• 25 اپریل, 2024

پس ایمان کی سلامتی بھی خدا تعالیٰ کی رحمت سے ملتی ہے، خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہوتی ہے۔ اس لئے ایک عاجز بندہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی مدد کا طلبگار رہتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں اور ہم اس یقین پر اور ایمان پر قائم ہیں کہ یقینا آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں کیونکہ ہر آن اللہ تعالیٰ کی تائیدات و نصرت ہم آپ کے شاملِ حال دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو آپ سے وعدے کئے اُنہیں ہم نے پورا ہوتے دیکھا۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا آپ سے سلوک ہمارے ایمان اور یقین میں مزید پختگی پیدا کرتا ہے۔ بلکہ آپ کے وصال کے بعد بھی جن باتوں کی آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر اپنی جماعت کو اطلاع دی اور ہمیں بتایاہم اُن باتوں کو بھی پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے نبوت کا مقام عطا فرمایا۔ لیکن ایسی نبوت جو غیر تشریعی نبوت ہے، ظلّی نبوت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّتی ہونے کی ایک معراج ہے۔ یہ مقام اللہ تعالیٰ نے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوعطا فرمایا ہے کہ آپ کا اُمّتی آپ کے انتہائی عشق اور غلامی کی وجہ سے نبوت کا اعزاز پا گیا۔ لیکن افسوس ہے کہ ہمارے مخالف مسلمانوں کے دوسرے فرقے اپنے علماء کے غلط رنگ میں اس مقامِ نبوت کی تشریح کی وجہ سے احمدیوں کے خلاف جب موقع ملے، جہاں موقع ملے، نہ صرف آوازیں اُٹھاتے رہتے ہیں بلکہ جس حد تک تکلیف پہنچا سکتے ہیں پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس مخالفت میں بعض اوقات تمام حدوں کو پار کر جاتے ہیں۔ بہر حال جماعتیں جب ترقی کرتی ہیں، پھیلتی ہیں تو اس ترقی کو دیکھ کر مخالفین کھلی دشمنیاں کر کے اپنی طاقت کے استعمال سے اور اُن سہاروں کے استعمال سے جن کو وہ بہت طاقتور اور قدرت والا سمجھتے ہیں، اِس ترقی کو روکنے کی ہر طرح کوشش کرتے ہیں۔ اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اندر ہی اندر مختلف طریقوں سے کمزور ایمان والوں کو کم تربیت یافتہ کو یا کچے ذہنوں کو جو جوانی کی عمر میں پہنچنے والے ہوتے ہیں یا جوانی کی عمر میں قدم رکھا ہوا ہوتا ہے، بڑی چالاکی سے اپنی باتوں کے جال میں پھنسانے کی کوشش کر کے انہیں حق سے دور لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے ہر احمدی کو ایک تو اپنے دینی علم میں اضافے کی کوشش کرنی چاہئے، اُس کو پتہ ہونا چاہئے مَیں کیا ہوں؟ کون ہوں؟ اور کیوں ہوں؟ تا کہ ایسے چھپے دشمنوں کا جواب دے سکیں۔ دوسرے سب سے بڑھ کر یہ کہ ایمان کی سلامتی کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے کہ اُس کے فضل کے بغیر کوئی بھی کام نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایمان کی مضبوطی کے لئے ہر قسم کے ٹیڑھے پن سے بچنے کے لئے یہ دعا بھی سکھائی ہے کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ (آل عمران: 9) کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں ہدایت دے، ہمیں ہدایت دینے کے بعد کبھی ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے اور اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ یقینا تُو بہت عطا کرنے والا ہے۔

پس ایمان کی سلامتی بھی خدا تعالیٰ کی رحمت سے ملتی ہے، خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہوتی ہے۔ اس لئے ایک عاجز بندہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی مدد کا طلبگار رہتا ہے اور رہنا چاہئے۔ بعض لوگ بعض دفعہ مجھے خط بھی لکھ دیتے ہیں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی نہ کہو یا لوگوں کے سامنے اس کا اظہار نہ کیا جائے تو کیا حرج ہے؟ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے ہی اس قسم کی باتیں ہوتی تھیں کہ اس سے جو مخالفت ہے اس میں کمی آ جائے گی۔ اِس لئے اگریہ لفظ نہ استعمال کیا جائے تو کیا حرج ہے؟

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ: ’’جو امور سماوی ہوتے ہیں اُن کے بیان کرنے میں ڈرنا نہیں چاہئے‘‘ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا جو بیان ہو گیا اور جو باتیں خدا تعالیٰ نے کہہ دیں، اُن کو کہنے سے ڈرنا نہیں چاہئے) ’’اور کسی قسم کا خوف کرنا اہلِ حق کا قاعدہ نہیں۔ صحابہ کرام کے طرزِ عمل پر نظر کرو۔ وہ بادشاہوں کے درباروں میں گئے اور جو کچھ اُن کا عقیدہ تھا وہ صاف صاف کہہ دیا اور حق کہنے سے ذرا نہیں جھجکے، جبھی تو لَایَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآ ئِمٍ (المائدہ: 55) کے مصداق ہوئے‘‘۔ فرمایا ’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسول ہیں‘‘۔ فرمایا ’’خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بڑھ کر ہو اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اُسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے۔ پس ہم نبی ہیں۔ ہاں یہ نبوت تشریعی نہیں جو کتاب اللہ کو منسوخ کرے‘‘۔ (کوئی نئی شریعت والی نبوت نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کو منسوخ کر رہی ہو اور نئی کتاب لائے) ’’ایسے دعویٰ کو تو ہم کفر سمجھتے ہیں‘‘۔ فرمایا ’’بھلا اگر ہم نبی نہ کہلائیں تو اس کے لئے اور کونسا امتیازی لفظ ہے جو دوسرے ملہموں سے ممتاز کرے؟‘‘۔

(ملفوظات جلدنمبر5 صفحہ447,446 مطبوعہ ربوہ)

پس فرمایا: یہ الہام تو دوسروں کو بھی ہو جاتے ہیں لیکن کثرت سے جو الہام ہوتے ہیں، کثرت سے اللہ تعالیٰ جو باتیں کرتا ہے تو یہی نبوت کامقام ہے اور اس تعریف کی رو سے مَیں نبی ہوں۔ ورنہ الہام تو اور وں کو بھی ہو جاتے ہیں۔ پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک کھلا اور واضح اعلان ہے اور یہ عین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ہے کہ حضرت مسیح موعودنبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی نبی نہیں۔

(سنن ابی داود کتاب الملاحم باب خروج الدجال حدیث نمبر4324)

پس جب مسیح موعود مانا ہے تو نبی بھی ماننا ضروری ہے۔ باقی رہی مخالفتیں، تووہ الٰہی جماعتوں کی ہوتی ہیں اور ہوتی رہیں گی اور یہی الٰہی جماعتوں کی نشانی ہے کہ اُن کی مخالفتیں ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے جابر سلطان اور اُن کے جتھے مقابل پر کھڑے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ترقی کرتی چلی جاتی ہے اور آخر ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ تمام جتھے ختم ہو جاتے ہیں، تمام طاقتیں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہی غالب آتی ہے کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ: 22) کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ مَیں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے رسول کے خلاف تدبیریں کرنے والے تمام متکبر خود اپنی ہی تدبیروں کے جال میں پھنس جائیں گے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے جتھے اور ہمارے اوپر ہمارے دنیاوی آقاؤں کی چھت ہمیں نبی اور اس کی جماعت کے خلاف تدبیروں میں کامیاب کر دے گی تو یہ اُن کی بھول ہے۔ آخری کامیابی یقینا الٰہی جماعتوں کی ہی ہوتی ہے۔ سازشوں اور جھوٹی سکیمیں بنانے میں چاہے جتنے بھی اُن کے ذہن تیز ہوں، وہ خدا تعالیٰ کی تدبیروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی مومنوں کو یہ کہہ کر تسلی فرمائی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک اصولی فیصلہ اور عمل ہے کہ وَ لَا یَحِیۡقُ الۡمَکۡرُ السَّیِّیٴُ اِلَّا بِاَہۡلِہٖٖ (فاطر: 44) کہ گندی اور ناپاک تدبیریں تو ان تدبیر کرنے والوں کے علاوہ کسی کو گھیرے میں نہیں لیتیں۔ یعنی صرف و ہی اُس کے گھیرے میں آ جاتے ہیں۔ بے شک خدا تعالیٰ کے دوسرے قانون کے تحت قربانیوں کا دور بھی چلتا ہے لیکن آخری کامیابی خدا والوں کو ہی ہوا کرتی ہے۔ نبی اور اس کی جماعت کو ہی ہوا کرتی ہے اور اس کے دشمن یقینا سزا کے مورد بنتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ یہ ایسی نہ تبدیل ہونے والی سنت ہے جس نے پہلے بھی دشمن کے بد انجام کے نمونے دکھائے اور آج بھی دشمن کے بد انجام کے نمونے دکھا رہی ہے اور دکھائے گی۔ اس کے بڑی نمونے تو خدا تعالیٰ اپنے وقت پر دکھائے گا جیسا کہ اس دوسری آیت میں ذکر ہے جس کی میں نے تلاوت کی ہے۔ لیکن مومنوں کے ایمان کی مضبوطی کے لئے اللہ تعالیٰ مختلف وقت میں اِن تکبر کرنے والوں اور حق کے مخالفین کی تدبیروں اور کوششوں کی ناکامی کے چھوٹے چھوٹے نظارے دکھاتا رہتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 4؍ مارچ 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مارچ 2021