حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
شیطان کیونکہ تکبر دکھانے کے بعد سے ابتدا سے ہی یہ فیصلہ کر چکا تھاکہ مَیں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگاؤں گااور عبادالرحمن نہیں بننے دوں گا اور مختلف طریقوں سے اس طرح انسان کو اپنے جال میں پھنساؤں گاکہ اس سے نیکیاں سرزد اگر ہو بھی جائیں تو وہ اپنی طبیعت کے مطابق ان پر گھمنڈ کرنے لگے اور یہ نخوت اور یہ گھمنڈ اس کو یعنی انسان کو آہستہ آہستہ تکبر کی طرف لے جائے گا۔یہ تکبر آخر کار اس کو اس نیکی کے ثواب سے محروم کردے گا۔ تو کیونکہ شیطان نے پہلے دن سے ہی یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ انسان کو راہ راست سے بھٹکائے گا اور اس نے خود بھی تکبر کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کاانکار کیا تھا اس لئے یہی وہ حربہ ہے جو شیطان مختلف حیلوں بہانوں سے انسا ن پر آزماتاہے اور سوائے عبادالرحمن کے کہ وہ عموماً اس ذریعہ سے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں ،عبادتگزار ہو تے ہیں ، بچتے رہتے ہیں ۔اس کے علاوہ عموماً تکبر کا ہی یہ ذریعہ ہے جس کے ذریعہ شیطان انسان کو اپنی گرفت میں لینے میں کامیاب ہوجاتاہے۔ تو یہ ایک ایسی چیزہے جس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔کہ یہ ہم نے بیعت کرتے ہوئے یہ شرط تسلیم کرلی کہ تکبر نہیں کریں گے، نخوت نہیں کریں گے، بکلی چھوڑ دیں گے۔یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔اس کی مختلف قسمیں ہیں، مختلف ذریعوں سے انسانی زندگی پر شیطان حملہ کرتارہتاہے۔ بہت خوف کامقام ہے۔ اصل میں تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہو تو اس سے بچا جاسکتاہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے بھی اس ساتویں شرط میں ایک راستہ رکھ دیا۔فرمایا کیونکہ تم تکبر کی عادت کو چھوڑو گے تو جو خلا پیدا ہوگا اس کو اگر عاجزی اور فروتنی سے پُر نہ کیا تو تکبر پھر حملہ کرے گا۔ اس لئے عاجزی کو اپناؤ کیونکہ یہی راہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ آپ نے خود بھی اس عاجزی کو اس انتہا ء تک پہنچا دیا جس کی کوئی مثال نہیں تبھی تو اللہ تعالیٰ نے خوش ہوکر آپ کو الہاماً فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں ۔ تو ہمیں جو آپ کی بیعت کے دعویدار ہیں ، آپ کو امام الزمان مانتے ہیں ، کس حد تک اس خُلق کو اپنانا چاہئے۔انسان کی تو اپنی ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ تکبر دکھائے اور اکڑتا پھرے۔یہ قرآن شریف کی آیت میں پڑھتاہوں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: کے بچوں کی اس قربانی میں شمولیت کا آپ کو بھی ثواب ہو گا وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ۚ اِنَّکَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَ لَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا۔ (بنی اسراءیل:۳۸)
اور زمین میں اکڑ کر نہ چل۔ تُو یقینا زمین کو پھاڑ نہیں سکتا اور نہ قامت میں پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکتاہے۔
جیساکہ اس آیت سے صاف ظاہر ہے انسان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔کس بات کی اکڑ فوں ہے۔بعض لوگ کنویں کے مینڈک ہوتے ہیں ، اپنے دائرہ سے باہر نکلنا نہیں چاہتے۔ اور وہیں بیٹھے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم بڑی چیزہیں ۔اس کی مثال اس وقت مَیں ایک چھوٹے سے چھوٹے دائرے کی دیتاہوں ، جو ایک گھریلو معاشرے کا دائرہ ہے، آپ کے گھر کا ماحول ہے۔ بعض مرد اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کررہے ہوتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔بعض بچیاں لکھتی ہیں کہ ہم بچپن سے اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہیں اور اب ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ہمارے باپ نے ہماری ماں کے ساتھ اور ہمارے ساتھ ہمیشہ ظلم کا رویہ رکھاہے۔باپ کے گھر میں داخل ہوتے ہی ہم سہم کر اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں ۔کبھی باپ کے سامنے ہماری ماں نے یاہم نے کوئی بات کہہ دی جو اس کی طبیعت کے خلاف ہوتو ایسا ظالم باپ ہے کہ سب کی شامت آجاتی ہے۔ تو یہ تکبر ہی ہے جس نے ایسے باپوں کو اس انتہا تک پہنچا دیاہے اور اکثر ایسے لوگوں نے اپنارویہّ باہر ایسا رکھا ہوتاہے، بڑا اچھا رویہ ہوتا ہے ان کا اور لوگ باہر سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان جیسا شریف انسان ہی کوئی نہیں ہے۔ اور باہر کی گواہی ان کے حق میں ہوتی ہے۔بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو گھرکے اندر اور باہر ایک جیسا رویہ اپنائے ہوئے ہوتے ہیں ان کا تو ظاہر ہو جاتاہے سب کچھ۔ تو ایسے بدخُلق اور متکبر لوگوں کے بچے بھی، خاص طورپر لڑکے جب جوا ن ہوتے ہیں تو ا س ظلم کے ردّعمل کے طورپر جو انہوں نے ان بچوں کی ماں یا بہن یا ان سے خود کیاہوتاہے، ایسے بچے پھر باپوں کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔اور پھر ایک وقت میں جا کر جب باپ اپنی کمزور ی کی عمر کو پہنچتاہے تو اس سے خاص طورپر بدلے لیتے ہیں ۔ تو اس طرح ایسے متکبرانہ ذہن کے مالکوں کی اپنے دائرہ اختیار میں مثالیں ملتی رہتی ہیں ۔مختلف دائرے ہیں معاشرے کے۔ایک گھر کا دائرہ اور اس سے باہر ماحول کا دائرہ۔ اپنے اپنے دائرے میں اگر جائزہ لیں تو تکبر کی یہ مثالیں آپ کو ملتی چلی جائیں گی
(خطبہ جمعہ 29؍ اگست 2003ء)