سورۃ صٓ اور الزُّمر کا تعارف
ازحضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ
سورۃ صٓ
یہ سورۃ مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی نواسی آیات ہیں۔
اس سورت ِکریمہ کا آغاز بھی حروفِ مقطعات میں سے ایک حرف ص سے فرمایا گیا ہے جس کی ایک تشریح مفسرین یہ بیان کرتے ہیں کہ ص سے مراد ’’صَا دِ قُ الْقَوْل‘‘ ہے یعنی وہ اللہ جس کی باتیں ضرور پوری ہو کر رہیں گی۔ اور قرآن کو جو عظیم نصیحتوں پر مشتمل ہے اس بات پر گواہ ٹھہرایا گیا ہے کہ اس قرآن کا انکار محض جھوٹی عزت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مخالفت کی وجہ سے ہے۔
اسی سورت میں حضرت داؤد علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کشف کا نظارہ پیش کیا گیا ہے جس سے انسانی فطرت کی حرص ظاہر ہوتی ہے کہ اگر اسے نناوے فی صدی بھی غلبہ عطا ہو جائے تو پھر وہ سو فیصد غلبہ چاہتا ہے اور کمزوروں اور غریبوں کے لئے ایک فی صد بھی نہیں چھوڑتا۔ گزشتہ سورت میں جو بڑی بڑی طاقتوں کی جنگوں کا ذکر ملتا ہے ان کا بھی صرف یہی مقصد ہے کہ تمام غریب ملکوں سے بادشاہت کے تمام حقوق چھین لیں اور بلا شرکت غیرے سب دنیا پر حکومت کریں۔ بالفاظ دیگر مگر یہ خدائی کا دعویٰ ہے۔ اس کے بعد نوع انسان کو حضرت داؤد علیہ اصلوٰۃ والسلام کے حوالہ سے یہ نصیحت فرمائی گئی ہے کہ آپس کے جھگڑوں کا فیصلہ حق کے ساتھ کرنا چاہئے ظلم اور تعدّی سے نہیں۔
اسی سورت میں حضرت سلیمان علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق یہ ذکر ملتا ہے کہ آپؑ کو گھوڑوں سے بہت محبت تھی۔ اس واقعہ کی غلط تفسیر کرتے ہوئے بعض علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپؑ گھوڑوں کو تھپکیاں دے رہے تھے اور ان کی ٹانگوں پر ہاتھ پھیر رہے تھے کہ نماز کا وقت نکل گیا، اس پر حضرت سلیمان ؑ نے اپنی اس غفلت کا غصہ ان بے چارے گھوڑوں پر اُتارا اور ان کے قتلِ عام کا حکم دیا۔ لیکن اس انتہائی مضحکہ خیز تفسیر کو وہ آیت کلیتًہ جھٹلا رہی ہے جس میں حضرت سلیمان علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ان کو میری طرف واپس لے آؤ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کو اللہ تعالیٰ کی خاطر جہاد کے لئے جو سواریاں عطا ہوتی ہیں وہ ان سے بےحد محبت کرتے ہیں اور بار بار اُن کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ میری اُمّت کے لئے ایسے گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لئے برکت رکھ دی گئی ہے جو بغرضِ جہاد تیار کئے جاتے ہیں۔
اسی سورت میں حضرت ایوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک عظیم الشان صاحب صبر نبی کے طور پر بطور مثال پیش فرمایا گیا ہے اور وہ حقائق پیش فرمائے ہیں جو بایئبل میں کئی قسم کی عجیب و غریب کہانیوں کی صورت میں ملتے ہیں۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ800)
سورۃ الزُّمر
یہ سورت مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی چھہتر آیات ہیں۔
اس سے پہلی سورت کے آخر میں دین کو اللہ کے لئے خالص کرنے والے ایسے بندوں کا ذکر ہے جنہوں نے شیطان کی عبادت کا انکار کیا اور خالصتًہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں سر بسجود رہے۔ اور اس سورت کے آغاز ہی میں یہ اعلان ہے کہ اے رسول! دین کو اللہ کے لئے خالص کرتے ہوئے اسی کی عبادت کر۔ یقیناً اللہ تعالیٰ خالص دین کو ہی قبول فرماتا ہے۔
اس کے بعد مشرکین کی ایک دلیل کا ردّ فرمایا گیا ہے۔ وہ بت پرستی کی عموماً یہ توجیہ پیش کرتے ہیں کہ یہ مصنوعی خدا ہمیں اللہ کے قریب کرنے کا وسیلہ بنتے ہیں۔ فرمایا ہر گز ایسا نہیں بلکہ وسیلہ تو وہی بنے گا جس کا دین آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح خالص ہے اور اس میں شرک کا کوئی شائبہ تک نہیں۔
اس کے بعد اس حقیقت کا اعادہ فرمایا گیا ہے کہ انسانی زندگی کا آغاز نفسِ واحدہ سے ہوا تھا۔ پھر جب انسان ماں کے رحم میں بطور جنین اپنی ترقی کی منازل طے کرنے لگا تو وہ جنین تین اندھیروں میں چھپا ہوا تھا۔ پہلا اندھیرا ماں کے پیٹ کا اندھیرا ہے جس نے رِحم کو ڈھانکا ہوا ہے۔ دوسرا اندھیرا خود رِحم کا اندھیرا ہے جس میں جنین پرورش پاتا ہے اور تیسرا اس پلیسنٹا (Placenta) کا اندھیرا ہے جو رِحم مادر کے اندر جنین کو سمیٹے ہوئے ہوتا ہے۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعلان کرنے کا اذن دیا کہ مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں عبادت کو اسی کے لئے خالص کردوں۔ اس کے بعد فرمایا کہ تُو کہہ دے کہ اللہ ہی ہے جس کے لئے میں اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے عبادت کرتا رہوں گا۔ تم اپنی جگہ اس کے سوا جس کی چاہے عبادت کرتے پھرو۔ اور ان کو بتادے کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو یہ بہت گھاٹے والا سودا ہو گا کیونکہ وہ اپنےآپ کو بھی اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی اس کجی کے ذریعہ گمراہ کرنے کا موجب بنیں گے۔
اس کے بعد یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کے لئے کشادہ فرما دیا ہو یا دوسرے لفظوں میں جسے شرح صدر عطا فرما دیا گیا ہو۔ اس کا جواب ظاہراً مذکور نہیں مگر اس سوال میں ہی مضمر ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسے شخص سے بہتر اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ پس بہت ہی بد قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے ربّ کے ذکر سے غافل رہتے ہیں۔
اس سورت کی آیت نمبر24میں یہ اعلان فرمایا گیا ہے کہ اللہ تجھ سے ایک بہت ہی دلکش بات بیان فرماتا ہے جو یہ ہے کہ اللہ نے تجھ پر ایک بار بار پڑھی جانے والی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں بعض ایسی آیات بھی ہیں جو متشابہات ہیں اور وہ جوڑا جوڑا ہیں۔ مگر ان کی تشریح میں بعینٖہ اس سے ملتی جلتی اور بھی آیات موجود ہیں جو حق کی جستجو کرنے والوں کو متشابہ آیات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں گی۔ یہ وہی مضمون ہے جو یُفَسِّرُ بَعْضُہ بَعْضًا میں بیان ہوا ہے۔ ایک دوسری جگہ فرمایا کہ جو رَا سِخُوْنَ فِی الْعَلْمِ ہیں ان کے سامنے تو کوئی آیت بھی متشابہ نہیں رہتی۔
اسی سورت میں وہ آیتِ کریمہ بھی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوئی تھی اور حضور نے ایک انگوٹھی تیار کروا کر اس کے نگینہ میں اسے کندہ کرایا تھا یعنی اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَا فٍ عَبْدَہُ (کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں) اسی مناسبت سے احمدی ایسی انگوٹھیاں تبرکاً اور نیک فال کے طور پر اپنی انگلیوں میں پہنتے ہیں۔
اسی سورت کی آیت نمبر 43میں ایک عظیم الشان راز سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ نیند بھی ایک قسم کی موت ہے جس میں روح یا شعور بار بار ڈوبتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے ایسا نظام مقرر فرما دیا ہے کہ عین معیّن وقت پر دماغ کی تہہ سے ٹکرا کر پھر واپس ابھر آتا ہے۔ سائنس دانوں نے اس پر تحقیق کی ہے اور بتا یا ہے کہ یہ واقعہ معیّن وقت میں ایک سوئے ہوئے شخص سے بار بار پیش آتا رہتا ہے۔ اس معیّن وقت کو ایک اٹامک گھڑی سے بھی ناپا جا سکتا ہے اور اس مدّت میں کسی قسم کا کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اس نفس کو ڈوبنے کے بعد دوبارہ واپس نہیں بھیجتا تو اسی کا نام موت یا وفات ہے۔ کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا اور اس دنیا سے ہمیشہ جدائی کا ذکر آرہا ہے اس لئے وہ جو جوابدہی کا خوف رکھتے ہیں ان کو یہ خوشخبری بھی دیدی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے گناہوں کو معاف کرنے کی قدرت رکھتا ہے کیونکہ وہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ پس اللہ کے حضور جھکو اور اسی کے سپرد ہو جاؤ پیشتر اس سے کہ وہ عذاب تمہیں آپکڑے اور پھرتوبہ سے پہلے تمہاری موت واقع ہو جائے اور انسان حسرت سے یہ اعلان کرے کہ کاش میں اللہ تعالیٰ کے پہلو میں یعنی اس کی نظر کے سامنے اس قدر گناہوں کی جرأت نہ کرتا۔
اس سورت کا نام الزُّمَر ہے اور آخر پر دو آیات میں زُمَر (گروہ) کو دو حصوں میں تقسیم فرما دیا گیا ہے۔ ایک وہ ہیں جو گروہ در گروہ جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے اور ایک وہ جو گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ 813-814)
(عائشہ چودھری۔ جرمنی)