• 9 مئی, 2024

سو سال قبل کا الفضل

31 اگست 1922ء یومِ پنجشنبہ (جمعرات)
مطابق 7 محرم الحرام 1341 ہجری

صفحہ اول پر مدینۃ المسیح (قادیان) کی خبروں میں اول الذکر حضرت مصلح موعودؓ کی مصروفیات سے متعلق خبر یہ شائع ہوئی کہ ’’حضرت خلیفہ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالی بخیریت ہیں الحمدللہ کہ درس القران میں 30 اگست تک نواں پارہ ختم ہو چکا ہے۔ ایام زیرِ رپورٹ میں اور بکثرت حقائق و معارف کے علاوہ آدم اور ابلیس کے واقعات اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے معرکۃ الآراء مسائل کو حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایده اللہ نے اس وضاحت کے ساتھ حل فرمایا کہ سامعین اچھی طرح سمجھ سکیں۔‘‘

صفحہ اول و دوم پر حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیرؓ کی افریقہ سے مرسلہ ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں آپ نے نائیجیریا میں اپنی اور گولڈ کوسٹ (گھانا) میں محترم حکیم فضل الرحمان صاحب کی تبلیغی مساعی کا ذکر کیا ہے۔

رپورٹ میں آپ نے حکیم فضل الرحمان صاحب کے ذریعہ ایک ہی گاؤں میں 117 افراد کے احمدی ہونے کی تفصیل بیان کی ہے۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیرؓ کی تحریر کردہ مذکورہ رپورٹ کا کچھ حصہ پیش ہے۔

’’برادرانِ کرام! میرے کام کے ایک پہلو سے اخبار نے آپ کو واقف کیا ہے۔مگر میری مشکلات کا آپ کو کما حقہ علم نہیں۔ان سے صرف اللہ واقف ہے یا میرا نوجوان نووارد رفیق (حکیم فضل الرحمان صاحب۔ناقل)

میں جانتا ہوں کہ میرے تاروں اور خبروں پر اعدائے ملت نے ہنسی اڑائی ہوں گی۔ اور لوگ کہتے ہوں گے کہ ہزاروں روپیہ چندہ آنا چاہیے تھا۔اگر مخلص احمدی ہوتے توضرور ہماری مالی مشکلات کا حل ہو جاتا۔ جہاں میں اللہ تعالیٰ کا شکریہ اداکرتاہوں اور ڈنکے کی چوٹ سے اعلان کر تا ہوں کہ اللہ تعالی نے ان ملکوں میں بڑی بڑی جماعتیں پیدا کر دی ہیں اور خود مسیح موعودؑ اس وقت اپنا روحانی اثر ڈال رہے ہیں اور کوئی طاقت ان شاء اللہ اس پودہ کو اب نہیں اکھاڑ سکتی۔ وہاں یہ بھی عذر کرتا ہوں کہ یہ لوگ ابھی بچے ہیں۔ بچہ پیدا ہوتے ہی کمائی نہیں کرتا۔ ابھی آپ ماں کی طرح صرف دو اور برس دودھ پلائیں اور اس طرف پوری توجہ کر کے اس کی پرورش کریں۔ اور پھر تربیت کی طرف خیال کریں۔ یہ ہو نہار بچہ جلد جوان ہو گا۔ اور میں بصیرت کی آنکھ سے دیکھتا ہوں کہ نائیجیریا کی جماعت ہندوستان کی جماعتوں سے اگر پڑھے گی نہیں تو کم از کم ہمسری ضرور کرے گی۔ میرے اللہ! تُو میرے دل اور میری محنت کو جانتا ہے۔ایسا ہو کہ مرنے سے پہلے میں اس بیج کو پھلتا پھُولتا اور پھیلتا دیکھ لوں۔ آمین ثم آمین‘‘

صفحہ 3اور 4 پر ایک مضمون ’’ہندوستان میں اسلام کس طرح پھیلا‘‘ شائع ہوا ہے۔یہ مضمون سیلون کےایک احمدی انگریزی اخبار ’’Message‘‘ میں شائع شدہ مضمون کا اردو ترجمہ ہے۔اس صفحہ پر ایک خبر ’’ایک عبرت ناک موت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جس میں ظفرالحق نامی بٹالہ کے ایک معاندِ احمدیت کی موت کاذکر ہے جو قادیان میں غیراحمدیوں کے منعقدہ جلسوں (جن میں حضرت مسیح موعودؑ کی اہانت کی جاتی تھی) کی مالی اعانت کیا کرتا تھا۔مذکورہ شخص اچانک ایک کنویں میں گر کراپنے انجام کو پہنچا۔اس خبر کے آخر میں تحریر ہے کہ ’’تعجب ہے کہ مولوی ثناء اللہ نے اس کا ذکر اپنے اخبار میں نہیں کیا حالانکہ جلسہ پر اسے اپنا دایاں بازو سمجھا کرتا تھا۔‘‘

صفحہ5 پر دیو سماجی فرقہ کے اخبار میں پوچھے گئے ایک سوال کاتفصیلی جواب ہے جس میں مسلمان علماء سے استفسار کیا گیا تھا کہ قرآنِ کریم میں ہندوستان کے پھل آم کا ذکر کیوں نہیں ہے۔

صفحہ 5 و 6 پراسلام اور آنحضرتﷺ کے خلاف لگائے گئے بعض الزامات کی جانب حکومتِ وقت کو توجہ دلائی گئی ہے۔ یہ الزامات پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کی ایک کتاب ’’ریڈر نمبر4‘‘ میں شائع کیے گئے تھے۔

مذکورہ اخبار کے مفصل ملاحظہ کےلیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں۔

https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19220831.pdf

(م م محمود)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ