• 27 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ کا خلاصہ مورخہ 27 دسمبر 2019ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ مورخہ 27 دسمبر 2019ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن

آنحضرت ﷺ کے صحابی حضرت سعد بن عبادة ؓ کا مزید کچھ ذکر خیر۔ آپؓ کی سیرت و سوانح کا دلکش تذکرہ

نبی کریم ﷺ کا جھنڈا حضرت علی ؓکے پاس ہوتا اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادة ؓکے پاس ہوتا

ایک روایت کے مطابق انصار کا جھنڈا غزوہ بدر کے روز حضرت سعد بن عبادةؓ کے پاس تھا

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح ا لخامس ایدہ ا للہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےمورخہ27 دسمبر 2019ء کو مسجد بیت الفتوح لندن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو کہ مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ ایم ٹی اےانٹر نیشنل پر براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا گیا ۔حضور انور نےخطبہ کے آغاز میں فرمایا:گزشتہ خطبہ میں حضرت سعدؓ بن عبادة کا ذکر ہو رہا تھا ان کے بارے میں مزید آج کچھ بیان کروں گا۔ حضرت سعد بن عبادة ؓبیعت عقبی ثانیہ کے موقع پر بنائے جانے والے بارہ نقباء میں سے ایک تھے۔ ان کے بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد ؓنے یوں بیان کیا ہے کہ قبیلہ خزرج کے ایک خاندان بنو ساعدہ سے تھے یہ اور تمام قبیلہ خزرج کے رئیس تھے اور آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں ممتاز ترین انصار میں شمار ہوتے تھے۔ حتیٰ کہ آنحضرت ﷺ کی وفات پر بعض انصار نے انہی کو خلافت کے لئے پیش کیا تھا یعنی انصار میں سے جو نام پیش ہوئے تھے وہ ان کا نام تھا۔ حضرت عمر ؓکے زمانہ میں فوت ہوئے۔حضرت سعد ؓبن عبادة ،منذر بن عمرو ؓاور ابو دجانہؓ ان تین اشخاص نے جب اسلام قبول کیا تو ان سب نے اپنے قبیلہ بنو ساعدہ کے بُت توڑ ڈالے۔

ہجرت مدینہ کے وقت رسول اللہ ﷺ جب بنو ساعدہ کے گھروں کے پاس سے گزرے تو حضرت سعدؓ بن عبادة اور حضرت منذر بن عمرو ؓاور حضرت ابو دجانہؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ آپؐ ہمارے پاس تشریف لائیں ہمارے پاس عزت ہے دولت قوت اور مضبوطی ہے۔ حضرت سعد بن عبادة ؓنے یہ بھی عرض کیا کہ یا رسول اللہ میری قوم میں کوئی ایسا شخص نہیں جس کے کھجوروں کے باغات مجھ سے زیادہ ہوں اور اس کے کنوئیں مجھ سے زیادہ ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ دولت قوت اور کثیر تعداد بھی ہو۔ اس پر آنحضرت ﷺنے فرمایا :اے ابو ثابت ! اس اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو یہ مامور ہے ، اپنی مرضی سے یہ جائے گی ۔

آنحضور ﷺ نے حضرت سعدؓ اور طلیب بن عمیر ؓکے درمیان مؤاخات قائم فرمائی جو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ قبیلہ اوس اور خزرج میں ایسا کوئی گھر نہ تھا جس میں چار شخص پے در پے فیاض ہوں ،بڑے کھلے دل کے ہوں سوائے دُلیم ؓکے پھر اس کے بیٹے عبادةؓ کے پھر اس کے بیٹے سعدؓ کے پھر اس کے بیٹے قیسؓ کے۔ دُلیمؓ اور اس کے اہل خانہ کی سخاوت کے بارہ میں بہت سی اچھی اچھی خبریں مشہور تھیں۔ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو سعد ؓ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں روزانہ ایک بڑا پیالہ بھیجتے جس میں گوشت اور ثرید روٹی کے ٹکڑے گوشت میں پکے ہوئے یا دودھ کا ثرید یا سرکے اور زیتون کا ثرید یا چربی کا پیالہ بھیجتے اور زیادہ تر گوشت کا پیالہ ہی ہوتا تھا۔ سعدؓ کا پیالہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ آپ ؐ کے ازواج مطہرات کے گھروں میں چکر لگایا کرتا تھا یعنی یہ کھانا تھا جو مختلف ازواج کے لئے آیا کرتا تھا ۔

حضرت زید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ ہم بنو مالک بن نجار کے گھروں میں رہتے تھے ہم میں سے تین یا چار افراد ہر رات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں باری باری کھانا لے کر حاضر ہوتے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے سات ماہ حضرت ابوایوب انصاریؓ کے گھر میں قیام فرمایا۔ ان ایام میں حضرت سعد بن عبادة ؓاور حضرت اسد ؓبن ضرارة کا پیالہ ہر روز آپؐ کی خدمت میں آتا تھا اور اس میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا تھا۔ یہاں کچھ وضاحت بھی ہو گئی کہ شروع میں روزانہ آتا تھا کھانا ،سات مہینے تک باقاعدہ آتا رہا اس کے بعد بھی آتا ہو گا لیکن شاید اس باقاعدگی سے نہیں۔

پھر کہتے ہیں کہ اسی کے متعلق جب حضرت ام ایوبؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کے ہاں قیام فرمایا تھا اس لئے آپ بتائیں کہ رسول اللہ ﷺ کا سب سے زیادہ پسندیدہ کھانا کون سا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپؐ نے کسی مخصوص کھانے کا کبھی حکم دیا ہو اور پھر وہ آپؐ کے لئے تیار کیا گیا ہو اور نہ ہی ہم نے کبھی یہ دیکھا کہ آپ ؐ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا ہو اور آپؐ نے اس میں عیب نکالا ہو۔ حضرت ایوب نے مجھے بتایا یہ کہتے ہیں کہ ایک رات حضرت سعد بن عبادة ؓنے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک پیالہ بھجوایا جس میں طفیشل یہ شوربہ کی ایک قسم ہے وہ تھا۔ آپؐ نے وہ سیر ہو کر پیا اور میں نے اس کے علاوہ آپؐ کو کبھی اس طرح سیر ہو کر پیتے نہیں دیکھا۔ پھر ہم بھی آنحضرت ﷺ کے لئے یہ بنایا کرتے تھے۔ جو کھانا آتا تھا کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ لاؤ یا وہ پکاؤ کبھی عیب نہیں نکالا لیکن یہ کھانا آپؐ کو پسند آیا اور آپ نے بڑے شوق سے کھایا یا پیا اس کے بعد سے پھر صحابہؓ کو پتا لگ گیا کہ یہ پسند ہے آنحضرت ﷺ کی تو اس کے مطابق پھر بناتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ہم آپ کے لئے حریس مشہور کھانا ہے جو گندم اور گوشت سے بنایا جاتا ہے یہ بھی بنایا کرتے تھے جو آپ کو پسند تھا اور رات کے کھانے میں آنحضرت ﷺ کے ہمراہ 5 سے لے کر16تک افراد ہوتے تھے جس کا انحصار کھانے کی قلت یا کثرت پر ہوتا تھا۔کہتے ہیں کہ دوسرے اصحاب بھی عموماً آپ کی خدمت میں کھانا بھیجا کرتے تھے چنانچہ ان لوگوں میں سعدؓ بن عبادة رئیس قبیلہ خزرج کا نام تاریخ میں خاص طور پر مذکور ہوا ہے۔

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن عبادة ؓنے رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ !آپؐ ہمارے گھر تشریف لائیں تو آنحضرت ﷺ سعد ؓکے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت سعدؓ کھجور اور تل لے آئے پھر آنحضور ﷺ کے لئے دودھ کا پیالہ لائے جس میں سے آپؐ نے پیا۔سعد بن عبادة ؓکے بیٹے قیسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ ملاقات کے لئے ہمارے گھر تشریف لائے تو آپؐ نے فرمایا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ میرے والد سعدؓنے آہستہ سے جواب دیا۔ میں نے پوچھا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کو اندر آنے کا نہیں کہیں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ آنحضرت ﷺ کو ہم پر زیادہ سلام کر لینے دو۔ یعنی آنحضرت ﷺ دوبارہ سلام کریں گے تو اس طرح ہمارے گھر میں سلامتی پہنچے گی ۔بہرحال کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ سلام کر کے واپس ہوئے تو پھر سعدؓ آپؐ کے پیچھے گئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میں آپؐ کے سلام کو سنتا اور آپؐ کو آہستہ سے جواب دیتا تا کہ آپؐ ہم پر زیادہ سلام بھیجیں۔ پھر آپؐ سعدؓ کے ہمراہ لوٹ آئے۔ سعدؓ نے آنحضرت ﷺ سے غسل کا عرض کیا۔ آپؐ نے غسل فرمایا۔ سعدؓ نے آپؐ کو زعفران یا ورس جو یمن کے علاقے میں پیدا ہونے والا ایک زرد رنگ کا پودا ہے جس سے کپڑے رنگے جاتے ہیں اس سے رنگا ہوا ایک لحاف دیا۔ آپؐ نے اسے ارد گرد لپیٹ لیا پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھا کر فرمایا۔ اے اللہ ! اپنے دُرود اور اپنی رحمت سعد ؓ بن عبادة کی اولاد پر نازل کر۔

علامہ ابن سیرین بیان کرتے ہیں کہ اہل صُفّہ جب شام کرتے تو کھانا کھلانے کے لئے کوئی شخص ان میں سے کسی ایک یا دو کو لے جاتا تاہم حضرت سعد ؓبن عبادة80 اہل صُفّہ کو کھانا کھلانے کے لئے اپنے ساتھ لے جاتے یعنی اکثر یہ ہوتا تھا لیکن اہل صُفّہ پر ایسے دن بھی آئے ایسی روایات بھی ہیں کہ جب ان کو بھوکا بھی رہنا پڑا۔ بہرحال صحابہؓ عموماً ان غرباء کا خیال رکھا کرتے تھے جو آنحضرت ﷺ کے دَر پر بیٹھے ہوتے تھے اور سب سے زیادہ ان کا خیال رکھنے والے حضرت سعد بن عبادةؓ تھے۔آنحضرت ﷺ نے مدینہ تشریف لانے کے ایک سال بعد ماہ صفر میں ابوا، مدینہ سے مکہ کی شاہراہ پر جحفہ سے 23میل دور واقع ہے یہ جگہ ،یہاں نبی کریم ﷺ کی والدہ حضرت آمنہ کی قبر بھی ہے اس کی طرف کوچ فرمایا۔ آپ کا جھنڈا سفید رنگ کا تھا۔ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں حضرت سعدؓ بن عبادة کو اپنا جانشین یا امیر مقرر فرمایا۔ غزوہ ابوا کا دوسرا نام غزوہ ودان بیان کیا جاتا ہے۔ حضور انور نےسیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓ کی تحریر سے غزوہ ودان کی تفصیل بیان فرمائی۔

حضرت سعد بن عبادة ؓکے غزوہ بدر میں شامل ہونے کے بارے میں دو آراء بیان کی جاتی ہیں۔ واقدی مداینی اور ابن قلبی کے نزدیک یہ غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے جبکہ ابن اسحاق اور ابن عقبی اور ابن سعد کے نزدیک یہ غزوہ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ بہرحال اس کی ایک وضاحت طبقات الکبریٰ کی ایک روایت کے مطابق اس طرح ہے کہ حضرت سعد بن عبادة ؓغزوہ بدر میں حاضر نہیں ہوئے تھے ۔وہ روانگی کی تیاری کر رہے تھے اور انصار کے گھروں میں جا کر انہیں روانگی پر تیار کر رہے تھے کہ روانگی سے پہلے انہیں کتے نے کاٹ لیا اس لئے وہ غزوہ بدر میں شامل نہ ہو سکے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگرچہ سعد شریک نہ ہوئے لیکن اس کے آرزو مند تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعدؓ کو غزوہ بدر کے مال غنیمت میں سے حصہ عنایت فرمایا تھا۔

حضرت سعدؓ بن عبادة غزوہ احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شامل ہوئے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ انصار کا جھنڈا غزوہ بدر کے روز حضرت سعد بن عبادةؓ کے پاس تھا، المستدرک کی روایت ہے یہ۔غزوہ بدر پر روانگی کے وقت حضرت سعدؓ بن عبادة نے عضب نامی تلوار رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تحفۃًپیش کی اور آنحضرت ﷺ نے غزوہ بدر میں اسی تلوار کے ساتھ شرکت کی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک گدھا بھی حضرت سعد بن عبادة ؓنے تحفۃًپیش کیا تھا۔ نبی کریم ﷺ کے پاس 7زرہیں تھیں ان میں سے ایک کا نام ذات الفضول تھا ،یہ نام اسے اس کی لمبائی کی وجہ سے دیا تھا اور یہ زرہ جو تھی حضرت سعد بن عبادةؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تب بھجوائی تھی جب آپ ؐ بدر کی طرف روانہ ہو چکے تھے اور یہ زرہ لوہے کی تھی۔ یہ وہی زرہ تھی جو آنحضرت ﷺ نے ابو شام یہودی کے پاس جَو کے عوض بطور رہن رکھوائی تھی اور جَو کا وزن تیس صاع تھا اور ایک سال کی مدت کے لئے بطور قرض لیا گیا تھا۔حضرت ابن عباس ؓسے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کا جھنڈا حضرت علی ؓکے پاس ہوتا اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادة ؓکے پاس ہوتا اور جب جنگ زوروں پر ہوتی تو نبی کریم ﷺ انصار کے جھنڈے تلے ہوتے۔ یعنی جو زیادہ تر زور تھا دشمنوں کا انصار کی طرف ہوتا تھا کیونکہ آنحضرت ﷺ بھی وہیں ہوتے تھے۔

حضور انور نےغزوہ بدر اور احد کے حالات بیان کرتے ہوئے حضرت سعد بن عبادة ؓ کی سیرت کے بعض پہلو بیان فرمائے۔ غزوہ احد کے موقع پر جو صحابہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ثابت قدمی سے کھڑے رہے اُن میں حضرت سعد بن عبادة ؓ بھی تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ احد سے مدینہ واپس تشریف لائے اور اپنے گھوڑے سے اُترے تو آپؐ حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت سعدؓ بن عبادة کا سہارا لیتے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہوئے۔ زخمی تھے اس حالت میں جب اُترےتو ان دونوں کا سہارا لیا آپؐ نے۔

حضرت سعدؓ کی والدہ حضرت حمرة ؓبنت مسعود جو صحابیات میں سے تھیں ،ان کی وفات اس وقت ہوئی جب رسول اللہ ﷺ غزوہ دومۃ الجندل کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ یہ غزوہ ربیع الاول 5ہجری میں ہوا تھا۔ حضرت سعدؓ اس غزوہ میں آپؐ کے ہمرکاب تھے۔ سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ حضرت سعدؓ بن عبادة کی والدہ کی وفات اس وقت ہوئی جب آنحضرت ﷺ مدینہ سے باہر تھے۔ سعدؓ نے عرض کیا کہ میری والدہ کی وفات ہو گئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپؐ ان کی نماز جنازہ پڑھائیں۔ آپ نے نماز جنازہ پڑھائی حالانکہ انہیں فوت ہوئے ایک مہینہ ہو چکا تھا۔ ایک مہینہ کے بعد انہیں خبر پہنچی تھی۔ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ سعد بن عبادةؓ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک نذر کے بارے میں پوچھا جو ان کی والدہ پر تھی اور وہ اس کو پورا کرنے سے پہلے ہی وفات پا گئی تھی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :تم ان کی طرف سے اُسے پورا کرو۔

حضرت سعید بن مسیبؓ سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن عبادةؓ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میری والدہ کی وفات ہو گئی ہے انہوں نے وصیت نہیں کی تھی اگر میں ان کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ انہیں مفید ہو گا آپ نے فرمایا ہاں۔ انہوں نے عرض کیا کہ کون سا صدقہ آپؐ کو زیادہ پسند ہے آپ نے فرمایا پانی پلاؤ۔ لگتا ہے اس وقت پانی کی کمی تھی کافی ضرورت تھی بہرحال ایک روایت میں ہے کہ اس پر حضرت سعدؓنے ایک کنواں کھدوایا اور کہا کہ یہ ام سعد کی خاطر ہے۔ ان کے نام پے وہ جاری کر دیا۔صرف اسی پر بس نہیں کیا انہوں نے کہ پانی کا کنواں کھود دیا ،حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادةؓ جو بنو ساعدہ میں سے تھے ان کی والدہ فوت ہو گئیں اور اس وقت وہ موجود نہ تھے۔ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے انہوں نے کہا یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور میں اُس وقت اُن کے پاس موجود نہ تھا تو کیا میرا ان کی طرف سے کچھ صدقہ کرنا ان کو نفع دے گا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: ہاں تو انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! پھر میں آپ کو گواہ ٹھہراتا ہوں کہ میرا باغ ہے مخراف ان کی طرف سے صدقہ ہے۔ صدقہ اور خیرات اور غریبوں کی مدد میں بڑا کھلا دل رکھتے تھے اور بڑا کھلا ہاتھ رکھتے تھے۔ حضور انور نے فرمایا ابھی ان کا ذکر چل رہا ہے انشاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2019

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ