• 29 اپریل, 2024

گناہ کو دور کرنے کے تین درجے

توبہ صرف زبان سے نہیں ہے بلکہ توبہ کا کمال اعمال صالحہ کے ساتھ ہے۔ تمام نیکیاں توبہ کی تکمیل کے لئے ہیں۔ کیونکہ سب سے مطلب یہ ہے کہ ہم خدا سے نزدیک ہو جائیں۔ دعا بھی توبہ ہے کیونکہ اس سے بھی ہم خدا کا قرب ڈھونڈتے ہیں۔ اسی لئے خدا نے انسان کی جان کو پیدا کر کے اس کا نام روح رکھا۔ کیونکہ اس کی حقیقی راحت اور آرام خدا کے اقرار اور اسکی محبت اور اسکی اطاعت میں ہے۔ اور اس کا نام نفس رکھا کیونکہ وہ خدا سے اتّحاد پیدا کرنیوالا ہے۔ خدا سے دل لگانا ایسا ہوتا ہے جیسا کہ باغ میں وہ درخت ہوتا ہے جو باغ کی زمین سے خوب پیوستہ ہوتا ہے۔ یہی انسان کا جنت ہے۔ اور جس طرح درخت زمین کے پانی کو چوستا اور اپنے اندر کھینچتا اور اس سے اپنے زہریلے بخارات باہر نکالتا ہے اسی طرح انسان کے دل کی حالت ہوتی ہے کہ وہ خدا کی محبت کا پانی چوس کر زہریلے مواد کے نکالنے پر قوت پاتا ہے اور بڑی آسانی سے ان مواد کو دفع کرتا ہے۔ اور خدا میں ہوکر پاک نشوونما پاتا جاتا ہے۔ اور بہت پھیلتا اور خوشنما سرسبزی دکھلاتا اور اچھے پھل لاتا ہے۔ مگر جو خدا میں پیوستہ نہیں وہ نشوونما دینے والے پانی کو چوس نہیں سکتا اس لئے دم بدم خشک ہوتا چلا جاتا ہے۔ آخر پتے بھی گر جاتے ہیں اور خشک اور بدشکل ٹہنیاں رہ جاتی ہیں۔ پس چونکہ گناہ کی خشکی بے تعلقی سے پیدا ہوتی ہے اس لئے اس خشکی کے دور کرنے کے لئے سیدھا علاج مستحکم تعلق ہے۔ جس پر قانون قدرت گواہی دیتا ہے۔… غرض گناہ کے دور کرنے کا علاج صرف خدا کی محبت اور عشق ہے۔ لہٰذا وہ تمام اعمال صالحہ جو محبت اور عشق کے سرچشمہ سے نکلتے ہیں گناہ کی آگ پر پانی چھڑکتے ہیں کیونکہ انسان خدا کیلئے نیک کام کر کے اپنی محبت پر مہر لگاتا ہے۔ خدا کو اس طرح پر مان لینا کہ اس کو ہر ایک چیز پر مقدم رکھنا یہاں تک کہ اپنی جان پر بھی۔ یہ وہ پہلا مرتبہ محبت ہے جو درخت کی اس حالت سے مشابہ ہے جبکہ وہ زمین میں لگایا جاتا ہے۔ اور پھر دوسرا مرتبہ استغفار جس سے یہ مطلب ہے کہ خدا سے الگ ہو کر انسانی وجود کا پردہ نہ کھل جائے۔ اور یہ مرتبہ درخت کی اس حالت سے مشابہ ہے جبکہ وہ زور کر کے پورے طور پر اپنی جڑ زمین میں قائم کر لیتا ہے۔ اور پھر تیسرا مرتبہ توبہ جو اس حالت کے مشابہ ہے کہ جب درخت اپنی جڑیں پانی سے قریب کر کے بچہ کی طرح اس کو چوستا ہے۔ غرض گناہ کی فلاسفی یہی ہے کہ وہ خدا سے جدا ہوکر پیدا ہوتا ہے لہٰذا اس کا دور کرنا خدا کے تعلق سے وابستہ ہے۔ پس وہ کیسے نادان لوگ ہیں جو کسی کی خودکشی کو گناہ کا علاج کہتے ہیں۔

(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد12صفحہ329 تا 330)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اگست 2021

اگلا پڑھیں

’’اے اللہ! عَبّاد پر رحم کر‘‘