• 8 مئی, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط58)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط58

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 28 جنوری 2011ء میں 2 تصاویر کے ساتھ یہ خبر شائع کی ہے:۔
’’جماعت احمدیہ کی مسجد بیت الحمید میں وضو سکھانے کی خصوصی کلاس‘‘

ایک تصویر سٹیج ٹیبل کی ہے جس میں ایک طرف مکرم ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب نائب امیر امریکہ اور درمیان میں خاکسار سید شمشاد احمد ناصر، خاکسار کے ساتھ مکرم عاصم انصاری صاحب صدر جماعت تشریف فرما ہیں۔ ایک تصویر سب شاملین کلاس کی ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد احمد ناصر نے بچوں اور نوجوانوں کی مذہبی اور اخلاقی تربیت کے لئے ایک ہفتہ وار کلاس شروع کی ہے۔ جس میں نماز کے بنیادی جزو یعنی وضو کا طریقہ بتایا جائے گا۔ اس سلسلہ کی پہلی کلاس گزشتہ جمعرات کو ہوئی جس میں 250 بچوں اور نوجوانوں نے حصہ لیا۔ امام شمشاد نے اس موقع پر وضو اور تیمم کےطریقوں کے ساتھ ان کے لوازم اور احتیاطوں کا ذکر کیا۔ اور ان کی اہمیت سمجھائی اس کلاس کا ذکر انہوں نے اپنے ریڈیو پروگرام میں بھی کیا جو منگل کے روز کے سی اے 1050 پر ہر ہفتے ہوتا ہے۔ امام شمشاد نے ریڈیو پر والدین سے اپیل کی کہ وہ نہ صرف اس خصوصی کلاس میں شریک ہوں بلکہ بچوں کو بھی لائیں تاکہ ان کی بھی اخلاقی اور مذہبی تربیت ہو۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 28 جنوری 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا کون مرتکب ہورہا ہے؟‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اخبارنے مسجد نبوی ﷺ کی تصویر بھی شائع کی ہے۔

خاکسار نے اس مضمون کے شروع میں لکھا ہے کہ آج کل اخبارات اور TV پر توہین مذہب اور توہین رسالت کے موضوع پر بات ہو رہی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمنوں سے درگزر اور عفو سے کام لیا۔ لیکن دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے لیکن آپؐ نے فلاں فلاں موقعہ پر لوگوں کو قتل کرنے کا فیصلہ اور حکم بھی صادر فرمایا۔

میرے نزدیک دیکھنے والی بات یہ ہے کہ توہین رسالت کیا ہے؟ اور یہ کس طرح ہوتی ہے۔ کیا غیر مسلم ہی توہین رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں یا مسلمان بھی اس کے مرتکب ہورہے ہیں۔ پھر جو سزا غیر مسلم کے لئے ہے کیا وہی سزا مسلمان کے لئے بھی تجویز کی جاتی ہے؟

یہ اٹل حقیقت ہے کہ ایک سچے اور خوف خدا رکھنے والے مسلمان کے سامنے اگر توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے تو وہ اس پربے چین ہوجائے گا اور اس کا خون کھول اٹھے گا۔ لیکن کیا توہین رسالت کرنے والے پر ہر ایک شخص اس کو سزا دے سکتا ہے اورقانون کو اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے۔ اسلام کی اس بارے میں کیا تعلیم ہے؟ یہ سوالات ہیں جو لوگوں کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں۔

جہاں تک شریعت اسلامیہ کا تعلق ہے یعنی قرآن کریم یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا احادیث مبارکہ کا، ان کے مطابق کہیں سے ثابت نہیں ہوتا کہ توہین رسالت کے مرتکب کی گردن اڑا دی جائے۔ ایسے علماء یا ایسا گروہ جو ان احادیث و واقعات کو پیش کرتا ہے جن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے قتل کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ ان پر صرف توہین رسالت کا الزام نہ تھا بلکہ ان پر غداری اور دوسروں کو قتل کرنے کے الزامات تھے جن کی وجہ سے وہ قتل کئے گئے۔ علماء ایسے واقعات کو بیان کرتے وقت صرف اس کا ایک ہی پہلو سامنے رکھتے ہیں اور دوسرے حصہ یا پہلو سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں شائد وہ اسلام کا مطلب پیار، محبت، امن نہیں بلکہ خون خرابے والا مذہب سمجھتے ہیں۔ جو بالکل غلط ہے۔ انہی امور کی وجہ سے مغرب اور غیرمسلموں کو ہم اسلام پر ہنسی اور توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ایک طرف تو ان کے لئے ایسے مواقع بھی خود مہیا کریں پھر ان کی گردن زنی بھی کریں۔ عجیب قسم کا اسلام ہے۔ حالانکہ قرآن تو کہتا ہے اِصْبِرْ عَلٰی مَایَقُوْلُوْنَ کہ جو وہ تجھے کہتے ہیں تُو اس پر صبر کر۔

خاکسار نے مزید لکھا کہ پاکستان کے ایک TVچینل پر ایک پروگرام دیکھا جس میں میزبان نے دو علماء جماعت الدعوۃ اور جماعت اسلامی کے بلا رکھے تھے اور 4 دیگر صائب الرائے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار تھے۔ ان دو علماء نے یہ کہا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے توہین رسالت کی سزا گردن زنی یا قتل ٹھہرائی ہے۔ باقی 4 احباب کی رائے تھی کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ان چاروں حضرات نے بڑے اچھے دلائل دیئے اور قرآن و حدیث سے دیئے۔ جماعت اسلامی کے نمائندہ نے سورۃ الاحزاب کی چند آیات پیش کیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو غلط باتیں کر کے ایذاء دیتے ہیں خدا تعالیٰ نے ان کے لئے لعنت مقدر کر دی ہے۔ اور پھر فرمانے لگے کہ لعنت کا معانی اور تشریح کچھ آیات چھوڑ کر اللہ نے بیان کی ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ملیں انہیں مار دیا جائے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ حالانکہ اس بات کا کوئی جوڑ ہی نہیں بنتا۔ لعنت کا مفہوم قتل کہاں سے نکل آیا اس قسم کی تشریحات نے ہی اسلام کا خون خرابہ کیا ہے۔ حالانکہ دوسری آیات میں یہود کا ذکر ہے جو غداری کرتے ہیں اور مسلمانوں کے قتل کے منصوبے باندھتے تھے اور درپردہ مسلمانوں کے خلاف پالیسیاں بناتے ہیں اور جنگ ٹھونستے ہیں یہ بات ایسے لوگوں کے بارے میں ہے کہ پھر تم انہیں جہاں پاؤ ان سے ویسا ہی سلوک کرو۔ خاکسار نے اس کے بعد عبدالمنان ناہید (مرحوم) پنڈی کے شاعر کے یہ اشعار بھی درج کئے ہیں۔

بدگمانی تمہاری فطرت تھی
جس کا اظہار کر دیا تم نے
عقل بھی اِک خدا کی نعمت ہے
جس کو بے کار کر دیا تم نے
اتنے فتوے دیئے کہ ملت کو
بزم کفار کر دیا تم نے
کتنا آسان تھا دین کا رستہ
کتنا دشوار کر دیا تم نے
علامہ اقبال نے بھی کہا تھا کہ
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم توہین رسالت کے مرتکب کی گردن زنی کر کے جنت میں جائیں گے۔ دراصل یہی لوگ توہین رسالت کے مجرم ہیں اور مرتکب ہیں لیکن انہیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔

خاکسار نے اس کے بعد پاکستان میں ہونے والے جرائم کی ایک فہرست بھی دی ہے جو ایک سینئر صحافی منو بھائی کے کالم سے لی گئی تھی۔ انہوں نے چند حقائق پاکستان میں ہونے والے جرائم کے بارے میں لکھے ہیں۔ اور یہ حقائق صرف ایک صوبہ پنجاب کے تھے۔ پس رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والوں میں اتنے جرائم؟پاکستان کا تو یہ حال ہے۔

جانے کب کون کس کو مار دے گا کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے

خاکسار نے حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 2011ء سے ایک اقتباس بھی اس مضمون میں درج کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:۔ سید و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر ہاتھ ڈالنے کی ہلکی سے کوشش بھی جو کرے گا وہ اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِیْنَ (یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے رسول! صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی تجھ سے ہنسی، ٹھٹھہ اور استہزاءو توہین سے پیش آئے گا ہم اس کے مقابلہ میں تیرے لئے کافی ہیں) یعنی ایسا شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے ہلاک کیا جائے گا۔ حضور انور نے قرآن کریم کے اس ارشاد کو بھی بیان کیا کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر برکتیں اور رحمتیں نازل کر رہے ہیں اور درود بھیج رہے ہیں۔ اے مومنو! تم بھی ایسا ہی کرو۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍوَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ہے ناموس رسول کہ دشمن کا منہ بند کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر پورا پورا عمل کریں۔ اور مضمون کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آئینہ کمالات اسلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ و ارفع شان کے بار ے میں اقتباس درج کیا ہے۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت جنوری 28 تا 3 فروری 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتکب کون؟‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ نفس مضمون بالکل وہی ہے جو اس سے قبل گذشتہ ایک اخبار کے حوالہ سے گزر چکا ہے۔

دی سن نے اپنی اشاعت 29 جنوری 2011ء میں صفحہ اول پر مصر میں ہونے والے جلوسوں میں جو ہنگامے ہوئے جس کی وجہ سے عمارتوں کو جلا دیا گیا۔ اور کئی جگہ لوٹنے اور نقصان کرنے کی واردات بھی ہوئیں۔ اس پر اخبار نے مصر اور تیونس میں ایسے مظاہروں کی خبر دیتے ہوئے خاکسار کے حوالہ سے یہ بیان شائع کیا ہے کہ اسلام اپنے ملک سے اور وطن سے محبت اور وفا داری کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمیں ان مظاہروں میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔ جو ملک اور قوم کے لئے نقصان دہ ہوں۔ امام شمشاد نے کہا کہ اسلام قتل و غارت لوٹ کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ اور اسلام میں کسی قسم کی دہشت گردی کی بھی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ 2 خطبات میں انہوں نے پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے بارے میں اسلامی تعلیمات کو بیان کیا ہے۔ امام شمشاد نے ہر قسم کی دہشت گردی، قتل و غارت اور ہنگامہ آرائی جو ملک و قوم کو نقصان پہنچانے والی ہو کی بھرپور مذمت کی ہے۔

ڈیلی بلیٹن نے اپنی اشاعت 31 جنوری 2011ء میں خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’Peace Really Amount To Justice‘‘ شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے نئے سال کے حوالہ سے اس بات پر زور دیا ہے کہ معاشرہ میں اگر عدل و انصاف نہیں ہوگا تو امن قائم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور اس سلسلہ میں پاکستان میں جو قوانین بنائے گئے ہیں۔ جن پر اقلیتوں کے حقوق غصب کئے گئے ہیں خصوصاً جماعت احمدیہ کے ساتھ غیر منصفانہ اور ناروا سلوک کیا جارہا ہے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان امور کو بیان کیا گیا ہے۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت یکم جنوری 2011ء میں صفحہ 7 پر 8 تصاویر کے ساتھ ہمارے ویسٹ کوسٹ کے سالانہ 25 ویں جلسے کی خبر اس عنوان سے شائع کی ہے۔ ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘

جماعت احمدیہ امریکہ ویسٹ کوسٹ کا
25 واں جلسہ سالانہ

2 تصاویر سامعین اور شاملین جلسہ کی ہیں۔ ایک تصویر مکرم مولانا نسیم مہدی صاحب کی تقریر کرتے ہوئے۔ ایک تصویر مکرم نسیم رحمت اللہ صاحب نائب امیر کی تقریر کرتے ہوئے، ایک تصویر خاکسار کی تقریر کرتے ہوئے، ایک تصویر ڈاکٹر ظہیر الدین منصور صاحب نیشنل سیکرٹری تعلیم القرآن کی تقریر کرتے ہوئے اور ایک فوٹو سٹیج کی ہے۔ خبر کا نفس مضمون قریباً وہی ہے جو اس سے قبل دیگر اخبارات کے حوالہ سے گزر چکا ہے۔

الاخبار نے اپنی اشاعت فروری 2011ء میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس خطبہ جمعہ میں حضورانور نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ جب حکام یا لوگ ظلم کریں تو کس حد تک ان کے ظلموں پر صبر کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں حضور انور نے قرآن کریم کی آیت وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ کو پیش فرمایا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس بھی پڑھا جس میں حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ انسان کو افراط و تفریط سے ہر معاملہ میں بچنا چاہئے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں کرتا۔ حاکم کو چاہئے کہ وہ قوم کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں۔ اور عوام کو چاہئے کہ وہ حکومت کی فرمانبرداری کریں اس ضمن میں حضور انور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری احادیث کو بھی بیان فرمایا ہے۔ مثلاً بخاری کی حدیث زید بن وھبؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عبداللہ ؓ سے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ارشاد فرمایا کہ تم میرے بعد بہت سے ایسے ناپسندیدہ امور دیکھو گے جو غلط ہوں گے۔ صحابہؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے فرائض ادا کرو۔ اور اپنے حقوق اللہ سے طلب کرو۔

دوسری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم ایسے امور دیکھو جو ناپسند یدہ ہیں تو اس پر صبر کرو۔ اور ایک یہ حدیث بیان فرمائی کہ صحابہؓ نے بیان کیا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرتے تھے کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس وقت یہی حالت ہے آپ نے اس ضمن میں سورۃ النساء کی آیت 60 بھی پڑھی۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ اس میں بھی حکام کی اطاعت کا حکم ہے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور حدیث بھی بیان فرمائی کہ میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہوں (وصیت کرتا ہوں) اور پھر یہ کہ سنو اور اطاعت کرو۔ اگرچہ آپ پر حبشی شخص کو مقرر کر دیا گیا ہو۔ آپؑ نے وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ کی آیت کی بھی تشریح فرمائی۔ آپ نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں کا صحیح ادراک عطا فرمائے اور حکام اپنے عوام کی خدمت کرنے والے ہوں اور ان کے حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ اور لوگوں کے لئے اسوۂ حسنہ بنیں تاکہ اسلام کی صحیح تعلیمات دنیا میں اجا گر ہوں۔

نیو یارک عوام نے اپنی اشاعت 4تا 10 فروری 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’شان خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وسلم) عجز و انکسار کے آئینہ میں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ خاکسار نے یہ مضمون ماہ ربیع الاول کے حوالہ سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے متعلق لکھا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے بارے میں تفصیل سے بحث کی ہے۔ اور درج ذیل احادیث بھی نقل کی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:۔

  1. کہ میں تو اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جب کہ آدم ابھی مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔
  2. پھر یہ کہ مجھے تمام بنی نو ع انسان کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔
  3. مجھے خاتم النبیین بنایا گیا۔
  4. لیکن آپ اتنی شان کے باوجود یہ دعا بھی فرماتے تھے کہ اے اللہ! مجھے مسکین بنا کر زندہ رکھنا اور اسی حالت میں موت دینا اور قیامت کے دن مجھے مسکینوں کی جماعت میں سے اٹھانا۔
  5. آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میری تعریف میں اس طرح مبالغہ سے کام نہ لینا جس طرح عیسائیوں نے مسیح ابن مریم کی ناجائز تعریف کر کے مبالغہ سے کام لیا۔ فرمایامیں تو خدا کا ایک بندہ ہوں پس مجھے اللہ کا بندہ اور رسول کہو یہی کافی ہے۔

الغرض آپؐ عجز و انکسار کا پیکر تھے۔ خاکسار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مضمون میں وہ دعا بھی لکھی جو آپؐ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر عرفات کے میدان میں کی۔ آپؐ جب فتح مکہ کے موقعہ پر مکہ میں داخل ہوئے ہیں اس وقت بھی عجز و انکسار سے آپ کا سر خدا کے حضور جھکا ہوا تھا۔

ہم بھی آپؐ کے نام لیوا ہیں اور آپؐ کی تعلیم بھی یہی ہے اور اسوہ بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگیوں میں وہی عاجزی و انکساری اپنانی چاہئے۔ ہمیں بھی دوسروں کا احترام اور احترام انسانیت کا سبق حاصل کرنا چاہئے۔ پس اس وقت جیسا کہ ساری دنیا میں فساد پھیلا ہوا ہے ہم مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے۔ لیکن اس وقت ہو کیا رہا ہے۔ لوٹ مار، قتل و غارت، بے ایمانی، بے حیائی، عورتوں سے بدسلوکی، معصوموں کی بے دریغ جان لینی، یہ معاشرہ کے جرائم ہیں اور یہ مسلمان کر رہے ہیں اور پھر اس پر کوئی ندامت بھی نہیں ہے۔ کہنے کو تو غیرت رسول لیکن عملی لحاظ سے صفر۔ پس خود سوچیں کہ آپ اسلام کے کس قدر نزدیک ہیں یا اسلام سے کس قدر دور ہیں۔

توہین رسالت تو خود کرتے ہیں اور سزائیں دوسروں کو دیتے ہیں۔ جس قدر بھی بُرے کام ہیں اس میں مسلمان ملوث ہیں اور پھر غیرت رسول میں دوسرو ں کے سر قلم کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔

کتاب رنگیلا رسول کے شائع ہونے کےبعد جماعت احمدیہ اور امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے اسی وقت اس کتاب کا جواب لکھا تھا اور مسلمانوں سے بھی اس میں درمندانہ اپیل کی گئی تھی کہ بہادر وہ نہیں جو لڑپڑتا ہے وہ بزدل ہے کیوں کہ وہ اپنے نفس سے دب گیا ہے بہادر وہ ہے جو ایک مستقل ارادہ کر لیتا ہے اور جب تک وہ اس کو پورا نہ کر لے اس سے پیچھے نہیں ہٹتا پس اسلام کی ترقی کے لئے اپنے دل میں عہد کر لو۔ ایک یہ خشیت اللہ سے کام لیں۔ دوسرے یہ کہ تبلیغ اسلام میں دلچسپی لیں۔ اور تیسرے یہ کہ مسلمانوں کو تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لئے پوری کوشش کریں گے۔

(تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ596-597)

پس اس وقت بھی جو امت انتشار کا شکار ہے ناموس رسالت یہ ہے کہ آپؐ کی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ ربیع الاول کے مہینے کی مناسبت سے جلسے کرائے جائیں جن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح کو بیان کیا جائے اور آپؐ کے اخلاق فاضلہ کو اجاگر کیا جائے اور اس بات کی تلقین کی جائے کہ اصلی نجات آپ کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہے۔ اصل عزت و ناموس رسالت آپؐ کے لائے ہوئے پیغام کو حرزِ جان بنانے میں ہے نہ کہ کسی کو مار دینے سے یا قتل کر دینے سے! وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ۔

محمدؐ ہی نام اور محمدؐ ہی کام
علیک الصلوٰۃ علیک السلام

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 4 تا 10 فروری 2011ء میں صفحہ 1 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’توہین رسالت کا مرتکب کون ہورہا ہے؟‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔

یہ مضمون وہی ہے جو نیو یارک عوام نے شائع کیا ہے لیکن عنوان تبدیل کر دیا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے پاکستان کی حالت، دہشت گردی، توہین رسالت کے قوانین اور پاکستان میں احمدیوں کے خلاف جو آرڈیننس ہے اس کے بارے میں، نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عجز و انکسار کے واقعا ت لکھے ہیں۔ اور پاکستان میں جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے لکھ کر پوچھا ہے کہ بتائیں توہین رسالت کا مرتکب کون ہو رہا ہے؟ یہ لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت، بے ایمانی، ملاوٹ، آپ پھر بھی مسلمان رہتے ہیں اور قبروں پر سجدے کریں پھر بھی مسلمان رہتے ہیں۔ یہ لوگ خود توہین رسالت کے مرتکب ہورہے ہیں۔

چینو چیمپئن نے اپنی اشاعت 5 فروری 2011ء میں صفحہ 5Bپر مختصراً ہماری ایک خبر شائع کی ہے اس عنوان سے ’’اسلامی تعلیمات‘‘۔ اخبار نے لکھا ہے کہ مسجد بیت الحمید کے امام مسجد، مسجد میں اسلامی تعلیمات بیان کریں گے اور مسجد کا ایڈریس بھی دیا گیا ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ ممبران مسجد بیت الحمید کے علاوہ غیر مسلم اور وہ بھی جن کا کوئی Faith نہیں ہے وہ بھی آسکتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 11 فروری 2011ء میں صفحہ 21 پر ہماری مندرجہ بالا خبر تفصیل کے ساتھ شائع کی ہے۔ اخبار نے مزید لکھا ہے کہ امام مسجد بیت الحمید سید شمشاد احمد ناصر اسلام کے 5 ارکان اور 6 ایمانیات کے اصول بیان کئے نیز حیاء کے بارے میں اسلامی تعلیم بیان کی اور یہ کہ شراب کیوں اسلام میں منع ہے اور جؤا کے نقصانات وغیرہ امور پر اسلامی تعلیمات بیان کی جائیں گی۔ ہر مذہب کے پیرو کار اس میں شامل ہوسکتے ہیں اور سوالات کر سکتےہیں۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 11 تا 17 فروری 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’صلح و صفائی اور امن و آشتی کی گم شدہ جنتیں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے بیان کیا ہے کہ میرے ایک فاضل دوست مکرم عبدالسمیع خان صاحب نے جو کہ الفضل کے ایڈیٹر ہیں ایک کتاب اس عنوان سے خاکسار کو یہاں بھجوائی ہے۔ یہ کتاب بہت عمدہ ہے اور بہت عمدہ لکھا ہے۔ انہوں نے اس کے پیش لفظ میں یہ بات لکھی ہے کہ معاشرہ کی تشکیل کے لئے اور انہیں ارضی جنت میں تبدیل کرنے کے لئے قرآنی ہدایات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور پھر بزرگان دین کی ہدایات پر عمل کرنا ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اصل حُسن تو انسانوں کی سوسائٹی کا اخلاق اور باہمی امن و محبت سے وابستہ ہے۔چنانچہ دنیا کے کتنے ہی خطے ایسے ہیں جو بلاشبہ خدائی حسن سے مالا مال ہیں مگر انسانوں کی باہمی نفرت اور آویزش نے انہیں جہنم بنا رکھا ہے‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت پر مبنی معاشرہ کی بنیاد ڈالی اور اسے پروان چڑھایا اور اس نے پھر ایک عالم پر اپنی دھاک بٹھائی۔ مگر افسوس کہ یہ پھر نوحوں میں تبدیل ہوگئی اور جنت اہل حق کے ہاتھ سے جاتی رہی۔

مصنف موصوف نے متعددقرآنی آیات سے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو۔ اگر مسلمانوں کےدو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو۔ تقویٰ اختیار کرو۔ دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔ اس کے بعد متعدد احادیث نبویہ بھی نقل کی ہیں۔ مثلاً فرمایا تم میں سے نیک وہ جس سے بھلائی کی امید رکھی جائے اور برائی کا خدشہ نہ ہو اور بُرا وہ ہے جس سے بھلائی کی امید نہ ہو اور اس کے شر سے امن نہ ہو۔ کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔

پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ بدظنی سے بچو، بدظنی بدترین جھوٹ ہے ایک دوسرےکی کمزوریوں کی ٹوہ میں نہ رہو۔ دھوکہ نہ دو۔ حسد نہ کرو، بغض نہ رکھو، قطع تعلقی نہ کرو۔

اس کے بعد خاکسار نے اس کتاب سے حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات نقل کی ہیں جس میں آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’میں صلح کو پسند کرتا ہوں اور جب صلح ہوجائے تو پھر اس کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہئے کہ اس نے کیا کہا یا کیا کیا تھا۔ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص جس نے مجھے ہزاروں مرتبہ دجال اور کذاب کہا ہو اورمیری مخالفت میں ہر طرح کوشش کی ہو اور وہ صلح کا طالب ہو تو میرے دل میں خیال بھی نہیں آتا اور نہیں آسکتا کہ اس نے مجھے کیا کہا تھا اور میرے ساتھ کیا سلوک کیا تھا ……فرمایا میری نصیحت یہی ہے کہ دو باتوں کو یاد رکھو ایک خدا سے ڈرو دوسرے اپنے بھائیوں سے ایسی ہمدردی کرو جیسی اپنے نفس سے کرتے ہو۔ اگر کسی سے کوئی قصور اور غلطی سرزد ہوجائے تو اسے معاف کرنا چاہئے نہ یہ کہ اس پر زور دیا جائے اور کینہ کشی کی عادت بنالی جاوے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ بندوں سے پورا خلق کرنا بھی ایک موت ہے۔ میں اس کو ناپسند کرتا ہوں کہ اگر کوئی ذرا بھی کسی کو توں تاں کرے تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاوے میں تو اس کو پسند کرتا ہوں کہ اگر کوئی سامنے بھی گالی دے تو صبر کرے۔

مکرم مولانا عبدالسمیع خان صاحب نے ایک واقعہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کااس کتاب میں درج کیا ہے۔ کہ آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ ایک ایسا آدمی ہے جو جنت میں جائے گا۔ جب انہیں پتہ چلا کہ وہ کون ہے؟ تو ایک صحابی ان کے گھر چلے گئے اور ان کے مہمان بنے تا یہ کھوج لگائیں کہ کس وجہ سے وہ جنتی ہیں۔ وہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں تین دن ان کے گھر مہمان رہا۔ اور تین دن خوب ان کا مطالعہ کیا مگر تین دن میں مَیں نے ایک دفعہ بھی ایسا نہیں دیکھا کہ انہوں نے کوئی غیر معمولی عبادت کی ہو ہاں یہ ضرور تھا کہ جب بھی رات کو اُن کی آنکھ کھلتی وہ ذکر الٰہی کرتے۔ اچھی بات کے سوا انہیں کچھ اور کہتے نہ سنا۔ تین دن کے بعد میں نے ان سے پھر پوچھ ہی لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بارہ میں فرمایا ہے کہ آپؓ جنتی ہیں۔ تب میں نے سوچا کہ دیکھوں آپ کا وہ کون سا عمل ہے جو آپ کو جنت میں لے جانے کا سبب بن رہا ہے۔ یہ سن کر وہ بولے کہ میں کوئی خاص عمل تو بجا نہیں لاتا مگر یہ بات ضرور ہے کہ میں کسی مسلمان کے لئے دل میں کھوٹ نہیں رکھتا اور نہ کسی کے لئے دل میں کینہ لے کر سوتا ہوں اور ہر قسم کے حسد سے میرا دل پاک ہے۔

پس یہی وہ باتیں ہیں جن کے آنے سے معاشرہ میں جنت کا ماحول پیدا ہوگا۔ اپنے دلوں کو بغضوں، کینوں اور حسد سے پاک کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کے نمونے اپنائیں تو اس معاشرہ میں آج بھی جنت پیدا ہوسکتی ہے۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاءاللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ