• 27 جولائی, 2025

جماعت احمدیہ پر ایک اعتراض کا جواب

جماعت احمدیہ پر یہ الزام لگایا جاتا ہےکہ یہ انگریزوں کی بنائی ہوئی جماعت ہے یہ انگریز کی ایجنٹ ہے خود کاشتہ پودہ اور اسرائیلی فوج میں 600 احمدیوں کی موجودگی والے الزام کے پیچھے بھی دراصل یہی منفی سوچ ہے کہ یہ جماعت انگریزوں نے مسلمانوں کو مذہبی اور قومی طور پر تباہ کرنے کیلئے بنائی تھی۔

جواب اول۔

اس کا ایک جواب تو یہ دیا جاتا ہے کہ کیا انگریزوں نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ کو اپنا ایجنٹ بنانا تھا کہ جنہوں نے انگریزوں کے خدا نعوذ باللہ حضرت عیسیؑ کوہی مار دیا یعنی فوت شدہ قرار دے دیا اور جنکی ذندگی اور تحریروں کا بیشتر حصہ انگریزوں کے بنیادی عقائد کفارہ اور تثلیث کو پارہ پارہ کرنے میں صرف ہوا یقینا یقینا ایسا انسان انگریزوں کا لگایا ہوا پودا یا ایجنٹ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی انگریز ایسا بیوقوف ہے کہ اپنی موت کو اپنے لئے زندگی سمجھتا پھرے۔

جواب دوم۔

اس اعتراض کا ایک دوسرا جواب بھی ہے جس سے اس اعتراض کی جڑ ہی ختم ہوجاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگرحضرت مسیح موعودؑ انگریز کے ایجنٹ ہوتے تو چاہیے تو یہ تھا کہ آپؑ کے خاندان کو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا جاتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں نے حضورؑ کے خاندان کی آبائی جائیداد ضبط کرلی اور حضورؑ کے والد حضرت مرزا غلام مرتضی ساری ذندگی انگریزی عدالتوں میں اس آبائی جائیداد کے حصول کیلئے انگریز حکومت کے خلاف مقدمات کرتے رہے اور اس مطلوب جائیداد سے کئی گنا زیادہ رقم مقدمات پر خرچ کرنے کے باوجود وہ جائیداد واپس نہ ملی سوائے قادیان کے۔ اور حضرت مسیح موعودؑ کو خود من گھڑت مقدمات میں عدالتوں کا سامنا کرنا پڑا اور انصاف کے حصول کیلئے مشکلات کا سامنا رہا اور ایک مقدمہ تو کرایا ہی انگریز نے تھا جو مقدمہ اقدام قتل ازمارٹن کلاک کے نام سے جانا جاتا ہے اگر حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ انگریز کے ایجنٹ ہوتے تو انہیں خاندانی جائیداد بھی مکمل واپس ملنی چاہیے تھی اور ذاتی مقدمات میں عدالتوں سے غیر معمولی حمایت ملنی چاہیے تھی جبکہ بالکل اسکے برعکس ہوا۔ اس پہلو کو اچھی طرح سمجھنے کیلئے تھوڑا ساتاریخی سفر طے کرنا ضروری ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کا خاندان جب 1530 عیسوی میں سمرقندسے ہندوستان آیا تو انہیں ہندوستان کی چغتائی سلطنت کی طرف سے کئی سو دیہات بطور جاگیر کے ملے حضرت مسیح موعودؑ کے پردادا مرزا گل محمد کے دور میں ہندوستان کی چغتائی سلطنت زوال کا شکار ہورہی تھی اور سکھ پنجاب میں ہر طرف حملہ آور تھے سکھوں کے حملوں و طوائف الملوکی کے دور میں حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کے پاس کئی سو میں سے صرف 85 گاؤں کی ملکیت رہ گئی۔ مرزا گل محمد صاحب کی 1800 عیسوی میں وفات ہوگئی انکے بعد انکے بیٹے اور حضرت مسیح موعودؑ کے داداحضرت مرزا عطا محمد گدی نشیں ہوئے انکے دور میں قریبًا 1802 میں سکھوں کے رام گڑھیہ مسل کے سرگروہ جسّا سنگھ اور اسکے متبعین نے قادیان سمیت 85 گاؤں پر قبضہ کرلیا اور آپ کے خاندان کو جلا وطن کر دیا یہ قریبا 1802 یا 1803 عیسوی کی بات ہے جلاوطنی کے بعد آپؑ کے خاندان کو اہلووالیہ مثل کے سردار فتح سنگھ نے پناہ دی اور مرزا عطا محمد صاحب اہلووالیہ مثل کے علاقہ ریاست کپور تھلہ کے بیگووال کے علاقہ میں رہے آپؑ کے دادا 12 سال بعد دشمنوں کے زہر دینے کی وجہ سے انتقال کرگئے انکے انتقال کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے والد حضرت مرزا غلام مرتضی نے واپس اپنی غضب شدہ آبائی جائیداد کے حصول کیلئے کوششیں تیز کرلیں اور اس مقصد کیلئے آپ نے پورے ہندوستان کا پیادہ پاسفرکیا اور راجوں مہاراجوں کے پاس گئے اور اپنا مؤقف پیش کیا اور جب رنجیت سنکھ نے 1816 میں رام گڑھیہ اور دوسری مثلوں کو شکست دیکر قادیان سمیت پورے پنجاب پر قبضہ کرلیا تو آپ اپنی آبائی جائیداد کے حصول کیلئے رنجیت سنکھ کے دربار میں بھی گئے چنانچہ آپ کی ان کوششوں کے نتیجہ میں 1834ء یا 1835 عیسوی میں رنجیت سنکھ نے آپکو آپکی آبائی جائیدادمیں سے قادیان سمیت 5گاؤں واپس کر دیے جو اگرچہ اصل جائیداد کا کچھ بھی نہ تھے چنانچہ جب تک سکھ سلطنت قائم رہی آپ نے بقیہ جائیداد کے حصول کی کوششیں جاری رکھیں اور جب 1848ء یا 1849ء میں انگریزوں نے پنجاب پرمکمل قبضہ کرلیا تو انگریزوں نے آپؑ کے خاندان کو ملے یہ 5 گاؤں بھی چھین لئے کیونکہ آپکے خاندان نے رنجیت سنگھ کی حکومت کے ساتھ وفاداری کرتے ہوئے انگریزوں کے خلاف لڑائیاں کیں۔ اب یہاں سے مضمون کااصل مدعا شروع ہوتا ہے کہ اگر حضرت مسیح موعودؑ انگریزوں کے ایجنٹ تھے تو آپکے خاندان کو نوازنے کی بجائے آپکے خاندان کی بچی کھچی جائیداد بھی ضبط کیوں کی اور آپکے والدکی ذندگی میں نہ ہی آپؑ کی ذندگی میں آپکو آپکے خاندان کی آبائی جائیداد واپس کی گئی۔ چنانچہ واقعہ یوں ہےکہ جب رنجیت سنکھ نے آپکے خاندان کو قادیان سمیت 5 گاؤں واپس کیے تو آپکے والد اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں ملازم ہوگئے اور پھر اپنی قابلیت پر کشمیر کے صوبہ یعنی کمشنر تک مقام حاصل کیا مہاراجہ رنجیت سنکھ 1839ء میں فوت ہوگیااسکے بعد اسکے جانشین اس کی حکومت کونہ سنبھال سکے اور سکھ حکومت کا شیرازہ بکھرنے لگا چنانچہ اس طوائف الملوکی کے دور میں حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کے پاس دوبہترین موقع تھے ایک یہ کہ آپ اس ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی الگ ریاست کا اعلان کرلیتے اور دوسرا یہ کہ جس طرح باقی سکھ سردار رنجیت سنکھ کی حکومت سے بے وفائی کرتے ہوئے انگریزوں کا ساتھ دیکر انگریزوں سے بطور انعام بڑی زمینیں یاریاستیں حاصل کر رہے تھے آپؑ کا خاندان بھی انگریزوں کا ساتھ دیکر اپنے لئے بطور انعام بڑے علاقے کی جاگیر حاصل کر سکتا تھا لیکن آپؑکے خاندان نے اسلامی تعلیمات کے مطابق سکھ حکومت وقت کا ساتھ دیا اوررنجیت سنکھ کی حکومت کی طرف سے انگریزوں کے ساتھ لڑائیاں کیں کشمیر کی سرحد ودیگر مقامات پر فوجی خدمات مہیا کیں 1841ء میں آپؑ کے والد جرنل ونچورا کے ساتھ منڈی اور کلّوکیطرف بھیجے گئے اور 1843 میں وہ ایک پیادہ فوج کے کمیدان بنا کر پشاوربھیجے گئےاور مفسدہ ہزارہ میں انہوں نے اپنی نمایاں خدمات کا ثبوت دیا۔ اور جب 1848ء یا 1849 میں رنجیت سنکھ کی حکومت نے باقائدہ طورپر کچھ مراعات لیکرپنجاب کو باضابطہ طور پر انگریزوں کے حوالے کر دیا تو جن سکھ یا مسلمان سرداروں نے رنجیت سنکھ کی حکومت کو ختم کرنے میں انگریزوں کا ساتھ دیا انکی جائیدادیں بھی باقی رہیں اور انکو مذید بھی نوازاگیا جبکہ حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان سے رنجیت سنکھ کیطرف سے انگریزوں کیخلاف لڑنے کیوجہ سے بطور سزارہی سہی 5 گاؤں کی جائیدادبھی چھین لی گئی اور حضرت مسیح موعودؑ کے والد حضرت مرزا غلام مرتضی نے ساری ذندگی انگریز عدالتوں میں انگریز حکومت کے خلاف اپنی آبائی جائیداد کے حصول کے لئے مقدمات کیےاور آبائی جائیداد سے کئی گنا ذیادہ رقم مقدمات پر خرچ کرنے کے باوجود انگریزوں نے وہ جائیداد آپکے والد کو واپس نہ کی ا یک روایت میں ستر ہزار اور ایک روایت میں ایک لاکھ روپیہ اس زمانے میں حضرت مرزا غلام مرتضی نے مقدمات پر خرچ کیا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں «ہمارے خاندان نے بھی ہمیشہ انکے خاندان (یعنی رنجیت سنکھ) سے وفاداری کی جب انگریزوں سے لڑائیاں ہوئیں تو بعض بڑے بڑے سکھ سرداروں نے روپے لے لے کر علاقے انگریزوں کے حوالے کردیےاور یہی وجہ ہے کہ وہاں انکی جاگیریں موجود ہیں ۔۔۔۔ کیا وجہ ہے کہ سکھ زمینداروں کی جاگیریں توقائم رہیں مگر ہماری چھین لی گئی اسی غصہ میں انگریزوں نے ہماری جائیداد چھین لی تھی کہ ہمارے دادا صاحب نے سکھوں کے خلاف انکا ساتھ نہ دیا ۔۔۔۔ بعد میں جو کچھ ملا مقدمات سے ملا۔مگر کیا ملا ۔قادیان کی کچھ زمین دے دی گئی باقی بھینی ننگل اور کھارا کا مالکان اعلی قرار دے دیا گیا مگر یہ ملکیت اعلی سوائے کاغذ چاٹنے کے کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ جب ملتان کے صوبہ نے بغاوت کی تو ہمارے تایا صاحب نے ٹوانوں کے ساتھ مل کر اسے فرو کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ پس جہاں تک شرافت کا سوال ہے ہمارے خاندان نے سکھ حکومت کے ساتھ نہایت دیانتداری کا برتاؤ کیااوراسکی سزا کے طور پر انگریزوں نے ہماری جائیدادضبط کرلی»(خطبہ جمعہ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول ص42۔43) خاکسار نے جو اوپر مضمون تحریر کیا ہے انکے حوالہ جات حضرت مسیح موعودؑ کی کتب سیرۃ المہدی تاریخ احمدیت اور سر لیپل گریفن کی کتاب تزکرہ رؤسائے پنجاب میں موجود ہیں حاصل نتیجہ یہ ہے کہ نہ حضرت مسیح موعودؑ کا خاندان انگریزوں کا ایجنٹ تھا اور نہ حضورؑ خود ۔اگر ہوتے تو آپؑ کو انگریزوں کیطرف سے ساری جاگیربھی ملتی اوراسکے علاوہ بھی طرح طرح کے انعامات ملتے۔ پس نہ حضورؑ کا خاندان اور نہ حضورؑ خود انگریزوں کے ایجنٹ ثابت ہوئے لیکن ہاں حضرت مسیح موعودؑ کا شدید مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی ضرور انگریز کا ایجنٹ تھا کہ جس نے انگریزوں سے 4 مربع اراضی بطور انعام لیکر 14 اکتوبر 1898 کو وکٹوریہ پریس لاہور سے ایک رسالہ انگریزی زبان میں شائع کیاجس میں انگریزوں کو خوش کرنے کیلئے امام مہدی کے ظہور سے انکار کیا اور اس سے متعلقہ تمام احادیث کو غلط قرار دیا۔ اور شیخ الکل مولوی نزیر حسین دہلوی کو انگریزی حکومت کی جانب سے وفاداری پر 22 جون 1897ء روز سہ شنبہ کو شمس العلماء کا خطاب ملا (الحیاة بعد المماۃ از مولانا فضل حسین بہاری ص102)۔ یا پھر احراری انگریزوں کے ایجنٹ ہوسکتے ہیں جو پاکستان بننے کے مخالف تھے اور پاکستان کوپلیدستان اور قائد اعظم کو کافر اعظم کہا کرتے تھے۔

اس مضمون کو بیان کرنے کے بعد خاکسار ایک سوال حل کرنا چاہے گا جوممکن ہےبعض کے ذہن میں آیا ہوکہ حضرت مسیح موعودؑ نے انگریزی حکومت کی امن وامان کے لحاظ سے تعریف کی ہے اور سکھوں کے مسمانوں پر مظالم کا ذکر کیا ہے تو اگر رنجیت سنگھ کی حکومت ظالم حکومت تھی تو حضورؑ کے خاندان نے اسکا ساتھ کیوں دیا تو اسکا جواب یہ ہے کہ اٹھارویں صدی کے نصف آخر میں مغلیہ سلطنت زوال کا شکار ہوچکی تھی اور خصوصًا پنجاب میں سکھ قوم کا دور دورہ شروع ہوچکا تھا اس زمانے میں سکھوں کی پنجاب میں 12 مثلیں یعنی 12 ریاستیں یا گروہ تھے ان بارہ مثلوں کا کوئی واحد لیڈر نہ تھااور نہ ہی کوئی نظم و نسق تھا اس لئے ہر مثل مار دھاڑ کرکے اپنی ریاست وسیع کرنے کی کوشش میں تھی اس وجہ سے اس زمانہ میں پنجاب میں ایک مستقل سلسلہ کشت و خون کا جاری ہوگیا حتی کہ وہ وقت آیا کہ جب رنجیت سنگھ جو سکرچکیہ مثل کا سردار تھا نے سب کو زیر کر کے پنجاب میں واحد مرکزی سکھ حکومت قائم کی اور یہ کشت وخون کا سلسلہ کچھ تھما حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان نے رنجیت سنگھ کی حکومت کا ساتھ دیا جو امن قائم کرنے والی تھی نہ کہ ان ظلم و ستم کرنے والے دیگر سکھ گروہوں کا۔اگرچہ کہ رنجیت سنگھ کے متعلق بھی دونوں آراء پائی جاتی ہیں ذیادہ تر مؤرخین رنجیت سنگھ کو سیکولر قسم کا انسان ٹھہراتے ہیں مثلًا فقیر سید وحیدالدین نے اپنی کتاب ’’اصلی رنجیت سنگھ‘‘ میں اسے ایک سیکولر حکمران قرار دیا ہے کیونکہ اسکے دربار میں مسلمان وزراء بھی تھے اور کچھ آراء مثلا ڈاکٹر محمد جہانگیر تمیمی کی کتاب «سکھ مسلم تعلقات» میں رنجیت سنگھ کی مذہبی رواداری سے انکار کیا ہے کیونکہ اس نے آذان اور گائے کے گوشت کرنے ہر پابندی لگائی تھی پہلی رائے ذیادہ وزن رکھتی ہے اور دوسری رائے کی تطبیق اس طرح کی جاسکتی ہے کہ جو علاقہ مکمل اطاعت قبول نہ کرتا ہو وہاں اس نے کچھ سختیاں بھی کی ہوں اور جس علاقے نے رنجیت سنگھ کی حکومت قبول کرلی وہاں نرمی کا برتاؤ کیا ہو اور بعض دفعہ بعض سختیاں نچلے حکومتی عملے کی طرف سے بھی ہوتی ہیں جس کا حکم حاکم وقت نے نہیں دیا ہوتا لیکن وہ منسوب بالآخر حاکم کی طرف ہی ہوتی ہیں۔ نیز جب شروع شروع میں حکومتیں آتی ہیں تو ہر حکومت بغاوت کے خدشہ کو رفع کرنے کیلئے شروع میں کچھ سختیاں بھی کرتی ہے۔ رنجیت سنگھ 1839 عیسوی میں وفات پاگیا اور اسکی وفات کے بعد پھر وہی حالات پیدا ہوگئے جو رنجیت سنگھ کے آنے سے پہلے تھے بعض سکھ سرداروں نے پھر وہی کشت وخوں کا سلسلہ شروع کر دیا اس لئے حضرت مسیح موعودؑ کا یہ فرمانا کہ انگریزوں نے آکر ہمیں مذہبی آزادی اور امن دیا ہے بالکل درست ہے کیونکہ رنجیت سنگھ کی حکومت سے پہلے اور پھر اسکی وفات کے بعد پنجاب میں نہ تو مذہبی آذادی تھی اور نہ پر امن ماحول۔

(الف ورک)

پچھلا پڑھیں

دجالیتی طلسم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اگست 2021