• 11 دسمبر, 2024

خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 7 جنوری 2022ء

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 7 جنوری 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

اللہ تعالیٰ کی ہمارے ہر عمل پرنظر ہے پس اس مقصد کو ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ
جو کام بھی ہم نے کرنا ہے اس کی رضا کی خاطر کرنا ہے۔ اگر یہ سوچ بن جائے تو پھر ہی انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا حقیقی وارث ٹھہرتا ہے

تحریکِ وقفِ جدید کے چونسٹھ ویں سال کے دوران جماعت ہائے احمدیہ کی طرف سے ایک کروڑ بارہ لاکھ ستہتر ہزار پاؤنڈکی بے مثال قربانی
وقفِ جدید کے پینسٹھ ویںسال کے آغاز کا اعلان، چندے کے مصارف اوردنیا بھر میں بسنے والے احمدیوں کی قربانی کے واقعات کا عمومی تذکرہ

أَشْھَدُ أَنْ لَّٓا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ کَمَثَلِ جَنَّۃٍۭ بِرَبۡوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُکُلَہَا ضِعۡفَیۡنِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یُصِبۡہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ۔

(البقرہ: 266)

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور ان لوگوں کی مثال جو اپنے اموال اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اور اپنے نفوس میں سے بعض کوثبات دینے کے لیے خرچ کرتے ہیں ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو اور اسے تیز بارش پہنچے تو وہ بڑھ چڑھ کر اپنا پھل لائے اور اگر اسے تیز بارش نہ پہنچے تو شبنم ہی بہت ہو۔ اور اللہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ

مومنوں کی اللہ تعالیٰ کی راہ میں، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خواہش میں
خرچ کرنے کی حالت کا نقشہ

کھینچ رہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس لیے خرچ کرتے ہیں کہ ایک تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی راہ میں خرچ کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے والے بنیں۔ دوسرے اپنی قوم اور اپنے مشن کو مضبوط کریں۔ اس زمانے میں اسلام کی تعلیم اور تبلیغ کو پھیلانے کا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام کے سپرد ہوا ہے اور آپؑ کے ماننے والوں کا بھی یہ فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پورا کرنے کے لیے جان، مال اور وقت قربان کریں۔ ہر زمانے میں اور ہر قوم میں آنے والے انبیاء اپنے ماننے والوں کو مالی قربانی کی تلقین کرتے رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہ فرمایا ہے کہ تمہیں دین کی خدمت کے لیے دین کی راہ میں اپنے مال کا کچھ حصہ دینا چاہیے تبھی حقیقی ایمان کا پتہ چلتا ہے اور مومن یقیناً دین کی خاطر مالی قربانیاں کرتے ہیں ا ور ان قربانیوں کا مقصد کسی پر احسان نہیں ہوتا بلکہ خواہش ہوتی ہے تو یہ کہ ہمارا خدا کسی طرح ہم سے راضی ہو جائے۔ ہمارے نفس کو ثبات عطا ہو۔ ہم اپنے ایمان اور ایقان میں مضبوط ہوں۔ ہماری قوم ترقی کرنے والی ہو۔ ہم جس حد تک ممکن ہے اپنے مال سے بھی کمزوروں کو مضبوط کریں۔ جس مقصد کے لیے ہم نے اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی بیعت کی ہے اسے ہم حاصل کرنے والے بنیں۔

پس ایسے لوگ نفسانی سوچوں سے بالا ہو کر سوچتے ہیں۔ ان کا نفس انہیں قربانیاں کر کے اللہ تعالیٰ کی مرضی حاصل کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور پھر وہ قربانیوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرتے ہیں یا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں کی قربانیاں قبول فرماتا ہے۔ انہیں اپنے فضلوں سے نوازتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کا حال جانتا ہے، ہماری نیتوں کو جانتا ہے، اس لیے
وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کسی نے بڑی قربانی کی ہے یا چھوٹی۔ بڑی رقم دی ہے یا تھوڑی بلکہ اللہ تعالیٰ تو نیتوں کے مطابق اجر دیتا ہے

اس لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر خرچ کرنے والوں کی مثال دو طرح کی ہے۔ ایک وَابِلکی یعنی موٹے قطروں والی تیز بارش کی اور دوسرے طَلّکی یعنی کمزور ہلکی بارش بالکل پھوار جیسے پڑتی ہے یا شبنم کی۔ زیادہ کشائش رکھنے والا تو دین کی خاطر بہت خرچ کرتا ہے یا کر سکتا ہے لیکن غریب آدمی یہ حسرت رکھ سکتا ہے اسے خیال آ سکتا ہے کہ یہ تو خرچ کر کے مالی قربانی میں بڑھ رہا ہے، امیر آدمی بڑی بڑی رقمیں دے کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بن رہا ہے اور اس کا قرب حاصل کرنے والا بن گیا ہے یا بننے کی کوشش کر رہا ہے یا بن جائے گا۔ میرے پاس تو معمولی رقم ہے میں کس طرح اس کے برابر پہنچ سکتا ہوں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس طرح زرخیز زمین کو تھوڑی بارش یا شبنم سے بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے اسی طرح کشائش نہ رکھنے والے کی تھوڑی قربانی طلّ کا درجہ رکھتی ہے اور وہ بھی جو تھوڑی قربانی ہے پھل پھول لانے میں کم کردار ادا نہیں کرے گی۔ قربانیوں کا پھل تو اللہ تعالیٰ نے دینا ہے، ہر عمل کو پھل تو اللہ تعالیٰ نے لگانا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ تمہارے حالات اور تمہاری نیتیں جانتا ہے اس لیے وہ تمہاری تھوڑی قربانیوں کو بھی دوچند بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھ کر پھل لگائے گا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ
آج ایک درہم ایک لاکھ درہم پر سبقت لے گیا۔

صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! یہ کس طرح ہوا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص کے پاس دو درہم تھے اس نے اس میں سے ایک درہم کی قربانی کر دی اور ایک شخص کے پاس بےشمار دولت اور جائیداد تھی اس نے اس میں سے ایک لاکھ درہم کی قربانی دی۔

(سنن النسائی کتاب الزکاۃ باب جھد المقل حدیث 2528)

اس کی ایک لاکھ درہم کی قربانی اس کی دولت کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ پس اللہ تعالیٰ تو نیتوں کو پھل لگاتا ہے اور اس عمل کو پھل لگاتا ہے جو ان حالات میں کیے جاتے ہیں۔ غریب کی بھی تسلی فرما دی کہ یہ نہ سمجھو کہ تمہاری تھوڑی قربانیوں کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ یہ تھوڑی قربانیاں بھی جہاں تمہارے ایمانوں کو مضبوط کرنے والی ہیں وہاں جماعت کی مضبوطی کے بھی سامان کرتی ہیں۔ پس

اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک جذبہ سے دی ہوئی قربانیاں ہی
اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی ہمارے ہر عمل پرنظر ہے پس اس مقصد کو ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ جو کام بھی ہم نے کرنا ہے اس کی رضا کی خاطر کرنا ہے۔ اگر یہ سوچ بن جائے تو پھر ہی انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا حقیقی وارث ٹھہرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں تو زیادہ تر آپؑ کے ماننے والے غریب لوگ تھے لیکن قربانیوں میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی تعریف میں فرمایا کہ ’’میں دیکھتا ہوں کہ صدہا لوگ ایسے بھی ہماری جماعت میں داخل ہیں جن کے بدن پر مشکل سے لباس بھی ہوتا ہے۔ مشکل سے چادر یا پاجامہ بھی ان کو میسر آتا ہے۔ ان کی کوئی جائیداد نہیں۔مگر ان کے لاانتہا اخلاص اور ارادت سے، محبت اور وفا سے طبیعت میں ایک حیرانی اور تعجب پیدا ہوتا ہے جو ان سے وقتاً فوقتاً صادر ہوتی رہتی ہے یا جس کے آثار ان کے چہروں سے عیاں ہوتے ہیں وہ اپنے ایمان کے ایسے پکے اور یقین کے ایسے سچے اور صدق و ثبات کے ایسے مخلص اور باوفا ہوتے ہیں کہ اگر ان مال و دولت کے بندوں، ان دنیوی لذات کے دلدادوں کو اس لذت کا علم ہو جائے تو اس کے بدلے میں یہ سب کچھ دینے کو تیار ہو جاویں۔‘‘

(ملفوظات جلد10 صفحہ 306-307)

پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں ’’ہم دیکھتے ہیں کہ اس جماعت نے اخلاص اور محبت میں بڑی نمایاں ترقی کی ہے۔ بعض اوقات جماعت کا اخلاص، محبت اور جوشِ ایمان دیکھ کر خود ہمیں تعجب اور حیرت ہوتی ہے اور یہاں تک کہ دشمن بھی تعجب میں ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد10 صفحہ334)

پس وفا اور اخلاص میں ترقی اور جوش ایمان کا غیر معمولی معیار ایسا ہے جس کے عملی اظہار آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت کے افراد میں ہمیں نظر آتے ہیں بلکہ

اخلاص و وفا میں ترقی نومبائعین میں بھی اس حد تک ہے،

ابھی ان کی تربیت کو تھوڑا عرصہ ہی ہوا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ اس تھوڑے عرصے میں انہوں نے اس قدر ترقی کر لی ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق سے محبت کا تعلق اور خلافت سے وفا اور اخلاص کا معیار ایسا ہے کہ جیسا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دشمن بھی تعجب میں ہے کہ یہ کیا چیز ہے جس نے ان میں یہ تبدیلی پیدا کی ہے۔ یہ ان پر یقیناً اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کی نیک طبیعت اور سعادت مندی کو دیکھ کر ان پر فرمایا ہے۔

اس نیک طبیعت اور نیک فطرت اور بیعت کا حق ادا کرنے کا اظہار اور خلیفہ وقت سے وفا کے تعلق کے اظہار ان لوگوں کے قول و فعل سے ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں۔

آج دنیا جب مادیت میں ڈوبی ہوئی ہے یہ لوگ مالی قربانیاں کر کے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جائے کیونکہ انہیں یہ ادراک حاصل ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ایک ذریعہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ہے۔ پس کون ہے جو آج اس جماعت کے بارے میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعہ خدائی وعدوں کے مطابق قائم ہوئی ہے یہ کہہ سکے کہ یہ کمزور ہو رہی ہے۔

یہ جماعت تو قائم ہی پھلنے پھولنے اور بڑھنے کے لیے ہوئی ہے اور دشمنوں کا کوئی وار بھی اس کا بال بیکا نہیں کر سکتا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ پھل پھول رہی ہے۔

مالی قربانی کا ذکرہو رہا ہے تو اس حوالے سے میں چند واقعات بھی پیش کرتا ہوں کہ کس طرح لوگ قربانی کر کے اپنے ایمان اور یقین کا اظہار کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ بھی ان کے ایمانوں کو کس طرح ثبات بخشتا ہے۔

سیرالیون

افریقہ کا ایک علاقہ اس کے بھی ایک دُور دراز علاقے میں ایک شخص ہے اس کے بارے میں وہاں کے لوکل مشنری بیان کرتے ہیں کہ وہ دورے پر گئے تو مہینے کا آخر تھا۔ وہاں ایک جماعت کے احباب کو وقفِ جدید کی طرف توجہ دلائی۔ لوگ مسجد میں موجود تھے انہیں اس طرف توجہ دلائی تو وہاں کے امام شیخ عثمان نے جو رقم چندہ کے لیے جمع کی ہوئی تھی وہ دی اور یہ کہا کہ ہم اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکے اور ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم اپنا ٹارگٹ اور وعدہ پورا کریں۔ اس وقت تو کوئی ذریعہ اور وسیلہ نہیں ہے۔ بہرحال معلم کو انہوں نے کہا کہ دعا کرا دیں۔ لوکل مشنری بیان کرتے ہیں مَیں نے دعا کرائی اور سب نے اونچی آواز میں آمین کہا۔ پھر میں واپس موٹر سائیکل پر بیٹھ کے اپنے مشن ہاؤس آ گیا۔ کہتے ہیں ابھی میں مشن ہاؤس نہیں پہنچا تھا کہ اسی امام کا مجھے فون آیا کہ میں آپ سے ملنے مشن ہاؤس آ رہا ہوں۔ میں بہت حیران ہوا کہ ابھی تو میں وہاں سے آ رہا ہوں ابھی فون بھی آ گیا ہے۔ جب وہ لوکل امام میرے پاس پہنچا تو کہتے ہیں کہ ہم نے جو دعا کی تھی اس کا یہ اثر ہوا کہ تھوڑی دیر کے بعد ہی ایک میرا رشتہ دار آیا اور جیب میں ہاتھ ڈال کے اس نے ایک لاکھ لیون میرے ہاتھ پہ رکھ دیے اور کسی معاملے میں مجھے بھی دعا کے لیے کہا۔ کہتے ہیں یہ دیکھ کے میں نے وہیں اللہ اکبر کے اونچے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ وہ بندہ بڑا حیران ہوا کہ یہ تجھے کیا ہو گیا ہے؟ تو میں نے اسے بتایا کہ ہمارے وقفِ جدید کے چندے کا ایک وعدہ تھا اس میں کچھ رقم رہ گئی تھی۔ ابھی ہم دعا کر کے فارغ ہی ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بھیج دیا اور یہ رقم مجھے بھیج دی اور اس امام شیخ عثمان نے وہ ساری رقم جو ایک لاکھ لیون کی تھی وہ فوری طور پر آ کے وقفِ جدید کے چندے میں جمع کروا دی۔ وہ رقم ان کے لحاظ سے بہت بڑی تھی گو کہ ہمارے لحاظ سے ان کی رقم بہت تھوڑی بنتی ہے۔ اگر اس کو convert کریں تو صرف ساڑھے چھ پاؤنڈ بنتے ہیں لیکن ان کی یہ بہت بڑی قربانی تھی جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی ہے۔ یہ ان کا اخلاص ہے کہ ضرورت اپنی بھی ہے لیکن جو بھی رقم آئی اپنے پاس نہیں رکھی وہ فوری طور پر آ کے جمع کروا دی اور

یہی وہ مثالیں ہیں جہاں ایک درہم ایک لاکھ درہم پر سبقت لے جاتا ہے۔
یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے پیار کی نظر ڈالی ہو گی۔

پھر دیکھیں کہ قربانی کے یہ معیار ایک جگہ نہیں، مردوں میں نہیں عورتوں میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔

چاڈ

ایک ملک ہے۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے بڑے مخلص جماعت میں پیدا ہو رہے ہیں۔ جماعت چاڈ کی اکثریت نومبائعین کی ہے۔ وہاں کے مبلغ کہتے ہیں کہ ایک ممبر خاتون اُمِّ ہانی ہیں۔ انہوں نے وقف جدید میں ستر ہزار فرانک کا وعدہ کیا۔ انتظام نہیں ہو سکا۔ ان کے پاس ایک اونٹ تھا۔ اس اونٹ کو ایک لاکھ ستر ہزار میں فروخت کر دیا اور وقفِ جدید کا وعدہ بھی ادا کیا اور باقی بچی ہوئی رقم اپنے پاس نہیں رکھی وہ بھی مختلف چندوں میں دے دی۔

پھر

ٹوگو

ایک اَور ملک ہے وہاں ایک احمدی ابراہیم ہیں۔ لوگوں کے جانوروں کو چَراتے ہیں۔ بکریاں وغیرہ چَراتے ہیں اور جو بھی آمدہو اپنے حساب سے بڑی بڑھ چڑھ کر قربانی دیتے ہیں۔ وہاں انہوں نے وعدہ کیا اور پھر وعدہ پورا نہیں کر سکے۔ قریب ہی دریا ہے، دریا سے ریت لے جائی جاتی ہے اور انہوں نے پھر یہ کیا کہ رات کو مزدوری کر کے ریت کے دو ٹرک بھرے اور اس سے جو آمد ہوئی وہ وقفِ جدید میں، چندہ میں دےدی۔ کیوں اتنی محنت کی اور پھر یہ ہے کہ اتنی محنت کے بعد کوئی رقم بھی صرف اس لیے اپنے لیے نہیں رکھی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا اب ان کو ادراک حاصل ہو گیا ہے۔

پھر مرد عورت یا بڑی عمر کے لوگوں کا سوال نہیں، نوجوانی میں قدم رکھنے والے بچوں کا بھی یہی حال ہے۔

بیلیز سینٹرل امریکہ

کا ایک ملک ہے۔ ہزاروں میل کا یہاں سے فاصلہ ہے۔ وہاں کبھی خلیفۂ وقت نہیں گئے۔ سارے نئے احمدی ہیں لیکن سوچ ایک ہے۔

افریقہ کی سوچ ہو یا امریکہ کی یا جزائر کی یا ایشیا کی یہ ایک سوچ ہے اور
یہ وہ انقلاب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا کیاہے۔

واقعہ یوں ہے کہ ایک بچہ چودہ سال کی عمر کا ہے اس نے تحریکِ جدید کا چندہ ادا کیا۔ اس کا ذکرمَیں نے یہاں کر دیا۔ اس پر لوگوں نے اس کو بڑی مبارک بادیں دیں اور کینیڈا سے کسی نے اس کو دو سو ڈالر تحفہ بھی بھیجا کہ یہ تم نے قربانی کی ہے تو میری طرف سے انعام۔ اب اس بچے کا حال دیکھیں چودہ سال میں قدم رکھنے والا نوجوان بچہ ہے، یہاں ہو تو فوراً گیمیں خریدنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اس نے کہا کہ مَیں نے اپنا سوشل سیکیورٹی کارڈ بنوانا تھا اس کے لیے مجھے تیس ڈالر کی ضرورت تھی اس لیے تیس ڈالر تو مَیں نے رکھ لیے باقی ایک سو ستر ڈالرجو ہیں مَیں پھر چندہ میں دے دیتا ہوں۔ غریب گھرانے کا لڑکا ہے۔ اس کو کہا بھی کہ یہ تم اپنے لیے رکھو، اپنے خرچ کے لیے رکھو۔ اصرار بھی کیا لیکن اس نے بڑے اصرار سے وہ سب رقم چندہ میں دی۔ اس بچے کا نام دانیال ہے۔ یہ ہے دین کو دنیا پر مقدم کرنا۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ سوچ اس بچے میں ہمیشہ قائم رہے اور اس دنیا داری کے ماحول سے اللہ تعالیٰ اس بچے کو بچا کے رکھے۔

پھر

جمیکا

ایک اَور ملک ہے۔ اور یہ جو ایک خادم کا ذکر کررہاہوں ان کا نام یٰسین صاحب ہے۔ عرصے سے بےروزگار تھے۔ گلیوں میں کوئی چھوٹی موٹی چیزیں بیچ کے، ٹافیاں چاکلیٹ وغیرہ بیچ کے گزارہ کرتے تھے لیکن اس حالت میں بھی ان کو فکر لگی ہوتی تھی کہ مَیں نے مالی قربانی کرنی ہے۔ وقفِ جدید کے چندے کا مَیں نے وعدہ کیا ہے اور سال ختم ہو رہا ہے اور میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ آخر ایک دن وہ شام کو دسمبر کے بالکل آخر میں مشنری کے پاس آئے اور کہا کہ آج چار سو جمیکن ڈالر مجھے آمدنی ہوئی ہے۔ اس میں سے پچیس فیصد نکال کے اب مَیں سو ڈالر آپ کو وقفِ جدید کا چندہ دے رہا ہوں۔

پھر ایک غریب ملک کے احمدی کے اخلاص و وفا اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت جذب کرنے کی غیر معمولی مثال دیکھیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ اَن پڑھ لوگ ہیں، غریب ہیں لیکن یہ لوگ پڑھے لکھے لوگوں سے زیادہ دین کا ادراک رکھنے والے ہیں اور دل کے امیر ہیں۔

گنی کناکری

ملک ہے۔ مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ وقفِ جدید کے مالی سال کے آخری عشرے میں وقفِ جدید کی اہمیت اور اس کی برکات پر خطبہ دیا اور مَیں نے جو مختلف خطبات دیے ہوئے تھے ان کے اقتباسات بھی پیش کیے، جماعت کو مالی قربانی کی تلقین کی، توجہ دلائی۔ کہتے ہیں خطبہ کے اختتام پر ایک غریب مگر نہایت مخلص احمدی موسیٰ صاحب نے اپنی جیب میں موجود رقم تقریباً دو لاکھ اٹھارہ ہزار پانچ سو فرانک گنی نکال کر وقفِ جدید میں ادا کر دی۔ جب مَیں نے ان سےاستفسار کیا کہ بڑی رقم آپ نے دی ہے، گذشتہ سال بھی بڑی رقم دی تھی اس کی کیا وجہ ہے؟ تو کہنے لگے کہ میرے دل میں خلیفة المسیح کی یہ بات میخ کی طرح گڑھ گئی ہے کہ

ایک دل میں دو محبتیں نہیں رہ سکتیں۔ یا تو بندہ خدا سے محبت کرے یا پھر مال سے

یہی وجہ ہے کہ مجھے جب موقع ملتا ہے میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنے عمل سے بھی اس کا اظہار ہو جائے۔ کہنے لگے کہ میرا ایمان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا تو نہیں ہو سکتا کہ گھر کا سار امال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر سکوں لیکن یہ تو کر سکتا ہوں کہ جیب میں موجود سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دوں اور دعا کی درخواست بھی کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا ایمان بھی عطا کر دے اور کہنے لگے کہ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ جب سے مَیں نے مالی قربانی میں حصہ لینا شروع کیا ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے ایمان کی دولت سے مالا مال کر دیا ہے۔ میرے ایمان میں بھی اضافہ ہونے لگ گیا ہے اور مَیں ا پنے آپ میں ایک غیر معمولی تبدیلی پاتا ہوں۔ یہ ہے وہ سوچ اور ادراک جو بہت سے پڑھے لکھوں میں نہیں ہو گا۔

پھر اللہ تعالیٰ ایمان میں بڑھنے کے بھی کس طرح سامان فرماتا ہے۔ اس بارے میں ایک اور واقعہ ہے۔

گنی کناکری

ایک ملک ہے وہاں کے ایک مخلص صاحبِ حیثیت احمدی الحسن صاحب بزنس کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے چندے کی رقم ایک لفافے میں ڈال کر اپنے ٹیبل پہ رکھی اور مصروفیات کی وجہ سے مشن میں نہ بھجوا سکا۔ اچانک یاد آنے پر کہتے ہیں مَیں نے وہ رقم اپنے ڈرائیور کو دی اور اس کو مشن ہاؤس بھجوایا کہ جاکر چندہ ادا کر آؤ اور میں کسی کام کے سلسلہ میں باہر چلا گیا۔ اسی اثنا میں جب باہر تھے تو ان کے ہمسائے کے دفتر میں آگ لگ گئی اور جل کر خاکستر ہو گیا۔کہتے ہیں مجھے فون آنے شروع ہو گئے کہ تمہارے دفتر میں آگ لگ گئی ہے تو جلدی سے میں وہاں پہنچا ۔ پھر کہتے ہیں میرے دل میں یہ خیال آیا یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے، مَیں تو اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کرنے والا بھی ہوں۔ کہتے ہیں لیکن اللہ کے نشان دیکھیں اللہ تعالیٰ نے کس طرح مان رکھا کہ باوجود اس دوسرے دفتر کی دیوار ملحق ہونے کے میرا دفتر بالکل محفوظ رہا اور اس دفتر میں اس وقت کمپنی کی کثیر رقم بھی موجود تھی۔ دو دفاتر بلکہ ان سے ملحقہ جل گئے لیکن ان کا دفتر محفوظ رہا تو کہتے ہیں کہ مجھے فوراً یہ خیال آیا کہ یہ یقیناً چندے کی برکت ہے۔ ان لوگوں میں علم بھی ہے۔ یہ نہیں کہ علم نہیں ہے۔ کہتے ہیں اور ساتھ ہی میرا خیال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کی طرف بھی گیا کہ یہ

آگ تیری غلام بلکہ تیرے غلاموں کی بھی غلام ہے۔

بہرحال کہتے ہیں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ادنیٰ غلام کو نقصان سے محفوظ رکھا۔

پھر ایک واقعہ، امیر صاحب

گیمبیا

کہتے ہیں ایک ریجن کی ہماری ایک جماعت کے معلم ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہماری جماعت سے ایک دوست سمبوبا (Sambou Bah) صاحب نے جب گذشتہ سال وقفِ جدید کے بارے میں میرا خطبہ سنا اور نئے سال کا جب اعلان ہوا اور جب مَیں نے واقعات بیان کیے تو انہوں نے پانچ سو ڈلاسی (Dalasi) ادا کر دیا اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسا فضل کیا کہ اس سال ان کی فصل دوگنی ہوئی تو انہوں نے وعدہ پانچ سو ڈلاسی کا کیا تھا، لیکن ادائیگی پھر انہوں نے ایک ہزار ڈلاسی کر دی۔ پھر کہتے ہیں ان کی زمیندارے سے جو آمد تھی اس پر انہوں نے باجرے کے دس بنڈل زکوٰة دی تھی۔ اس سال ان کی آمد اتنی تھی کہ انہوں نے پچاس بنڈل دیے۔ اسی طرح مونگ پھلی پر بھی شاید دو بورے زکوٰة ادا کی اور کہتے ہیں کہ وہ احمدی احباب جو چندے میں باقاعدہ ہیں ان کی فصل پہلے سے بہتر ہوئی اور غیر احمدی احباب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ

جماعت احمدیہ میں کوئی تو بات ہے کہ جب بھی ان کے افراد اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی فصلوں کی پیداوار بڑھ جاتی ہے۔

پھر صرف افریقہ کے یا بعض غریب ملکوں کے احمدی اور نومبائعین ہی نہیں بلکہ امیر ممالک کے مقامی لوگ جن کو ایمان نصیب ہوا ہے ان کی قربانیوں کی بھی مثالیں ہیں۔

جرمنی

کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک جماعت روئیڈرز ہائم میں ان کو چندے کی تلقین کی کہ اپنا چندہ بڑھائیں اور کمی کو دور کریں تو وہاں صدر جماعت کی اہلیہ جرمن احمدی ہیں اور بڑی مخلص ہیں انہوں نے جب کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس جماعت کا بھی چندہ بڑھے اور یہ بھی اچھا چندہ دینے والوں کی فہرست میں شامل ہو جائے تو اس جرمن احمدی خاتون نے جو نومبائع تو نہیں تھی انہیں احمدی ہوئے کافی دیر ہو گئی انیس ہزار یورو ادا کر دیے۔ انہوں نے کہا یہ مَیں نے اپنی کار خریدنے کے لیے رکھے ہوئے تھے لیکن میرے دل میں اس قدر جوش پیدا ہوا ہے کہ ہماری جماعت کا نام خلیفہ وقت کے سامنے آ جائے اس لیے مَیں پیش کر رہی ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی بنوں۔

پھر جرمنی سے ہی ایک طالب علم ہیں انہوں نے پانچ سو یورو کا وعدہ لکھوایا۔ والدین نے کہا کہ تم یہ پانچ سو یورو کس طرح ادا کر و گے؟ انہوں نے کہا بہرحال میں کسی طرح کر دوں گا۔ کہتے ہیں کہ اس کا جواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوراً اس طرح مل گیا کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر مجھے یونیورسٹی کی طرف سے فون آیا کہ ہم نے چالیس طالب علموں کا چناؤ کیا ہے جن کو یونیورسٹی کی طرف سے وظیفہ دیا جائے گا۔ اپنا اکاؤنٹ نمبر بھیجو تا کہ تمہیں وظیفہ بھجوا دیا جائے۔ ایک ہزار یورو بھجوا رہے ہیں۔ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کومجھے دوگنا کر کے دے دیا۔

پھر

یوکے

کی بھی مثال ہے۔ بالہم جماعت سے صدر صاحب کہتے ہیں کہ وقفِ جدید کے ٹارگٹ میں کچھ کمی رہ گئی تھی۔ اضافی ادائیگی کر دی پھر بھی کچھ کمی تھی۔ پھر کہتے ہیں کہ اگلے روز لوکل کونسل کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں سروس چارجز کے حوالے سے خاصی رقم کا مطالبہ تھا اور مَیں ابھی اس بارے میں سوچ رہا تھا کہ مجھے وقفِ جدید کی طرف سے بھی پیغام ملا تو مَیں نے پہلے وقفِ جدید کا چندہ ادا کر دیا اور اس کے اگلے روز ہی کونسل کا دوبارہ خط موصول ہوا اور معذرت کی اور انہوں نے لکھا کہ ہم نے جو خط تمہیں ڈیمانڈ کا بھیجا تھا وہ غلطی سے بھیج دیا تھا۔ ایڈجسٹمنٹ کرنے کے بعد تم نے ہمارا نہیں دینا بلکہ ہم نے تمہیں ایک رقم دینی ہے اور کہتے ہیں مَیں نے جو وقفِ جدید کا چندہ دیا تھا اس کی نسبت وہ رقم دس گنا زیادہ تھی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ایمان میں مضبوطی کے لیے بعض دفعہ اسے خود ہی لوٹا دیتا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ کے فوری نوازنے کی ایک اَور مثال

انڈیا

کی ہے۔ انسپکٹر صاحب کہتے ہیں کہ مَیں وقفِ جدید کے مالی سال کے اختتام پر جماعت یادگیر میں لوگوں کو توجہ دلانے کے لیے پہنچا تو وہاں ایک خادم کے پاس وہ گئے اور انہیں چندہ وقفِ جدید ادا کرنے کی بات کی تو ان موصوف نے کہا کہ اس وقت میری جیب میں صرف پندرہ سو ہیں جو کسی کو دینے کے لیے رکھے ہیں اور بہت ضروری دینے ہیں۔ آپ نے چندہ وقفِ جدید کا مطالبہ کر دیا ہے اب مَیں سوچ رہا ہوں کہ مَیں کیا کروں؟ اگر مَیں آپ کو چندہ ادا کرتا ہوں تو اس شخص کو کیسے ادا کروں گا اور ابھی فوری طورپر روپے کا مزید انتظام نہیں ہو سکے گا۔ کہتے ہیں لیکن بہرحال انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ مَیں اپنا چندہ دیتا ہوں اور پندرہ سو روپے ادا کر دیے اورچلے گئے۔ کہتے ہیں دوسرے دن میں سیکرٹری وقفِ جدید کے ہمراہ ان کی دکان پر ملاقات کے لیے گیا تو موصوف نے اپنی جیبوں سے پیسے نکال کے باہر رکھے تو پیسوں کا ڈھیر لگ گیا۔ کہتے ہیں کل جب مَیں چندہ ادا کر کے گھر پہنچا ہوں تو مجھے بعض ایسی جگہوں سے روپیہ آ گیا جو پہلے رکا ہوا تھا، لوگوں نے میرے دینے تھے اور آج کئی ہزار روپے میرے پاس موجود ہیں۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ نے برکت عطا فرمائی۔

پھر جو امیر لوگ بھی ہیں گو دنیا کی نظر میں وہ اتنے امیر تو نہیں لیکن جماعت کے لحاظ سے امیر ہیں۔ کیرولائی کے ایک صاحب ہیں۔ انہوں نے دس لاکھ روپیہ چندہ دیا۔ ان کی بیوی عیسائیت سے احمدیت میں آئی ہیں اور دعاؤں ا ور نمازوں میں بڑی دلچسپی لیتی ہیں۔ بڑی مخلص ہیں۔ موصیہ بھی ہیں بلکہ دونوں میاں بیوی موصی ہیں۔ کہتے ہیں ہم ان کے گھر گئے تو ان کی اہلیہ نے پانچ لاکھ روپے کا چیک کاٹ کے ان کو دے دیا۔ انسپکٹر نے کہا کہ آپ کے میاں پہلے ہی دس لاکھ دے چکے ہیں تو دوبارہ آپ بھی دے رہی ہیں تو اس خاتون کا جواب تھا کہ ہمیں جو نعمتیں بھی ملی ہیں وہ چندوں کی برکتوں سےہی ملی ہیں۔ اس لیے دل چاہتا ہے کہ بار بار چندہ دیتے رہیں۔ اسی کی برکت سے ہماری تجارت میں ترقی مل رہی ہے اس لیے ہم چندوں سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

پھر

مالی

کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ’’کائی‘‘ شہر میں ہم نے جماعتی ریڈیو پر مالی قربانی اور وقفِ جدید کی اہمیت اور اس کے مقاصد کے موضوع پر پروگرام کیے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ جماعتوں کا دورہ کیا تو حسبِ توفیق سب جماعتوں نے مالی قربانی میں کچھ نہ کچھ پیش کیا۔ ایک نومبائع نے بتایا کہ جب میں نے چندے کی تحریک کے بارے میں سنا تو میرے پاس نقد پیسے نہیں تھے کہ مَیں اللہ کی راہ میں پیش کر سکتا۔ پس میں نے فیصلہ کیا کہ میں بھی ضرور اپنی طرف سے جماعت احمدیہ کو کچھ نہ کچھ پیش کروں گا اور باقیوں سے پیچھے نہیں رہوں گا۔ کہتے ہیں کہ مَیں جنگل میں نکل گیا اور مَیں نے کافی خشک اور پرانی لکڑیاں جمع کیں۔ پھر وہیں ان لکڑیوں سے کوئلہ تیار کیا اور پھر اپنے گاؤں لے آیا اور جب جماعت کا وفد دورے پر گیا تو انہوں نے بیس کوئلے کی بوریاں چندے میں پیش کر دیں۔ جو بھی اس غریب آدمی سے ہو سکا اس نے کیا۔ بہرحال ان کے لحاظ سے وہ پچاس ہزار فرانک کی تھیں اور کہتے ہیں کہ اب مجھے بڑی خوشی ہے کہ میں نے بھی مالی قربانی میں حصہ لیا۔

پولینڈ

سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ سال کے آخر میں مربی صاحب نے چندہ وقفِ جدید کی تحریک کی تو کہتے ہیں میرے پاس تقریباً ایک سَو زلوتی (Zloty) موجود تھے۔ یہ پولش کرنسی ہے ۔کہتے ہیں کہ اس دن چھبیس تاریخ کو جلسہ قادیان بھی تھا اور میرا خطاب بھی انہوں نے سننا تھا۔ موبائل کا پیکیج ان کا ختم ہو رہا تھا تو خطاب کس طرح سنیں اور کہتے ہیں کہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بھی ضرور سنوں۔ کہتے ہیں بہرحال میں نے بیس زلوتی کا پیکیج کروا لیا اور اٹھائیس زلوتی فی کس کے حساب سے میں نے اپنا ،بیٹے کا اور بیوی کا چندہ ادا کر دیا اور یہ فیصلہ کیا کہ ہم باقی دنوں میں اب کچھ نہیں خریدیں گے اور گھر میں موجود چیزوں پر ہی گزارہ کریں گے لیکن دل میں یہ خواہش بھی تھی کہ اگر اَور زیادہ رقم ہوتی تو ہم اور دیتے۔ کہتے ہیں ہم نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا۔ کہتے ہیں 28؍ دسمبر کو میں کام سے واپس آ رہا تھا تو ایک دوست نے میری کچھ رقم بارہ زلوتی دینی تھی۔ اس نے کہا مجھے یاد نہیں رہتا تھا اب آپ یہ لے لیں۔ گھر آ کر کہتے ہیں مَیں نے اکاؤنٹ دیکھا تو مختلف ذرائع سے پتہ نہیں کس طرح بارہ سو نوے زلوتی میرے اکاؤنٹ میں آئے ہوئے تھے۔کہتے ہیں کہ تین سال سے جس فیکٹری میں کام کر رہا تھا اس نے کیونکہ کبھی اضافی رقم نہیں دی تھی اس لیے چندہ وقفِ جدید کی وجہ سے یہ رقم میرے اکاؤنٹ میں آئی تھی اور اس طرح کہتے ہیں مجھے تیرہ سو زلوتی مل گئے۔ کہتے ہیں پھر مَیں نے تین سو زلوتی اَور چندہ دے دیا۔ پھر کہتے ہیں ایک اَور اللہ کا فضل اس طرح ہواکہ میرا بیٹا جہاں کام کرتا ہے اس کی تنخواہ میں سال میں ایک دفعہ اکتوبر یا نومبر میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سال اکتوبر میں ایک مرتبہ اس کی تنخواہ میں اضافہ ہو چکا تھا لیکن اکتیس دسمبر کو دوبارہ اس کی تنخواہ میں مزید اضافہ ہو گیا۔ تو یہ کہتے ہیں کہ اس بات نے ہمارے ایمان میں بھی اضافہ کیا۔

تنزانیہ

کے ریجن شیانگا میں ایک جماعت ہے۔ وہاں کے نومبائعین آہستہ آہستہ مالی نظام میں شامل ہو رہے ہیں۔ وہاں کے معلم لکھتے ہیں کہ ایک دوست رمضان صاحب نے گذشتہ سال بیعت کی ہے۔ انہوں نے حسبِ استطاعت تحریک جدید اور وقفِ جدید کا چندہ لکھوایا اور سال کے اختتام سے قبل اپنے وعدے سے دوگنی ادائیگی بھی کر دی۔ اسی طرح ایک اَور موقع پر انہوں نے اپنی فیملی کی طرف سے ایک پلاٹ بھی جماعت کے نام کر دیا۔ گاؤں کے دوسرے لوگوں کے لیے جہاں وہ رہتے تھےیہ بڑی حیرت انگیز بات تھی۔بعض نے ازراہِ مذاق ان کو کہا کہ یہ شخص تو اس طرح جلد بازی میں آ کر اپنا مال دین کی راہ میں ختم کر دے گا لیکن انہوں نے معلم کو بتایا کہ حقیقتاً جماعت احمدیہ میں شامل ہو کر ہی انہیں مالی قربانی کی اہمیت اور اس کا مفہوم سمجھ میں آیاہے۔ کہتے ہیں جب سے انہوں نے اللہ کی راہ میں قربانی کرنی شروع کی ہے ان کے کام میں بہت برکت ہوئی ہے۔ لوگ کچھ بھی کہیں لیکن دراصل اس سال کے دوران انہیں مختلف جگہوں پر مزید پلاٹ خریدنے اور دو مکانات بنوانے کی توفیق ملی ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے اور ایک پلاٹ جماعت کے نام کروانے کی برکت سے ہوا ہے۔

پھر

سیرالیون

کا واقعہ ہے کہ ایمان و اخلاص میں کس طرح نومبائع ترقی کر رہے ہیں۔ ان کے ریجن پورٹ لوکو (Port Loko) کے مشنری جبریل صاحب کہتے ہیں کہ ایک نومبائع جماعت کو وقفِ جدید کے حوالے سے تحریک کی گئی۔ نئی جماعت قائم ہوئی ہے۔ نومبائعین کی جماعت ہے۔ اسی دوران ایک بڑی عمر کی نابینا عورت ایک بچے کا سہارا لے کر میرے پاس پہنچی اور کہا کہ میں نے کوئی وعدہ تو نہیں لکھوایا لیکن میں یہ دو ہزار لیون(Leone) وقفِ جدید کے چندہ کے لیے دینے آئی ہوں۔ لوکل مشنری نے کہا کہ آپ نے خود کیوں تکلیف کی، مجھے بلا لیتیں۔ مَیں خود آپ کے پاس چلا آتا۔ تو اس نے جواب دیا۔ بوڑھی عورت کا یہ جواب سنیں۔ غریب عورت ہے اور بظاہر اَن پڑھ ہے۔ کہتی ہے ایک تو میں تھوڑی سی رقم دینے آئی ہوں اور وہ بھی میں آپ کو اپنےگھر بلا کر دوں۔ مَیں تو سارا ثواب لینا چاہتی ہوں اس لیے خود چل کر دینے آئی ہوں۔

آئیوری کوسٹ

کے ریجن سان پیدرو کے مبلغ کہتے ہیں کہ جماعت کے ایک ممبر کولی بالی صاحب ہیں۔ کہتے ہیں:موصوف نے رمضان میں مجھے فون کیا اور چندہ وقفِ جدید کے متعلق دریافت کیا تو کہا کہ کیا رمضان میں چندہ دینا یا اضافہ کرنا ضرور ی ہے؟ تو اس پر میں نے اسے کہا کہ رمضان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسوہ یہی تھا کہ زیادہ سے زیادہ انفاق فی سبیل اللہ کیا کرتے تھے۔ اس کی اہمیت کے بارے میں بتایا اور چندہ وقفِ جدید اور تحریکِ جدید کے متعلق بھی اس کو بتایا کہ کس طرح یہ اشاعت اسلام کے کاموں میں خرچ ہوتا ہے اور بتایا کہ فرض تو نہیں لیکن اپنی حیثیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ مالی تحریکات میں دورانِ رمضان حصہ لینا چاہیے۔ بہرحال اس پر موصوف نے جو پہلے ہی ہر ماہ بیس ہزار فرانک چندہ دیتے آ رہے تھے وعدہ کیا کہ آئندہ صرف ماہ رمضان میں ہی نہیں بلکہ ہر ماہ باقاعدگی سے اپنے گذشتہ لازمی چندہ کے ساتھ ساتھ تیس ہزار فرانک زائد رقم ادا کریں گے۔ زائد رقم خصوصاً وقفِ جدید اور تحریک جدید کی مد میں دیا کریں گے اور یہ بھی وعدہ کیا کہ ان شاء اللہ اس سال کے اختتام تک اس زائد رقم برائے چندہ وقفِ جدید کو مزید بڑھانے کی بھی کوشش کریں گے۔ کہتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے موصوف رمضان کے بعد سے تاحال ہر ماہ آغاز پر ہی خود فکر کے ساتھ لازمی چندہ جات کی ادائیگی کرتے ہیں۔

یہ اشاعتِ اسلام

کی بات ہے۔ اخراجات کی بات ہوئی ہے تو یہاں یہ بھی بتا دوں کہ گذشتہ سال اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایک سو ستاسی (187) مساجد تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور اس کے علاوہ افریقہ میں ایک سو پانچ (105) مساجد زیرِ تعمیر ہیں۔ اسی طرح ایک سو چوالیس (144) مشن ہاؤس قائم ہوئے جن کی اکثریت افریقہ میں ہے اور پینتالیس (45) مشن ہاؤس زیر تعمیر بھی ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں فوری طور پر ہم مشن ہاؤس بنا نہیں سکتے وہاں کرائے پر عمارتیں لی جاتی ہیں۔ افریقہ کے ممالک میں سات سو اکتیس (731) مشن ہاؤسز اور مربی ہاؤس کرائے پر لیے ہیں۔ دوسرے ایشین ممالک میں بھی چھ سو بتیس (632) مشن ہاؤسز کرائے پر ہیں۔ تو بہرحال یہ بتا دوں کہ

عموماً وقفِ جدید کے چندے کا اکثر حصہ افریقہ کے ممالک پر خرچ کیا جاتا ہے۔

مسجد کی تعمیر وغیرہ کی بات ہوئی ہے تو یہ کام بھی اتناآسانی سے نہیں ہو جاتا۔ مخالفین کی مخالفت کا بھی ہر جگہ سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی خاطر یہ سب کام جماعت کر رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کا جماعت کی ترقی کا وعدہ بھی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی خاص مدد بھی شامل حال رہتی ہے۔

کونگو کنشاسا

کا ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں وہاں کے مبلغ لکھتے ہیں کہ یہاں باندندو (Bandundo) ریجن میں ایک جگہ جماعت کو قائم ہوئے دو سال کا عرصہ ہوا ہے ۔مسجد کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ وہاں سنی مسلمانوں نے احمدیوں کو تکلیف دینے اور سرکاری دفاتر میں ہمارے خلاف شکایت درج کروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب کوئی حربہ کامیاب نہ ہوا تو قتل تک کی دھمکیاں دینے لگ گئے۔ بہرحال مخالفین کو تو کسی طرح کامیابی نہیں ملی لیکن دوسری طرف مسجد کی تعمیر کا کام جاری رہا۔ ایک احمدی دوست جو وہاں تعمیراتی کام کی نگرانی کر رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ مسجد کی تعمیر کے دوران ایک دن یہاں کی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر جو کہ عیسائی ہیں وہ ہمارے پاس آئے اور مسجد کی تعمیر میں مدد کرنے لگ گئے یہاں تک کہ احمدی جو دُور دُور سے ریت لے کر آتے تھے ان کے ساتھ مل کر ریڑھی یا wheelbarrow کو کھینچتے بھی رہے۔ ایک طرف سے مخالفین اپنا کردار ادا کر رہے ہیں دوسری طرف اللہ تعالیٰ غیروں کے ذریعہ بھی کام کرواتا چلا جاتا ہے۔ نیک فطرت لوگ اس طرح بھی آتے ہیں۔

پھر

کیمرون

کا ایک واقعہ ہے۔ وہاں بوادا سینج (Biodes Senge) میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہ وہاں ایک شہر ہے دَوْآلا (Douala) اس کا ایک محلہ ہے۔ کہتے ہیں کہ وہاں دو سال قبل جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ مسجد کی تعمیر شروع کی تو علاقے کے ایڈمنسٹریٹر کی طرف سے خط موصول ہوا کہ مسجد کا کام روک دو۔ جماعت نے کام روک دیا۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی تنظیم نے گورنر صاحب کو اور تمام متعلقہ عہدیداروں کو خطوط لکھے ہیں کہ جماعت ایک دہشت گرد جماعت ہے۔ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے مسجد نہیں بنا سکتے۔ یہ پروپیگنڈا جو اسلامی ملکوں کا ہے ان کے مولوی وہاں جاتے ہیں اور وہ کرتے رہتے ہیں۔ بہرحال انہوں نے بھی پھر یہ خط لکھے۔ خود بھی دعاؤں میں مصروف ہو گئے۔ رابطے وغیرہ بھی کیے۔ کہتے ہیں کہ ایک ماہ کے بعد ایڈمنسٹریٹر نے ہمیں اپنے دفتر میں بلایا اور مختلف تنظیموں کے سربراہان اورمسلمانوں کے چیف امام اور دوسرے لوگوں کو بھی بلایا۔ ایڈمنسٹریٹر نے ایک رپورٹ پڑھنی شروع کی اور مسلمانوں کی شکایت پر جو کام روکا گیا، یہ کہا کہ ہم نے رکوا تو دیا تھا لیکن ہم نے کیمرون کے مختلف علاقوں میں سے رپورٹیں منگوائی ہیں۔ جماعت احمدیہ انٹرنیشنل جماعت ہے۔ دو سو سے زائد ملکوں میںیہ کام کر رہی ہے۔ پندرہ سال سے کیمرون میں بھی کام کر رہی ہے ۔کیمرون میں بھی کئی جگہ یہ مساجد بنا چکی ہے۔ بہرحال بتایا کہ اس طرح یہ دینی خدمات کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جو خدمت خلق کے کام کر رہے ہیں اس کے بارے میں بھی اس نے کہا کہ بہت سے علاقوں میں صاف پانی کے بور ہول بھی کیے ہیں۔ انہوں نے پمپ لگائے ہیں۔ یہ لوگ یتیموں کی پرورش کر رہے ہیں۔ طلبہ کی علمی میدان میں مدد کر رہے ہیں۔ اسی طرح دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ہمیشہ بات کرتے ہیں۔ پھر اس نے کہا کہ جماعت امن اور روادار ی کی تعلیم دیتی ہے اور یہ بھی کہتی ہے کہ تلوار کا جہاد نہیں بلکہ قلم کا جہاد ہے۔ یہ ساری باتیں اس نے ان لوگوں کو بتائیں اور پھر یہ بھی بتایا کہ مسلمان اکابرین جو ہیں، سلطان اور دوسرے لوگ بھی ان کے جلسوں میں شامل ہوتے ہیں تو اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ ان کی مسجد کو روکا جائے۔ یہاں بھی یہ مسجد بنا سکتے ہیں۔ کہتے ہیں جب اس نے رپورٹ ختم کی تو وہاں کے اس علاقے کے مسلمان لیڈر جتنے تھے کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کافر ہیں ہم ان کو کافر سمجھتے ہیں اور جو رپورٹ آپ نے تیار کی ہے وہ ہم سے پوچھے بغیر بنائی ہے ہم نہیں مانتے۔ بہرحال ایڈمنسٹریٹر نے غصہ میں آ کر انہیں کہا کہ مَیں اپنا کام جانتا ہوں اوریہاں سے چلے جاؤ۔ بہرحال وہ لوگ خاموش ہو گئے اور جماعت کو کہا کہ آپ مسجد بنائیں۔

جماعت احمدیہ کی خدمات کا جو نیک اثر قائم ہوتا ہے وہ ہر عقل مند کو مجبور کرتا ہے کہ وہ جماعت کی تعریف کرے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے جب کام کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ پھر مددگاروں کی فوج بھی بھیج دیتا ہے اور خود ہی ان کے مخالفین کی روکوں کو دور فرماتا ہے۔

کس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل بڑھتے ہیں اس کا بھی ایک واقعہ بیان کر دوں۔

اَپرویسٹ ریجن گھانا

کی ایک رپورٹ ہے۔ کہتے ہیں وہاں تبلیغ کے سلسلہ میں ساٹھ سے زائد بیعتیں ملیں۔ گاؤں میں جماعت کی ایک چھوٹی سی کچی اینٹوں کی مسجد تھی۔ ہماری کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے غیر احمدی مسلمانوں نے ہماری مسجد کے بالکل سامنے ایک پختہ اور خوبصورت مسجد تعمیر کروائی اور اس مسجد کے ذریعہ ہمارے نومبائعین کو اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کی تو جو چند کمزور نومبائعین تھے ادھر چلے بھی گئے۔ بعد میں جماعت نے وہاں بھی بڑی شاندار اور بڑی مسجد بنا لی ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے اپنے ممبران تو مسجد میں آتے ہی ہیں اس کے علاوہ غیراحمدیوں کے (لوگ) بھی کثیر تعداد میں وہاں آنا شروع ہو گئے ہیں اور ہماری مسجد نمازیوں سے بھر گئی ہے اور ان کی مسجد بالکل خالی رہنے لگ گئی ہے یا بہت کم لوگ وہاں ہیں۔ نومبائعین کی تعلیم و تربیت کے لیے روزانہ وہاں کلاسیں بھی اللہ کے فضل سے ہو رہی ہیں۔ جس سے جماعت کی ترقی میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بہت سے واقعات ہیں اللہ تعالیٰ سچے وعدوں والا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا فرما رہا ہے اور غیب سے مدد بھی فرماتا ہے اور فرمائے گا ان شاء اللہ۔ ہمیں تو وہ موقع دیتا ہے کہ اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کی راہ میں خرچ کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بن سکیں۔

اب میں حسبِ روایت گذشتہ سال یعنی

2021ء کی وقفِ جدید کی مختصر رپورٹ

پیش کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جو گذشتہ سال تھا یہ چونسٹھواں سال تھا اور اس سال جنوری میں 2022ء کا نیا سال بھی شروع ہو گیاہے تو گذشتہ سال کی رپورٹ یہ ہے کہ اس میں

جماعت کی وقفِ جدید کی جو قربانی ہے وہ ایک کروڑ بارہ لاکھ ستتر ہزار پاؤنڈ یا تقریباً 11.2ملین ہے اور گذشتہ سال سے یہ قربانی سات لاکھ بیالیس ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔

دنیا کے اقتصادی حالات کو اگر دیکھیں تو اللہ کا بڑا فضل ہے۔ اس سال بھی برطانیہ کی جماعت جو ہے مجموعی وصولی کے لحاظ سے اوّل پوزیشن میں ہے۔ پاکستان کی کرنسی کیونکہ گر گئی ہے اس لیے ان کی پوزیشن تو بہت نیچے چلی جاتی ہے اس کے باوجود وہ اپنی طاقت کے مطابق بہت قربانی کر رہے ہیں۔ بہرحال پوزیشن کے لحاظ سے برطانیہ کا نمبر ایک ہے۔ پھر جرمنی ہے اور اللہ کے فضل سے برطانیہ نے اس سال کافی اچھی قربانی کی ہے اور بہت فرق ہے جرمنی اور برطانیہ کا۔ پھر نمبر تین پہ کینیڈا ہے۔ پھر امریکہ ہے۔ پھر بھارت ہے۔ پھر آسٹریلیا ہے۔ انڈونیشیا ہے۔ مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے۔ گھانا ہے اور بیلجیم۔

فی کس ادائیگی کے لحاظ سے

نمبر ایک پر امریکہ ہے۔ پھر سوئٹزر لینڈ ہے۔ پھر برطانیہ ہے۔

افریقہ میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے

نمایاں جماعتیں جو ہیں: نمبر ایک گھانا ہے۔ پھر ماریشس ہے۔ پھر نائیجیریا ہے۔ پھر برکینا فاسو ہے۔ پھر تنزانیہ ہے۔ پھر سیرالیون ہے۔ پھر لائبیریا ہے۔ پھر گیمبیا۔ پھر یوگنڈا۔ آخر میں نمبر دس پہ بینن۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے شاملین کی تعداد بھی چودہ لاکھ پینتالیس ہزار ہے۔

وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی جو دس بڑی جماعتیں ہیں ان کی پوزیشن یہ ہے: اسلام آباد نمبر ایک پہ، پھر فارنہم (Farnham)، پھر ووسٹر پارک (Worcester Park)، پھر چیم ساؤتھ (South Cheam)۔ پھر آلڈر شاٹ (Aldershot)۔ پھر برمنگھم ساؤتھ (Birmingham-South)، پھر وال سال (Walsall)، جلنگھم (Gillingham)، گلفرڈ (Guildford)،یول (Ewell)۔

مجموعی وصولی کے لحاظ سے پہلے پانچ ریجن جو ہیں ان میں پہلا ریجن بیت الفتوح ہے ۔نمبر دو پہ اسلام آباد۔ پھر مسجد فضل۔ پھر بیت الاحسان۔ پھر مڈلینڈز(Midlands)۔

اطفال۔ دفتر اطفال کے لحاظ سے دس جماعتیں جو ہیں: اسلام آباد نمبر ایک پہ۔ آلڈر شاٹ (Aldershot) نمبر دو۔ پھر فارنہم (Farnham)۔ روہیمپٹن (Roehampton)۔پھر گلفرڈ (Guildford)۔یول(Ewell)۔ مچم پارک (Mitcham Park)۔ بیت الفتوح (Baitul Futuh)۔وال سال (Walsall)۔ برمنگھم ویسٹ (Birmingham-West)۔

وصولی کے لحاظ سے جرمنی کی پانچ لوکل امارات: ہیمبرگ (Hamburg) نمبر ایک پہ۔ پھر فرینکفرٹ (Frankfurt)۔پھر گروس گیراؤ (Gros Gerau)۔پھر ویزبادن (Wiesbaden)۔ پھر ڈٹسن باخ (Dietzenbach)۔

وصولی کے لحاظ سے پہلے دس جماعتوں کی فہرست: رویڈرمارک(Rödermark)نمبر ایک پہ۔ پھر روڈگاؤ (Rodgau)۔ پھر نوئس (Neuss)۔ پھر رویڈرز ہائم(Rödersheim)۔ پھر مہدی آباد فریڈبرگ (Friedberg)۔ ہناؤ (Hanau)۔ فلورس ہائم (Flörsheim)۔ فرانکن تھال (Frankenthal)۔ کوبلنز(Koblenz) اور نیدا (Nidda)۔

دفتر اطفال میں پہلی پانچ ریجن ہیں: ہیمبرگ (Hamburg) نمبر ایک پہ۔ پھر ساؤتھ ویسٹ ہیسن(South West Hessen)۔ تاؤنسن(Taunus)۔ ہیسن مٹے(Hessen-Mitte)۔ رائن لینڈ فالز(Rheinland-Pfalz)۔

وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی امارتیں جو ہیں ان میں نمبر ایک پہ وان ہے۔ پھر کیلگری (Calgary)۔پھر پیس ولیج(Peace Village)۔ پھر وینکوور(Vancouver)۔ بریمٹن ویسٹ(Brampton-West)۔

دس بڑی جماعتیں جو کینیڈا کی ہیں ان میں حدیقہ احمد نمبر ایک پہ۔ ملٹن ویسٹ(Milton-West)۔ بریڈ فورڈ (Bradford)۔ڈرہم (Durham)۔ ملٹن ایسٹ (Milton East)۔ رجائنا(Regina)۔ آٹوا ویسٹ (Ottawa-West)۔ ونی پیگ(Winnipeg)۔ہملٹن ماؤنٹین (Hamilton Mountain)۔ایبٹس فورڈ(Abbotsford)۔

اور دفتر اطفال کی نمایاں امارتیں: وان (Vaughan)نمبر ایک۔ پھر پیس ولیج (Peace Village)۔ پھر کیلگری (Calgary)۔ ٹورنٹو ویسٹ (Toronto-West)۔بریمپٹن ویسٹ (Brampton-West) ہیں۔

دفتر اطفال کی پانچ نمایاں جماعتیں: حدیقہ احمد نمبر ایک۔ بریڈ فورڈ(Bradford)۔ ڈرہم(Durham)۔ لندن (London)۔ملٹن ویسٹ(Milton-West)۔

امریکہ کی وصولی کے لحاظ سے جو دس جماعتیں ہیں: میری لینڈ(Maryland)۔ لاس اینجلس (Los Angeles)۔ ڈیٹرائٹ (Detroit)۔ سیلیکون ویلی (Silicon Valley)۔ بوسٹن (Boston)۔آسٹن (Austin)۔ فینکس (Phoenix)۔ سیراکوس(Syracose)۔ لاس ویگس (Las Vegas) اور فچ برگ (Fitchburg)۔

دفتر اطفال کے لحاظ سے پہلی دس جماعتیں: میری لینڈ (Maryland) ۔ لاس اینجلس(Los Angeles)۔ سیئٹل (Seattle)۔ اورلینڈو (Orlando)۔ آسٹن (Austin)۔ سیلیکون ویلی (Silicon Valley)۔ وینکس (Phoenix)۔ فچ برگ (Fitchburg)۔ لاس ویگاس (Las Vegas)۔ زائن(Zion) ہیں۔

پاکستان میں چندہ بالغان کی پہلی تین جماعتیں ہیں: اول لاہور۔ پھر ربوہ۔ پھر کراچی۔ اور اضلاع کی پوزیشن یہ ہے۔ اسلام آباد نمبر ایک پہ۔ پھر فیصل آباد ،گجرات،گوجرانوالہ، سرگودھا، ملتان، عمر کوٹ، حیدرآباد، میر پور خاص، ڈیرہ غازی خان۔

مجموعی وصولی کے لحاظ سے پہلی دس جماعتیں ہیں: اسلام آباد شہر، ڈیفنس لاہور، ٹاؤن شپ لاہور، کلفٹن کراچی، دارالذکر لاہور،ماڈل ٹاؤن لاہور ،گلشن آباد کراچی، سمن آباد لاہور، عزیز آباد کراچی، علامہ اقبال ٹاؤن لاہور۔

دفتر اطفال کی تین بڑی جماعتیں ہیں: اول لاہور۔ دوم کراچی ۔سوئم ربوہ۔ دفتر اطفال میں اضلاع کی پوزیشن یہ ہے۔ اسلام آباد نمبر ایک۔ سیالکوٹ۔ پھر راولپنڈی ۔سرگودھا ۔فیصل آباد۔ گجرات۔ حیدرآباد۔ میر پور خاص ۔عمر کوٹ۔ نارووال۔

غیر معمولی مساعی کرنے والی جماعتیں جو ہیں۔ ڈرگ روڈ کراچی۔ نور پورہ لاہور ۔گوجرانوالہ شہر۔ بیت الفضل فیصل آباد۔ پشاور شہر۔ دہلی گیٹ لاہور۔ کوٹلی آزاد کشمیر۔ ننکانہ صاحب۔

بھارت کے پہلے دس صوبے جو ہیں ۔کیرالہ۔ جموں کشمیر۔ تامل ناڈو۔ تلنگانہ۔کرناٹکا۔ اڑیشہ پنجاب۔ ویسٹ بنگال۔ دہلی۔ مہاراشٹرا۔

دس جماعتیں وصولی کے لحاظ سے حیدر آباد نمبر ایک۔ پھر قادیان۔ پھرکیرولائی۔ پھر پاٹھاپریام۔ کوئمباٹور۔بنگلور۔ کلکتہ۔ کالی کٹ۔ رشی نگر۔ ملیاپلیام۔

آسٹریلیا کی جو دس جماعتیں ہیں: ملبرن لانگ وارن(Melbourne Langwarrin) ۔ کاسل ہل (Castle Hill)۔ مارسڈن پارک(Marsden Park)۔ ایڈیلیڈ ساؤتھ(Adelaide South)۔ میلبورن بیرک(Melbourne Berwick)۔ پرتھ(Perth)۔ پینرتھ (Penrith)۔ ایڈیلیڈ ویسٹ(Adelaide West) اور لوگن ایسٹ(Logan East)۔

بالغان میں آسٹریلیا کی جماعتیں: ملبرن لانگ وارن(Melbourne Langwarrin) ۔ کاسل ہل (Castle Hill)۔ مارسڈن پارک(Marsden Park)، ایڈیلیڈ ساؤتھ(Adelaide South)۔ ملبرن بیرک(Melbourne Berwick)۔ پرتھ(Perth)۔ پینرتھ (Penrith)۔ ایڈیلیڈ ویسٹ (Adelaide West)۔ بلیک ٹاؤن (Blacktown) اور کینبرا (Canberra)۔

دفتر اطفال میں آسٹریلیا کی جماعتیں ہیں: ملبرن لانگ وارن(Melbourne Langwarrin)۔ ایڈیلیڈ ساؤتھ(Adelaide South)۔ ملبرن بیرک(Melbourne Berwick)۔ لوگن ایسٹ(Logan East)۔ پرتھ(Perth)۔ کاسل ہل(Castle Hill)۔ ملبرن ایسٹ(Melbourne East)۔ ماؤنٹ ڈروئٹ(Mount Druitt)۔ پینرتھ(Penrith)۔ برسبن سینٹرل(Brisbane Central)۔

یہ ان کی پوزیشنیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل 28جنوری 2022ء)

پچھلا پڑھیں

روزنامہ الفضل کے پہلے صفحہ سے اقتباس بچوں کو پڑھنے کے لئے دیا کریں (حضرت خلیفۃ المسیح الخامس)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 جنوری 2022