• 26 اپریل, 2024

ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں؟

قریب 3000 سال قبل مسیح میں میسوپوٹیمی بادشاہوں نے اپنے خواب مٹی کی سلوں پر تحریر کرنا شروع کیے۔ 1000 سال بعد قدیم مصریوں نے خوابوں پر مشتمل ایک کتاب تحریر کی جس میں روز مرہ کے 100 متفرق خواب اور ان کی تعبیریں لکھی گئی تھیں۔ تب سے لے کر آج تک حضرت انسان اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مصروف ہے کہ ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں؟۔ تمام تر جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات کے باوجود انسان خواب دیکھنے کی معین وجہ تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ تاہم اس بارے میں کئی دلچسپ مفروضے ضرور قائم کر لیے ہیں۔ ایک خیال یہ کیا جاتا ہے کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے خواب دیکھتے ہیں۔

1900ء کے ابتداء میں سگمنڈ فرائڈ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ہمارے تمام خواب دراصل ان تمام مناظر کا مجموعہ ہوتے ہیں جو دن بھر ہم دیکھتے ہیں۔ ان خوابوں میں دیکھی گئی اشیاء کے علامتی معنیٰ بھی ہوتے ہیں اور ہمارے لاشعور میں کی گئی خواہشات بھی ان میں شامل ہوتی ہیں۔ فرائڈ کا کہنا ہے کہ ہر وہ بات جو نیند سے بیدارہونے کے بعد ہمیں یاد رہتی ہے اپنے اندر علامتی معنیٰ رکھتی ہے۔ ان میں خوف، عدم تحفظ، رتبہ، خواہشات، طاقت اور کمزوری جیسے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ تمام یاد رہ جانی والی باتیں ہمارے لاشعور سے شعور کی جانب منتقل ہوتی ہیں جو بعض اوقات پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل کے حل کا سبب بھی بنتی ہیں۔ یعنی خوابوں کا دیکھنا نفسیاتی مسائل کو حل کرنے کا ایک خود کار نظام بھی ہے۔

ایک اور تحقیق کے مطابق دماغ کو بہتر طور پر کام کرنے کے لیے مناسب نیند کی ضرورت ہوتی ہے اور نیند میں خوابوں کا آنا بھی ضروری ہے۔ اس سے انسانی دماغ کی یاداشت محفوظ رکھنے کی قابلیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ 2010ء میں محققین نے دریافت کیا کہ ہماری یاداشت کے کئی حصے اسی وقت فعال ہوتے ہیں جب ہم سوتے میں خواب دیکھتے ہیں۔

ہمارے دماغ کی اندرونی ساخت میں تقریباً دس ہزار کھرب نیورو کنیکشن ہیں جو ہمارے سوچنے یا کسی بھی کام کرنے کے دوران بنتے ہیں۔ 1883ء میں پیش کی گئی ایک ’’نیورو بائیلوجیکل تھیوری آف ڈریم‘‘ جسے Reverse Learning کا نام دیا گیا ہے، کے مطابق نیند کے دوران دماغ کے Neocortex ان کھرب ہا کھرب کی تعداد میں موجود رابطوں کا جائزہ لیتے ہیں اور صرف ضروری رابطوں کو ہی برقرار رکھتے ہیں اور غیر ضروری رابطوں کو دماغ سے ختم کر دیتے ہیں۔

اگر ایسا نہ ہو تو دماغ پر غیر ضروری بوجھ پڑے گا جس کا نتیجہ غیر اہم امور کی طرف توجہ کا مبذول ہو جانا نکلتا ہے اور انسان حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز نہیں کر پاتا۔

Continual Activation Theory کے مطابق خوابوں کا آنا دماغ کی صحت کے لیے بہت ضروری ہے، خوابوں کے نتیجے میں لمبے عرصہ تک یاداشتیں محفوظ رکھنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ نیند کے دوران خودکار طریقے سے دماغ یاداشت کے خانوں میں محفوظ اس ڈیٹا کو اکھٹا کرتا ہے جو ہمارے خواب دیکھنے کے دوران ہمارے احساسات اور خیالات کی صورت میں ہمیں نظر آتا ہے۔

ڈراؤنے خواب دیکھنا عام بات ہے اور شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی ڈراؤنا خواب نا دیکھا ہو۔ Primitive instinct rehearsal theory کے مطابق ،خواب میں دیکھے اور محسوس کیے جانے والے عوامل کسی خاص مقصد کے تحت ہوتے ہیں اور ان کا کوئی نا کوئی مطلب اور محرک ضرور ہوتا ہے۔ خواب میں دکھائی دینے والے مناظر کے پیچھے کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ خواہ کوئی انسان خواب میں خود کو جنگل میں کسی بھالو سے جان بچانے کے لیے بھاگتا ہوا ہی کیوں نا دیکھے ، یا کسی سے لڑائی کرتے اور اسے مارتے ہوئے دیکھے یا اونچی جگہ سے چھلانگ لگاتے ہوئے۔ اس تھیوری کے مطابق ایسے خوابوں کے آنے کا مطلب انسان میں حقیقی زندگی میں خطرات سے مقابلہ کرنے کی جرات اور ہمت پیدا کرنا ہوتا ہے۔نیند میں انسانی جسم اور دماغ دونوں حالت سکون میں ہوتے ہیں لیکن دماغ کا ایک چھوٹا سا حصہ فعال ہوتا ہے۔خواب کے دوران کسی بات پر ردعمل کی کمانڈ اسی حصہ سے ملتی ہے ، چنانچہ ڈراؤنے خواب کے دوران دماغ کا یہ حصہ اپنے بچاؤ کے لیے تیز دوڑنے کے سگنل بھیجتا ہے لیکن چونکہ جسم حالت سکون میں ہوتا ہے اس لیے اس سگنل کے ردعمل کے طور پر جسم میں مطلوبہ حرکت پیدانہیں ہوتی ۔اس کشمکش میں ہمیں ایسے مناظر نظر آتے ہیںکہ تمام تر کوشش کے باوجود تیز بھاگنے میں ناکام ہیں۔

نیند کے دوران دماغ ہمیں پیش آنے والے مسائل کے حل تلاش کرنے میں سرگرم ہو جاتا ہے۔ ان میں ایسے مسائل اور معاملات بھی ہوتے ہیں جن کا ہمیں جاگنے کے دوران ادراک بھی نہیں ہوتا۔ محققین مسائل کے حل میں نیند اور نیند کے دوران خواب دیکھنے کو بہت اہم خیال کرتے ہیں۔ دماغ سونے کے دوران مسائل کے لاتعداد حل تجویز کرتا ہے جن میں سے اکثر جاگنے پر یاد نہیں رہتے۔ ایک کیمسٹ اگسٹ کیکلو نے بینزین مالیکول کا سٹرکچر تب دریافت کیا جب وہ سو رہے تھے ۔چنانچہ بعض اوقات مسائل کا بہترین حل اچھی نیند لینے سے نکل آتا ہے۔

کیا خواب مستقبل کی پیشگوئیاں کر سکتے ہیں؟

یہاں کسی مذہبی بحث میں الجھے بغیر اگر صرف سائنسی حوالہ سے دیکھا جائے تو اس بارےمیں سائنسدان ومحققین متضاد آراء رکھتے ہیں ۔بعض کے نزدیک ایسا ممکن ہے لیکن بعض سرے سے اس کی نفی کرتے ہیں۔ ممالیہ جانداروں پر ہونے والی حیرت انگزیز تحقیق کے مطابق بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تب ہی اپنے مستقبل اور بیرونی ماحول کے بارے میں خوابوں کے ذریعے پیدائش سے پہلے ہی تجربہ حاصل کر چکا ہوتا ہے۔

کیا خواب سچے ہو سکتے ہیں؟

امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایک انسان سونے کے دوران اوسطاً 6 گھنٹے خواب دیکھتا ہے ۔ ان خوابوں میں وہ اپنے مسائل کا حل ڈھونڈتا ہے اور اپنے مستقبل کو بھی دیکھتا ہے ۔انسانی دماغ سونے کے دوران وہ مسائل حل کرنے اور ان پر غور و فکر کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے جو ہمیں جاگنے کے دوران پیش آئے ہوتے ہیں۔ میل آن لائن کے مطابق دماغ کی سائنسدان ڈاکٹر جولیا موس برج کا کہنا ہے کہ ’’نہ صرف کوئی شخص سچے خواب دیکھ سکتا ہے بلکہ انسان خواب میں اپنا مستقبل بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ لاشعوری طور پر اپنے آپ کو مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے لیے تیار کر رہا ہوتا ہے، چنانچہ مستقبل کے یہ واقعات خواب میں دکھائی دے سکتے ہیں۔‘‘

جدید ٹیکنالوجی دماغ کے افعال کو سمجھنے میں بہت معاون ہے اور ہم ماضی کے مقابلہ میں انسانی دماغ کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں ہمیں اس سوال کا شافی جواب مل جائے کہ ’’ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں؟‘‘

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

دجالیتی طلسم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اگست 2021