• 27 اپریل, 2024

اطاعت میں ہی تمام برکتیں ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 27۔ اگست 2004ء میں فرمایا۔
’’ہم سب پر فرض بنتا ہے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے بعد اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق قدرت ثانیہ کے اس جاری نظام کی بھی مکمل اطاعت کریں اور اپنی اطاعت کے معیاروں کو بلند کرتے چلے جائیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ اطاعت کے معیاروں کو حاصل کرنے کے لئے قربانیاں بھی کرنی پڑتی ہیں اور صبر بھی دکھانا پڑتا ہے۔ پھر دنیاوی لحاظ سے بھی جو حاکم ہے اس کی دنیاوی معاملات میں اطاعت ضروری ہے ۔

کسی بھی حکومت نے اپنے معاملات چلانے کے لئے جو ملکی قانون بنائے ہوئے ہیں ان کی پابندی ضروری ہے۔ آپ اس ملک (برطانیہ) میں رہ رہے ہیں یہاں کے قوانین کی پابندی ضروری ہے بشرطیکہ قوانین مذہب سے کھیلنے والے نہ ہوں، اس سے براہ راست ٹکر لینے والے نہ ہوں جیساکہ پاکستا ن میں ہے۔ احمدیوں کے لئے بعض قوانین بنے ہوئے ہیں تو صرف اُن قوانین کی وہاں بھی پابندی ضروری ہے جو حکومت نے اپنا نظام چلانے کے لئے بنائے ہیں۔ جو مذہب کا معاملہ ہے وہ دل کا معاملہ ہے ۔یہ تو نہیں ہو سکتا کہ قانون آپ کو کہے کہ نماز نہ پڑھو اور آپ نماز ہی پڑھنا چھوڑ دیں۔ تو بہرحال جو بھی نظام ہو، دنیاوی حکومتی نظام ہو یا جماعتی نظام یا مذہبی نظام اُن کی اطاعت ضروری ہے۔ سوائے جو قانون، جیسا کہ میں نے کہا ،براہ راست اللہ اور اس کے رسول کے احکامات سے ٹکراتے ہوں۔ تودینی لحاظ سے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا دوسرے مسلمانوں کو فکر ہو تو ہو احمدی مسلمان کو کوئی فکر نہیںکیونکہ ہم نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے اپنا بندھن جوڑ کر اپنے آپ کو اس فکر سے آزاد کر لیا ہے کہ کیا ہم خدا اور اس کے رسولؐ کے احکام کے مطابق عمل کرتے ہیں اور جن امور کی وضاحت ضروری تھی کہ کون کون سے امور شریعت میں وضاحت طلب ہیں ان کی بھی ہمیں حضرت مسیح موعودؑ سے وضاحت مل گئی کیونکہ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ایک لائن بتا دی، تمام امور کی وضاحت کر دی کہ اس طرح اعمال بجا لاؤ تو یہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اختلافی معاملات کے حل کے لئے جب لو گ علماء، مفسرین یا فقہاء سے رجوع کرتے رہے تو ہر ایک نے اپنے علم، عقل اور ذوق کے مطابق ان امور کی تشریح کی۔ اپنے اپنے زمانے میں ہر ایک نے اپنے اپنے حلقے میں اپنی طرف سے نیک نیتی سے یہ تمام امور بتائے۔ مگر آہستہ آہستہ جن امور میں مفسرین اور فقہاء کا اختلاف تھا ان کے اپنے اپنے گروہ بنتے گئے اور یوں فرقے بندی ہو کر مسلمان آپس میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہے اور لڑئی جھگڑے بھی ہوتے رہے اور اس تفرقہ بازی نے مسلمانوںکو پھاڑ دیا۔ لیکن اب اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے خداتعالیٰ کی طرف سے ہدایت پا کر ہمارے لئے صحیح اور غلط کی تعیین کر دی ہے۔ پس احمدی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کریں تبھی وہ جماعت کی برکات سے فیضیاب ہو سکتے ہیں اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا قربانیاں بھی کرنی پڑتی ہیں اور صبر بھی دکھانا پڑتا ہے۔ کسی کے ایمان کے اعلیٰ معیار کا تو تبھی پتہ چلتا ہے جب اس پر کوئی امتحان کا وقت آئے اور وہ صبر دکھاتے ہوئے اور قربانی کرتے ہوئے اس میں سے گزر جائے۔ اس کی انا اس کے راستے میں روک نہ بنے۔ اس کا مالی نقصان اس کے راستے میں روک نہ بنے۔ اس کی اولاد اس کے اطاعت کے جذبے کو کم کرنے والی نہ ہو۔ جب یہ معیار حاصل کر لو گے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ انفرادی طور پر تمہارے ایمانوں میں ترقی ہو گی اور جماعتی طور پر بھی مضبوط ہوتے چلے جاؤ گے۔ بعض لوگ ذاتی جھگڑوں میں نظام جماعت کے فیصلوں کا پاس نہیں کرتے یا ان فیصلوں پر عملدرآمد کے طریقوںسے اختلاف کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے چلے جاتے ہیں اور اپنا نقصان کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘

(الفضل 23 نومبر 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ