• 18 جولائی, 2025

آؤ ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر 28)

آؤ ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر 28

Adjective صفت

آج ہم اردو زبان میں صفت کے متعلق بحث کریں گے۔ اس کی کتنی اقسام ہیں اور اس کا درست استعمال کیسے ہوتا ہے نیز یہ کہ صفت ایک اسم میں کیا کیا تبدیلیاں پیدا کرسکتی ہے۔ صفت کسی بھی اسم کی حالت، کیفیت، تعداد اور مقدار وغیرہ کے بارے میں بتاتی ہے۔ صفت کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ یہ اسم کی حالت کو محدود کر دیتی ہے۔ جیسے (لوگ) ایک اسم یا ناؤن ہے لیکن بغیر کسی صفت کے یہ وسیع یا غیر معین معنی دے رہا ہے مگر جب اس کے ساتھ کوئی صفت لگائیں گے تو اس اسم کا دائرہ محدود ہوجائے گا۔ جیسے اچھے لوگ، بیکار لوگ، بےروزگار لوگ، برے لوگ تو اس طرح ایک صفت اسم کی درجہ بندی کر دیتی ہے اسے ایک مخصوص کیٹیگری میں بند کردیتی ہے۔

صفت کی اقسام

  1. صفت ذاتی
  2. صفت نسبتی
  3. صفت عددی
  4. صفت مقداری
  5. صفت ضمیری

صفت ذاتی

یہ اسم کی ایسی صفت ہوتی ہے جو اس کی اندرونی یا بیرونی حالت بیان کرے جیسے ہلکا، بھاری، ٹھوس، سبز وغیرہ۔

اس صفت کو بنانے کے لئے بعض اوقات دوسرے اسما (اسم یا ناؤن کی جمع) یا افعال (فعل یا ورب کی جمع) استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً لڑنا ایک فعل ہے تو اس سے لڑاکا صفت بنے گی اسی طرح کھیل ایک اسم ہے تو اس سے کھلاڑی صفت ہے۔

اکثر اس صفت، یعنی صفت ذاتی کو بنانے کے کے لئے دو الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے ہنسی ایک اسم تو اس سے صفت بنانے کے لئے دو الفاظ استعمال ہوں گے یعنی ہنس اور مکھ(چہرہ) اور صفت بنے گی ہنس مکھ۔ تو آدمی زیادہ تر خوش مزاج رہتا ہو سب سے ہنس کر بات کرتا ہو اسے ہنس مکھ کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص بد لحاظ ہو اور بے ادبی سے بات کرتا ہو اسے منہ پھٹ کہا جاتا ہے۔

اسی طرح بعض فارسی زبان میں استعمال ہونے والی علامتیں عربی اور ہندی الفاظ کے ساتھ لگا کر اردو زبان میں صفات بنائی جاتی ہیں۔ وہ علامتیں ہیں مند، نا، بے، دار وغیرہ اور ان کے ذریعے بننے والی صفات کی مثالیں ہیں سعادت مند، ارادت مند، احسان مند، ناشکرا، نافرمان، ناشائستہ، ناگوار، نالائق، بے فکر، بے چین، بے بس، بے یار و مددگار، بے سبب، سمجھ دار، جمع دار، پہرہ دار، چوکیدار، وفا دار وغیرہ

بذات خود زبان فارسی اور زبان عربی کی ایسی صفات جو ذاتی ہیں اردو زبان میں کثرت سے استعمال ہوتی ہیں۔ جیسے دانا، احمق، بینا، شریف، نفیس وغیرہ۔ یعنی یہ صفات بنائی نہیں گئیں بلکہ اپنی اصل حالت میں ہی اردو میں آگئی ہیں۔

Degrees of adjective صفات ذاتی کے تین مدارج:
درجہ اول میں جو صفت بیان ہوتی ہے وہ صرف اسی چیز یا اسم تک اپنا اثر ڈالتی ہے جس کی بات ہورہی ہو جیسے اچھا یا برا

درجہ دوم میں صفت کے ذریعے دو چیزوں کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ ایک کو دوسرے پہ ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کے لئے حرف (سے) کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جیسے یہ کپڑا اس سے اچھا (صفت) ہے۔ راشد، اکبر سے طاقتور (صفت) ہے۔ کینیڈا رقبے کے لحاظ سے پاکستان سے بڑا (صفت) ہے۔

درجہ سوم میں ایک چیز کو اس قسم کی سب چیزوں پہ ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کے لئے (سب سے) کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے چین آباد ی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ کپڑا سب کپڑوں میں سب سے اچھا ہے۔ جماعت (کلاس) میں یہ لڑکا سب سے ہشیار (سمارٹ) ہے۔

بعض الفاظ صفات کے ساتھ اس صورت میں استعمال کئے جاتے ہیں جب صفت کو مبالغے کا رنگ دینا ہو، اس میں زور پیدا کرنا ہو۔ وہ الفاظ یہ ہیں۔

بہت، بہت اچھا، بہت ہی اچھا۔ مثلاً یہ منظر بہت پیارا ہے۔ اس شہر کا موسم بہت اچھا ہے۔ یہ رنگ تو بہت ہی پھیکا ہے۔

پھر ایک لفظ صفت کے درجہ دوم پہ استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا مقصد بھی بات میں زور یا مبالغہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔ وہ لفظ ہے (کہیں)۔ مثلاً یہ لڑکا تو اس لڑکے سے کہیں بہتر ہے۔ تو مقصد موازنہ ہی ہے جو کہ صفت ذاتی کے درجہ دوم پہ کیا جاتا ہے مگر بات میں مبالغہ لایا گیا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ یہ لڑکا سب سے بہتر ہے مگر اس لڑکے سے کئی گنا بہتر ہے۔

ایک اور لفظ ہے (زیادہ) یہ بھی درجہ دوم میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے یہ زیادہ اچھا ہے۔ اس کا استعمال عام طور پہ سوال کے جواب میں کیا جاتا ہے۔ جب کوئی آپ سے دو چیزوں کے بارے میں رائے مانگے اور بظاہر دونوں چیزیں قابل تعریف ہوں تو فیصلہ کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ یہ زیادہ اچھی ہے۔

اس طرح حجم یا شان و شوکت کے درست بیان کے لئے بعض الفاظ کا صفت کے ساتھ اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ الفاظ ہیں بڑا، کافی، بہت وغیرہ۔ جیسے کہیں کہ میں ایک لمبا سانپ دیکھا۔ اب آپ کہنا چاہتے ہیں کہ چھوٹا موٹا نہیں بلکہ بہت لمبا سانپ، پوچھنے والا پوچھتا ہے کتنا لمبا سانپ تو آپ کہیں گے کافی لمبا سانپ، بڑا لمبا سانپ وغیرہ۔ تو یہ الفاظ منظر کی درست تصویر کشی کے لئے استعمال ہوں گے۔ باقی آئندہ ان شاء اللہ۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:

ظالم حاکم

اگر حاکم ظالم ہو تو اس کو برا نہ کہتے پھرو۔ بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو۔ خدا اس کو بدل دے گا یا اسی کو نیک کردے گا۔ جو تکلیف آتی ہے وہ اپنی ہی بد عملیوں کے سبب آتی ہے، ورنہ مومن کے ساتھ خدا کا ستارہ ہوتا ہے۔ مومن کے لئے خداتعالیٰ آپ سامان مہیا کردیتا ہے۔ میری نصیحت یہی ہے کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو۔ خدا کے حقوق بھی تلف نہ کرو اور بندوں کے حقوق بھی تلف نہ کرو۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ170 ایڈیشن 2016)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی

ظالم: ظلم کرنے والا، انصاف نہ کرنے والا، حقوق کو دبانے والا
حاکم: ملکی سطح پہ بادشاہ، وزیر اعظم، صدر، صوبائی سطح پہ گورنر، وزیر اعلیٰ، ضلعی سطح پہ پولیس کا افسر وغیرہ
حالت میں اصلاح کرنا: اخلاقی اور روحانی ترقی کرنا، علوم، ہنر سیکھنا، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا، دیانت داری سے قومی، شہری حقوق و فرائض ادا کرنا۔
بد عملیاں: برے کام، بد دیانتی، خیانت، جھوٹ، حقوق دبانا جرائم وغیرہ
خدا کا ستارہ: یعنی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہر تقدیر خیر و شر ہے۔
تلف کرنا: ختم کرنا۔ مارنا، دبانا وغیرہ
حقوق: حق کی جمع

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو،کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ