• 3 مئی, 2024

میں نے کہا پہلے تو مرزا صاحب تھے اب واقعی محمد ہو گئے ہیں، صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت محمد فاضل صاحبؓ ولدنور محمد صاحب فرماتے ہیں جنہوں نے 1899ء کے آخر یا 1900ء کے ابتدا میں بیعت کی تھی کہ پہلے رسم و رواج کے مطابق نماز میں زیرِ ناف ہاتھ باندھتا تھا (یعنی عموماً جسے غیر از جماعت لوگ نماز پڑھتے ہوئے نیچے ہاتھ باندھتے ہیں) اور کبھی کسی کی اقتداء میں نماز باجماعت پڑھنے کا موقع ملتا تو دل میں کبیدگی سی پیدا ہوتی اور فاتحہ خلف امام بھی پڑھ لیتا۔ (امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھتا تھا) لیکن دل میں اضطراب رہتا تھا۔ (کہ فاتحہ خلف امام اور سینہ پر ہاتھ باندھیں یا کس طرح باندھیں؟ ان دونوں باتوں کے بارہ میں تسلی نہیں تھی کہ ہاتھ اوپر کر کے باندھنے چاہئیں یا ناف سے نیچے رکھنے چاہئیں، اور سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہئے یا نہیں پڑھنی چاہئے؟)۔ تو کہتے ہیں اسی حالتِ اضطراب میں ایک دن مَیں سو گیا تو خواب میں مَیں قادیان پہنچا ہوں۔ مسجد مبارک والی گلی سے جاتا ہوں۔ مَیں مسجد اقصیٰ کے دروازے پر پہنچا اور پہلے جو سیڑھیاں سیدھی تھیں، اُن پر گزر کر اندر داخل ہوتا ہوں تو حد مسجد سے باہر جوتیوں والی جگہ ایک پُھلاہی کا درخت ہے، (یہ ایک پودے کی قسم ہے) اور اُس کے پاس یا نیچے ایک پختہ قبر ہے اور اُس کی شمالی سمت میں ایک کنواں ہے اور مسجد میں ایک جماعت مکمل سینہ پر ہاتھ باندھ کر کھڑی ہے اور مُصلّٰی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام امام ہیں اور امام کے مقابل ایک مقتدی کی جگہ خالی ہے۔ مَیں اُس جگہ جا کر کھڑا ہو گیا ہوں اور سینہ پر ہاتھ باندھ کر سورۃ فاتحہ شروع کی ہے۔ جب ختم کر کے آمین کہتا ہوں تومیری نیند کھل گئی۔ اس طرح مجھے یہ مسئلہ حل ہو گیا کہ ہاتھ یہاں باندھنے چاہئیں درمیان میں اور سورۃ فاتحہ بھی پڑھنی چاہئے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7صفحہ 231 روایت حضرت محمد فاضل صاحبؓ)

حضرت خیر دین صاحبؓ ولد مستقیم صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ خاکسار نے رؤیا میں دیکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئی لوگوں کی دعوت فرمائی ہے اور اُس دعوت کا کام حضرت اُمّ المومنین کر رہی ہیں اور حضرت اقدس بھی نگرانی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ جب مَیں پیغام کے طور پر حاضر ہوا تو جناب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اس کو چاول کھلاؤ۔ چنانچہ مجھے چاول دئیے گئے۔ ایک اور بات ہے مگر یہ اچھی طرح یاد نہیں کہ اُسی دعوت والی خواب کے ساتھ ہی ہے یا علیحدہ، مگر وہ بات مجھے خوب یاد ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کو کرتہ پہناؤ۔ چنانچہ اس بات کے فرمانے کے بعد میں فوراً اپنے جسم کی طرف دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا خوبصورت سفید رنگ کا کرتہ میں نے پہنا ہوا ہے۔ نامعلوم کس طرح پہنچا، کس وقت پہنا، ناگہاں اُس کو اپنے جسم کے اوپر پہنا ہوا دیکھتا ہوں جس کا اثر آج تک مَیں اپنے اوپر محسوس کرتا رہتا ہوں۔ اسی طرح ایک دفعہ خواب میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ صحابہ کرام میں سے ہے۔ خواب کے بعد معلوم ہوا کہ یہ خواب آپ کے یعنی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اُس شعر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ

؎ صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مَے اُس کو مولیٰ نے پلا دی

چنانچہ وہ شخص جو مجھ کو ملا اُس نے اپنے اوپر کھیس لیا ہے جس کا کنارہ سرخ ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کھیس تم نے کہاں سے لیا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ میں نے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو رحلت فرما گئے ہیں۔ غالباً چودہ سو سال ہو گئے ہیں۔ (آپ کو وفات ہوئے۔ وصال ہوئے)۔ اُس نے جواب دیا کہ مجھ کو بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی دیا ہے۔ یا یہ کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لیا ہے۔ صرف اس فقرے میں اختلاف ہے۔ بہر حال یہ تو لفظ کہتے ہیں اچھی طرح یاد ہے۔ میں نے کہا کہ بتاؤ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کی حفاظت کون کرتا ہے؟ اُس نے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کی حفاظت مسجد کے مُنڈے کرتے ہیں۔ خاکسار نے پوچھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا کیا حال ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ بیویوں کا کیا حال پوچھتے ہو، کچھ تو اُن میں سے دلّی پہنچ گئی ہیں۔ اُس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ حضرت اُمّ المومنین حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ دلّی کے رہنے والے ہیں۔ کہتے ہیں کہ گویا اللہ تعالیٰ نے روحانی اور جسمانی طور پر تسلی دلا دی کہ یہ قرآنِ کریم کے مطابق سلسلہ ہے جیسا کہ وَاٰخَرِیْن میں فرمایا گیا ہے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7صفحہ 156-157روایت حضرت خیر دین صاحبؓ)

خیر دین صاحب کی ہی ایک روایت ہے اور وہ کہتے ہیں ایک دن خاکسار نے خواب میں مسجد اقصیٰ کو دیکھا، مگر اس طرح دیکھا کہ اُس کے پاس ہی بیت اللہ ہے۔ ان دونوں کی شکل ایک ہی جیسی ہے۔ مَیں پہچان نہیں سکتا کہ قادیان والی مسجد اقصیٰ کونسی ہے اور بیت اللہ کونسا ہے۔ ان دونوں چیزوں کی شکل مجھ پر مشتبہ ہو گئی ہے۔ مَیں کہتا ہوں کہ اس کو مسجد اقصیٰ کہوں یا اُس کو کہوں۔ غرض یہ دونوں چیزیں مجھ پر مشتبہ ہو گئیں اور میری آنکھ کھل گئی۔ اُس کی تعبیر دل میں یہ ڈالی گئی کہ یہ وہی سلسلہ ہے جو اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعہ: 4) کا مصداق ہے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7صفحہ 158روایت حضرت خیر دین صاحبؓ)

حضرت حکیم عطا محمد صاحبؓ فرماتے ہیں (ان کی 1901ء کی بیعت اور زیارت بھی ہے۔) کہ بیعت کے بعد چند دن قادیان رہا اور پھر حضور سے اجازت حاصل کر کے واپس لاہور آ گیا اور صوفی احمد دین صاحب ڈوری باف نے احمدیہ جماعت کے احباب سے ملاقات کرائی۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک صاحب نے محبت سے فرمایا (کسی احمدی نے کہا) کہ پھر محمدؐ صاحب قادیان آ گئے ہیں۔ کہتے ہیں اس بات کو سن کر مجھے حیرانی ہوئی، نئی نئی بیعت ہوئی ہوئی تھی۔ اور دعا کی کہ یا الٰہی! اس جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ آ گئے ہیں اور مرزا صاحب محمد کیسے ہو سکتے ہیں؟ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کھڑے ہیں اور آسمان سے ایک فرشتے نے اتر کر مجھ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ کہتے ہیں مَیں نے کہا کہ یہ مرزا صاحب ہیں۔ پھر مَیں نے دیکھا کہ آسمان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اترا اور وہ نور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دماغ میں داخل ہوا۔ پھر تمام جسم میں سرایت کر گیا اور حضور کا چہرہ اُس نور سے پُر نور ہو گیا۔ پھر اُس فرشتے نے کہا کہ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا پہلے تو مرزا صاحب تھے اب واقعی محمد ہو گئے ہیں، صلی اللہ علیہ وسلم۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7صفحہ 176روایت حضرت حکیم عطاء محمد صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 7؍دسمبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

روزنامہ الفضل کے پہلے صفحہ سے اقتباس بچوں کو پڑھنے کے لئے دیا کریں (حضرت خلیفۃ المسیح الخامس)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 جنوری 2022