• 9 جولائی, 2025

محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کے بچپن کے خود نوشت حالات

محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کے بچپن کے خود نوشت حالات
حضرت مصلح موعودؓ کی تربیت کے غیر معمولی انداز، تعلیم ، کھیل اور روزمرہ کے معمولات

محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمدنے اپنے کچھ ابتدائی حالات رقم فرمائے تھے جو الفضل 5جنوری 1995ء کے شمارہ میں شائع ہوئے۔دوسری مرتبہ الفضل 2۔اگست 2004ء میں شائع ہوئے۔ اب یہ مضمون قارئین کی خدمت میںسہ بارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

(ادارہ)

ماں کی گود میں

میری پیدائش کی تاریخ 9مئی 1914ء ہے اور میرے والد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کا انتخاب برائے خلافت ثانیہ 14مارچ 1914کو ہوا خلافت کی مسند پر تشریف رکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمت کی وجہ سے میرے ابا جان حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمدؓ نے میرا نام مبارک احمد رکھا ( اس کا ذکر ہماری بڑی پھوپھی جان حضرت نواب مبارکہ بیگم نے مجھ سے کیا تھا) قبل اس کے کہ میں اپنے بچپن کا کچھ ذکر کروں اپنی والدہ کا تعارف بھی ضروری سمجھتا ہوں۔

میری والدہ

میری والدہ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدینؓ جو حضرت مسیح موعودؑ کے اوّلین ساتھیوں میں سے تھے کی بڑی بیٹی تھیں۔ میرے نانا جان لاہور کے ایک امیر اور معزز خاندان کے فرد تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرنے کے بعد ان کے خاندان نے ان سے قطع تعلق کرلیا تھا مگر آپ نے اس کی ذرہ بھر پرواہ نہ کی۔ اپنی آمد کا بیشتر حصہ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں بھجوا دیتے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے جاں نثار خادم اور آپ سے غیر معمولی پیارکا رشتہ تھا۔ جب میرے والد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کی شادی کا وقت آیا تو حضرت مسیح موعودؑنے میری والدہ کا انتخاب فرمایا۔ اس طرح میری والدہ حضرت مسیح موعودؑ کی بہو بن کر دارِ مسیح موعود میں رونق افروز ہوئیں ۔ حضرت مسیح موعودؑ کو میری والدہ سے بے حد پیار تھا جس کا ذکر میری بڑی پھوپھی جان حضرت نواب مبارکہ بیگم نے متعدد مرتبہ مجھ سے کیا۔

نانا جان کا ذکر خیر

ابا جان کے خسر (میرے نانا جان) حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین کے وصال کے بعد حضرت اباجان نے جلسہ سالانہ 1926ء کے دوسرے دن یعنی27دسمبر1926ء کو جو تقریر فرمائی اس میں میرے نانا جان کے متعلق فرمایا:۔

’’اس دفعہ ہمارے سلسلہ میں سے چند دوست ہم سے جدا ہوگئے جن کے ساتھ بعض خصوصیات وابستہ تھیں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب تھے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کو ایسے زمانہ میں قبول کیا جبکہ چاروں طرف مخالفت زوروں پر تھی اور پھر طالب علمی کے زمانہ میں قبول کیا اور مولویوں کے گھرانہ میں قبول کیا۔ آپ کا ایسے خاندان کے ساتھ تعلق تھا کہ جس کا یہ فرض سمجھا جاتا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ سے دنیا کو روکیں ۔ اور اس وقت ساری دنیا آپ کی مخالفت پر تلی ہوئی تھی۔ پس ان کا ایسے حالات میں حضرت مسیح موعودؑ کو قبول کرنا ان کی بہت بڑی سعادت پر دلالت کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب پر مخالفت کا زمانہ ہی نہیں آیا۔ جب انہوں نے ایک دوست سے حضرت مسیح موعودؑ کا دعویٰ سنا تو آپ نے سنتے ہی فرمایا کہ اتنے بڑے دعویٰ کا شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا اور آپ نے بہت جلد حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کر لی۔حضرت صاحب نے ان کا نام اپنے بارہ حواریوں میں لکھا ہے۔ اور ان کی مالی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت صاحب نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ نے سلسلہ کے لئے اس قدر مالی قربانی کی ہے کہ آئندہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ کا وہ زمانہ مجھے یاد ہے جبکہ آپؑ پرمقدمہ گورداسپور میں ہو رہا تھا اور اس میں روپیہ کی ضرورت تھی۔ حضرت صاحب نے دوستوں میں تحریک بھیجی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں ۔ لنگرخانہ دو جگہ پر ہو گیا ہے ایک قادیان میں اور ایک یہاں گورداسپور میں ۔ اس کے علاوہ اور مقدمہ پر خرچ ہورہا ہے لہٰذا دوست امداد کی طرف توجہ کریں۔ جب حضرت صاحب کی تحریک ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو اتفاق ایسا ہوا کہ اسی دن ان کو تنخواہ قریباً 450روپے ملی تھی وہ ساری کی ساری تنخواہ اسی وقت حضرت صاحب کی خدمت میں بھیج دی۔ ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ کچھ گھر کی ضروریات کے لئے رکھ لیتے تو انہوں نے کہا خدا کا مسیح لکھتا ہے کہ دین کے لئے ضرورت ہے تو پھر اور کس کے لئے رکھ سکتا ہوں۔ غرض ڈاکٹر صاحب تو دین کے لئے قربانیوں میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ حضرت صاحب کو انہیں روکنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہیں کہنا پڑا کہ اب آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں ۔‘‘

(انوار العلوم جلد9صفحہ 402)

یہ تھے میری امی جان کے والد جن کی بڑی بیٹی کو حضرت مسیح موعودؑنے اپنے بڑے بیٹے کی رفیقہ حیات کے لئے منتخب فرمایا۔ اس طرح میری والدہ حضرت مسیح موعودؑ کی بڑی بہو بن کر دارِ حضرت مسیح موعودؑ میں رونق افروز ہوئیں ۔ یہ بھی لکھ دوں کہ حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے رشتہ کے بابرکت ہونے کی اطلاع بخشی۔ جس کے بعد رشتہ طے ہوا۔ (رشتہ کے بابرکت ہونے کے الہام کے متعلق میری بڑی پھوپھی جان حضرت نواب مبارکہ بیگم نے ذکر کیا تھا)

الفضل کیلئے زیور کی قربانی

اس بارہ میں حضرت ابا جان کا اپنا بیان درج کر رہا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا کہ
’’میں بے مال و زر تھا۔ جان حاضر تھی مگر جو چیز میرے پاس نہ تھی وہ کہاں سے لاتا اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرمائے۔ ان کی سستی کو جھاڑے۔ ان کی محبت کو اُبھارے۔ ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور یہ اخبار ثریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا۔ اس کی خواہش میرے لئے ایسی ہی تھی جیسے ثریا کی خواہش۔ نہ وہ ممکن تھی نہ یہ۔ آخر دل کی بے تابی رنگ لائی۔امید بر آنے کی صورت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں مدد کی تحریک کی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنوئیں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو۔ جو اس زمانہ میں شاید سب سے زیادہ مذموم تھا۔ اپنے دو زیور مجھے دئیے کہ میں ان کو فروخت کر کے اخبار جاری کروں۔ اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دئیے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوا اور میرے لئے زندگی کا ایک نیا ورق الٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سبب پیدا کر دیا۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر اللہتعالیٰ یہ سامان پیدا نہ کرتا تو میں کیا کرتا اور میرے لئے خدمت کا کون سا دروازہ کھولا جاتا اور جماعت میں روزمرہ بڑھنے والا فتنہ کس طرح دور کیا جا سکتا۔‘‘

اخبار الفضل کے اجراء کے لئے اپنا زیور دینے والی میری والدہ حضرت محمودہ بیگم تھیں۔ جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی کی بیگم اور حضرت مسیح موعود کی بڑی بہو تھیں۔

باپ کے سایہ تلے

اب میں اپنے بچپن اور جوانی کے ابتدائی دور کے متعلق لکھ رہا ہوںجو بیشتر میری تعلیم و تربیت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی ابتداء اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے بعد آپؑ کی زوجہ محترمہ میری دادی حضرت اماں جانؓ بہت اداس رہنے لگی تھیں۔ آپؑ کی اولاد آپؓ کا دل بہلانے کی بہت کوشش کرتی مگر حضرت اماں جانؓ پر غم اور اداسی کی شدت کم نہ ہوئی۔ آخر حضرت ابا جان نے اس کا علاج یوں فرمایا کہ ایک دن میرے بڑے بھائی مرزا ناصر احمد کا ہاتھ پکڑ کر حضرت اماں جان کے پاس لے گئے اور عرض کیا کہ ناصر احمد آج سے آپ کا بیٹا ہے آپ کے پاس ہی رہے گا اس کی والدہ کو بھی میں نے کہہ دیا ہے کہ اب تم نے ناصر احمد سے تعلق نہیں رکھنا اب یہ اماں جان کا بیٹا ہے۔ اس کا فوری اثر یہ ہوا کہ حضرت اماں جان کی اداسی دور ہو گئی۔ واضح رہے کہ ایک چھوٹی عمر کے بچے کو پالنا وقت لیتا ہے۔ توجہ چاہتا ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس سے میری زندگی کا بابرکت دور شروع ہوتا ہے۔ ابا جان کی ساری توجہ میری طرف ہوئی اور میری زندگی کا ہر لمحہ ان کے زیر سایہ تربیت کا موجب بنا۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کا نتیجہ ہے ۔ اس جگہ یہ لکھنا ضروری ہے کہ ابا جان نے ہر سفر میں مجھے ساتھ رکھا والدہ ہمراہ ہوں یا نہ ہوں میںہر سفر میں ساتھ رہا ہوں۔

تربیت کے چند واقعات

اب میں اپنی تربیت کے چند ایک واقعات کا ذکر کروں گا۔ ایک دن میرے ساتھ دو تین لڑکیاں صحن میں ایک گھریلو کھیل (آنکھ مچولی) کھیل رہی تھیں۔ مجھے کسی بات پر غصہ آیا اور میں نے ان میں سے ایک کے منہ پر طمانچہ مارا۔ عین اسی وقت اباجان مغرب کی نماز پڑھا کر صحن میں داخل ہو رہے تھے۔ آپ نے مجھے طمانچہ مارتے ہوئے دیکھ لیا۔ سیدھے میرے پاس آئے مجھے پاس کھڑا کرکے اس لڑکی کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ مبارک نے تمہارے منہ پر طمانچہ مارا ہے تم اس کے منہ پر اسی طرح طمانچہ مارو۔ وہ لڑکی اس کی جرأت نہ کر سکی بار بار کہنے کے باوجود اس نے میرے منہ پر طمانچہ نہیں مارا۔ اس کے بعد آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا تم کیا سمجھتے ہو کہ اس کا باپ نہیں اس لئے تم جو چاہو کر سکتے ہو۔ یاد رکھو کہ میں اس کا باپ ہوں۔ اگر تم نے آئندہ ایسی حرکت کی تو میں سزا دوں گا۔ (یہ ایک یتیم لڑکی تھی جس کو ابا جان نے اپنی کفالت میں لیا ہوا تھا) یتیموں سے حسن سلوک ان کی عزت اور احترام کا سبق تھا۔ جو میں کبھی نہیں بھولا۔ میری عمر اس وقت سات آٹھ سال کی تھی۔ یہ لکھتے ہوئے بھی وہ نظارہ مجھے یاد ہے۔

ابا جان کے ساتھ کھانا کھانا بھی تربیت اور اعلیٰ اخلاق کا موجب بنا۔ دسترخوان پر بیٹھتے ہوئے سب بچوں پر نظر رکھتے کہ جب ڈش سے کھانا نکالا ہے تو کیا اپنے سامنے والے حصہ سے نکالا ہے یا نہیں ۔ لقمہ منہ میں ڈال کر منہ بند کر کے کھانا چبایا ہے یا نہیں کھاتے وقت منہ سے آواز تو نہیں نکلتی۔ کھانے سے پہلے اور بعد ہاتھ صابن سے دھوئے تھے یا نہیں ۔ غرض کوئی پہلو بھی آپ کی نظر سے اوجھل نہ تھا۔بعض دفعہ میں حیران ہوتا تھا کہ خود تو کھاتے ہوئے ڈاک بھی دیکھتے جاتے ہیں۔ خطوط پر نوٹ بھی لکھتے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی لقمہ بھی منہ میں ڈالتے ہیں۔ نظر بھی نیچی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ہماری ہر حرکت پر بھی نظر ہے۔ بہت کم خوراک تھی۔ ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ آپ اتنا کم کھاتے ہیں۔ میں بھی کم کھانا کھایا کروں۔ میں نے آدھا پھلکا (پھلکا ہمارے گھروں میں بہت کم آٹے کی پتلی سی روٹی کو کہتے ہیں ) کھانا شروع کیا۔ ایک دن مجھے فرمانے لگے میں ایک ماہ سے دیکھ رہا ہوں کہ تم بہت کم کھانا کھاتے ہو تمہارے لئے مناسب نہیں تم ابھی بچے ہو۔ تمہاری نشوونما کی عمر ہے اس عمر میں پیٹ بھر کر کھانا چاہئے۔ تھوڑا کھانا تمہارے قویٰ پر مضر اثر کرے گا۔ تمہارے پر بڑی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں ۔ ان کو کیسے اٹھا سکو گے۔

ابتدائی تعلیم اور گھوڑے سے گِرنا

تعلیم کی ابتداء پرائمری سکول سے شروع ہوئی۔ پہلی کلاس سے ہی سکول کے لئے گھوڑے پر سوار ہو کرجاتا تھا۔ایک دن اسی طرح گھوڑے پر سوار سکول جا رہا تھا۔ سکول سے چند گز کے فاصلہ پر ایک مکان زیر تعمیر تھا۔ جس کے لئے اینٹوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ لڑکوں نے گھوڑے کے سامنے اپنی تختیاں ہلا کر شور مچایا جس سے گھوڑا بدِک گیا اور سرپٹ دوڑا عین اس جگہ جہاں اینٹیں تھیں گھوڑے نے یکلخت راستہ بدلا اور میں کاٹھی سے پھسل کر اینٹوں کے ڈھیر پر جا گرا اور بے ہوش ہوگیا۔ سر پر شدید چوٹیں آئیں ۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا تھا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ ابا جان نے بڑے ماموں جان حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ کو آدمی بھیج کر قادیان بلوایا۔ میں صحن میں ایک بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ کچھ نظر نہ آتا تھا۔ ابا جان نے ماموں جان سے پوچھا کہ کیا اس کی بینائی واپس آ جائے گی۔ ان کا جواب تھا کہ ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے چند روز دوائیاں دے کر دیکھ لیتے ہیں ۔ جب یہ گفتگو ہو رہی تھی اس وقت مجھے کچھ ہوش آ چکی تھی۔ یہ سن کر میں نے رونا شروع کر دیا۔ اس وقت اباجان نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ گھبراؤ نہیں ۔ شفا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے چند دن بعد ہی میں صحتیاب ہو گیا۔ اس حادثہ کے بعد یہ نہیں ہوا کہ مجھے گھوڑے پر سوار ہو کر سکول جانے سے منع کر دیا ہو بلکہ پہلے کی طرح میں گھوڑے پر سوار ہو کر ہی سکول جاتا تھا تاکہ کسی قسم کی بزدلی پیدا نہ ہو کسی شاعر نے خوب کہا ہے۔ ؎

گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے

ہائی سکول کی پرائمری کی چار کلاسیں مکمل کرنے کے بعد آپؓ نے مجھے مدرسہ احمدیہ میں داخل کروا دیا۔ مدرسہ احمدیہ میں انگریزی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایک دن کھانے پر بیٹھے ہوئے انگریزی اخبار “سول اینڈ ملٹری گزٹ” پڑھتے ہوئے مجھے کہا کہ انگریزی زبان پر عبور بھی ضروری ہے۔ تم کو کھیلوں میں دلچسپی ہے آج سے تم مجھ سے اخبار لے لیا کرو اس کے جس صفحہ پر کھیلوں کی خبریں ہوتی ہیں ۔ وہ پڑھنا شروع کرو اور پھر آہستہ آہستہ اخبار کی باقی خبریں بھی پڑھنی شروع کر دینا۔ مجھ سے ہر روزسوال کرتے تھے کہ آج کے اخبار میں کون کون سی کھیلوں کا ذکر ہے۔اس کاکیا نتیجہ نکلا۔ کرکٹ کا میچ تھا تو کس نے زیادہ رنز بنائے۔ کس باؤلر نے زیادہ وکٹیں لیں ۔ ہاکی کے میچ میں کس کس نے گول کئے وغیرہ ۔چند ماہ میں ہی آپ کو تسلی ہو گئی کہ میں اخبار اچھی طرح پڑھ لیتا ہوں اورسمجھ لیتا ہوں۔

میری پسند کا خیال

ایک دن فرمانے لگے کہ تمہیں کون سی ناولیں پڑھنے کا شوق ہے۔میں نے کہا جاسوسی کی۔یہ سن کر آپ نے اپنے ذاتی لائبریرین جن کا نام یحییٰ خان تھا کو بلایا اور ان سے کہا کہ مبارک آپ سے اپنی پسند کی کتابیں لے آیا کرے گا اور پڑھ کر واپس کر دیا کرے گا۔ آپؓ کی لائبریری میں سب علوم کی کتب موجود تھیں۔ جوں جوں انگریزی زبان میں ترقی کرتا گیا۔ مختلف علوم کی کتب پڑھنی شروع کر دیں۔ میری پسند کے مضمون تاریخ ، پولیٹیکل سائنس اور فلاسفی تھے۔

دریائے بیاس پر شکار

ہر سال جلسہ سالانہ کے بعد آپ دو اڑھائی ہفتہ کے لئے بیاس دریا پر شکار کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ جلسہ سالانہ کی مصروفیات جو روزانہ 19گھنٹے سے کم نہ ہوتی تھیں کا تقاضہ تھا کہ جلسہ کے بعد کچھ آرام اور صحت مند تفریح بھی ہو جائے۔ ایک دن آپ کی طبیعت کچھ خراب تھی۔ آپ نے ڈاکٹر حشمت اللہ کو کہا کہ میں آج دریا پر نہ جا سکوں گا آپ مبارک کو شکار کے لئے لے جائیں ۔ ہم دریا پر پہنچے کشتی میں سوار تھے کہ ہمارے اوپر سے دو “ مگ” (بڑی مرغابی) اڑتے ہوئے جا رہے تھے۔ میںنے ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ اگر آپ ان دونوں کو گرا لیں تو میں آپ کو ایک روپیہ انعام دوں گا ۔ ڈاکٹر صاحب نے فائر کیا اور وہ دونوں نیچے آ گرے۔ شام کو واپس گھر آئے میں تو ایک روپیہ کا وعدہ بھول گیا تھا مگر ڈاکٹر صاحب بھولنے والے نہ تھے۔ دو تین دن کے بعد ابا جان کو کہا کہ میاں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر میں قاز گرا لوں تو مجھے ایک روپیہ انعام دیں گے۔ انہوں نے ابھی تک مجھے روپیہ نہیں دیا جب آپ گھر کے اندر تشریف لائے تو مجھے بلا کر فرمایاکہ تم نے ڈاکٹر صاحب سے جو وعدہ کیا تھا پورا نہیں کیا۔ یہ جائز نہیں ۔ یا وعدہ نہ کرو یا پھر اس کو پوراکرو۔ اسی وقت اپنی جیب سے ایک روپیہ نکال کر مجھے دیا کہ ابھی جا کر ڈاکٹر صاحب کو یہ دے دو۔

سفر میں ساتھ ساتھ

جیسا کہ شروع میں ہی لکھ چکا ہوں کہ ابا جان نے ہر سفر میں مجھے اپنے ساتھ رکھا تھا۔ مولوی فاضل کے امتحان مارچ میں ہوتے تھے۔میں نے امتحان دینا تھا اور مجھے خوف تھا کہ کہیں مجھے…شکار پر ساتھ نہ لے جائیں ۔ا متحان قریب ہے اس طرح امتحان کی تیاری پر برا اثر پڑے گا۔ آپؓ نے مجھے ساتھ جانے کے لئے نہیں کہا۔ مجھے تسلی ہو گئی۔ لیکن آپؓ نے پھیرو چیچی ( ایک گاؤں تھا جو تقریباً سارے کاسارا احمدیوں کا تھا۔ اباجان اور قافلہ کی رہائش کے لئے ان دنوں سکول کو بند کر دیا جاتا تھا اور وہیں کچے کمروں میں آپ کا اور گھر والوں کا قیام ہوتا تھا) پہنچنے کے دوسرے روز ہی ایک ملازم کے ہاتھ خط بھجوایا۔ میں نے کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ میں تمہارے لئے تانگہ بھجوا رہا ہوں۔ پہریدار بھی ساتھ ہوگا تم فوراً روانہ ہو جانا۔ یہ پڑھ کر مجھے بڑی پریشانی ہوئی کہ امتحان قریب ہے۔ شکار پر بلا رہے ہیں ۔ میرے امتحان پر برا اثر پڑے گا۔ بہرحال حکم تھا تعمیل تو کرنی ہی تھی۔ میں نے اپنے بکس میں ضروری کتب رکھ لیں۔ ہم پھیرو چیچی شام کے وقت پہنچے۔میں اندر گیا سلام کیا تو مجھے دیکھ کر پہچان گئے کہ ان دنوں مجھے بلانا اس کو اچھا نہیں لگا۔ ابھی میں کھڑا ہی تھا کہ فرمانے لگے چلو میں تمہیں تمہارا خیمہ دکھا دوں۔جہاں تم نے قیام کرنا ہے۔ خیمہ کا پردہ اٹھا کر مجھے کہا کہ دیکھ لو کوئی چیزرہ تو نہیں گئی؟سب کچھ تھا پلنگ پر مکمل بستر بچھا ہواتھا اور ایک میز ایک کرسی۔ مٹی کے تیل کا وہ لیمپ جس میں دو بتیاں ہوتی ہیں۔ انگیٹھی جس میں کوئلے دھک رہے تھے۔ گویا سب آرام کے سامان موجود تھے۔ یہ دکھا کر آپ واپس تشریف لے گئے۔ مجھے تسلی ہو گئی کہ کوئی فکر نہیں آرام سے میں امتحان کی تیاری کر سکوں گا۔رات اڑھائی بجے تک میں پڑھتا رہا۔ صبح نماز کے لئے جگانے کے لئے عبدالاحد خان صاحب آئے۔ نماز سے فارغ ہو کر ناشتہ کیا۔ ناشتہ ختم کرنے کے بعد فرمایا کہ اب شکار کے کپڑے پہن لو شکار پر جانا ہے۔ دریا پر شکار کے لئے ایک چھوٹی کشتی جس میں دو یا زیادہ سے زیادہ تین آدمی بیٹھ سکتے تھے۔ یہ شکاریوں کے لئے خاص طور پر بنوائی جاتی تھی۔ ابا جان کے ساتھ میں اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بیٹھے۔ میں تو کشتی میں لیٹ کر سو گیا ۔ جب دریا میں بیٹھی ہوئی مرغابیاں فائرنگ رینج میں آ گئیں تو ڈاکٹر صاحب نے مجھے جگانے کی کوشش کی تو ابا جان نے فرمایا کہ ساری رات پڑھتا رہا ہے اس کو نہ جگائیں ۔ ظاہر ہے جو خود بھی رات کا بیشتر حصہ جاگتا رہا ہو وہی کہہ سکتا تھا۔ دراصل ابا جان رات کو دفتری کام کرتے تھے ڈاک قادیان سے روزانہ آتی تھی۔ دن کو اگر شکار کے لئے تشریف لے جاتے تو رات کا بیشتر حصہ جماعتی کام میں صرف ہوتا۔

یونیورسٹی میں اوّل

احمدیہ سکول کی آخری کلاس میں مولوی فاضل (انگریزی میں آنرز ان عربک کہا جاتا تھا) تھی۔ جو یونیورسٹی کا امتحان ہوتا تھا۔ میں اس امتحان میں یونیورسٹی میں اوّل نمبر پر آیا تھا۔ نتیجہ کے اعلان سے قبل ہی اباجان پالم پور پہاڑ پر تشریف لے گئے تھے۔ ابا جان نے ایک کارکن کو ہدایت دی ہوئی تھی کہ نتیجہ کااعلان ہوتے ہی اس کی اطلاع آپ کو دی جائے۔ میرے یونیورسٹی میں اوّل آنے پر آپ بہت خوش تھے۔ اس خوشی میں آپ نے فیصلہ کیا کہ اگلے دن ایک پکنک کی جائے جو پالم پور سے چند میل کے فاصلے پر دیان کنڈ جو پہاڑ کی چوٹی ہے وہاں کی جائے گی اور میری طرف سے جملہ عملہ اور جو بھی مہمان آئے ہوئے ہوں دعوت میں شریک ہوں گے۔ میںتو عشاء کی نماز کے بعد سو گیا تھا۔ صبح کے وقت میری امی جان نے مجھے بتایا کہ تمہارے ابا تقریباًساری رات ہی پکنک کے لئے کھانے پکوانے اور نگرانی میں لگے رہے ہیں اور ایک میٹھا کھانا خود بھی پکایا ہے۔ مجھے یہ سن کر بےحد خوشی ہوئی اور میں نے عہد کیا کہ ایسے باپ کی مرضی کے خلاف میں کبھی کوئی حرکت نہ کروں گا۔ اس پکنک کی ایک اور بات بھی قارئین کی دلچسپی کا موجب ہوگی۔ دوپہر کے کھانے کے بعد ظہر اور عصر کی نمازوں سے فارغ ہو کر ابا جان نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس خوشی میں ایک مشاعرہ بھی منعقد کیا جائے گا جس میں ہر فرد۔ پرائیویٹ سیکرٹری کا عملہ۔ پہریدار وغیرہ سب شریک ہوںگے۔ اور اپنی اپنی نظمیں سنائیں گے۔ اور فرمایا میں بھی شریک ہوں گا اور جس کی نظم سب سے اچھی ہوگی اس کو میں انعام دوں گا۔ اس کے لئے دو جج مقرر فرمائے۔ ایک جج عبدالرحیم درد صاحب اور دوسرے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب۔ ابا جان نے وضاحت کر دی کہ انعامی مقابلہ میں مجھے شامل نہ کیا جائے۔ سب ہی نے اپنی اپنی نظم سنائی۔قافلہ کے افرادمیں ایک پٹھان عبدالاحد خان صاحب جو افغانستان کے رہنے والے تھے احمدیت قبول کرنے کے بعد قادیان آ گئے تھے اور ابا جان کے پہریداروں میں سے تھے ابا جان کے فدائی، جاں نثار اور بےحد پیار کرنے والے تھے۔ جب کبھی ابا جان ان کا نام لے کر بلا تے ان کا جواب ہمیشہ “قربانت شوم” ہوتا تھا ۔ انہوں نے معذرت کی میں تو اردو بھی ٹھیک بول نہیں سکتا۔ شعر کیسے کہہ سکتا ہوں۔ابا جان کے اصرار پر کہ آج کوئی استثناء نہیں ہوگا اس پر انہوں نے یہ شعر کہے:؂

’’ڈپٹی کمشنر قد آور چاہئے اور حضرت کا غلامِ در چاہئے
کس نے پہنایا ہے اس کو کوٹ پتلون۔ اس کو تو پالانِ خر چاہئے‘‘

ججوں کا فیصلہ خان صاحب کے حق میں تھا۔چنانچہ ان کو اباجان نے نقدی کی صورت میں انعام دیا (یہ بھی لکھ دوں کہ ان دنوں ڈپٹی کمشنر بہت چھوٹے قد کا اور موٹا انگریز تھا۔

گرمیوں کے موسم میں آپؓ دو تین ماہ کے لئے پہاڑ پر ضرور جاتے۔ سیروسیاحت کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ گرمی میں اتنا کام نہیں کیا جا سکتا۔ جتنا ٹھنڈے مقام پر۔ لکھتے لکھتے ایک واقعہ یاد آ گیا ۔ ایک مربی جن کو ملک سے باہر بھجوانا تھا روانگی سے قبل ہدایات لینے کے لئے ڈلہوزی آئے۔ان کو رخصت کرنے کے لئے ابا جان بسوں کے اڈے تک تشریف لائے۔ دعا سے قبل ابا جان کی نظر اس وقت کے ناظر صاحب تعلیم و تربیت کے ایک قریبی عزیز پر پڑی جو شیو کئے ہوئے تھے اور امام وقت کی موجودگی میں ہنسی مذاق میں مصروف تھے۔ آپ نے ان ناظر صاحب کی طرف منہ کر کے فرمایا کہ تعلیم و تربیت کیا صرف دوسروں کے لئے ہے؟

کھیلوں میں دلچسپی

ابا جان نے مجھے کسی کھیل سے بھی منع نہیں فرمایا۔ قادیان میں ہاکی۔ کرکٹ۔ والی بال کھیلے جاتے تھے۔ کرکٹ تو عموماً صرف جمعہ کے دن یا جمعہ کے علاوہ چھٹی کے دن کھیلی جاتی تھی۔ کرکٹ کے لئے ہائی سکول اور احمدیہ سکول کی مشترکہ ٹیم تھی اور دوسری ٹیم دونوں سکولوں کے علاوہ جو بھی کرکٹ کھیلنا جانتے تھے ان کی ہوتی تھی۔ بڑوں کی ٹیم کے کپتان ذوالفقار علی خان صاحب تھے (ذوالفقار علی خان صاحب تحریک آزادی کے مشہور لیڈرز علی برادران کے بڑے بھائی تھے) خان صاحب نے علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کی تھی اور یونیورسٹی کی کرکٹ ٹیم کے کیپٹن بھی رہے تھے (ٹکسالی اردو بولنے والے بزر گ جواحمدیت قبول کرنے کے بعد قادیان میں مستقل رہائش رکھتے تھے اور صدر انجمن احمدیہ میں ناظر تھے) باوجود عمر کے فاصلہ کے آپ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے بچوں سے بہت پیارکرتے تھے۔ اور بے تکلف تھے۔ اس لئے ہم بھی کرکٹ کے میچ کے درمیان بعض دفعہ خان صاحب سے مذاق کر لیتے تھے۔جب بھی خان صاحب آؤٹ ہوتے ہم مذاق کرتے کہ خان صاحب آپ تو اتنے اچھے کھلاڑی ہیں آپ کیسے آؤٹ ہوگئے۔ خان صاحب کا ہمیشہ یہ جواب ہوتا تھا کہ ’’میاں گیند پچک گئی اس لئے آؤٹ ہوا۔‘‘

برسات کے موسم میں اور سردیوں کے دنوں میں بھی کبھی بارش ہوجاتی تو فٹ بال ، کرکٹ ، ہاکی اور والی بال وغیرہ تو نہیں کھیل سکتے تھے۔ مگر عصر کے بعد نوجوانوں کے لئے مختلف کھیل کھیلنا لازمی تھا۔مثلاً کبڈی۔ میرو ڈبہ وغیرہ عصر کی نماز کے بعد سے مغرب کی نماز تک بہرحال کسی نہ کسی کھیل میں نوجوانوں کو مصروف رکھاجاتا۔ اس طرح نوجوانوں میں آوارگی کا رجحان بالکل نہ تھا۔

حضرت ابا جان نے احمدی نوجوانوں کی جسمانی نشوونما کے لئے ایک احمدیہ ٹورنامنٹ کاانعقاد بھی فرمایا تھا۔ جو تین روز کیلئے ہوتا تھا۔ احمدیہ سکول اور ہائی سکول کی ٹیموں کے درمیان میچ ہوتے تھے۔ احمدیہ سکول کی ہاکی ٹیم کا میں کپتان تھا۔ ان کھیلوں میں ہاکی، فٹ بال، والی بال ،رسہ کشی اور دوڑیں شامل تھیں۔ آپ خود بھی میچ دیکھنے تشریف لاتے۔ اس طرح دونوں ٹیموں میں مقابلہ بڑے جوش سے ہوتا۔

ٹورنامنٹ کے اختتام پر انعامات بھی آپ خود تقسیم فرماتے۔ کھیلوں کے مقابلوںکے علاوہ گرمیوں میںنہر کا ٹرپ بھی ہوتا۔ مجھے بھی آپ نے خود تیرنا سکھایا ۔ نہر پر تیراکی کے مقابلے ہوتے۔ جن میں خودبھی شریک ہوتے۔ ایک مرتبہ آ پ نے اعلان فرمایاکہ آج مقابلہ ہوگا کہ کون سب سے دور تک نہر میں بغیر زمین پر پیر لگائے تیرے گا۔ ایک سو کے قریب نوجوان اور بڑے بھی مقابلہ میں نہر میں اُترے جو شامل نہ ہوئے تھے وہ کنارے کنارے ساتھ چلتے جا رہے تھے۔جو تھک جاتے تھے نہر سے باہر آ جاتے تھے۔ مگر ابا جان لگاتار تیرے جا رہے تھے۔ آپ جب نہر سے باہر نکلے ہیں۔تو صرف آپ ہی تھے۔ جو تقریباً ایک میل تک بغیر زمین پر پاؤں لگائے تیرتے رہے تھے۔ ان کھیلوں کا مقصد دراصل جماعت کے نوجوانوں کی جسمانی قوت کومضبوط کرنا تھا تا وہ بڑے ہو کر ہر قسم کی سختی برداشت کرنے کے قابل ہوں جسمانی قوت اور دینی قوت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

ایک دلچسپ واقعہ

ایک روز آپؓ نے مجھے بلا کر فرمایا کہ ہاکی کے ایک میچ کا انتظام کرو۔ ایک ٹیم مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ہواور دوسری طرف مغل کھلاڑیوں پر۔ حکم کی تعمیل تو کرنی ہی تھی۔ مگر مجھے گیارہ ہاکی کھیل سکنے والے مغل نوجوان نظر نہیں آتے تھے۔ ہم چار پانچ ایسے تھے جو ہاکی اچھی کھیل سکتے تھے۔ باقی صرف خانہ پوری تھی ۔ میچ دیکھنے کے لئے ابا جان خود تشریف لائے۔ گراؤنڈ کے ایک طرف دونوں سکولوں کے طلباء اپنی ٹیم کو شاباش دینے کے لئے موجود تھے اور ہماری طرف ہمارے خاندان کے بزرگ اور دیگر احمدی دوست۔ میچ شروع ہوا۔ پہلے ہاف میں ہم تین گول سے ہار رہے تھے میں مغل ٹیم کا کپتان تھا۔ اس وقفہ میں میں نے اپنے عزیزوں سے کہا کہ مجھے تو بڑی شرم آرہی ہے۔ اب یوں کرتے ہیں کہ فارورڈ اور بیک دونوں پوزیشنیں ہم چار پانچ سنبھال لیتے ہیں۔ چنانچہ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم نے دوسرے ہاف میں چار گول کر دئیے۔ اس طرح ہم ایک گول سے جیت گئے۔ یہاںیہ ذکر بھی کردوں کہ دونوں سکولوں کے طلباء اپنی ٹیم کو شاباش اورنعرے لگانے میں پورا زور صرف کر رہے تھے۔ اس وقت عجیب نظارہ تھا کہ امام جماعت بیٹھے ہیں ان کے سامنے دوسری ٹیم کے حمایتی شور مچا رہے ہیں مگر اباجان، خاندان کے افراد اور دیگر دوستوں نے برا نہیں منایا۔ کھیل کھیل ہی تھی۔

ہاکی ٹیم کے کپتان

قادیان کی ہاکی ٹیم پنجاب کی بہترین ٹیم سمجھی جاتی تھی ایک مرتبہ ہاکی کی ٹیم ملک کے مختلف شہروں میں ہاکی میچ کھیلنے کے لئے تجویز کی گئی۔ اس کا بھی میں کیپٹن تھا۔پہلا میچ خالصہ کالج امرتسر کی ٹیم سے تھا۔ اس کے بعد متعدد شہروں میں جہاں ہاکی کی اچھی ٹیمیں تھیں میچ کھیلنے کا موقع ملا۔ ہم نے سوائے لدھیانہ کے سب میچ جیتے، میچ انگریزی فوج کے ٹریننگ سنٹر میں تھا۔ سارے انسٹرکٹر انگریز تھے۔ افسر اعلیٰ بھی انگریز جنرل تھاان دنوں اس جگہ “دھیان چند” نامی ایک فوجی ہندوستان کا ہاکی کا بہترین کھلاڑی تھا۔ کہتے ہیں کہ دھیان چند سے بہتر کھلاڑی کبھی پیدا نہیں ہوا یہاں ہم پانچ گول سے ہارے۔ سب انگریز افسران میچ دیکھنے گراؤنڈمیں موجود تھے ان کے جنرل کمانڈنگ آفیسر نے مجھ سے خواہش کی کہ آپ ایک رات یہاں ٹھہر جائیں ۔ اگلے دن پھر ایک میچ ہو جائے۔ آپ کی ٹیم جیسی اعلیٰ ہاکی میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ میں ایک مرتبہ پھر آپ کی ٹیم کوکھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہمارا یہ ٹور امرتسر سے شروع اور آخری میچ ہمارا علی گڑھ یونیورسٹی سے تھا۔ جیسا کہ لکھ چکا ہوں ایک میچ کے سوا ہم نے سب میچ جیتے۔ ہندوستان کے سب انگریزی اخباروں میں ہماری ٹیم کی تعریف لکھی گئی۔ ہندوستان کے اکثر اخباروں نے جلی سرخیوں میں ہماری ٹیم کی تعریف کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ یہ عجیب لوگ ہیں دن میں ہاکی کے میچ کھیلتے ہیں اور رات کو جلسے کر کے دعوت الی اللہ کرتے ہیں۔ (سب اخباروں کے کٹنگ میں نے رکھے ہوئے تھے جو تقسیم ملک کے وقت قادیان میں رہ گئے)

یہ ہے تمہارا ریکٹ

قادیان کے قریب ایک گاؤں جس کا نام ’’نواں پنڈ‘‘ تھا۔ ہماری جدی جائیداد میں سے تھا۔ ابا جان نے وہاں ٹینس کورٹ بنوایا ہوا تھا۔ عصر کے بعد وہاں ٹینس کھیلنے جاتے اور مجھے ساتھ لے کر جاتے تھے کبھی بھی ناغہ نہیں ہوا۔ پندرہ بیس منٹ کے لئے مجھے ریکٹ دے دیتے کہ اب تم کھیلو جس ریکٹ سے آپ کھیلتے تھے وہ انگلستان کا بنا ہوا ’’ڈوھرٹی ریکٹ‘‘ تھا۔ جو اس زمانہ میں سب سے اچھا سمجھا جاتا تھا۔ انہی دنوں ابا جان نے ایک ڈوھرٹی ریکٹ لاہور سے منگوا کر میرے بڑے بھائی مرزا ناصر احمد صاحب کو دیا (میرے بھائی اباجان کے ساتھ کبھی ٹینس کھیلنے کے لئے نہیں گئے تھے۔ آگے پیچھے چلے جاتے ہوں گے) مجھے جب اس کا علم ہوا تو میں نے ایک ملازمہ کے ہاتھ ابا جان کو خط لکھ کر بھجوایا کہ آپ نے بھائی کو ریکٹ منگوا کر دیا ہے مجھے نہیں دیا۔ مجھے حدیث یاد ہے جس میں ذکر ہے کہ کسی صحابی ؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے اپنے بڑے بیٹے کو گھوڑا لے کر دیا ہے۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے استفسار فرمایا کہ دوسرے بیٹے کو بھی دیا ہے؟ صحابیؓ کے جواب دینے پر کہ صرف بڑے کو دیا ہے یہ سن کر آپﷺ نے اس صحابیؓ کو فرمایا کہ یا تو دوسرے بیٹے کو بھی خرید کر دو یا جس کو دیا ہے اس سے بھی گھوڑا واپس لے لو۔ یہ نا انصافی ہے۔ ملازمہ واپس آئی تو میںنے پوچھا کہ ابا جان نے کیا جواب دیا ہے۔ وہ کہنے لگی کہ آپ نے خط پڑھ کر رکھ لیا ہے کہا کچھ نہیں۔ اگلے ہی دن آپ دفتر سے گھر واپس آ رہے تھے اور ہاتھ میں ایک ڈوھرٹی ریکٹ پکڑا ہوا تھا۔ میرے پاس آ کر مجھے ریکٹ دے کر کہا کہ لو یہ ہے تمہارا ریکٹ۔ میں نے لاہور آدمی بھجوا کرتمہارے لئے منگوایا ہے۔ کیا شان تھی میرے اس محسن باپ کی۔

جماعتی اموال کی حفاظت

گرمیوں کے موسم میں زیادہ تر ڈلہوزی پہاڑ پر جاتے تھے۔ ڈلہوزی میں ایک چھاؤنی بھی تھی جو انگریز فوجیوں کے لئے تھی۔ ایک مرتبہ ایک انگریز جنرل نے پرائیویٹ سیکرٹری کے نام خط بھجوایا کہ میں امام جماعت سے ملنا چاہتا ہوں اگر وہ منظور کریں تو مجھے دن اور وقت سے مطلع کردیں تا میں وقت پر پہنچ جاؤں۔ ابا جان نے پرائیویٹ سیکرٹری کو ہدایت دے دی کہ ان کو لکھ دیا جائے کہ فلاں دن شام کی چائے میری ساتھ پئیں۔ چائے کے لئے جو کھانے کا سامان تھا وہ ڈلہوزی کے ایک یورپین ہوٹل سے منگوایا تھا۔ اس میں سے کافی بچ گیا ۔ پرائیویٹ سیکرٹری نے وہ ابا جان کو بھجوا دیا جو ابا جان نے اسی کارکن کے ہاتھ واپس بھجوا دیا۔ اور مجھے بلا کر فرمایا کہ پرائیویٹ سیکرٹری کو بلالاؤ ، پرائیویٹ سیکرٹری کو بلا کر ڈانٹا اور کہا کہ یہ جماعت کے روپیہ سے منگوایا گیا تھا آپ کو کیسے جرأت ہوئی مجھے بھجوانے کی۔ جماعت کے روپیہ سے خریدا گیا سامان اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے میں جائز نہیں سمجھتا یہ کارکنوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس واقعہ سے مجھے بھی سمجھا دیا کہ جماعت کے اموال کی حفاظت کرنی ہے اس طرف نظر بھی نہیں کرنی۔

تربیت کی طرف توجہ

مختلف اوقات میں آپ نے میری تربیت کے لئے جو ارشادات فرمائے۔ ان میں غریبوں کی عزت، ان سے ہمدردی، حسب توفیق ان کی مدد ، یتامیٰ سے برابری کا سلوک، جھوٹ سے پرہیز نیز یہ بھی فرمایا کہ غریب انسان بھی اگر تمہیں ملنے کے لئے آئے تو اس کو کھڑے ہو کر ملنا ہے۔ ہر ایک کو خواہ اس کو جانتے ہو یا نہیں جانتے سلام کہنے میں پہل کرنے کی کوشش کرتے رہنا ۔ یہ آپس میں پیار ومحبت کا بہت مؤثر ذریعہ ہے۔

ایک مرتبہ آپ نے ہم تین چار بھائی بہن جو شعور کی عمر کو پہنچ چکے تھے کو عشاء کی نماز کے بعد آپ کے پاس آنے کا حکم دیا اور ہمیں ایک کہانی سنانی شروع کی جو کئی ماہ تک جاری رہی۔ کہانی کا لفظ تو دراصل بچوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے تھا۔ دراصل یہ کہانی کلیۃً تربیتی پہلو لئے ہوئے تھی۔ بچوں کی توجہ کے لئے آپ کا دینی تعلیم کے مختلف اخلاقی و تربیتی پہلوؤں کو کہانی کا رنگ دینا ہماری دلچسپی قائم رکھنے کے لئے تھا۔ جس سے دینی تعلیم کے مختلف پہلو ایسے اجاگر ہوئے جو اس عمرمیں کتابیں پڑھنے سے نہ ہو سکتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد آپؓ نے ہدایت فرمائی کہ اب میں عشاء کی نمازکے بعد درس دوں گا۔تم سب بغیر ناغہ کے شامل ہو گے بہت تفصیل کے ساتھ ہمیں اس طرف متوجہ کیا جن میںحسن سلوک ، ادب آداب ،یتامیٰ کی خبر گیری، غریبوں کی خدمت، ماں باپ کی اطاعت ، سچ بولنا، دیانت و امانت کی حفاظت ، چغل خوری اور غیبت سے پرہیز ، بنی نو ع انسان سے ہمدردی اور اخوت ، مہمان نوازی، ہمسایہ کے حقوق، تیمار داری ، ایفائے عہد ، تواضع ،انکسار ، شکر ، عفو ، ایثار ، عدل واحسان ، سوال کرنے کی ممانعت، غرض انسانی زندگی اور ہماری ذمہ داریوں کے تمام پہلوؤںپر روشنی ڈالی۔ ساتھ کے ساتھ ہمیں ہدایت فرماتے کہ ان باتوں کو بھی نہ بھولنا اور ہمیشہ ان پر عمل کرنا۔ غرض انسانی معاشرہ کے مختلف پہلوؤں پر آپ نے ایسے انداز میں روشنی ڈالی جو میرے مستقبل کے لئے مشعل راہ تھی اور میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا ۔ کاش ہماری جماعت کے ماں باپ اپنے بچوں کی تربیت ایسے رنگ میں کریں جو دنیا کے لئے ایک نمونہ ہو۔

(الفضل 5جنوری 1995ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ