نہیں۔ اس طرح سوچا جائے جس طرح ایک تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والا سوچتا ہے تو پھر تو اس کی یہ سوچ کر ہی روح فنا ہو جاتی ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔ لیکن نصیحت کیونکہ فائدہ دیتی ہے جیسا کہ میں نے کہا باتوں سے اور جگالی کرتے رہنے سے یا ددہانی ہوتی رہتی ہے۔ بعض باتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ مزید ذرا وضاحت کھول کر کر دی جائے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ عہدیدار اس بات کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو یہ حکم فرمایا ہے کہ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران:135) یعنی غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہوں۔تو اس کے سب سے زیادہ مخاطب عہدیداروں کو اپنے آپ کو سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ ان کی جماعت میں جو پوزیشن ہے جو ان کا نمونہ جماعت کے سامنے ہونا چاہئے وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ مکمل طور پر اپنے آپ کو عاجز بنائیں۔ اگر اصلاح کی خاطر کبھی غصے کا اظہار کرنے کی ضرورت پیش بھی آجائے تو علیحدگی میں جس کی اصلاح کرنی مقصود ہو ،جس کو سمجھانا مقصود ہواس کو سمجھا دینا چاہئے۔ تمام لوگوں کے سامنے کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرنا چاہئے اور ہر وقت چڑ چڑے پن کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔ یا کسی بھی قسم کے تکبر کامظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔ اصلاح کبھی چڑنے سے نہیں ہوتی بلکہ مستقل مزاجی سے درد رکھتے ہوئے اور دعا کے ساتھ نصیحت کرتے چلے جانے سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے اور ایک آدھ دفعہ کی جو غلطی ہے، اگر کوئی عادی نہیں ہے تو اصلاح کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ عفو سے کام لیا جائے۔ معاف کر دیا جائے، درگزر کر دیا جائے۔

اس لئے یہاں بھی (مراد فرانس میں ) اور دنیا میں ہر جگہ جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں ، جماعتی عہدیدار بھی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیدار بھی اپنے رویوں میں ایک تبدیلی پیدا کریں۔ لوگوں سے پیار اور محبت کا سلوک کیا کریں۔ خاص طور پر بعض جگہ لجنہ کی طرف سے شکایات زیادہ ہوتی ہیں اور ان میں بھی خاص طور پر بچیوں یا نوجوان بچیوں اورنئے آنے والیوں جنہوں نے نظام کو پوری طرح سمجھا نہیں ہوتا، ان کے لیے تربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس لیے ان کے لئے بہت خیال رکھنا چاہئے۔ کیونکہ تربیت کرنے کی جیسی آپ چھاپ لگا دیں گے بچوں پر بھی اور نئے آنے والوں پر بھی۔ آئندہ نمونہ بھی ویسے ہی نکلیں گے، آئندہ عہدیدار بھی ویسے ہی بنیں گے۔ تو خلاصہ یہ کہ غصے کو دبانا ہے اور عفو سے کام لینا ہے درگزر سے کام لینا ہے۔ لیکن یہ نرمی بھی اس حد تک نہ ہو کہ جماعت میں بگاڑ پیدا ہو جائے۔ ایسی صورت میں بہرحال اصلاح کی کوشش بھی کرنی ہے …

پھر عہدیداروں میں جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر اپنے خلاف ہی شکایت ہو تو سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ ہمیشہ سچی بات کہنے سننے کرنے کی عادت ڈالیں۔ چاہے جتنا بھی کوئی عزیز یا قریبی دوست ہو اگر اس کی صحیح شکایت پہنچتی ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔اگر یہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے تو بہتر ہے کہ معذرت کر دیں کہ فلاں وجہ سے مَیں اس کام سے معذرت چاہتا ہوں۔ کیونکہ کسی ایک شخص کا کسی خدمت سے محروم ہونا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ پوری جماعت میں یا جماعت کے ایک حصے میں بے چینی پیدا کی جائے۔ یاد رکھیں جو عہد ہ بھی ملا ہے چاہے وہ جماعتی عہدہ ہو یا ذیلی تنظیموں کا عہدہ ہو اس کو ایک فضل الٰہی سمجھیں۔ پہلے بھی بتا آیا ہوں اس کو اپنا حق نہ سمجھیں ۔ یہ خدمت کا موقع ملا ہے تو حکم یہی ہے کہ جو لیڈر بنایا گیا ہے وہ قوم کا خادم بن کر خدمت کرے۔ صرف منہ سے کہنے کی حد تک نہیں۔ چار آدمی کھڑے ہوں تو کہہ دیا جی میں تو خادم ہوں بلکہ عملاً ہربات سے ہر فعل سے یہ اظہار ہوتا ہو کہ یہ واقعی خدمت کرنے والے ہیں اور اگر اس نظریے سے بات نہیں کہہ رہے تو یقینا پوچھے جائیں گے۔ جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس کو پوری طرح ادانہ کرنے کی وجہ سے یقیناً جواب طلبی ہوگی۔

(خطبہ جمعہ31دسمبر 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2019

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ