• 19 اپریل, 2024

عظیم ہجرت

بر اعظم افریقہ وسیع و عریض جنگلات، میدانوں، دریاؤں، صحراؤں اور بلند و بالا پہاڑوں کی سرزمین ہے۔ افریقی ملک تنزانیہ میں دنیا کا سب سے بڑا میدان سیرینگیٹی ( Serengeti) پایا جاتاہے۔ گائو ہرن اور زیبرے لاکھوں کی تعداد میں یہاں گھاس پھوس چرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ گائو ہرن اور 50000 سے زائد زیبرے ایک ساتھ ہجرت کرتے ہیں۔

ان کی ہجرت کا مقصد تازہ گھاس اور پانی کا حصول ہے اور یہ ہمیشہ بارشوں کا پیچھا کرتے ہیں۔ یعنی جہاں جہاں بارشیں برستی ہیں یہ جانور لاکھوں کی تعداد میں اس مقام کا رخ کرتے ہیں۔

اس ہجرت کا مقصد خوراک کا حصول اور اپنی نسل کی بقاء ہے لیکن اس کے لیے ان جانوروں کو بہت مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ان کی اچھی خاصی تعداد گوشت خور شکاری جانوروں کا لقمہ بن جاتی ہے۔ چانچہ یہ ہجرت پر خطر اور صدموں سے بھرپور ہوتی ہے۔

تنزانیہ سے لیکر کینیا تک ہر سال یہ جانور بھاگتے رکتے چلتے 1000 کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہیں اور اس سفر کے دوران یہ مختلف جنگلوں میدانوں اور دریاؤں سے گزرتے ہیں۔ تعداد میں لاکھوں ہونے کی وجہ سے شکاری جانوروں کے لیے بھی یہ نادر موقع ہوتا ہے جو ہر سال اس ہجرت کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔ شیروں کا مخصوص علاقہ ہوتا ہے جس میں شیرنیاں گھات لگا کر آنے والے اپنے ان سالانہ مہمانوں کا استقبال کرتی ہیں۔

یہ جانور برسات کے مہینے میں کسی ایسے میدان میں اکٹھے ہوتے ہیں جہاں وافر چارہ اور پانی دستیاب ہوتا ہو یہیں لاکھوں کی تعداد میں مادہ گاؤ ہرن حاملہ ہوتی ہیں۔ چونکہ یہ عمل ایک مخصوص سیزن میں ہوتا ہےاس لیے بچے بھی ایک ساتھ مخصوص سیزن میں پیدا ہوتے ہیںجن کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔

ہجرت کے دوران بچتے بچاتے یہ جانور تنزانیہ اور کینیا کی سرحد پر بہتے دریا مارا (Mara) پر پہنچتے ہیں جس کا بہاؤ کافی تیز ہوتا ہے اور کنارہ کافی ڈھلوان نما ہوتا ہے۔ اس دریا کو خونی دریا بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں سینکڑوں دریائے نیل کے مگرمچھ ( Nile crocodile) پہلے سے ان کے انتظار میں گھات لگائے ہوتے ہیں۔

دریا کے دھانے پر پہنچ کر پہلا جانور ہمت کر کے پانی میں چھلانگ لگاتا ہے تو پھر سارا ریوڑ اس کی دیکھا دیکھی پانی میں کود پڑتا ہے۔ اتنی تعداد میں جانوروں کے کودنے سے جانور ایک دوسرے کے اوپر گرنے سے زخمی ہو جاتے ہیں۔ جو تیرتے ہیں ان میں سے کچھ مگر مچھوں کا نوالہ بن جاتے ہیں اور جو دریا عبور کرتے ہیں ان کے لیے آگے شیر ان کا امتحان لینے کے موجود ہوتے ہیں۔ ان سب خطروں کے برعکس اس قدر زیادہ تعداد میں یہ جانور کچھ ہی جانیں گنوا کر اپنی منزل مقصود کینیا کے میدانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔

دریائے مارا میں ان کی لاشیں پھیل جاتی ہیں جن کو مگر مچھ کھاتے ہیں۔مگر مچھ اور گدھ ہزاروں کی تعداد میں ان جانوروں کو ٹھکانے لگاتے ہیں۔

جانور میدان میں اکٹھے ہوتے ہیں اور جو مادائیں حمل سے ہوتی ہیں وہ لاکھوں کی تعداد میں ایک ہفتے کے اندر بچے پیدا کر دیتی ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کم سے کم بچے شکاری جانوروں کے ہاتھ لگتے ہیں۔ چنانچہ ان کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے۔

یہ جانور کچھ مہینے اسی میدان میں رہتے ہیں۔ جب تک بچے مکمل طور پر خود کفیل نہ ہو جائیں۔ پھر دوبارہ سے ان کی ہجرت تنزانیہ سیرینگیٹی کی طرف ہوتی ہے جہاں سے ان جانوروں نے ہجرت کا آغاز کیا تھا۔

یہ عظیم ہجرت ہزاروں سالوں سے ایسے ہی جاری ہے اس میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اپنی نسل کو بڑھانے، خود اپنی خوراک کے حصول اور گوشت خور جانوروں کو خوراک کی فراہمی کے لیے خالق کائنات نےان جانوروں کا معمول ایسا بنا دیا ہے کہ صدیوں سے نسل در نسل یہ بقاء و فنا کا کھیل جاری و ساری ہے.

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مارچ 2021