حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’اگرچہ فیصلہ دعاؤں سے ہی ہونے والا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ دلائل کو چھوڑ دیا جائے۔ نہیں دلائل کا سلسلہ بھی برابر رکھنا چاہئے اور قلم کو روکنا نہیں چاہئے نبیوں کو خدا تعالیٰ نے اولی الایدی و الابصار کہا ہے کیونکہ وہ ہاتھوں سے کام لیتے ہیں۔
پس چاہئے کہ تمہارے ہاتھ اور قلم نہ رکیں اس سے ثواب ہوتا ہے جہاں تک بیان اور لسان سے کام لے سکو کام لئے جاؤ اور جو جو باتیں تائید دین کے لئے سمجھ میں آتی جاویں انہیں پیش کئے جاؤ وہ کسی نہ کسی کو فائدہ پہنچائیں گی۔‘‘
(الحکم 17 فروری 1904ء تفسیر مسیح موعودؑ جلد 7 صفحہ 167)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سورۃ قلم کے تعارف میں فرماتے ہیں۔
یہ سورۃ لفظ ’’ن‘‘ سے شروع ہوتی ہے جس کا ایک معنی دوات کا ہے اور قلم سے لکھنے والے تمام اس کے محتاج رہتے ہیں اور انسان کی تمام ترقیات کا دور قلم کی بادشاہی سے شروع ہوتا ہے اگر انسانی ترقی میں سے تحریر کو نکال دیا جائے تو انسان جہالتوں کی طرف لوٹ جائے اور پھر کبھی اسے کوئی علمی ترقی نصیب نہیں ہو سکتی۔
سورۃ الحدید… وَاَنزَلنَا الحَدِیدَ فِیہِ بَاسٌ شَدِیدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ کی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ’’معلوم ہوتا ہے کہ حدید نے اپنا فعل ’’باس شدید‘‘ آنحضرت ﷺ کے وقت کیا کہ اس سے سامان جنگ وغیرہ تیار ہوکر کام آتا تھا مگر اس کے فعل ’’منافع للناس‘‘ کا وقت یہ مسیح اور مہدی کا زمانہ ہے کہ اس وقت تمام دنیا حدید (لوہے) سے فائدہ اٹھا رہی ہے…
میں بھی سارے مضمون لوہے کے قلم سے ہی لکھتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوہے سے کام لیا ہم بھی لوہے ہی سے لے رہے ہیں اور وہی لوہے کی قلم تلوار کا کام دے رہی ہے۔
(البدر 26 دسمبر 1902ء تفسیر مسیح موعود جلد 8 صفحہ 83)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ساری عمر قلمی جہاد میں مصروف رہے اور اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں ساری بدعات سے صاف کرکے اسلام کا چہرہ دنیا کو دکھایا آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے سارے قرآن کی سمجھ اور فہم عطا کی اور آپ ؑکے مدنظر آنحضرت ﷺ کی کامل ظلیت میں ساری دنیا کی اصلاح تھی آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے ’’سلطان القلم‘‘ کا خطاب عطا فرمایا۔
آپؑ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں۔
صف دشمن کو کیا ہم نے بحجت پامال
سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے
آپؑ کی پُر زور تحریروں کا اعتراف کرتے ہوئے آپؑ کی وفات پر مولانا ابو الکلام آزاد ایڈیٹر اخبار وکیل امرتسر نے لکھا۔
’’وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو، وہ شخص جو دماغی عجائبات کامجسمہ تھاجس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا جو شور قیامت ہو کر خفتگان خواب ہستی کو بیدارکرتا رہا… دنیا سے اُٹھ گیا….. مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے ایسے شخص جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرکے دکھاجاتے ہیں مرزا صاحب کی اس رفعت نےان کے بعض دعاوی اوربعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرادیا ہے کہ وہ ان کا ایک بڑاشخص ان سے جدا ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو ان کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی خاتمہ ہوگیا ان کی یہ خصوصیات کہ وہ اسلامک مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے….. مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حا صل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔
اس لٹریچر کی قدرومنزلت آج جب کہ وہ اپنا فرض پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے… آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو۔
(اخبار وکیل امرتسر بحوالہ حیات طیبہ تصنیف شیخ عبدالقادر سابق سوداگر مل صفحہ 261،262)
آگے آپ کے خلفاء نے بھی مقدور بھر لٹریچر چھوڑا بالخصوص حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے جو کہ مصلح موعودؓ اور آپ کے مثیل اور خلیفہ تھے اس کے علاوہ ان کے علاوہ دیگر خلفاء احمدیت نے بھی اور آپ کے صحابہؓ نے بھی اور بعض تابعین بھی نسلاً بعد نسل قلمی خدمات کی توفیق پارہے ہیں، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین
(انجینئر محمود مجیب اصغر)