خطبہ جمعہ حضور انور ایّدہ الله تعالیٰ مؤرخہ 12؍نومبر 2021ء
بصورت سوال و جواب
سوال: حضرت حفصہؓ بنت عمر ؓنے ایک دفعہ اپنے والدِ بزرگوار سے کہا، اے امیر المؤمنین! (ایک روایت میں یہ ہے کہ ا ِس طرح مخاطب کیا، اے میرے باپ!) الله نے رزق کو وسیع کیا ہے اور آپؓ کو فتوحات عطاء کی ہیں اور کثرت سے مال عطاء کیا ہے کیوں نہ آپؓ اپنے کھانے سے زیادہ نرم غذا کھایا کریں اور اپنے اِس لباس سے زیادہ نرم لباس پہنا کریں، اِس پر آپؓ نے کیا ارشاد فرمایا؟
جواب: مَیں تم سے ہی اِس امر کا فیصلہ چاہوں گا، کیا تمہیں یاد نہیں کہ رسول اللهﷺ کو زندگی میں کتنی سختیاں گزارنی پڑیں، راوی کہتے ہیں کہ آپؓ مسلسل حضرت حفصہؓ کو یہ یاد دلاتے رہے یہاں تک کہ حضرت حفصہؓ کو رُلا دیا پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا، الله کی قسم! جہاں تک مجھ میں طاقت ہوگی مَیں رسول الله ؐ اور حضرت ابوبکرؓ کی زندگیوں کی سختی میں شامل رہوں گا تاکہ شائدمَیں اِن دونوں کی راحت کی زندگی میں بھی شریک ہو جاؤں۔
سوال: حضرت المصلح الموعودؓ نے ایک خطبہ میں کس کے سلسلہ میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ رسولِ کریمؐ کا زمانہ خوف و خطر کا زمانہ تھا، اُس وقت آپؐ نے مسلمانوں کو جو احکام دیئے تھے ہم اُن سے سبق حاصل کر سکتے ہیں، آپؐ کا اپنا طریق بھی یہ تھا اور ہدایت بھی آپؐ نے یہ کر رکھی تھی کہ ایک سے زیادہ سالن استعمال نہ کیا جائے؟
جواب: تحریکِ جدید
سوال: ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے سامنے سرکہ اور نمک رکھا گیا تو آپؓ نے فرمایا! یہ دو کھانے کیوں رکھے گئے ہیں جبکہ رسولِ کریمؐ نے صِرف ایک کھانے کا حکم دیاہے، حضرت المصلح الموعودؓ نے حضرت عمرؓ کے اِس فعل کی بابت کیا ارشاد فرمایا ہے؟
جواب: اگرچہ حضرت عمرؓ کا یہ فعل رسولِ کریمؐ کی محبّت کے جذبہ کی وجہ سے غُلُوّ کا پہلو رکھتا ہؤا معلوم ہوتا ہے، غالباً رسولِ کریمؐ کا یہ منشاء نہ تھا لیکن اِس مثال سے یہ ضرور پتا چلتا ہے کہ آپؐ نے دیکھ کر کہ مسلمانوں کو سادگی کی ضرورت ہے، اِس کی کس قدر تاکید کی تھی۔
سوال: حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت المصلح الموعودؓ کے مندرجہ ذیل ارشاد کی کیا تصریح پیش فرمائی؟
’’حضرت عمرؓ والا مطالبہ تو مَیں نہیں کرتا ۔ ۔ ۔ مگر یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ آج سے تین سال کے لئے، جس کے دوران مَیں ایک ایک سال کے بعد دوبارہ اعلان کرتا رہوں گا تاکہ اگر اِن تین سالوں میں حالتِ خوف بدل جائے تو احکام بھی بدلے جا سکیں، ہر احمدی جو اِس جنگ میں ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہے، یہ اقرار کرے کہ وہ آج سے صِرف ایک سالن استعمال کرے گا۔‘‘
جواب: یہ اُس زمانہ کی بات ہے جب تحریکِ جدید کا اعلان فرمایا تھا اور اُس وقت ضرورت تھی جماعت کو اور تحریک کی کہ اپنے خرچےکم کر کے چندہ دو، الله تعالیٰ کے فضل سے اب حالات مختلف ہیں اِس لئے یہ پابندی نہیں ہے لیکن پھر بھی اِسراف سے کام نہیں لینا چاہیئے۔
سوال: کس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت المصلح الموعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ عبادالرّحمٰن وہ ہوتے ہیں جو اپنے مالوں میں اِسراف نہ کرتے ہوں، وہ اپنے مالوں کو رِیاء اور دکھاوے کے لئے خرچ نہ کرتے ہوں بلکہ فائدہ اور نفع کے لئے صَرف کرتے ہوں، پھر اپنے مالوں کو ایسی جگہ دینے سے نہ روکیں جہاں دینا ضروری ہو اور اُن کا قوام ہو (یعنی درمیانی ہو) اِس فائدہ کا ذریعہ بن رہا ہو، نہ اپنے مالوں کو اِس طرح لُوٹائیں جو الله تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت نہ ہو اور نہ اِس طرح روکیں کہ جائز حقوق کو بھی ادا نہ کریں؟
جواب: وَالَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَلَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَکَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا (الفرقان: 68)
سوال: حضرت عمرؓ دکھاوے اور شان و شوکت والے لباس کے اِس قدر خلاف تھے کہ مفتوح دشمن کے لئے بھی یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ وہ کوئی ایسا لباس پہن کےاُن کے سامنے آئے جو شان و شوکت والا ہو، اِس کی بابت حضور انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کس کے واقعہ کی مختصر تفصیل پیش فرمائی؟
جواب: فارسیوں کے سپۂ سالار ہُرمزان
سوال: حضرت عُروہ بن زبیرؓ سےمروی ہے کہ مَیں نے عمرؓ بن خطاب کو کندھے پر پانی کا ایک مشکیزہ اٹھائے ہؤا دیکھا تو مَیں نے کہا، اے امیرالمؤمنین! آپؓ کے لئے یہ مناسب نہیں ہے، اِس پر آپؓ نے کیا ارشاد فرمایا؟
جواب: جب وفود اطاعت و فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے پاس آئےتو میرے دل میں اپنی بڑائی کا احساس ہؤا، اِس لئے مَیں نے اِس بڑائی کو توڑنا ضروری سمجھا!
سوال: کون اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمرؓ بن خطاب کے ساتھ مکّہ سے قافلہ کی صورت میں واپس آ رہے تھے، یہاں تک کہ ہم ضجنان کی گھاٹیوں میں پہنچے تو لوگ رُک گئے۔ ۔ ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا! مجھے اِس جگہ پر وہ وقت بھی یاد ہے جب مَیں اپنے والد خطاب کے اونٹ پر ہوتا تھا اور بہت سخت طبیعت کے انسان تھے وہ، ایک مرتبہ مَیں اِن اونٹوں پر لکڑیاں لے کر جاتا تھا اور دوسری مرتبہ اُن پر گھاس لے کر جاتا تھا، آج میرا یہ حال ہے کہ لوگ میرے علاقے کے دُور دراز میں سفر کرتے ہیں اور میرے اوپر کوئی نہیں ۔ ۔ ۔ پھر یہ شعر پڑھا!
لَا شَیْءَ فِی مَا تَرٰی اِلَّا بَشَاشَۃَ
یَبْقَی الْاِلٰہُ وَ یُوْدِی الْمَالُ وَالْوَلَدُ
یعنی جو کچھ تمہیں نظر آتا ہے اُس کی کوئی حقیقت نہیں سوائے ایک عارضی خوشی کے صِرف خدا کی ذات باقی رہے گی جبکہ مال اور اَولاد فنا ہو جائے گی؟
جواب: حضرت یحیٰ بن عبدالرّحمٰن بن حاطبؓ
سوال: حضرت المصلح الموعود ؓ اِس تناظر میں مزید کیا ارشاد فرماتے ہیں کہ کیا یہ تعجّب کی بات نہیں کہ اونٹوں کو چرانے والا ایک شخص عظیم الشّان بادشاہ بن گیا اور صِرف دنیاوی بادشاہ نہیں بنا بلکہ روحانی بھی۔ ۔ ۔ یہ قصہ مَیں نے اِس لئے سنایا ہے کہ دیکھو ایک اونٹ چرانے والے کو دین و دنیا کے وہ علم سکھائے گئے جو کسی کو سمجھ نہیں آ سکتے ۔ ۔ ۔ ایک اونٹ کا چرواہا اور سلطنت کیا تعلق رکھتے ہیں لیکن دیکھو! اُنہوں نے وہ کچھ کیا کہ آج دنیا اُن کے آگے سَر جھکاتی ہے اور اُن کی سیاست دانی کی تعریف کرتی ہے۔ ۔ ۔ پھر دیکھو! حضرت ابوبکرؓ ایک معمولی تاجر تھے لیکن اب دنیا حیران ہے کہ اِن کو یہ فہم، عقل اور فکر کہاں سے مِل گیا؟
جواب: مَیں بتاتا ہوں کہ اُن کو قرآن شریف سے سب کچھ مِلا، اُنہوں نے قرآنِ شریف پر غور کیا اِس لئے اُن کو وہ کچھ آ گیا جو تمام دنیا کو نہ آتا تھا کیونکہ قرآنِ شریف ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جب اِس کے ساتھ دل کو صیقل کیا جائے تو ایسا صاف ہو جاتا ہے کہ تمام دنیا کے علوم اُس میں نظر آ جاتے ہیں اور انسان پر ایک ایسا دروازہ کُھل جاتا ہے کہ پھر کسی کے روکے وہ علوم جو اِس کے دل پر نازل کیئے جاتے ہیں نہیں رک سکتے، پس ہر ایک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کو پڑھنے اور غور کرنے کی کوشش کرے۔
سوال: یہ ارشاد حضرت عمر فاروقؓ کےکس وصف کا آئینہ دار ہے کہ الله کی قسم! ابوبکرؓ مُشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہیں اور مَیں اپنے گھر کے اونٹوں سے بھی زیادہ بھٹکا ہؤا ہوں؟
جواب: عاجزی و انکساری
سوال: حضرت عمرؓ نے کہا، یارسول الله ﷺ! میرے ماں باپ آپؐ پر فداء ہوں، کیا آپؐ نے اپنی جُوتیوں کے ساتھ ابوہریرہؓ کو بھیجا تھا کہ جو اُسے ملے اور گواہی دیتا ہو الله کے سواء کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اُس کا دل اِس بات پر یقین رکھتا ہو، اُسے جنّت کی بشارت دے دے، آپؐ نے فرمایا، ہاں! اِس پر حضرت عمرؓ نے کیاعرض کیا نیز اُس پر آپؐ نے کیا ارشاد فرمایا؟
جواب: ایسا نہ کی جیئے کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ لوگ پھر اِسی پر بھروسہ کرنے لگ جائیں گے، اِس لئے بہتر یہی ہے کہ آپؐ اُن کو عمل کرنے دیں۔ ۔ ۔ نہیں تویہ صِرف اِسی بات پر قائم ہو جائیں گے کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ کہنا ہی جنّت کی بشارت ہے؍ اچھا! رہنے دو، ٹھیک ہے، اِسی طرح کرتے ہیں۔
سوال: کن کا فرمان ہے کہ نبیﷺ نے حضرت عمرؓ کو کہا تھا کہ اگر شیطان تجھ کو کسی راہ میں پاوے تو دوسری راہ اختیار کرے اور تجھ سے ڈرے اور اِس دلیل سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان حضرت عمرؓ سے ایک نامرد ذلیل کی طرح بھاگتا ہے؟
جواب: سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام
سوال: اجازت طلبی کی بابت رسول اللهﷺ کا کیا حکم ہے؟
جواب: اَلْاِسْتِئْذَانُ ثَلَاثٌ یعنی اجازت طلبی تین بار ہے، اگر تمہیں اجازت دے دی جائے تو گھر میں جاؤ اور اجازت نہ دی جائے تو لَوٹ جاؤ۔
سوال: حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے موجودہ خطبہ میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی فضیلت کے بارہ میں کتنی روایات پیش فرمائیں نیز رسول اللهﷺ نے کس ضِمن میں ارشاد فرمایا کہ آسمان والوں میں سے میرے دو وَزیر جبرائیل اور میکائیل ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وَزیر ابوبکرؓ او رعمرؓ ہیں؟
جواب: سولہ؍ ہر نبی کے آسمان والوں میں سے دو وَزیر ہوتے ہیں اور زمین والوں میں سے بھی دو وَزیر ہوتے ہیں۔
سوال: سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے کس کی حالت میں موت کو ’’ایک قابلِ رشک موت‘‘ قرار دیا ہے؟
جواب: نماز
سوال: حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبۂ ثانیہ سے قبل کن مرحومین کاذکرِ خیر فرمایا نیز نماز جمعتہ المبارک کے بعد اِن کی نمازِ جنازہ غائب بھی پڑھانے کا اعلان فرمایا؟
جواب: شہید مکرم کامران احمد؍ پشاور، مکرم ڈاکٹر مرزا نُبیر احمدو اہلیہ مکرمہ عائشہ عنبرین سیّد؍ امریکہ، مکرم چوہدری نصیر احمد؍ کراچی اور مکرمہ سرداراں بی بی ؍ ربوہ
(قمر احمد ظفر۔ جرمنی)