• 26 اپریل, 2024

کتاب، تعلیم کی تیاری (قسط 09)

کتاب، تعلیم کی تیاری
قسط 09

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھےکئے جارہے ہیں۔

1۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
2۔نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
3۔بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

یقینا ًیاد رکھو کہ خدا ہے اور مر کر اس کے حضور ہی جانا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ سال آئندہ کے انہیں دنوں میں ہم میں سے یہاں کون ہوگا اور کون آگے چلا جائے گا۔ جبکہ یہ حالت ہے اور یہ یقینی امر ہے پھر کس قدر بدقسمتی ہوگی۔ اگر اپنی زندگی میں قدرت اور طاقت رکھتے ہوئے اس اصل مقصد کے لیے سعی نہ کریں۔ اسلام تو ضرور پھیلے گا اور وہ غالب آئے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ فرمایا ہے مگر مبارک ہوں گے وہ لوگ جو اس اشاعت میں حصہ لیں گے۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے جو اُس نے تمہیں موقعہ دیا ہے۔ یہ زندگی جس پر فخر کیا جاتا ہے ہیچ ہے اور ہمیشہ کی خوشی کی وہی زندگی ہے جو مرنے کے بعد عطا ہوگی۔ ہاں یہ سچ ہے کہ وہ اسی دنیا اور اسی زندگی سے شروع ہو جاتی ہے اور اس کی تیاری بھی یہاں ہی ہوتی ہے۔

عرصہ ہوا کہ خد اتعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا تھا کہ ایک بہشتی مقبرہ ہوگا۔ گویا اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے علم اور ارادہ میں جنتی ہیں۔ پھر اس کے متعلق الہام ہوا۔ اُنْزِلَ فِیْھَا کُلُّ رَحْمَۃٍ۔ اس سے کوئی نعمت اور رحمت باہر نہیں رہتی۔ اب جو شخص چاہتا ہے کہ وہ ایسی رحمت کے نزول کی جگہ میں دفن ہو۔ کیا عمدہ موقعہ ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کر لے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم کرلے۔یہ صدی جس کے 23سال گزرنے کو ہیں گزر جائے گی اور اس کے آخر تک موجودہ نسل میں سے کوئی نہ رہے گا اور اگر نکما ہو کر رہا تو کیا فائدہ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنا صدقہ پہلے بھیجو۔ یہ لفظ صدقہ کا صدق سے لیا گیا ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوئی کامل نمونہ اپنے صدق اور اخلاص کا نہیں دکھاتا، لاف زنی سے کچھ بن نہیں سکتا۔

الوصیۃ اشتہار میں جو میں نے حصہ جائیداد کی اشاعت اسلام کے لیے وصیت کرنے کی قید لگائی ہے۔ میں نے دیکھاکہ کل بعض نے 6/1 کی کردی ہے۔ یہ صدق ہے جو ان سے کراتا ہے اور جب تک صدق ظاہر نہ ہو کوئی مومن نہیں کہلاسکتا۔

تم اس بات کو کبھی مت بھولو کہ خد اتعالیٰ کے فضل و کرم کے بغیر جی ہی نہیں سکتے چہ جائیکہ موت سر پر ہو۔ طاعون کا موسم پھر آرہا ہے۔ زلزلہ کا خوف الگ دامنگیر ہے۔ وہ تو بڑا ہی بے وقوف ہے جو اپنے آپ کو امن میں سمجھتا ہے امن میں تو وہی ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا سچا فرمانبردار اور اس کی رضا کا جویاں ہے۔ ایسی حالت میں بے بنیاد زندگی کے ساتھ دل لگانا کیا فائدہ؟

(ملفوظات جلد8 صفحہ323-325۔ ایڈیشن 1984ء)

اسلام کا خدا وہ خدا ہے کہ ہر ایک جنگل میں ر ہنے والا فطرتاً مجبور ہے کہ اس پر ایمان لائے۔ ہر ایک شخص کا کانشنس اور نورِ قلب گواہی دیتا ہے کہ وہ اسلامی خدا پر ایمان لائے۔ اس حقیقت اسلام کو اور اصل تعلیم کو جس کی تفصیل کی گئی، آجکل کے مسلمان بُھول گئے ہیں اور اسی بات کو پھر قائم کر دینا ہمارا کام ہے اور یہی ایک عظیم الشان مقصد ہے جس کو لے کر ہم آئے ہیں۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ 362۔ ایڈیشن 1984ء)

نفس کے ہم پر حقوق

وہ شخص بڑا ہی مبارک اور خوش قسمت ہے جس کا دل پاک ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے اظہار کا خواہاں ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے دوسروں پر مقدم کر لیتا ہے۔ جو لوگ میری مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا اور ہمارا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے ہے۔ وہ ہمارے اور ان کے دلوں کو خوب جانتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کس کا دل دنیا کے نمود اور نمائش کے لیے ہے اور کون ہے جو خدا تعالیٰ ہی کے لیے اپنے دل میں سوزو گداز رکھتا ہے۔

یہ خوب یاد رکھو کہ کبھی روحانیت صعود نہیں کرتی جب تک پاک دل نہ ہو۔ جب دل میں پاکیزگی اور طہارت پیدا ہوتی ہے تو اس میں ترقی کے لیے ایک خاص طاقت اور قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر اس کے لیے ہر قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور وہ ترقی کرتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو دیکھو کہ بالکل اکیلے تھے اور اس بیکسی کی حالت میں دعویٰ کرتے ہیں۔ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا۔ (الاعراف: 159) کون اس وقت خیال کر سکتا تھا کہ یہ دعویٰ ایسے بے یارومدد گار شخص کا بار آور ہوگا۔ پھر ساتھ ہی اس قدر مشکلات آپ کو پیش آئیں کہ ہمیں تو ان کا ہزارواں حصہ بھی نہیں آئیں۔

مصائب

وہ زمانہ تو ایسا زمانہ تھا کہ سکھا شاہی سے بھی بدتر تھا۔ اب تو گورنمنٹ کی طرف سے پورا امن اور آزادی ہے۔ اس وقت ایک چالاک آدمی ہر قسم کی منصوبہ بازی سے جو کچھ بھی چاہتا دکھ پہنچاتا۔ مگر مکہ جیسی جگہ میں اور عربوں جیسی وحشیانہ زندگی رکھنے والی قوم میں آپؐ نے وہ ترقی کی جس کی نظیر دنیا کی تاریخ پیش نہیں کر سکتی۔

اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتاہے کہ خود ان کی مذہبی تعلیم اور عقائد کے خلاف انہیں سنایا کہ یہ لَاتَ اور عُزّٰی جن کو تم اپنا معبود قرار دیتے ہو یہ سب پلید اور حَطَبُ جَھَنَّمَ ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کون سی بات عربوں کی ضدی قوم کو جوش دلانے والی ہو سکتی ہے۔ لیکن انہیں عربوں میں آنحضرت ﷺ نے نشونما پایا اور ترقی کی۔ انہیں میں سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جیسے بھی نکل آئے۔ اس سے ہمیں امید ہوتی ہے کہ انہیں مخالفوں سے وہ لوگ بھی نکلیں گے جو خدا تعالیٰ کی مرضی کوپورا کرنے والے اور پاک دل ہوں گے اور یہ جماعت جو اس وقت تک تیار ہوئی ہے آخر انہیں میں سے آئی ہے۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ157-158۔ ایڈیشن 1984ء)

اسلام نے اپنی تعلیم کے دو حصے کئے ہیں۔ اولؔ حقوق اﷲ، دومؔ حقوق العباد۔ حق اللہ یہ ہے کہ اس کو واجب الاطاعت سمجھے اور حقوق العباد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی کریں۔ یہ طریق اچھا نہیں کہ صرف مخالفت مذہب کی وجہ سے کسی کو دکھ دیں۔ ہمدردی اور سلوک الگ چیز ہے اور مخالفت مذہب دوسری شے۔ مسلمانوں کا وہ گروہ جو جہاد کی غلطی اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں انہوں نے یہ بھی جائز رکھا ہے کہ کفار کا مال ناجائز طور پر لینا بھی درست ہے خود میری نسبت بھی ان لوگوں نے فتویٰ دیا کہ ان کا مال لوٹ لو بلکہ یہانتک بھی کہ ان کی بیویاں نکال لو؛ حالانکہ اسلام میں اس قسم کی ناپاک تعلیمیں نہ تھیں۔ وہ تو ایک صاف اور مصفیٰ مذہب تھا۔ اسلام کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ جیسے باپ اپنے حقوقِ ابوّت کو چاہتا ہے اسی طرح وہ چاہتا ہے کہ اولاد میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ہو۔ وہ نہیں چاہتا کہ ایک دوسرے کو مارے۔ اسلام بھی جہاں یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی شریک نہ ہو، وہاں اس کا یہ بھی منشا ہے کہ نوع انسان میں مودّت اور وحدت ہو۔

نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھاہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہانتک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں۔اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کر سکیں۔وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے۔

یہ خوب یاد رکھو کہ انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے۔پھر اسی وحدت کے لیے حکم ہے کہ روزانہ نمازیں محلہ کی مسجد میں اور ہفتہ کے بعد شہر کی مسجد میں اور پھر سال کے بعد عید گاہ میں جمع ہوں اور کل زمین کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ بیت اللہ میں اکٹھے ہوں۔ ان تمام احکام کی غرض وہی وحدت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حقوق کے دو ہی حصے رکھے ہیں۔ ایک حقوق اللہ دوسرے حقوق العباد۔ اس پر بہت کچھ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآءَ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا۔ (البقرہ: 201) یعنی اللہ تعالیٰ کو یاد کرو جس طرح پر تم اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ اس جگہ دو رمز ہیں۔ ایک توذکر اللہ کو ذکر آباء سے مشابہت دی ہے اس میں یہ سرّ ہے کہ آباء کی محبت ذاتی اور فطری محبت ہوتی ہے۔ دیکھو بچہ کو جب ماں مارتی ہے وہ اس وقت بھی ماں ماں ہی پکارتا ہے۔ گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کو ایسی تعلیم دیتاہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے فطری محبت کا تعلق پیدا کرے۔ اس محبت کے بعد اطاعت امر اللہ کی خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ یہی وہ اصلی مقام معرفت کا ہے جہاں انسان کو پہنچنا چاہیے۔یعنی اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے فطری اور ذاتی محبت پیدا ہو جاوے ایک اور مقام پر یوں فرمایا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی (النحل: 91) اس آیت میں ان تین مدارج کا ذکر کیا ہے جو انسان کو حاصل کرنے چاہئیں ۔پہلا مرتبہ عدل کا ہے اور عدل یہ ہے کہ انسان کسی سے کوئی نیکی کرے بشرطِ معاوضہ۔ اور یہ ظاہر بات ہے کہ ایسی نیکی کوئی اعلیٰ درجہ کی بات نہیں بلکہ سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ عدل کرو اور اگر اس پر ترقی کرو تو پھر وہ احسان کا درجہ ہے یعنی بلا عوض سلوک کرو۔ لیکن یہ امر کہ جو بدی کرتا ہے اس سے نیکی کی جاوے؛ کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے دوسری پھیر دی جاوے۔ یہ صحیح نہیں۔ یا یہ کہو کہ عام طور پر یہ تعلیم عملد ر آمد میں نہیں آسکتی؛ چنانچہ سعدی کہتا ہے ؂

نکوئی با بداں کردن چُناں است
کہ بد کردن برائے نیک مرداں

اس لیے اسلام میں انتقامی حدود میں جو اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی ہے کوئی دوسرا مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور وہ یہ ہے جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ الآیۃ۔ (الشوریٰ: 41) یعنی بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے اور جو معاف کر دے مگر ایسے محل اور مقام پر کہ وہ عفو اصلاح کا موجب ہو، اسلام نے عفو خطا کی تعلیم دی، لیکن یہ نہیں کہ اس سے شر بڑھے۔

غرض عدل کے بعد دوسرا درجہ احسان کا ہے یعنی بغیر کسی معاوضہ کے سلوک کیا جاوے لیکن اس سلوک میں بھی ایک قسم کی خود غرضی ہوتی ہے۔ کسی نہ کسی وقت انسان اس احسان یا نیکی کو جتا دیتا ہے اس لیے اس سے بھی بڑھ کر ایک تعلیم دی اور وہ ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے۔ ماں جو اپنے بچہ کی ساتھ سلوک کرتی ہے وہ اس سے کسی معاوضہ اور انعام و اکرام کی خواہشمند نہیں ہوتی۔ وہ اس کے ساتھ جو نیکی کرتی ہے محض طبعی محبت سے کرتی ہے۔ اگر بادشاہ اس کو حکم دے کہ تو اس کو دودھ مت دے اور اگر یہ تیری غفلت سے مر بھی جاوے تو تجھے کوئی سزا نہیں دی جاوے گی بلکہ انعام دیا جاوے گا۔ اس صورت میں وہ بادشاہ کا حکم ماننے کو تیار نہ ہوگی بلکہ اس کو گالیاں دے گی کہ یہ میری اولاد کا دشمن ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ذاتی محبت سے کر رہی ہے، اس کی کوئی غرض درمیان نہیں۔ یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو اسلام پیش کرتا ہے اور یہ آیت حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پر حاوی ہے۔ حقوق اللہ کے پہلو کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ انصاف کی رعایت سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کرو۔جس نے تمہیں پید اکیا اور تمہاری پرورش کرتا ہے۔ اور جو اطاعت الٰہی میں اس مقام سے ترقی کرے تو احسان کی پابندی سے اطاعت کر کیونکہ وہ محسن ہے اور اس کے احسانات کو کوئی شمار نہیں کر سکتا۔ اور چونکہ محسن کے شمائل اور خصائل کو مد نظر رکھنے سے اس کے احسان تازہ رہتے ہیں، اس لیے احسان کا مفہوم آنحضرت ﷺ نے یہ بتایا ہے کہ ایسے طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گویا دیکھ رہا ہے یا کم از کم یہ کہ اللہ تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے۔ اس مقام تک انسان میں ایک حجاب رہتا ہے۔ لیکن اس کے بعد جو تیسرا درجہ ہے ایتاء ذی القربیٰ کا یعنی اللہ تعالیٰ سے اسے ذاتی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور حقوق العباد کے پہلو سے مَیں اس کے معنے پہلے بیان کر چکا ہوں۔اور یہ بھی مَیں نے بیان کیا ہے کہ یہ تعلیم جو قرآن شریف نے دی ہے کسی اور کتاب نے نہیں دی اورایسی کامل ہے کہ کوئی نظیر اس کی پیش نہیں کر سکتا ۔یعنی جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا الآیۃ۔ (الشورٰی: 41) اس میں عفو کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ اس میں اصلاح ہو۔ یہودیوں کے مذہب نے تو یہ کہا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ ان میں انتقامی قوت اس قدر بڑھ گئی تھی اور یہانتک یہ عادت ان میں پختہ ہو گئی تھی کہ اگر باپ نے بدلہ نہیں لیا تو بیٹے اور اس کے پوتے تک کے فرائض میں یہ امر ہوتا تھا کہ وہ بدلہ لے۔ اس وجہ سے ان میں کینہ توزی کی عادت بڑھ گئی تھی اور وہ بہت سنگ دل اور بے درد ہو چکے تھے۔ عیسائیوں نے اس تعلیم کے مقابل یہ تعلیم دی کہ ایک گال پر کوئی طمانچہ مارے تو دوسری بھی پھیردو۔ ایک کوس بیگار لے جاوے تو دو کوس چلے جاؤ وغیرہ۔ اس تعلیم میں جو نقص ہے وہ ظاہر ہے۔ کہ اس پر عملد ر آمد ہی نہیں ہو سکتا۔ اور عیسائی گورنمنٹوں نے عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ یہ تعلیم ناقص ہے کیا یہ کسی عیسائی کی جرأت ہو سکتی ہے کہ کوئی خبیث طمانچہ مار کر دانت نکال دے تو وہ دوسری گال پھیر دے کہ ہاں اب دوسرا دانت بھی نکال دو ۔ وہ خبیث تو اور بھی دلیر ہو جائے گا اور اسی سے امن عامہ میں خلل واقع ہوگا۔ پھر کیونکر ہم تسلیم کریں کہ یہ تعلیم عمدہ ہے یا خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہو سکتی ہے۔اگر اس پر عمل ہو تو کسی ملک کا بھی انتظام نہ ہو سکے۔ ایک ملک ایک دشمن چھین لے تو دوسرا خود حوالہ کرنا پڑے۔ ایک افسر گرفتار ہو جاوے تو دس اور دیئے جاویں۔ یہ نقص ہیں جو ان تعلیموں میں ہیں اور یہ صحیح نہیں۔ ہاں یہ ہو سکتاہے کہ یہ احکام بطور قانون مختص الزمان تھے۔ جب وہ زمانہ گزر گیا تو دوسرے لوگوں کے حسب ِ حال وہ تعلیم نہ رہی۔ یہودیوں کا وہ زمانہ تھا کہ وہ چار سو برس تک غلامی میں رہے۔ اور اس غلامی کی زندگی کی وجہ سے ان میں قساوت قلبی بڑھ گئی اور وہ کینہ کش ہو گئے۔ اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس بادشاہ کے زمانہ میں کوئی ہوتا ہے اس کے اخلاق بھی اسی قسم کے ہو جاتے ہیں۔ سکھوں کے زمانہ میں اکثر لوگ ڈاکو ہو گئے تھے۔ انگریزوں کے زمانہ میں تہذیب اور تعلیم پھیلتی جاتی ہے اور ہر شخص اس طرف کوشش کر رہا ہے۔ غرض بنی اسرائیل نے فرعون کی ماتحتی کی تھی، اسی وجہ سے ان میں ظلم بڑھ گیا تھا۔ اس لئے توریت کے زمانہ میں عدل کی ضرورت مقدم تھی، کیونکہ وہ لوگ اس سے بے خبر تھے اور جابرانہ عادت رکھتے تھے اور انہوں نے یقین کر لیا تھا کہ دانت کے بدلے دانت کا توڑنا ضروری ہے اور یہ ہمارا فرض ہے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سکھایا کہ عدل تک ہی بات نہیں رہتی بلکہ احسان بھی ضروری ہے۔ اس سبب سے مسیح ؑ کے ذریعہ انہیں یہ تعلیم دی گئی کہ ایک گال پر طمانچہ کھاکر دوسری پھیر دو۔ اور جب اسی پر سارا زور دیا گیا تو آخر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ اس تعلیم کو اصل نقطہ پر پہنچا دیا اور وہ یہی تعلیم تھی کہ بدی کا بدلہ اسی قدر بدی ہے لیکن جو شخص معاف کر دے اور معاف کرنے سے اصلاح ہو تی ہو، اس کے لیے اﷲ تعالیٰ کے حضور اجر ہے۔ عفو کی تعلیم دی ہے مگر ساتھ قید لگائی کہ اصلاح ہو۔ بے محل عفو نقصان پہنچاتا ہے۔پس اس مقام پر غور کرنا چاہیے کہ جب توقع اصلاح کی ہو تو عفو ہی کرنا چاہیے۔ جیسے دو خدمتگار ہوں، ایک بڑا شریف الاصل اور فرمانبردار اور خیر خواہ ہو لیکن اتفاقاً اس سے کوئی غلطی ہو جاوے۔ اس موقعہ پر اس کو معاف کرنا ہی مناسب ہے۔ اگر سزا دی جاوے تو ٹھیک نہیں، لیکن ایک بدمعاش اور شریر ہے، ہر روز نقصان کرتا ہے اور شرارتوں سے باز نہیں آتا۔ اگر اسے چھوڑ دیا جاوے تو وہ اور بھی بیباک ہو جائے گا۔اس کو سزا ہی دینی چاہیے۔ غرض اس طرح پر محل اور موقع شناسی سے کام لو۔ یہ تعلیم ہے جو اسلام نے دی ہے اور جو کامل تعلیم ہے۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ247-252۔ ایڈیشن 1984ء)

بنی نوع کے ہم پر حقوق

اخلاق دو قسم کے ہو تے ہیں ایک تو وہ ہیں جو آج کل کے نو تعلیم یا فتہ پیش کرتے ہیں کہ ملاقات وغیرہ میں زبان سے چا پلوسی اور مداہنہ سے پیش آتے ہیں اور دلوں میں نفاق اور کینہ بھرا ہوا ہوتا ہے ۔یہ اخلاق قرآن شریف کے خلاف ہیں۔ دوسری قسم اخلاق کی یہ ہے کہ سچی ہمدردی کرے۔ دل میں نفاق نہ ہو اور چاپلوسی اور مداہنہ وغیرہ سے کا م نہ لے جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی (النحل: 91) تو یہ کامل طریق ہے اور ہر ایک کامل طریق اور ہدایت خدا کے کلام میں موجود ہے جو اس سے رو گردانی کرتے ہیں وہ اور جگہ ہدایت نہیں پاسکتے ۔اچھی تعلیم اپنی اثر اندازی کے لئے دل کی پا کیزگی چاہتی ہے جو لو گ اس سے دور ہیں اگر عمیق نظر سے اُن کو دیکھو گے تو اُن میں ضرور گند نظر آئے گا۔ زندگی کا اعتبار نہیں ہے ۔نماز،صدق وصفا میں ترقی کرو۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ 330۔ ایڈیشن 2016ء)

(اس مائدہ کی تیاری میں مکرم محمد اظہر منگلا اور مکرم عبدالمجیب جامعہ احمدیہ گھانا نے تعاون فرمایا ہے ۔ فجزاھم اللہ خیراً)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

دجالیتی طلسم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اگست 2021