• 20 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعودؑ اور طب (قسط نمبر 2)

حضرت مسیح موعودؑ اور طب
قسط نمبر 2

طبیب اور دعا

فرمایا:
طبیب کے واسطے بھی مناسب ہے کہ اپنے بیمار کے واسطے دعا کیا کرے کیونکہ سب ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ خدا تعالی ٰنے اس کو حرام نہیں کیا کہ تم حیلہ کرو۔ اس واسطے علاج کرنا اور اپنے ضروری کاموں میں تدابیر کرنا ضروری امر ہے۔ لیکن یاد رکھو کہ مؤثر حقیقی خدا تعالےٰ ہی ہے۔ اسی کے فضل سے سب کچھ ہوسکتا ہے۔ بیماری کے وقت چاہیے کہ انسان دوا بھی کرے اور دعا بھی کرے۔ بعض وقت اللہ تعالیٰ مناسب حال دوائی بھی بذریعہ الہام یا خواب بتلا دیتا ہے اور اس طرح دعا کرنے والا طبیب علم طب پر ایک بڑا احسان کرتا ہے۔ کئی دفعہ اللہ تعالیٰ ہم کو بعض بیماریوں کے متعلق بذریعہ الہام کے علاج بتا دیتا ہے۔ یہ اس کا فضل ہے۔

(ملفوظات جلد نہم صفحہ53)

بیماری میں کلام پڑھ کر پھونکنا

ایک دوست نے سوال کیا کہ مجھے قرآن شریف کی کوئی آیت بتلائی جاوے کہ میں پڑھ کر اپنے بیمار کو دم کروں تاکہ اس کو شفا ہو۔

حضرت نے فرمایا:
بیشک قرآن شریف میں شفا ہے۔ روحانی اور جسمانی بیماریوں کا وہ علاج ہے مگر اس طرح کے کلام پڑھنے میں لوگوں کو ابتلاء ہے۔ قرآن شریف کو تم اس امتحان میں نہ ڈالو۔ خدا تعالیٰ سے اپنے بیمار کے واسطے دعا کرو۔ تمہارے واسطے یہی کافی ہے۔

(ملفوظات جلد نہم صفحہ70)

علاج معالجہ اور فیس

ایک احمدی بھائی کا خط پیش کیا گیا کہ میں نے ایک احمدی بھائی کے دو بیٹوں کا معالجہ کیا تھا ایک ان میں سے شفایاب ہوا اور دوسرا مرگیا۔ اور اس بھائی نے دس روپے فیس کے دئیے تھے کیا وہ میرے لئے جائز ہیں؟

فرمایا:
ہاں جائز ہے

(ملفوظات جلد نہم صفحہ175)

معالجہ و ہمدردی

سوال ہوا کہ طاعون کا اثر ایک دوسرے پر پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں طبیب کے واسطے کیا حکم ہے؟

فرمایا:
طبیب اور ڈاکٹر کو چاہئے کہ وہ علاج معالجہ کرے اور ہمدردی دکھائے۔ لیکن اپنا بچاؤ رکھے ۔ بیمار کے بہت قریب جانا اور مکان کے اندر جانا اس کے واسطے ضروری نہیں ہے۔ وہ حال معلوم کرکے مشورہ دے۔ ایسا ہی خدمت کرنے والوں کے واسطے بھی ضروری ہے کہ اپنا بچاؤ بھی رکھیں اور بیمار کی ہمدردی بھی کریں۔

(ملفوظات جلد نہم صفحہ249)

دیسی بوٹیاں

سیر میں برلب سڑک خودرَو بُوٹیوں کی طرف اشارہ کرکے اور حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کو مخاطب کرکے حضرت اقدس نے فرمایا:
یہ دیسی بُوٹیاں بہت کارآمد ہوتی ہیں مگر افسوس کہ لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے۔

حضرت مولوی صاحب نے عرض کیا کہ یہ بُوٹیاں بہت مفید ہیں۔ گندلوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ہندو فقیر لوگ بعض اسی کو جمع کر رکھتے ہیں اور پھر اسی پر گذارا کرتے ہیں۔ یہ بہت مقوی ہے اور اس کے کھانے سے بواسیر نہیں ہوتی۔ ایسا ہی کنڈیاری کے فائدے بیان کئے جو پاس ہی تھی۔

حضرت نے فرمایا:
ہمارے ملک کے لوگ اکثر اُن کے فوائد سے بے خبر ہیں اور اس طرح توجہ نہیں کرتے کہ اُن کے مُلک میں کیسی عمدہ دوائیں موجود ہیں جو کہ دیسی ہونے کے سبب اُن کے مزاج کے موافق ہیں۔

(ملفوظات جلد نہم صفحات254تا255)

طبّی علوم

فرمایا:
علم طب کی بناء بھی ظنّیات پر ہے ۔ جب مرض الموت آتی ہے تو کوئی دوا شفا نہیں دیتی بلکہ ہر ایک دوا الٹی پڑتی ہے۔ لیکن جب اللہ تعالےٰ شفا دینا چاہتا ہے تو معمولی دوائی بھی کارگر ہوجاتی ہے۔

(ملفوظات جلد نہم صفحہ309)

طبیبوں کے علاج اور بعض بیماریوں کا ذکر

طبیبوں کے علاج اور بعض بیماریوں کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا:
اکثر طبیبوں کا یہ کام ہے کہ جب انہیں مایوسی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں اور بظاہر نظر کامیابی کی راہیں مسدود نظر آتی ہیں تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ خاص خاص شبہات پیدا ہو گئے تھے ورنہ یہ ہوتا تو ٹھیک تھا۔ یہ بات نہیں ہو سکی وہ نہیں ہو سکی۔ ایسا کرنا چاہئے تھا ویسا کرنا چاہئے تھا مگر یہ سب باتیں توحید کے برخلاف ہیں ۔ اگر طبیب سے غلطی ہو گئی ہے یا کامیابی نہیں ہوسکی تو پھر کیا ہوا۔ اس کا کام تو صرف ہمدردی کرنا تھا تقدیر کا مقابلہ نہ کرنا تھا۔

(ملفوظات جلد نہم صفحہ340)

ہر درد را درمان ہست

حدیث شریف میں لکھا ہے۔ مَا مِنْ دَآءٍ اِلَّا لَہٗ دَوَآءٌ یعنی کوئی بیماری نہیں جس کی دوائی موجود نہ ہو۔ اگر اصلی دوا اور علاج ہوتا رہے تو عمر طبعی سے پہلے انسان مرے کیوں؟

مگر یاد رکھنا چاہئے کہ انسان ایک نہایت ہی کمزور ہستی ہے۔ ایک ہی بیماری میں باریک در باریک اور بیماریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ انسان غلطی سے کب تک بچ سکتا ہے انسان بڑا کمزور ہے۔ غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ اکثر اوقات تشخیص میں ہی غلطی ہو جاتی ہے اور اگر تشخیص میں نہیں ہوئی تو پھر دوا میں ہو جاتی ہے۔ غرض انسان نہایت کمزور ہستی ہے غلطی سے خود بخود نہیں بچ سکتا۔ خدا تعالیٰ کا فضل ہی چاہیے۔ اس کے فضل کے بغیر انسان کچھ چیز نہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دافع بليات تو صرف خداتعالےٰ ہے۔

(ملفوظات جلد نہم صفحات367تا368)

تقدیر معلق اور تقدیر مبرم

فرمایا:
تقدیر دو طرح کی ہوتی ہے ایک کو تقدیر معلق کہتے ہیں اور دوسری کو تقدیر مبرم کہتے ہیں۔ ارادۂ الٰہی جب ہو چکتا ہے تو پھر اس کا تو کچھ علاج نہیں ہوتا۔ اگر اس کا بھی کچھ علاج ہوتا تو سب دنیا بچ جاتی۔ مبرم کی علامات ہی ایسی ہوتی ہیں کہ دن بدن بیماری ترقی کرتی جاتی ہے اور حالت بگڑتی چلی جاتی ہے۔

(ملفوظات جلد نہم صفحہ384)

ٹیکہ ایک دوا ہے

کسی نے ٹیکہ لگوانے کی بابت دریافت کیا۔ فرمایا:
حدیث شریف میں آیا ہے کہ کوئی بیماری نہیں جس کی دوا نہ ہو۔ ٹیکہ بھی ایک دوا ہے۔ مسلمانوں کو اگر وہ مسلمان بن جاویں تو خدا تعالےٰ ہی ان کا ٹیکہ ہے۔ چاہیے کہ جس جگہ بیماری زور پکڑ جاوے وہاں نہ جاویں اور جس جگہ ابھی ابتدائی حالت ہو تو وہاں سے باہر کھلی ہوا میں چلے جائیں۔ مکان بدن اور کپڑے کی صفائی کا بہت خیال رکھیں۔

(ملفوظات جلد نہم صفحہ419)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 جولائی 2021