• 28 جولائی, 2025

حضرت برکت بی بی ؓ صحابیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام

حضرت برکت بی بیؓ صاحبہ ،حضرت صوفی شیخ مولا بخش ؓ صاحب آف لاہور کی اہلیہ اور حضرت شیخ محمد مبارک اسما عیل ؓ صاحب کی والدہ تھیں۔ حضرت صوفی شیخ مولا بخش ؓ صاحب313 صحابہؓ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام میں سے تھے جنہوں نے 7فروری 1892ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلو ٰۃ و السلام کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی (تاریخ ِ احمدیت جلد23، ص643) ۔

ضرت شیخ محمد مبارک اسماعیلؓ صاحب خاکسار کے دادا جان اور حضرت برکت بی بیؓ صاحبہ پڑدادی جان ہیں۔ حضرت برکت بی بیؓ صاحبہ کے حالاتِ زندگی کےبارے میں بےحد مختصر معلومات جماعت کے لٹریچر میں موجود ہیں جو کہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صاحب (جن کی آپ چچی لگتی تھیں) نے اخبار الحکم 1911 کے شمارے میں شائع کی تھیں۔

مضمو ن لکھنے کا مقصد قارئین کےسامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلو ٰۃ والسلام کی ایک مخلص صحابیہ کی سادہ اور روز مرہ زندگی کی ایک جھلک پیش کرنا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے کی خواتین کتنے سخت حالات سے گذریں مگر دعاؤں کے ساتھ صبر اور قناعت کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ دادا جان کو ا پنے ننھیال کے بارے میں اتنی معلومات نہیں تھیں۔ اپنی والدہ ماجدہ کے بارے میں آپ ؓنے اپنی ڈائری میں جو کچھ تحریر کیا ہے اس کو آپ کے الفاظ میں من و عن پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں وضاحت کر دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی یہ ڈائری ہمارے پاس محفوظ ہے ۔

تعارف

دادا جان نے بیان کیا کہ والدہ مرحومہ کا نام برکت بی بی تھا۔ درمیانہ قد کی عورت تھیں۔ رنگ گندمی تھا۔نقش فراخ تھے۔ صورت نہایت حلیم، بردبار تھی۔ لباس نہایت سادہ ہوا کرتا تھا۔ ایک سرخ رنگ کا دوپٹہ ململ کا ،موٹے کپڑےکا کرتا اورسادے کپڑے کی شلوار اکثر زیب تن کیا کرتی تھیں۔ زبان میں مٹھاس تھی۔ جس عورت سے ایک بار ملاقات ہوتی وہی ان سے محبت کرتی تھی اور پھر ملاقات کی خواہش کرتی تھی۔ انہیں کسی سہیلی کے گھر جانے کی عادت نہ تھی۔ سہیلیوں کا دائرہ نہایت محدود تھا۔کم از کم میں نے کبھی انہیں کسی کے گھر جاتے نہ دیکھا۔ ان کی تعلیم صرف قرآنِ کریم ناظرہ پڑھنے تک ہی محدود تھی اور وہ لکھ پڑھ نہیں سکتی تھیں۔

والدہ مرحومہ گاؤں کی رہنے والی سیدھی سادی عورت تھیں اوروالد صاحب کی نہایت فرمانبردار تھیں ۔ والد صاحب کو ریلوے ڈیپارٹمنٹ میں غالبًا پندرہ روپے کی جگہ ملی۔پندرہ روپے اس زمانے میں ایک ایسی رقم تھی جس میں اچھی طرح گذارا ہو سکتا تھا چنانچہ والد صاحب نے دو تین یتیم بھتیجیوں کی بھی پرورش کی اور عرصہ تک انہیں اپنےساتھ رکھا۔ والدہ صاحبہ نے کبھی ان کی موجودگی کا برا نہیں منایا۔ آپؓ والد صاحب کو مخاطب کرتے وقت اسماعیل دے بابا جی کہہ کر بلاتی تھیں۔

صوم و صلوٰۃ کی پابند

آپؓ نماز روزے کی پابند تھیں۔ عام طور پر بیٹھ کر ہی نماز پڑھا کرتی تھیں۔ تلاوت قرآنِ کریم نہایت دھیمی آواز میں کیا کرتی تھیں اور نماز پڑھنے اور تلاوت کرنے کے بعد دعا مانگتیں اور میرے اور میرے بھائیوں کے منہ پر پھونک مار دیتی تھیں اور ذرا بلند آواز سے جو سنی جا سکے دعا کیا کر تیں کہ الہٰی بچوں کو عمر عطا کر، نیک بنا، کسی کا محتاج نہ کرنا اور مجھے ان کے بابا جی کے ہاتھوں اس دنیا سے رخصت کرنا۔ نماز پڑھتے وقت وہ گھونگھٹ نکال لیا کرتیں تھیں ۔ کثرتِ نماز اور نوافل کی ادائیگی کے باعث ماتھے پر نشان بھی تھا۔

دادا جان نے بیان کیا کہ مجھے تپ محرقہ ہوا لیکن یہ یاد نہیں کہ کیسے ہوا اور کتنے روز رہا کیونکہ مجھ پر بے ہوشی کی حالت طاری رہی والدہ صاحبہ نے مجھے بتایا کہ آٹھ نو روز رہا۔اتنا معلوم ہے جب کبھی مجھے تھوڑی سی بھی ہوش آتی تو میں والدہ مرحومہ کو اپنے سرہانے بیٹھے ہوئے دیکھتا۔جب بھی میں آنکھیں کھولتا تو وہ مجھے پیشانی پر بوسہ دیتی ۔اور دعائیں دیتی تھیں۔ اور والد صاحب قریب ہی بوریا پر نماز پڑھتے تھے اور میری صحت یابی کے لئے دعائیں کرتے تھے ۔مجھے یاد ہے کہ میری آنکھیں کھولنے کا آخری سبب یہ تھا کہ بخار تو اتر ہی چکا تھا میں کمزوری کی حالت میں آنکھیں بند کر کے پڑا ہوا تھا۔ اچانک میرے منہ پرقطرے گرے اور میری آنکھیں کھل گئیں۔ معلوم ہوا کہ میری والدہ مرحومہ اس وقت میرے منہ پر ٹکٹکی لگا کر بیٹھی ہوئیں تھیں اور رو رو کر دعا کر رہی تھیں۔ میرےآنکھیں کھولنے پر والدہ مرحومہ نے یہ کہنا شروع کیا ‘‘ میں واری میں صدقے میرے پتّر نے اکھّاں کھول لیاں نے اسمٰعیل دے بابا دیکھو ہن تے اکھّاں کھول لیاں نیں ۔( میں قربان جاؤں میرے بیٹے نے آنکھیں کھول دی ہیں، اسماعیل کے ابّا اب تو آنکھیں کھول لی ہیں)۔ والد صاحب مرحوم نے سلام پھیرا۔ میرے منہ پر پیار سے ہاتھ پھیرا ،چوما اور الحمدللہ کہا۔ والدہ مرحومہ بتایا کرتی تھیں کہ اس بیماری کے دوران میں لگاتار تمہارے پاس ہی بیٹھی رہتی تھی۔یعنی آٹھ نو روز تک آرام نہیں کیا بیٹھے بیٹھے ہی نیند پوری کر لیتی تھی۔

قناعت پسندی

والدہ صاحبہ نہایت غریب اور خاموش طبیعت عورت تھیں۔ قناعت اور صبر ان میں بے انتہا تھا ۔ آپ نے اپنے شوہر ( حضرت صوفی شیخ مولا بخش ؓآف لاہور ) کو اپنی ضروریات کے لئے کبھی تنگ نہیں کیا اور نہ ہی کسی چیز کے لئے بضد ہو کر فرمائش کرتی تھیں بلکہ والد صاحب اپنی بساط کے مطابق جو موٹا کپڑا لا کر دیتے اسے کشادہ دلی سے قبول کرتیں اور دعا دیتیں ۔کھدّر کے رنگے ہوئے کپڑوں میں گذارا کرتیں۔ سردی کے دنوں میں کچھ اوقات تو چولہے کے سامنے کھانا پکانے میں گزر جاتے تھے باقی حصہ والد صاحب کے دفتر جانے کے بعد دھوپ میں گذارتیں۔ والدہ صاحبہ کام سے فارغ ہو کر چرخا بھی کاتا کرتی تھیں۔ نئی اور پرانی روئی دونوں سے کام لیتی تھیں۔دری وغیرہ بنالیا کرتی تھیں ۔گھر کے پارچات کا دھونا اور دیگر خانہ داری کے امور نہایت خاموشی سے سر انجام دیا کرتی تھیں۔چاندی کے شاید ایک دو زیور تھے۔باقی کا تمام زیور مکان بنانے پر لگا دیا جس پر کسی رشتے دار نے قبضہ کر لیا تھا۔

آپؓ اپنے دکھ درد کا حال والد صاحب سے بھی بیان نہیں کیا کرتی تھیں۔ بہت لا چار ہو جاتیں تو لیٹ جاتیں اور والد صاحب کو پتہ چل جاتا ورنہ معمولی بخار، سر درد یا دوسری جسمانی تکلیف کا وہ پتہ ہی نہیں لگنے دیتی تھیں بلکہ اسی حالت میں گھر کا کام کاج کرتی رہتی تھیں۔ انہیں زکام کی شکایت ہوئی مگر عرصہ تک والد صاحب کو نہ بتایا نتیجہ یہ ہوا کہ زکام بگڑ گیا اور ساتھ کبھی کبھی دردِ شقیقہ کی تکلیف ہو جاتی تھی ۔عام طور پر سر کے دائیں حصہ میں درد ہوتا تھا۔ اس سے بہت بےقرار ہو جاتیں مگر گھر کا کام نہ چھوڑتی تھیں۔ والد صاحب بھی اکثر گھر کے کام کاج میں ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ والدہ صاحبہ کو میں نے اپنی ز ندگی میں کسی سے جھگڑتے نہیں دیکھا بلکہ اونچی آواز سے بولتے بھی نہیں سنا۔

خدمتِ دین

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صاحب نے قادیان سے جماعت کااخبار الحکم جاری کیا تواس سلسلے میں آپؓ نے حضرت صوفی شیخ مولا بخش ؓ صاحب کو قادیان آنے کی دعوت دی۔آپؓ بمعہ اہل ِ خانہ قا دیان تشریف لائے ۔اخبار کی اشاعت کا کام جب بڑھ گیاتو گھر کی عورتوں نے بھی ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔دادا جان بیان کرتے ہیں کہ ہم سب رات کو اخبارات کو کاٹ کر الگ الگ کرتے تھے اور پوسٹ کے قابل بناتے تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے خدمتِ دین کے لئے وصیت کا جو بابرکت نظام جاری فرمایا آپ دونوں میاں بیوی نے باوجود مالی حالات کمزور ہونے کے اس بابرکت تحریک کے ابتدائی موصیان میں شامل ہو نےکی سعادت حاصل کی۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست۔

اہلِ خانہ سے محبت اور خدمت

والدہ صاحبہ نماز روزہ کی پابند، حد درجہ کی دعاؤں میں مصروف رہنے والی پانچ لڑکیوں اور تین لڑکوں کی ماں تھیں۔ والد صاحب کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر اگر چہ 150روپے سے زیادہ تنخواہ تھی مگر ہماری سکول لائف کی وجہ سے مالی مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا تھا۔ جس روز والد صاحب کو تنخواہ ملتی تو گھر میں غیر معمولی چیز مثلاً آم یا مٹھائی لے آتے بچوں میں تقسیم کرتے۔ دونوں میاں بیوی تھوڑی دیر کے لئے بچوں کی خوشی میں شریک ہوتے مگر بعد میں حساب کتاب کرنے بیٹھتے تو غمگین ہوتے۔

والدہ صاحبہ کو بچوں کے پارچات بنانے اور دوسری ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کا بہت خیال تھا۔ والد صاحب بہت دلاسا دیتے تھے۔ کبھی میں کالج سے آتا تو ان کے پاس بیٹھ جاتا اور حوصلہ دیتا کہ بے بے (امی) غم کرنے کا کیا فائدہ ۔اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں عسر اور یسر ہے بعض کو دولت دیتا ہے وہ اولاد کو ترستے ہیں اور بعض کو اولاد دیتا ہے مگر ان کے پاس پیسہ نہیں ہوتا ۔۔ جب میں نوکر ہوں گا تو تمہارا بازو کہنیوں تک چاندی کے زیور سے بھر دوں گا۔ اس وقت آپ نے یہ کہنا کہ میں تو ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں۔ خدا نے مجھے بچے دیے بس یہی میرا گہنا ہیں خدا انہیں سلامت رکھے۔ مجھے تمہارے بابا جی کو دیکھ کر بہت پریشانی ہوتی ہے ان کے پاس کپڑے بھی بہت سادہ ہیں ۔سردی میں ٹھنڈے کپڑوں میں جاتے ہیں۔ دن رات تمہارا فکر کرتے ہیں۔میں نے پھر حوصلہ دینا کہ گھبراؤ نہیں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا بس تم دعا کرتی رہو۔ اس پر مسکرا دیتی اور دعائیں دیتیں ۔ والد صاحب کے لئے اور ہمارے لئے نام لے لے کر دعائیں کرتیں۔ مجھے پڑھائی کے سلسلہ میں جو وظیفہ ملا وہ سب سے پہلے والدہ صاحبہ کے ہاتھ پر لا کر رکھا تو انہوں نے بہت سی دعائیں دیں۔

پریشان کن خواب

آپ کی زندگی کے آخری سال میں زکام کی تکلیف مزید بڑھ گئی۔ سر میں حد درجہ کی کمزوری محسوس کرتی تھیں۔ والدہ صاحبہ نے ایک بار ایک خواب بیان کیا کہ میں نے دیکھا ہے کہ مجھے بیاہ کر کوئی لے جا رہا ہے۔ میں نے سرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور میں حیران ہوں کہ میری شادی تو پہلے ہی ہو چکی ہے پھر مجھے کیوں بیاہ کر لے جا رہے ہیں۔ دادا جان فرماتے ہیں کہ ان دنوں آپؓ نے بھی پریشان کن خواب دیکھے جن میں ایک کچھ اس طرح ہے کہ مکان کی چھت گر گئی ہے۔ شہتیر کا ایک سرا دیوار پر ہے اور دوسرا زمین پر۔ اس طرح خدا تعالیٰ نے حضرت برکت بی بی صاحبہؓ کی وفات سے قبل آپ ؓکو اور آپ کے اہلِ خانہ کو آنے والی پریشانی کی اطلاعات دیں۔

آخری بیماری اور وفات

دادا جان فرماتے ہیں کہ ایک دن میں سہ پہر کے وقت کالج سے آ یا تو بہت بھوک لگی تھی ۔ والدہ صاحبہ نے نماز عصر کی تیاری کی اور مصلّے پر بیٹھ کر نماز پڑھنے لگیں ۔ میں نے دیکھا کہ التحیات میں دیر لگ رہی ہے۔ میں مصلّے پر آکر بیٹھ گیا اور آپ ؓکے قریب ہو کر کہا کہ بہت لمبی نماز ہے۔ مجھے بھوک لگی ہے کھانا چاہیے۔وہ مسکرا پڑیں سلام پھیرا اور مجھے کہا کہ اسماعیل اس طرح نہ کیا کرو گناہ ہوتا ہے۔نماز کے بعد انہوں نے مجھے کھانے کو کچھ دیا اور خود چھت پر چلی گئیں اور واپس آتے ہی بے اختیار اونچی آواز سے بولنا شروع کر دیا کہ میرا سر پھٹا جاتا ہے۔ خطرناک درد ہے دوائی لاؤ ۔والد صاحب کے آتے ہی انہوں نے بتایا کہ میری حالت خراب ہے ایسا خطرناک درد مجھے کبھی بھی نہیں ہوا۔ میں سمجھتی ہوں کہ میں اب نہیں بچ سکتی۔ میرے سر میں کلہاڑے چل رہے ہیں۔ میں اور والد صاحب حضرت حکیم محمد حسین قریشی صاحب ؓ، ڈاکٹر سیدمحمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کی طرف بھاگے ۔دوسرے دن مغرب کی نماز کے قریب آپ ؓنے مجھے اور والد صاحب کو اپنے قریب بلایا کہ تم دونوں میرے پاس بیٹھ جاؤ اور میری بات سنو اور پھر پہلے مجھے نصیحت کی کہ دیکھو میرے بعد تم نے ان بچوں ( اپنے بہن بھائیوں) کی ماں بنناہے۔ ان کے ساتھ پیار سے پیش آنا پھر والد صاحب سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں کہ بچوں کے ساتھ تعلیم کے معاملے میں سختی نہیں کرنا۔اللہ تعالیٰ خود بخود کوئی انتظام کر دے گا۔ والد صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے دونوں کو حوصلہ دیا۔ رات بھر آپ ؓنے تکلیف میں گذاری۔ والد صاحب اور میں دونوں خدمت کرتے رہے۔ آخر مجھے کہا کہ اسماعیل جاؤ جا کر سو جاؤتم نے بڑی خدمت کی ہے۔ اللہ تمہاری عمر دراز کرے، برکت دے، کسی کے محتاج نہ ہو۔ نیک نصیبہ ہو۔ والد صاحب کو بھی کچھ دیر کے بعد کہا کہ آپ تھکے ہوئے ہیں آرام کریں ۔والد صاحب اور میں ابھی تھوڑی دیربھی آرام نہ کرنے پائے تھے کہ انہوں نے پھر آواز دی۔ والد صاحب پاس گئے۔ نیم بے ہوشی میں بول رہی تھیں ‘‘ ٹبّر ٹبّر ’’ (غالبًا خاندان کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی تھیں) اور پھر بے ہوش ہو گئیں۔ مصیبت کی رات بڑی مشکل سے کٹی۔ صبح ہوتے ہی میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کی طرف بھاگا ۔وہ پہلے بھی ایک بار دیکھ گئے تھے۔ وہ نہ ملے۔ پھر میں ڈاکٹر سیدمحمد حسین شاہ صاحب کو ملا۔ وہ دیکھنے آئے تو میری غیر حاضری میں وہ وفات پا چکی تھیں۔ آپ کی وفات 29 جنوری 1911ءکو لاہور میں ہوئی۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ یوں آپ کی یہ خواہش کہ آپ اپنے شوہر کے ہاتھوں اس دنیا سے رخصت ہوں، پوری ہوئی۔

نمازِ جنازہ اور تدفین

انہیں دنوں میرے ساتھ حضرت مرزا سلطان محمود بیگ صاحبؓ آف پٹی ایف ۔اے میں پڑھا کرتے تھے جو عمر میں مجھ سے بہت بڑے تھے۔ والد صاحب سے انہیں عقیدت تھی اور ہمارے ساتھ خاص ہمدردی تھی۔ہمیں اضطراب کی حالت میں دیکھ کر قادیان جا کر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ حکیم نورالدیؓن صاحب کو اطلاع دینے پر تیار ہو گئے۔ آپؓ نے رات کےدو یا تین بجے قادیان پہنچ کر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کےگھر کے دروازے پر دستک دی۔ حضورؓ نے دروازہ کھولا اور بے وقت آنے کا سبب پوچھا۔ جب بتایا کہ شیخ مولا بخش صاحب کی اہلیہ انتقال کر گئی ہیں تو آپ ؓنے افسوس کا اظہار کیا اور فرمایا کہ وہ بہت ہی صالحہ عورت تھیں۔ انہیں ہم خوب جانتے ہیں۔انہیں لے آؤ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کاوالد صاحب سے بھی بہت محبت کا سلوک تھا ۔دوسرے روز حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بھی لاہور پہنچ گئے اور صندوق تیار کیا گیا اور ایک مال گاڑی کے کمرہ میں رکھ کر انہیں قادیان پہنچایا گیا۔

آخر ہم رات کے وقت قادیان پہنچے اور دوسرے روز صبح کے وقت حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل حکیم نورالدین صاحبؓ نے خود نمازِ جنازہ باغ میں رکھ کر پڑھایا۔اور والدہ صاحبہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے خاندان کی قبروں کے احاطہ کے پائنتی کی طرف دفنایا گیا۔ آپ دونوں میاں بیوی کا وصیت نمبر 229ہے۔ بوجہ موصیہ ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں آپ کی تدفین ہوئی۔ ان کے ساتھ والی قبر وں میں حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ اور حضرت میاں کریم بخش صاحبؓ باورچی لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مدفون تھے۔

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کے تاثرات

حضرت برکت بی بی صاحبہؓ، حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کی چچی تھیں اور حضرت شیخ صاحبؓ کی والدہ کی وفات کے بعد آپ نے بچپن سے ہی ان کی دیکھ بھال کی۔اس لحاظ سے آپ کا احسان مند ہوتے ہوئے حضرت عرفانی صاحب ؓنے آپکی وفات پر ‘‘میری پیاری امّاں ، میری جان اماں ’’ کے عنوان سے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا:

29 اور 30جنوری1911ءکی درمیانی شب کو ہوش رُبا خبر پہنچی کہ میری چچی صاحبہ نے 29 جنوری کو 11بجے دن کے وفات پائی۔ مرحومہ میرے لئے شفیق ماں کی طرح مہربان تھیں۔ میں بچپن ہی میں آغوش ِ مادر سے الگ ہو چکا تھا لیکن گزشتہ بائیس سال سے میں سمجھتا تھا کہ میری ماں زندہ ہے، پہلی ماں کی وفات تو مجھے خواب کی طرح یاد ہے مگر اب اس واقعے نے اسے پھر یاد دلا دیا۔

مرحومہ ایک نفس کش، غریب مزاج اور نہایت سادہ زندگی بسر کرنے والی تھی۔باوجود کثرتِ اولاد کے پڑھنے پڑھانے کا شوق تھا۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنے فضل و رحمت کے دروازے کھول دے اور اپنے دامنِ کرم میں جگہ دے۔ مرحومہ نے مقبرہ بہشتی میں خدا کے فضل سے جگہ پائی اور جگہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے قدموں میں۔ للہ الحمد ۔

( اخبار الحکم جنوری 1911ء)

اولاد

آپؓ کو خدا تعالیٰ نے تین بیٹوں حضرت شیخ محمد مبارک اسما عیل صاحبؓ، جناب محمد اسحاق صاحب ، جناب مسعود احمد رشید صاحب اور پانچ بیٹیوں مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ،مکرمہ فاطمہ بیگم صاحبہ ، مکرمہ کرامت بیگم صاحبہ، مکرمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اور مکرمہ بشارت خاتون صاحبہ سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کی بدولت آپؓ کے بیٹوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ دادا جانؓ مرحوم نے بی۔اے بی ٹی تک تعلیم حاصل کی اور تدریس کےشعبہ سے منسلک ہوتے ہوئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ملکی سطح پر تدریس کے علاوہ آپ ؓ کو نظارت ِتعلیم قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلو ٰۃ و السلام کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت مولوی سیّد محمدسرور شاہ صاحبؓ کے ساتھ بطور نائب کے کام کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ جناب مسعود احمد رشید صاحب انجینئر تھے ۔ آپؓ کی بیٹی محترمہ بشارت خاتون صاحبہ احمدی خواتین میں سے پہلی خاتون تھیں جنہوں نےمختلف ملکی رسائل میں مضامین لکھنے کی ابتدا ء کی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے آپ (مکرمہ بشارت خاتون صاحبہ) کے نکاح کے موقع پر فرمایا:
‘‘ اس وقت میں جس نکاح کا خطبہ پڑھنے کھڑا ہوا ہوں اس سے مجھے ذاتی طور پر بھی خوشی ہے۔سال کے قریب عرصہ ہوا میں نے عورتوں کے اخبار تہذیب النسواں لاہور میں ایک مضمون پڑھا جو کسی احمدی عورت کا لکھا ہوا معلوم ہوا۔ اس کے نیچے عورت کا نام نہ تھا،لیکن اس مضمون میں میرا حوالہ دیا گیا تھا۔اس سے میں نے سمجھا کہ کسی احمدی عورت کا ہو گا اس کے بعد میں نے ایک اور مضمون اسی اخبار میں پڑھاجس میں میرے ایک مضمون کو اپنے الفاظ میں لکھا گیا تھا ۔اس سے مجھے اور خیال پیدا ہوا کہ مضمون لکھنے والی خاتون احمدی ہے۔ مردوں کے چونکہ اپنے اخبار ہیں اس لئےوہ ان میں مضامین لکھتے رہتے ہیں، لیکن عورتوں کے اخبار نہ ہونے کی وجہ سے یاایک آدھ ہونے کی وجہ سے بہت کم عورتیں ہیں جو مضمون لکھتی ہیں۔اس وجہ سے مجھے خوشی ہوئی کہ ایک احمدی عورت نے مضمون لکھنے شروع کیے ہیں۔ میں نے لاہور سے آنے والےکئی دوستوں سے پوچھا کہ تہذیب النسواں میں مضمون لکھنے والی کون احمدی عورت ہے مگر انہوں نے لاعلمی ظاہر کی۔اب مجھے اس تقریب پر معلوم ہواکہ وہ یہی احمدی عورت تھیں جن کا میں اب نکاح پڑھنے لگا ہوں’’

(الفضل قادیان مورخہ 23۔اپریل1926ء)

یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل اورحضرت برکت بی بی صاحبہ ؓکی دعاؤں کا نتیجہ تھا۔ اللہ تعالیٰ حضرت برکت بی بی صاحبہ ؓکو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرماۓ اور آپؓ کی نیکیوں کو آپ کی نسلوں میں ہمیشہ جاری فرمائے۔ آمین۔

مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مَے ان کوساقی نے پلادی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ

(عظمیٰ ربّانی ۔ یو۔ کے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مارچ 2021