علم اور معرفت کا الفضل ہے سمندر
سیراب ہوتے جس سے ہر خاص و عام یکسر
فضل عمرؓ نے بویا تھا ایک بیج دیکھو
پھولا پھلا یہ عمدہ ۔ کیسا ہوا تناور
قرآں حدیث و سنت کے پھول یہ بکھیرے
ہو جائے من معطّر گویا کہ ہے یہ عنبر
تشنہ لبوں کی خاطر ہے یہ شرابِ اطھر
بجھ جائے پیاس علمی ہے معرفت کا ساغر
ہے اک صدی پہ پھیلا اس کا سفر عظیمہ
راہیں بڑی کٹھن تھیں طوفان آئے صرصر
لیکن خدا کی نصرت شامل رہی ہے ہر پل
چمکا ہے نور اس کا پہلے سے اور بڑھ کر
پھیلا رہا ہے سارے عالم میں دینِ احمد
ظلمت کی وادیوں میں ہے یہ ہدی کا رہبر
بن کر سفیرِ الفت دیتا ہے درسِ سنگت
ہے ترجماں خلافت کے ہر سخن کا بہتر
حافظ کی یہ دعا ہے بانٹے یہ چار سو میں
علمِ کلامِ احمد روحانیت کا لنگر
(حافظ محمد مبرور)