• 3 مئی, 2024

’’دَسّو اَسِی کی کرئیے‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت چوہدری محمد علی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد صاحب سیالکوٹ جلسہ میں شمولیت کے لئے تشریف لے گئے، جب واپس تشریف لائے تو انہوں نے آ کر تبلیغ شروع کی۔ وہ خود بیعت کر کے آئے تھے۔ اُن کی تبلیغ سے گھٹیالیاں کے لوگ دھڑا دھڑ بیعت کرنے لگے۔ غالباً غلام رسول بسراء صاحب سے مَیں نے یہ سنا کہ حضرت صاحب نے جب یہ دیکھا کہ کثرت سے گھٹیالیاں کے لوگ بیعت کر رہے ہیں تو فرمایا یہ گھٹیالیاں کیا ہے؟ گاؤں ہے کہ شہر ہے۔ اس پر چوہدری محمد علی صاحب کے بھائی حاکم علی نے کہا کہ یہ روایت صحیح ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد10 صفحہ235 روایت حضرت چوہدری محمد علی خان صاحبؓ) (یہ آگے اس روایت کی تصدیق ہو رہی ہے)

پھر حضرت شیخ عبدالرشید صاحب کی روایت ہے کہ مولوی محمد علی صاحب بوپڑی غیر احمدی یہاں آیا کرتے تھے۔ بڑے خوش الحان تھے۔ اُس کے وعظ میں بے شمار عورتیں جایا کرتی تھیں۔ (آواز بھی اچھی تھی۔ وعظ بھی بہت اچھا کیا کرتے تھے۔ attract کیا کرتے تھے۔ لحن بھی اچھا تھا۔ تلاوت بھی اچھی کیا کرتے تھے) کہتے ہیں کہ دو دو تین تین ماہ یہاں رہا کرتے تھے۔ اُس نے آ کر حضرت کی مخالفت شروع کر دی۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت شروع کر دی)۔ بد زبانی بھی کرتا تھا۔ اُس کے ساتھ بھی بحث مباحثہ ہوتا رہا۔ میرے والدین نے مجھے جواب دے دیا (یعنی گھر سے نکال دیا)۔ والدہ زیادہ سختی کیا کرتی تھیں کیونکہ (مولوی) بوپڑی کا بڑا اثر تھا۔ والدین نے کہا ہم عاق کر دیں گے۔ کئی کئی ماہ مجھے گھر سے باہر رہنا پڑا۔ میرے والد صاحب میری والدہ کو کہا کرتے تھے کہ پہلے یہ دین سے بے پرواہ تھا۔ سویا رہتا تھا۔ اب نماز پڑھتا ہے۔ تہجد پڑھتا ہے۔ اسے مَیں کس بات پر عاق کروں۔ (ایک طرف مخالفت تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی، دھمکی تھی کہ عاق کریں گے لیکن ساتھ ہی یہ بھی اثر تھا کہ جب سے احمدی ہوا ہے اس کی کایا پلٹ گئی ہے)۔ وہ کہتے ہیں لیکن پھر بھی دنیاوی باتوں کو مدّنظر رکھ کر مجھے کہا کرتے تھے کہ مرزائیت چھوڑ دو۔ مَیں یہی کہا کرتا کہ مجھے سمجھا دو۔ چنانچہ اس اثناء میں کئی دفعہ مولوی محمد حسین صاحب سے تبادلہ خیالات ہوا۔ مولوی محمد حسین صاحب ہمارے مقروض تھے۔ والد صاحب تقاضا کے لئے مجھے بھیجا کرتے تھے۔ اتفاق سے ایک دفعہ مولوی صاحب نے ایک اشتہار شائع کروایا جس میں خونی مہدی کا انکار تھا اور لکھا تھا کہ وضعی حدیثیں ہیں۔ یعنی خود بنائی ہوئی حدیثیں ہیں۔ ان کی کوئی صحت نہیں ہے۔ حضرت صاحب کو بھی یہ اشتہار پہنچ گیا۔ یہ اشتہار دیکھ کر حضرت صاحب نے ایک استفتاء تیار کیا اور ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب گوڑگاؤں والے کو مولوی کے پاس بھیجا۔ وہ علماء کے پاس فتویٰ لینے کے لئے گئے۔ بعض علماء نے فتوے دئیے، بعض نے انکار کیا۔ ڈاکٹر صاحب حضرت صاحب کو سنایا کرتے تھے۔ (جب مولوی محمد حسین کا یہ اشتہار پہنچا تو اس پر دوسروں سے، غیروں سے فتوے لینے کے لئے بھیجا کہ تم کیا کہتے ہو۔ کچھ نے تو اس کے خلاف فتویٰ دے دیا، کچھ نے اپنا پلّو بچایا)۔ بہر حال کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب جن کو مولویوں کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھیجاتھا وہ حضرت صاحب کوسنایا کرتے تھے کہ مَیں بعض اوقات انگور یا دیگر پھل مولویوں کے پاس پیش کر دیتا تھا اور وہ حسبِ منشاء فتویٰ لگا دیا کرتے تھے۔ جا کے مولوی صاحب کو تحفہ دیا، کچھ پھل پیش کیا تو جیسا فتویٰ چاہو اُن سے لے لو۔ آج بھی ویسے یہ حال ہے لیکن آجکل ریٹس (Rates) زیادہ high ہو گئے ہیں۔ کہتے ہیں حالانکہ پہلے انکار کر چکے ہوتے تھے پھر بھی کچھ نہ کچھ لے کے فتویٰ دے دیتے تھے۔ حضرت صاحب یہ باتیں سن کے شملہ منہ کے آگے رکھ کر (پگڑی کا کپڑا منہ کے آگے رکھ کے) مسکرایا کرتے تھے۔ کہتے ہیں مجھے اس رسالے کا علم تھا جو مولوی محمد حسین صاحب نے شائع کیا تھا کہ اس میں مولوی صاحب نے یہ فتویٰ دیاہے۔ چنانچہ جب مولوی محمد حسین صاحب کے ساتھ تبادلہ خیالات ہوتا تھا تو مَیں یہ ذکر کرتا تھا۔ ایک دن میں نے اُن سے کہا کہ آپ کا عقیدہ مہدی کے متعلق تو یہ ہے جو آپ نے شائع کیا ہے۔ خونی مہدی نہیں آئے گا اور اس کے متعلق جو حدیثیں ہیں وہ ضعیف ہیں، کمزور ہیں، ظنی ہیں اور لوگوں کو آپ یہ کہتے ہیں کہ مہدی آئے گا۔ آپ دو طرف کیوں بیان دے رہے ہیں۔ ان کو اپنا اصلی عقیدہ کیوں نہیں بتاتے۔ لیکن وہ میری بات کا کوئی جواب نہیں دیتا تھا اور ہر دفعہ یہی کہتا تھا کہ جاؤ مرزائی ہو جاؤ۔ تمہیں اس سے کیا۔

(ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد12صفحہ29 تا31روایت حضرت شیخ عبدالرشید صاحبؓ)

حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ ولد شیخ مسیتا صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عصر کی نماز سے فارغ ہو کر مسجد مبارک میں ہی تشریف فرما ہوئے تو ایک نئے دوست نے عرض کی کہ حضور ہمارے گاؤں میں ایک مولوی صاحب آئے اور رات کو کوٹھے پر کھڑا کر کے غیر احمدیوں نے اُن سے وعظ کرایا۔ ہم بھی گئے تو اُس مولوی نے لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ والی حدیث پڑھ کر اُس میں لوگوں کو خوب جوش دلایا اور بار بار کہا دیکھو لوگو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا اور مرزا صاحب قادیان والے کہتے ہیں کہ میں نبی ہوں اور رسول ہوں۔ پھر پنجابی میں کہنے لگا ’’دَسّو اسِی کی کرئیے‘‘ تو کہتے ہیں کس طرح مرزا صاحب کو نبی رسول مان لیں؟ کہتے ہیں مَیں کھڑا ہو گیا اور اُس سے کہا مولوی صاحب! آپ یہ بتائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی کے بارے میں بھی یہ فرمایا ہے کہ اس کے بعد کوئی مسجدنہیں ہو گی۔ اس کے کیا معنی ٰکریں گے۔ جو معنی آپ اس مسجد والی حدیث کے کریں گے وہی معنی ہم لَا نَبِیَّ والی حدیث کے کریں گے اور آپ کو یہ بتلا دیں گے کہ جو نبی آپ کی لائی ہوئی شریعت کو منسوخ کرے گا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو منسوخ کرے گا، وہ نبی نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت تو آخری شریعت ہے۔ اس لئے اس کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں آ سکتا۔ خیر وہ مولوی صاحب کہتے ہیں اس بات پر بھونچکا سا ہو گیا اور گالیاں دینے لگ گیا۔ جب جواب نہ ہو تو یہی ہوتا ہے۔ پھر مَیں نے کہا مولوی صاحب! آپ کی گالیوں کا جواب ہم نہیں دیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس دوست کی یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوئے اور بڑے مسکرائے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد6 صفحہ90-91 روایت حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ)

آجکل بھی زیادہ تر یہی ایشو اٹھایا جا رہا ہے۔ لوگوں کے دماغوں کو جو زہریلا کیا جاتا ہے تو اسی بات سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تو کوئی نبی نہیں آ سکتا اور یہ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں۔ احمدیوں کے خلاف پاکستان میں اصل جو مخالفت ہے وہ اسی ایشو کولے کر اب زیادہ بھڑکائی جا رہی ہے۔

(خطبہ جمعہ 16؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

دجالیتی طلسم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اگست 2021