حضرت مسیح موعودؑ کی طبیعت نہایت درجہ مہمان نواز تھی اور جولوگ جلسہ کے موقعہ پر یا دوسرے موقعوں پر آتے تھے خواہ وہ احمدی ہوں یا غیر احمدی وہ آپ کی محبت اور مہمان نوازی سے پورا پورا حصہ پاتے تھے اور آپ کو ان کے آرام و آسائش کا از حد خیال رہتا تھا ہر مہمان کو ایک عزیز کے طور پر ملتے تھے اور اس کی خدمت اور مہمان نوازی سے دلی خوشی پاتے تھے۔ آپ ہمیشہ مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتے، مصافحہ کرتے، خیریت پوچھتے ،عزت کے ساتھ بٹھاتے۔ گرمی کا موسم ہوتا تو شربت بنا کر پیش کرتے، سردیاں ہوتیں تو چائے، دودھ وغیرہ تیار کرواتے ، رہائش کی جگہ کا انتظام کرتے ، کھانے وغیرہ کے متعلق منتظمین کو خود بلا کر ہدایت اور تاکید فرماتے کہ مہمان کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔
حضور کے ایک صحابی سیٹھی غلام نبی صاحب روایت کرتے ہیں کہ میں حضور اقدس سے ملاقات کےلئے چکوال سے قادیان آیا۔ ان دنوں شدید سردی تھی اور بارش بھی ہو رہی تھی رات کو میں کھانا کھا کر سو گیا اور آدھی رات گزر چکی تھی کسی نے میرے دروازے پر دستک دی میں نے اُٹھ کر درواز و کھولا ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ ایک ہاتھ میں گرما گرم دودھ اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین لیے کھڑے ہیں اور مجھے بڑی محبت اور شفقت سے فرمایا کہ کہیں سے دودھ آ گیا تھا مگر دیر سے آیا ہے۔ میں نے خیال کیا کہ آپ کورات میں دودھ پینے کی عادت ہو گی یہ پی لیں ۔ آپ ساری زندگی یہ واقعہ بیان کرتے تھے اور آنسوؤں سے تر ہوجاتے تھے۔
مشہور صحابی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی بیان کرتے ہیں کہ گرمیوں کا موسم تھا اور حضرت اقدس کے اہل خانہ لدھیانہ گئے ہوئے تھے میں آپ کو ملنے اندرون خانہ چلا گیا حضور ایک کمرہ میں پڑھتے ہوئے ٹہل رہے تھے ۔ میں وہاں چار پائی پر بیٹھتے ہی لیٹ گیا اور نیند آ گئی ۔ کچھ دیر بعد جب جا گا تو کیا دیکھتا ہوں میرے آقا و مرشد حضرت مسیح موعودؑ میری چار پائی کے پاس ہی نیچے فرش پر لیٹے ہوئے ہیں، میں گھبرا کر ادب سے کھڑا ہو گیا۔ آپ نے بڑی محبت سے پوچھا مولوی صاحب آپ کیوں اُٹھ بیٹھے۔ میں نے عرض کیا خدا کا مسیح نیچے فرش پر لیٹے اور میں ادنیٰ خادم چار پائی پر کیسے نیند کرسکتا ہے۔ حضرت اقدس نے مسکرا کر فرمایا آپ بےتکلفی سے لیٹے رہیں، میں تو آپ کا پہرہ دے رہا ہوں تا کہ بچے شور نہ کریں۔
اللہ اللہ ! سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنے مہمانوں، غلاموں کے ساتھ محبت وشفقت کا یہ عالم ۔ بیشک آپ رحمت تھے مہمانوں کےلئے۔ وہ عجیب ہستی تھی جو دنیا میں آئی اور اپنی رحمت کے پھول بکھیرتی ہوئی اپنے دائمی دیس کو رخصت ہوگئی۔
حضرت مسیح موعودؑ کی مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ شروع میں جب مہمانوں کی کثرت نہیں تھی تو آپ مہمانوں کے ساتھ اپنے مکان کے حصہ میں ہی اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے اور ساتھ ساتھ علمی اور روحانی کھانے کا بھی دسترخوان بچھ جا تا تھا۔ حضرت اقدس ہر مہمان کے متعلق دریافت فرماتے رہتے کہ کسی خاص چیز کو جو کھانے کے علاوہ ہومثلا دودھ، چائے، لسی یا پان کی عادت تو نہیں پھر ہر ایک کےلئے اس کی عادت کے موافق وہ چیز ضرور مہیا فرماتے ۔ حضرت اقدس کی عادت تھی کہ وہ بہت تھوڑا کھانا کھایا کرتے پھر بھی آپ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرے اُٹھا کر منہ میں ڈالتے رہتے تھے تا کہ کوئی مہمان اس خیال سے کہ حضورنےکھانا کھا لیا ہے دستر خوان سے بھوکا ہی نہ اُٹھ جائے۔ اللہ اللہ کیا پیارا زمانہ تھا کہ ان صحابہ کا محبوب آقا ان کے ساتھ شر یک طعام ہے۔ اسی طرح جب کوئی مخلص دوست ملاقات کے بعد واپس جانے لگتا تو حضرت اقدس علیہ السلام قادیان سے میلوں تک اسے رخصت کرنے کے لئے ساتھ جاتے اور بڑی محبت اور دعاؤں کے ساتھ رخصت فرماتے اور ان کی واپسی پر آپ کو اسی طرح رنج اور صدمہ پہنچتا کہ گویا کوئی قریبی دوست رخصت ہورہا ہے۔ حضرت منشی ظفر احمد صاحب سے روایت ہے کہ ایک دفعہ منی پور آسام کے دور دراز علاقہ سے دو مہمان معز ز غیراز جماعت حضرت مسیح موعودؑ کا نام اور دعوی سن کر قادیان آئے اور مہمان خانہ کے پاس پہنچ کر خادموں کو سامان تا نگہ سے اتار نے اورفوری چار پائیاں بچھوانے کا حکم دیا مگر ان خدام نے اپنے کسی ضروری کام کی وجہ سے خیال نہ کیا تو وہ رنجیدہ ہوکر فوراً اسی تانگہ پر بٹالہ کی طرف روانہ ہو پڑے ۔ جب حضرت مسیح موعودؑ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ باہر تشریف لائے اور ان مہمانوں کے پیچھے بٹالہ کے راستہ پر تیز تیز چل پڑے اور چند خدام اور میں بھی حضور اقدس کے ساتھ نکلے۔ قادیان سے اڑہائی میل پر نہر کے پل کے پاس انہیں جالیا اور بڑی محبت و معذرت کے ساتھ واپس جانے کا اصرار کیا۔ حضرت اقدس نے فرمایا آپ کے قادیان سے چلے جانے سے مجھے سخت تکلیف ہوئی ہے۔ آپ یکہ پر سوار ہو جائیں اور ہم پیدل چلیں گے مگر وہ احترام اور شرمندگی کی وجہ سے سوار نہ ہوئے حتٰی کہ یہ قافلہ واپس قادیان آ گیا اور مہمان خانہ پہنچ کر ان کا سامان وغیرہ اتارنے کے لئے حضور نے خود اپنا ہاتھ یکہ کی طرف بڑھایا مگر وہاں خداموں نے آگے بڑھ کر سامان اتارلیا۔ حضرت اقدسؑ ان دونوں سے محبت اور دلداری کی گفتگو فرماتے رہے اور دریافت فرمایا کہ آپ لوگ کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں؟ اور پھر حسب منشاء کھانا آ گیا۔ آپ ان کے پاس بیٹھے رہے اور دن رات خوب خدمت مدارت کی گئی۔ دوسرے دن جب مہمان اپنے وطن جانے لگے تو حضرت اقدس نے اپنے گھر سے دو گلاس دودھ کے منگوا کر محبت سے ان کی خدمت میں پیش کئے اور پھر دو تین میل پیدل چل کر نہر سے واپس تشریف لائے۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک قادیان کی اوپری منزل کی چھت پر کچھ آئے ہوئے معزز مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کے انتظار میں تشریف فرما تھے ۔ ان احباب میں ایک صحابی میاں نظام الدین صاحب بھی تھے۔ یہ صحابی بہت ہی غریب اور خستہ حال بلکہ ان کے کپڑے بھی پھٹے پرانے تھے اور حضرت اقدس سے چار آدمیوں کے فاصلہ پر مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ پھر مزید کچھ مہمان آ گئے جو حضرت اقدسؑ کے قریب بیٹھتے گئے اسی طرح آنے والوں کی وجہ سے ہر دفعہ میاں نظام دین پیچھے ہٹتے گئے حتی کہ وہ جوتوں کی جگہ پر پہنچ گئے ۔اتنے میں کھانا آگیا اور تقسیم ہونے لگ گیا تو حضرت اقدس جو یہ سارا نظارہ دیکھ رہے تھے ۔ آپ نے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں اپنے ہاتھ میں اُٹھائیں اور میاں نظام الدین کے پاس جا کر فرمایا:
’’آؤ! میاں نظام الدین ہم اور آپ اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں۔‘‘ پھر آپ مسجد کے ساتھ والی کوٹھڑی میں تشریف لے گئے اور میاں نظام الدین کے ساتھ اندرا کٹھے بیٹھ کر ایک ہی پیالہ میں کھانا کھایا۔ یہ سلوک دیکھ کر میاں نظام الدین صاحب خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے اور اپنی ساری زندگی اسی نشہ میں یہ گن گاتے رہے کہ میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ خداتعالیٰ کے نبی اور مامور وقت کے ساتھ بیٹھ کر ایک ہی برتن میں کھانا کھایا جو بڑے بڑے امیروں اور رئیس زادوں کو بھی نصیب نہیں ہوا۔ آپ ساری زندگی یہ واقعہ بیان کرتے تھے اور آنسوؤں سے تر ہوجاتے تھے۔
اللہ اللہ میرے آقا ومرشد کا یہ محبت بھر اسلوک کیا تھا۔ یہ عظیم ہستی، خدا کا پاک مسیح موعودؑ، نبی اللہ ، خدا کا یہ پیارا اپنے ماننے والوں کےلئے نہ راتیں دیکھتا ہے اور نہ ہی دن جس کی اس دنیا میں کوئی مثال نہیں۔ اپنے تو اپنے غیر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہان نوازی کے اعلی اخلاق کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
مولانا ابولکلام آزاد کے بڑے بھائی مولانا ابوالنصر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کے تعلق میں ایک روایت بیان کرتے ہیں جو انہوں نے 1905ء میں اخبار وکیل امرتسر انڈیامیں چھپوائی۔ مولانا صاحب علم دوست زیرک اور سمجھدار اور سُلجھے ہوئے بزرگ تھے۔ 1905ء میں جب قادیان آئے تو حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات کی اوران کی صحبت میں رہے اور مہمان رہنے کے بعد قادیان سے واپس اپنے شہر آئے تو اخبار وکیل میں ایک مضمون ’’حضور سے ملاقات اور مہمان نوازی‘‘ کے بارے میں شائع کروایا۔
مولانا صاحب روایت کرتے ہیں : میں نے کیا دیکھا! قادیان کی بستی دیکھی! اور جناب مرزا صاحب مسیح موعودؑ سے ملاقات کی اور ان کا مہمان رہا۔ جناب مرزا صاحب قادیانی کے اخلاق عالی اور توجہ کا مجھے شکر یہ ادا کرنا چاہئے ۔ حضرت مرزا صاحب کی صورت نہایت ہی شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی اور دل کوفریفتہ کر لیتا ہے ۔ آنکھوں میں خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے۔ مزاج بہت ٹھنڈا مگر دلوں کو گرمانے والا ہے۔ آپ کے مریدوں میں بڑی عقیدت اور بڑا اخلاص دیکھا۔ حضرت مرزا صاحب کی وسیع اخلاقی کا یہ ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثنائے قیام اور مہمان نوازی کی متواتر نوازشوں پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقع دیا کہ ہم آپ کو اس وعدہ پر جانے کی اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتہ قیام کریں۔ میں جس شوق کو لے کر گیا تھا اسے ساتھ لایا اور شاید وہی شوق مجھے دوبارہ قادیان لے جائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم بھی حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے اس عملی نمونے پر اپنی زندگیوں میں عمل پیرا ہو جا ئیں اور ایک سچے اورحقیقی احمدی کے طور پر اپنی زندگیاں بسر کرنے والے ہوں۔
(نوٹ: اس مضمون میں شامل تمام حوالہ جات حضرت مرزا بشیر احمدؓ کی کتب ’’سیرت طیبہ‘‘ اور ’’سیرت المہدی‘‘ سے لئے گئے ہیں۔)
(محی الدین عباسی ۔لندن)