’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں ۔ یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے۔ خدا تعالیٰ کا رحم ہر یک موحد کا تدارک کرتا ہے مگر متکبر کا نہیں ۔ شیطان بھی موحد ہونے کادم مارتا تھا مگر چونکہ اس کے سر میں تکبر تھا اور آدم کو جو خدا تعالیٰ کی نظر میں پیارا تھا۔ جب اس نے توہین کی نظر سے دیکھا اور اس کی نکتہ چینی کی اس لئے وہ مارا گیا اور طوق لعنت اس کی گردن میں ڈالا گیا۔ سو پہلا گناہ جس سے ایک شخص ہمیشہ کیلئے ہلاک ہوا تکبر ہی تھا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ۵۹۸)
’’اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یا ریا ہے یا خود پسندی ہے یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ قبول کے لائق ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھوکہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے۔ کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پور انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا۔‘‘
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۱۲۔۱۳)
’’تکبّر بہت خطرناک بیماری ہے جس انسان میں یہ پیدا ہو جاوے اس کے لئے رُوحانی موت ہے۔ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ بیماری قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ متکبر شیطان کا بھائی ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ تکبّر ہی نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا۔ اس لئے مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبّر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصہ ہوتا ہے ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرتﷺ میں یہ وصف تھا۔ آپؐ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپؐ کا کیا معاملہ ہے۔ اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں‘‘۔
( اللّٰھُمَّ صلّ علیٰ محمدٍ وَ علیٰ اٰل محمّدٍ وَ بارک وسلّم)۔
(ملفوظات جلد چہارم۔ صفحہ،437۔438ایڈیشن1988)