• 19 اپریل, 2024

جماعت احمدیہ کے خلاف کفر کا فتوی ٰ اور جماعت کا ردعمل

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

؎ بعد از خدا بعشق محمد مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
اے دل تو نیز خاطر ایناں نگہدار
کآخر کنند دعوئ حب پیمبرم

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دور خلافت میں احمدیوں کو نامسلم قرار دیا گیا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا رد عمل اور مؤقف کیا تھا اس سلسلہ میں آپ کی چند تحریرات پیش ہیں:

بھٹو ایک ہوشیار انسان

’’ایک زمانہ تھا کہ پروٹسٹنٹ عیسائیوں کو کافر قرار دیا گیا تھا وہ دور گزر گیا اور اب انہیں کوئی کافر نہیں کہتا اور وہ عیسائی ہی شمار ہوتے ہیں اگر ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ماجرا گزرا ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ایسا دنیا میں ہوتا ہی آیا ہے

بھٹو ایک ہوشیار انسان تھا اس نے اعلان یہ کیاکہ احمدی آئین یا قانون کی اغراض کے تحت نامسلم شمار ہوں گے کسی اور غرض کا اس نے ذکر نہیں کیا‘‘

(دورہ مغرب 1400ھ صفحہ289)

ہمیں کسی سند کی ضرورت نہیں

’’ہمارے مسلمان ہونے یا نہ ہونےکے لئے کسی فتوی کی ضرورت نہیں۔ یہ خیال کرنا کہ جب تک حکومت ہمیں مسلمان تسلیم نہ کرے خدا بھی ہمیں مسلمان نہیں مانے گا ہمیں کسی کی سند کی ضرورت نہیں ہاں ہمیں فکر یہ کرنی چاہیئے کہ ہمارا خدا ہم سے ناراض نہ ہو جائے اس سے بے وفائی نہیں کرنی ۔ اصل تو خدا ہے۔ بنیادی حقیقت اس کائنات کی توحید باری تعالیٰ ہے اس کو چھوڑ کر، اس کو ناراض کر کے ہم کہاں جائیں گے۔

انسانوں کی پرواہ نہ کرو انسان کی حیثیت ہی کیا ہے وہ ایک ذرہ پیدا کرنے پر بھی قادر نہیں ہے اس لئے بجز خدا کے کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہمیشہ مسکراتے رہو صرف خدا سے ڈرو اور ہمیشہ اس فکر میں رہو کہ وہ ناراض نہ ہوجائے …….

خدا سے کبھی بے وفائی نہ کرو خدا کے بن کر خدا میں ہو کر زندگی گزارو اور اپنی زندگیوں میں اسلام کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھاؤ کہ یہ لوگ اس دنیا کی طرف کھنچے چلے آئیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا ہے۔

(دورۂ مغرب 1400ھ صفحہ134تا135)

قرآن کریم کی خلاف ورزی

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ۔

(الحجرات:15)

اس آیت کے معنیٰ یہ ہیں کہ بعض بادیہ نشین عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں یعنی ہم مومن ہیں (اللہ کہتا ہے) ان اعراب سے کہو کہ تم ابھی ایمان نہیں لائے یعنی تم مومن نہیں بنے بلکہ یہ کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں یعنی ہم مسلمان ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانےاور اسلام لانےمیں جو فرق ہے اسے بیان فرمایا ہے۔

خدا جو عالم الغیب ہے اور جو دلوں کے بھیدوں کو بھی جانتا ہے وہ ان لوگوں کو جن کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکتے ہیں ایسی صورت میں کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی ایسے شخص کو جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو یہ کہے کہ تو مسلمان نہیں ہے۔

اگر قرآن پر عمل کرنا ہے تواسے بہر حال مسلمان تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو لوگ ہمیں مسلمان تسلیم نہیں کرتے وہ قرآن کی خلاف ورزی کرتے ہیں لیکن ہم ان کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکتے ہیں اور ہمارےنزدیک وہ امت مسلمہ کا حصہ ہیں۔

اگر وہ ہمیں مسلمان نہ کہہ کر قرآن کی خلاف ورزی کر رہے ہیں تو اس کے یہ معنے تو نہیں کہ ہم بھی قرآن کی خلاف ورزی کریں کوئی اور کرتا ہے کرے ہم تو قرآن کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔

دل سے خیر خواہ

’’ہم تو ان کے لئے اپنے دل میں اچھے جذبات رکھتے ہیں اور دل سے ان کے خیر خواہ ہیں اور ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ اگر کوئی مجھے صبح سے شام تک گالیاں دیتا ہے تو مجھے اس سے کیا وہ اپنا وقت آپ ضائع کرتا ہے لیکن میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں اچھے لوگ بڑی کثرت سے ہیں لاکھ میں سے ایک بھی مشکل سے ایسا ہو گا جو ہمیں دکھ دیتا ہے ایسے قلیل حصہ کی وجہ سے پوری قوم تو مورد الزام نہیں ٹھرایا جا سکتا۔‘‘

(دورہ مغرب 1400ھ صفحہ217تا 218)

1974ء کے فسادات میں جماعت کو نصیحت

’’دوست دریافت کرتے ہیں کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے میرا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کرو کہ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ استقامت، صبر، دعاؤں اور نمازوں کے ساتھ اپنے رب سے مدد مانگو۔

پس صبر کرو اور دعائیں کرو، صبر کرو اور دعائیں کرو، صبر کرو اور دعائیں کرو‘‘

(حیات ناصر جلد اول صفحہ400)

دعاؤں کی ذمہ داری

’’خدا تعالیٰ سے پیار کا ایک زندہ تعلق رکھ کر ہم نے اپنے ملک کے لئے دعائیں کرنی ہیں اور اس کی خوشحالی کے سامان پیدا کرنے ہیں۔

تدبیر اپنی جگہ ضروری ہے مگر دعاؤں کے ذریعہ ملک کی خوشحالی کے سامان پیدا کرنا اس کی ذمہ داری بڑی حد تک جماعت احمدیہ پر عاید ہوتی ہے اس لئے وہ تلخی جو مادر وطن کے بعض ناسمجھ سوتیلے رشتوں کی طرف سے ہماری زندگی میں پیدا ہو وہ ہمیں ان دعاؤں سے نہیں روک سکتی‘‘

(افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1974ء)

بے نفس خدمت کا مقام

’’… جو بے نفس خدمت کا مقام آپ کو عطا ہوا ہے اسے ہمیشہ یاد رکھو ہمیشہ یاد رکھو کہ ایک احمدی کسی سے دشمنی نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے کیونکہ اس کے خدا نے اسے پیار کرنے کے لئے اور خدمت کرنے کے لئے پیدا کیا ہے اور خدا کرے کہ جس غرض کے لئے ایک احمدی کو پیدا کیا ہے وہ غرض ہمیشہ اس کی آنکھوں کے سامنے رہے اور ہمیشہ اس کے جوارح سے وہ ظاہر ہوتی رہے اور اس کے عمل سے پھوٹ پھوٹ کر نکلتی رہے اَللّٰھُمَّ اٰمین‘‘

(افتتاحی خطاب 1975ء)

کلام وارث شاہ

؎ ایہہ میں جو چار کتاباں پڑھیاں
اپنے علم دیاں لاواں تڑیاں
ویلا میرے علم دا ٹھوٹھا جے
ہر فتوی میرا جھوٹھا جے
میں آپ تاں فرض نبھاواں نہ
کدی دین دے نیڑے جاواں نہ
پر کافر آکھاں ہر اک نوں

(ایم ایم اصغر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 جولائی 2021