والدمرحوم ڈاکٹرحبیب اللہ خان تنزا نیہ،افریقہ ،میں ڈیوٹی پر تھے۔ مجھے 1946ءمیں تعلیم الاسلام پرا ئمری سکول قادیان میں پہلی جماعت میں داخل کرا دیا گیا۔سالانہ امتحان ہوئے ،قا عدہ یسّرناالقرآن زبان کی تکلیف کے باعث اچھی طرح سنا نہ سکا جبکہ دوسرے مضامین میں پاس تھا۔ فیل کر دیا گیا۔ امتحانات کے بعد موسم گرما کی چھٹیوں کے دوران partition ہو گئی۔
پاکستان کے لئے ہجرت
قادیان میں دن بدن غیر ما نوس چہروں کی آ مد شروع ہو گئی تھی۔سڑکوں پر لوگ اور سامان تانگوں، گڈوں پر لدے آ رہے تھے۔ قادیان کے پر سکون ما حول میں ایک غیر ما نوس سی بے چینی سرا ئیت کر رہی تھی۔ محلہ کی مسجد میں غیر ما نوس لوگوں نے بستر لگا لئے تھے۔ ہم بچوں کا باہر نکلنا منع ہو گیا تھا۔ بھا ئی جان حفیظ امرتسر میڈیکل سکول سے کئی دن سے آ ئے ہو ئے تھے۔سرِشام محلہ کے لوگ گھروں میں بند ہو جا تے۔ ہنستے بستے شہروں کی مخصوص ہلکی سی زندگی کی بھنبھناہٹ سرِ شام ماند پڑنے لگی تھی۔ ایک انجانا خوف و حراس دارالاماں پر اپنا مکروہ سایہ تانے جا رہا تھا۔ نا گہاں، کبھی کبھی شام کو گولیوں کے چلنے کی آوازیں بھی آ نے لگی تھیں۔
گھر کے بڑے سارا دن بیٹھے پاکستان جا نے کے ذرائع سو چتے رہتے۔ ضعیف والدہ کی بات تھی کہ وہ کیسے ، اگر پیدل قافلے کے ساتھ جا نا پڑا،اتنا لمبا سفر کرسکیں گی۔گھر کے سٹور میں بچوں کی ایک بڑی سیpram پڑی تھی۔ اسے نکال کر صاف کیا گیا، جوڑوں میں تیل دیا گیا۔منصوبہ یہ تھاکہ اس میں رضا ئیاں وغیرہ بچھا دی جا ئیں گی اور والدہ کو بٹھا کر سفر طے کیا جا ئے گا۔ جب یہ سب کچھ ہو گیا ، مجھے ٹیسٹنگ کے لئے اس پر بٹھا یا گیا تو پتہ چلا یہ بیکار کی کو شش تھی۔ ہم سب پریشان دعائیں کر رہے تھے ۔ ابا جی افریقہ میں الگ پریشان تھے۔
بھائی جان منیر ڈیوٹی دینے جا تے شام کو خبریں لا تے۔ بسوں کے ایک دو قا فلے جا بھی چکے تھے ، ایک صبح ہم بھی تیار ہو کر پہنچے۔بسیں کھچا کھچ ، بھری ہو ئی تھیں نفسا نفسی کے عالم میں روانہ ہو ئیں۔ ظاہر ہے ہم 9 افراد کو کہاں جگہ ملتی! اسی مایوسی میں آ خر بڑوں نے سو چا پتہ نہیں ہمارا کیا بننا ہے کم از کم کو ئی ایک تو ہم سے بچ جا ئے.کُرہ میرے نا م پڑا۔میرے دو تین جو ڑے ، کچھ رو ٹیاں ایک بچکی میں باندھ دی گئیں کچھ نقدی میری قمیض میں سی دی گئی اور کچھ میری جیب میں۔لاہور میں بھا ئی نور احمد کے گھر کا پتہ(بیرون مو چی گیٹ، برکت علی روڈ، 5 قمرمنزل، لاہور) لکھ کر میری جیب میں اور بچکی میں خط کے ساتھ رکھ دیا گیا۔مجھے ہر ایک نے آنسو بھری آنکھوں سے سسکیاں لیتے اور دعائیں کر تے ہو ئے بھائی منیر کے ساتھ روانہ کیا۔جب ہم تعلیم الاسلام کا لج کی گرا ؤنڈ میں پہنچےتو کھچا کھچ بھری چار پانچ بسوں کے گرد ایک اژ دھام تھا، ایک طرح کی چیخ و پکار تھی ۔ بھائی منیرنے مجھے بازوؤں میں اٹھا لیا اور ایک بس کی کھلی کھڑکی سے اندر دھکیلنے کی کو شش کی۔گھبرا ہٹ سے میں نے رونا شروع کر دیا۔ دو دفعہ کی کوشش رائیگاں گئی۔بسیں چلی گئیں اور ہم مایوسی کے عالم میں گھر وا پس آ گئے۔
سخت ما یو سی تھی، طرح طرح کے منصوبے بنتے اور ٹوٹتے۔ ایک شام جب دروازہ بند کئے ما یوسی میں بیٹھے ہو ئے تھےدروازہ کھٹکا۔سب ڈر گئے۔ پاس جا کر پو چھا: کون ہے؟ باہر سے خالہ زاد بھائی نور احمد کی آواز تھی ’’میں نور ا حمد‘‘۔ دروازہ کھولاسب سے گلے ملے۔ انہوں نے بتایا وہ ایک فو جی ٹرک لے کر ہمیں لینے آ ئے ہیں اور صبح سے ہمارے گھر کا پتہ کر تے کر تے اب ہم تک پہنچے ہیں۔ ہم سب نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا اللہ نے کیسے نا امیدی میں امید پیدا کر دی۔ الحمدُ للّٰہ
اگلی صبح ہم تیار ہو کر بسوں کی طرف روانہ ہو ئے۔ ہمارے ٹرک میں لوگ سوار ہو چکے ہو ئے تھے۔تِل رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ انتظام پر معمور خدام کو بھائی نور احمد اور بھائی منیر نے جا کر بتایا۔ ہمارے لئے جگہ بنائی گئی۔ بے جی بھا ئی منیر کو بار بار کہتیں اور التجا ئیں کر تیں رہیں کہ تم بھی ہمارے ساتھ چلومگر انہوں نے کہا کہ ’’میری ڈیوٹی ہے میں بعد میں آ ؤں گا‘‘ اور بھیڑ میں گم ہوگئے۔ والدہ مر حومہ دیر تک اداسی سے روتی رہیں۔
ہمارے کانوائے میں سات بسیں تھیں۔مو سمِ برسات اور ٹریفک کی بھیڑ کی وجہ سے سڑک پر کھڈے پڑے ہو ئے تھے۔ بسیں رینگنے کی رفتار سے چل رہی تھیں۔جب شام ہو ئی اور ہم تقریباً امرتسر شہر میں داخل ہو رہے تھےکہ ایک بس کا انجن فیل ہو گیا۔ بھا ئی نور احمد فوج میں موٹر مکینک تھے ۔کیا کر سکتے تھے؟ ہر طرف اندھیرا تھا کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا، بیٹری مہیا نہیں تھی۔پتہ کیا گیا کسی کے پاس ما چس ہے؟آخر ایک سیگرٹ نوش کام آ ئے۔ ماچس کی تیلیاں جلا جلا کر تاریں جو ڑیں اور بس سٹارٹ ہو گئی۔ سب نے شکر ادا کیا۔
بھا ئی جان حفیظ پہلے لاہور پہنچ چکے تھے اورکرشن نگر میں ایک گھر ا لاٹ کروا لیا ہوا تھااور بازار میں ایک ہو میو پیتھک کی دکان بھی انہیں مل گئی تھی۔بھائی جان ہو میو پیتھک کی چھوٹی چھوٹی بو تلیں لے کر آ تے ہم انہیں صاف کر تے جا تے اور لنڈے بازار میں بیچ کر کچھ نقدی مل جا تی۔افرا تفری کا زمانہ تھا۔ بے جی (والدہ) نے کچھ نقدی بچا کر رکھی تھی جس سے گزارہ ہو رہا تھا۔ہم لا ہور میں ٹھہر کربھا ئی منیر کے قادیان سے پہنچنے کا انتظار کر رہے تھے۔
نا گہاں دفتر سے بھائی کی شہادت کی اطلاع ملی۔ تفصیل کے مطابق بھائی جان سکھ حملہ آوروں کا مقابلہ ابا جی کی دونالی بندوق سے کرتے رہے۔ آخرکار حملہ آور رات کے اندھیرے میں پیچھے سے گھر کے دیوار پھاند کر آئے اور انہیں پیٹ میں چھرا گونپ کر شہید کر دیا۔ جب خدام صبح پتہ کر نے گئے توبھائی صحن کے درمیان چت پڑے تھے اور انتڑیاں باہر پھیلی ہو ئیں تھیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ بے جی اور بڑوں کی غم سے بری حالت تھی۔
اب ہمارا لاہور میں ٹھہرنے کا کو ئی جواز نہیں تھا۔بسوں میں بڑی بھیڑ تھی، چنانچہ ہم نے ایک گڈے والے سے بات کی۔ اس نے چکسان پہنچانے کی حامی 300 روپے میں بھر لی۔ ہم اور ہمارا جو بھی اثاثہ تھا گڈے پر لد گئے۔ اور آ ہستہ آہستہ منزلِ مقصود کی طرف بڑھنا شروع ہو ئے۔ مجھے شا ہدرہ گو جرانوالہ کی سڑک ابھی تک یاد ہے جس کی جانبین میں کھجور کے درخت تھے۔میں نے پہلے کبھی کھجور کا درخت نہیں دیکھا تھا۔ رستے میں جب بیل آ رام اور چارے کے لئے رکتے ہم بھی اُتر کر گھاس وغیرہ پر کھیس بچھا کر آرام کر لیتے۔ ہماری سواری رات بھرچلتی رہتی ۔آخر کار سو میل کا یہ سفراللہ اللہ کر کے چوتھے دن ختم ہوا اور ہم اپنے گاؤں پہنچ گئے۔
دادی جان اور گاؤں کے لو گوں کو اپنا منتظر پایا۔ دادی جان ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہو ئیں۔ ہم اپنے آبائی گھر میں خوب دوڑے پھرے۔ بے سرو سامانی کی حالت تھی۔بھائی منیرکی شہادت سے سب نڈھال تھے۔بے جی کا برا حال تھا،ہر وقت دروازہ کی طرف نظریں ٹکا ئے رکھتیں، کہ منیر اب آیا کہ اب آ یا۔
ابا جی کی آمد
گھریلو حالات سے آ گاہ ہوتے ہی اباجی Early Retirement لے کر 1948ء کے شروع میں افریقہ سے گاؤں پہنچ گئے۔ اورگھر کے حالات کو سنبھالا دیا۔ مجھے 3 میل دورگاؤں کوٹ سعداللہ میں پرائمری سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ ہمارے احمدی ہو نے کی خبر سب جگہ پہنچ چکی تھی۔ جب ابا جی مجھے سکول میں داخل کر وانے گئے اہل حدیث ہیڈ ماسٹر مولوی فیروز اباجی سے مذہبی بحث میں الجھ گیا۔ خیر اس دن تو بات آئی گئی ہو گئی۔ اگلے دن بہانہ بنا کر میری مکوں اور تھپڑوں سے خوب پٹائی کر دی۔میں نے گھر میں اس کے بارہ میں کسی کو نہیں بتایا۔
ابا جی نے چکسان سے 3 میل دور قصبہ گکھڑ منڈی کے مین بازار میں ’’قریشی میڈیکل ہال‘‘ کے نام سے شفا خانہ کھول لیا۔ابا جی ہرروزصبح صبح 3 میل سُوئے (چھوٹی نہر) کے ساتھ ساتھ کچے راستے پرسائیکل پر گکھڑجا تے اور شام وا پس آ تے۔ اب میں حیران ہوتا ہوں اباجی کی ہمت پر۔اباجی کے دونوں گھٹنوں میں Arthritis کی وجہ سے سخت درد تھی، جسم بھاری تھا۔ یہ سب سختی آپ نے میرے پانچویں کے امتحان تک برداشت کی۔ گھر میں مجھے اور دوسرے بچوں کو اردو، انگریزی کے ساتھ ساتھ حضرت مسیحِ موعودؑ کی کتب کادرس دیتے۔ ظہر عصر کی نماز کے بعدہم اپنا اپنا قر آنِ کریم لے کر بیٹھ جاتےاور ایک ایک رکوع پڑھتے۔ اباجی ترجمہ پڑھتے اور ہم دہراتے جا تے۔ ابا جی کی اس مہربانی کے باعث اب تک ہم بہن بھا ئیوں کو خدا تعالیٰ کے فضل سے قر آنِ کریم کا تر جمہ سمجھنے میں الا ما شا اللّٰہ کبھی کو ئی مشکل پیش نہیں آئی۔ الحمدﷲ
وقفِ زندگی
میرے پرا ئمری کا امتحان پاس کر تے ہی ہم قصبہ گکھڑمنڈی میں منتقل ہو گئے۔ میں ڈسٹرکٹ بورڈ ہائی سکول (ڈی ۔بی ہائی سکول) کی چھٹی جماعت میں داخل ہو گیا۔ میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا جب 1954ء ۔1955ء کے لگ بھگ حضرت مصلح مو عودؓ نے وقفِ زندگی کے مو ضوع پر مسلسل کچھ خطبات دیئے۔ ان خطبات سے متأثر ہوکر ایک روز ابا جی نے مجھے بلا کر کہا ’’تم نے حضرت صاحبؓ کے خطبات سنے ہیں۔ اللہ نے مجھے چار بیٹے دئے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میں اپنے دو بیٹے اللہ کے رستے میں وقف کروں۔ دو دنیاداری میں پڑے ہوئے ہیں۔ پہلے منیر و قف تھا شہید ہو کر اللہ کے پاس ہے۔ اب تم سب سے چھو ٹے ہو تم خدا کی راہ میں زند گی وقف کر دو تاکہ میری زندگی کے دو نوں پلڑے یکساں ہو جا ئیں‘‘ میرا ہاں میں جواب سن کر ابا جی بہت خوش ہو ئے، اورحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں وقف کی منظوری کے لئے عریضہ لکھ دیا۔
حضرت صاحب نے ایک خطبہ میں ذکر فرمایا کہ ’’وقفِ زندگی کی تحریک کے جواب میں جو درخواستیں آئی ہیں ان میں سے ایک تو ابھی بہت چھوٹے ہیں‘‘۔ شائد حضور کا یہ اشارہ میری طرف تھا۔ کچھ دنوں میں دفتر تبشیر سے اباجی کے نام ہدایت آئی کہ حضورؓ نے وقف منظور فرما لیا ہے۔ میٹرک کے بعد بچہ کو جا معہ میں دا خل کرا ئیں۔اسی زمانہ میں میں نظامِ وصیت میں بھی شامل ہو گیا۔ الحمدُ للّٰہ
جامعہ کی بجائے کا لج میں داخلہ
میٹرک پاس کر نے کے بعدابا جی مجھے لےکر جامعہ احمدیہ میں داخلہ دلانے ربوہ پہنچے۔ جولائی کا مہینہ اور بدھ کا دن تھا۔ ربوہ میں سخت گر می تھی، تانگے پر سیدھے جامعہ میں پہنچے۔ جامعہ میں سالانہ کھیلوں کے بعد دو چھٹیاں تھیں۔ ابا جی کی طبیعت میں کسی قدر سختی اور جوش تھا۔ جامعہ کو بند پا کر جامعہ کے پرنسپل مو لا نا ابوالعطاء جالندھری کے کوارٹر تحریک جدید پہنچے۔ مولوی صاحب سے ملا قات کے وقت بے تکلفی سے کہا کہ ’’مو لوی صاحب! لو جی قربا نی کا بکرا لے آیا ہوں۔ اسے جہاں چا ہیں باندھیں۔ مجھے بہت گرمی لگ رہی ہے میں تو واپس چلا۔‘‘
مولوی صاحب نے فر مایا کہ جا معہ میں تو چھٹی ہے۔ آپ ٹھہریں۔ دو دن کے بعد جامعہ آجا ئیں۔ والدِ محترم نے فر مایاکہ ’’سخت گرمی ہے میں یہاں زیادہ رک نہیں سکتا’’۔ حضرت مو لانا نے فرمایا ‘‘تو پھر اسے کا لج میں داخل کر وا دیں وہاں سے ڈاکٹر بن کر یا ایم۔اے کر کے سلسلہ کی خد مت کر سکتا ہے۔’’ چنانچہ اس طرح میں کالج میں فرسٹ ائیر پری میڈیکل میں داخل ہوا۔ میری ریاضی میں کمزوری آڑے آئی۔ ایف ایس سی میں اتنے نمبر نہ آ ئے کہ میڈیکل کا لج میں دا خلہ مل سکتا۔ فزکس اور کیمسٹری میں حسابی سوالات کے باعث میرے نمبر کم رہے۔
بی ایس سی میں اسلا میہ کالج سول لائنز میں داخلہ لیا جہاں کریسنٹ ہوسٹل میں رہا۔با ٹنی، زوا لو جی اور انگریزی کے مضامین تھے۔زوالو جی میں اول رہا اور بی ایس سی میں فرسٹ کلاس حاصل کی، کا لج کا میڈل اور رول آف آنر ملا۔
گولڈ میڈل اور ٹی آ ئی کالج سے وابستگی
پنجاب یونیورسٹی میں ایم ایس سی زوالو جی میں دا خلہ لیا۔ 1963ء کے سالانہ امتحان میں فرسٹ کلاس فرسٹ کی پو زیشن حاصل کی اور Sir William Roberts Gold Medal حاصل کیا۔ ابا جی نے فوراً حضرت صاحب کی خد مت میں تحریراً عرض کر دیا۔ حضرت مرزا نا صر احمد پرنسپل کی طرف سے جواب آیا کہ ٹی آئی کا لج جوائن کریں۔ میں نے موسم گرما کی تعطیلات کے بعد ستمبر 1963ء میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ لیکچرر بیالوجی کی حیثیت سے جوائن کیا ۔الحمدُ للہ 36 سالہ خدمت کے بعد 60 سال کی عمر میں 11ستمبر 1999ء کو کا لج سے ریٹائر ہوا۔ الحمدُ للہ
آ خر میں میں اپنے بیالوجی کے استاد پرو فیسر ڈاکٹر نصیر احمد بشیر مرحوم کے لئے درخواستِ دعا کرنا چاہتا ہوں۔ مو صوف تعلیم الاسلام کالج لاہور میں طالبعلم رہے اور 1956ء میں پنجاب یونیورسٹی کے ایم ایس سی زووالوجی میں گولڈ میڈیلسٹ تھے۔ آپ 1957ء میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں میرے استاد تھے۔1965ء میں اتفاقًا مسجد اقصیٰ ربوہ میں جمعہ کے دن موصوف سے ملاقات ہوئی۔ تعارف ہوا، خوش ہو ئے کہ میں ان کی جگہ پر کالج میں ڈیوٹی دیتا رہا ہوں۔ آپ امریکہ اعلیٰ تعلیم کے لئے گئے تھے۔ اورغیر از جماعت افراد کی سخت مخالفت میں فیصل آباد میڈیکل کالج میں فزیالوجی کے پروفیسر رہے۔ آپ نے ہمیں بہت محنت سے پڑھایا تھا۔ آپ کچھ عرصہ بیمار رہ کروفات پاگئے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون ۔ احباب سے مرحوم کی بلندئ درجات کے لئے دعا کی درخوا ت س ہے۔