• 18 جولائی, 2025

حضرت محمد دین ٹیلر ماسٹر ؓ

حضرت محمد دین ٹیلر ماسٹر رضی اللہ عنہ۔ سیالکوٹ

حضرت محمد الدین رضی اللہ عنہ ولد میاں امیر بخش صاحب قوم جنجوعہ راجپوت سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور پیشہ کے لحاظ سے ٹیلر ماسٹر تھے۔ آپ راولپنڈی میں تھے کہ جہاں سے جنوری 1903ء میں حضرت اقدس علیہ السلام کے سفر جہلم کے موقع پر حاضر ہوکر بیعت کا شرف پایا۔ آپ بیان کرتے ہیں: ’’میں نے کبھی حضور کی مخالفت نہیں کی۔ بلکہ بڑے شوق سے میر حامد شاہ صاحب، مولوی عبدالکریم صاحب کی مجلس میں جا کر ان کی باتیں سنا کرتا تھا۔ ان کی باتیں مجھے بہت پیاری معلوم ہوتی تھیں۔ …. میں 1903ء میں راولپنڈی میں تھا کہ سنا کہ حضرت صاحب جہلم مقدمہ کے لئے تشریف لا رہے ہیں۔ میں جہلم سحری کے وقت اسٹیشن پر اترا۔ میرے ساتھ ایک سیالکوٹ کا خوجہ تھا۔ میں نے اسے کہا کہ تم کہاں جاتے ہو؟ کہنے لگا کہ مرزا کو دیکھنے چلا ہوں۔ میں نے کہا کیا دیکھنے جاتا ہے کہنے لگا کہ انہوں نے ہاتھوں میں گتھلیاں ڈالی ہوئی ہیں اور منہ پر کپڑا ڈالے رکھتے ہیں۔ میں نے اس کو کہا اگر ایسا نہ ہوا تو پھر؟ اس نے پھر یہی بات دہرائی۔ مجھے اس پر غصہ آیا اور کہا چلو میں تمہیں ابھی دکھاتا ہوں۔ جب ہم کوٹھی کے پاس پہنچے تو وہ کھسک گیا۔ فجر کا وقت تھا۔ کوٹھی کے اندر مولوی محمد احسن صاحب وعظ کر رہے تھے۔ میں نے خیال کیا کہ یہ مرزا صاحب ہیں۔ جب انہوں نے وعظ میں حضرت صاحب کا ذکر کیا تو میں سمجھا کہ یہ مرزا صاحب نہیں ہیں۔ اس کے بعد روٹی کا وقت ہوا۔ سیالکوٹ کے ایک منشی عبداللہ تھے۔ وہ بھی روٹی کھا رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر کہا کہ آپ بھی بیٹھ کر روٹی کھا لیں۔ میں نے کہا اچھا مگر میں نے کھائی نہیں۔ میں مرزا صاحب کی تلاش میں تھا۔ میں کوٹھی میں گیا تو مرزا صاحب حضرت مولوی نورالدین صاحب وغیرہ کھانا کھا رہے تھے۔ میرے خیال میں اس وقت آیا کہ اگر مجھے کوئی کہے کہ اس جگہ کھانا کھا لو تو میں بیٹھ جاؤں۔ میں یہ خیال ہی کر رہا تھا کہ اسی منشی عبداللہ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ یہاں بیٹھ جاؤ اور کھانا کھا لو، میں اس جگہ بیٹھ گیا۔ حضرت صاحب بھی اس جگہ کھانا کھا رہے تھے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اگر مرزا صاحب کی پلیٹ سے کوئی لقمہ مل جائے تو بڑا خوش قسمت ہوں گا۔ اسی وقت مولوی عبدالکریم صاحب نے حضرت صاحب کے آگے سے وہ پلیٹ اٹھالی۔ خود بھی اس میں سے تبرک کھایا اور وہ پلیٹ گھومتی گھومتی میرے پاس بھی پہنچ گئی۔ چنانچہ مجھے بھی اس میں سے ایک لقمہ مل گیا۔ اس کے بعد اعلان کیا گیا کہ جن لوگوں نے بیعت کرنی ہے وہ کر لیں۔ بے شمار لوگ بیعت کے لئے جمع ہو گئے۔ میں بہت دور بیٹھا ہوا تھا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اگر حضرت صاحب کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی جائے تو وہ ٹھیک ہو گی اور میں ایسا ہی کروں گا۔ جو منتظم تھے وہ کہنے لگے کہ بھائی ذرا آگے آگے ہو جاؤ۔ آگے ہوتے ہوتے میں حضرت صاحب کے نزدیک پہنچ گیا اور جو کچھ میرے دل میں خیال آیا تھا خدا نے پورا کر دیا اور میرا ہاتھ حضرت صاحب کے ہاتھ پر رکھا گیا۔ باقی لوگوں نے میرے ہاتھ پر اور کندھوں پر اور پگڑیوں کے ذریعہ بیعت کی۔ پھر حضور کچہری میں تشریف لے گئے….‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر 10 صفحہ 162) سفر جہلم کے موقع پر بیعت کنندگان میں آپ کا نام 168 نمبر یوں شامل ہے: ’’محمد دین صاحب ٹیلر ماسٹر راولپنڈی‘‘

(بدر 23۔ 30 جنوری 1903ء صفحہ14 کالم2)

آپ کے بیٹوں میں چودھری حاکم دین صاحب ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر لال دین صاحب تھے۔ حضرت چودھری سر ظفر اللہ خان صاحبؓ 1915ء کی بات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’چودھری حاکم دین صاحب اور ڈاکٹر لال دین صاحب کے والد جو بڑے مخلص، متقی اور بڑے متواضع بزرگ تھے، دھرم سالہ میں گورکھا رجمنٹ میں ٹیلر ماسٹر تھے، ان کے دونوں صاحبزادگان گرمیوں میں ان کے پاس گئے ہوئے تھے …. اگست کے آخر میں دھرم سالہ کے لیے روانہ ہوا …. ماسٹر محمد دین صاحب کی رہائش تو رجمنٹ میں تھی لیکن ہمارے لیے انھوں نے مکان قصبے کی آبادی میں لے رکھا تھا۔ ہر شام وہ کھانا ہمارے ساتھ کھاتے تھے اور کچھ وقت ہمارے ساتھ گذارتے تھے۔‘‘

(تحدیث نعمت صفحہ131، 135)

اخبار الفضل 20؍مئی 1920ء صفحہ 2 پر آپ کی طرف سے اپنے بیٹے چودھری حاکم دین صاحب کی وکالت کے امتحان میں کامیابی کے لیے درخواست دعا کا اعلان ہے، یہاں بھی آپ کے نام کے ساتھ گورکھا پلٹن چھاؤنی دھرم سالہ لکھا ہے۔ آپ بفضلہٖ تعالیٰ موصی تھے، (وصیت نمبر 5608۔ الفضل 31مئی 1940) آخری عمر میں آپ اپنے بیٹے مکرم چوہدری حاکم دین صاحب ایڈووکیٹ شیخوپورہ کے ہاں مقیم رہے۔ مورخہ 22؍نومبر 1941ء کو بعمر 69 سال وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔

(الفضل 27؍نومبر 1941ء صفحہ2)

آپ کے بیٹے مکرم چوہدری حاکم دین صاحب بی اے ایل ایل بی 1946ء میں کمپالہ (یوگنڈا) چلے گئے تھے جہاں 1960ء میں وفات پائی۔ دوسرے بیٹے مکرم ڈاکٹر لعل دین احمد صاحب (وفات: 8؍مئی 1973ء) ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کر کے 1926ء میں ہی کمپالہ چلے گئے تھے جہاں طبی خدمات کے علاوہ جماعتی خدمات میں بھی نمایاں حصہ لیا۔ آپ کا ذکر خیر تاریخ احمدیت جلد29 صفحہ388 پر موجود ہے۔ (وصیت الفضل یکم فروری 1936ء) تیسرے بیٹے مکرم محمد امین صاحب تھے۔

(غلام مصباح بلوچ۔ نمائندہ الفضل آن لائن کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

اعلان برائے خصوصی شمارہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 دسمبر 2021