• 25 اپریل, 2024

بگاں بی زوجہ بدر دین

یادِ رفتگان
بگاں بی زوجہ بدردین

میری امی جان بگاں بی زوجہ بدر دین 1927ء کو پیدا ہوئیں۔ اور 12مئی 2022ء کو بعمر 95 سال اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

میری امی جان بے شمار خوبیوں کی مالک تھیں۔اپنی ساری اولاد اور ان کے بچوں سے بے حد محبت کرتیں تھیں۔جب بھی کام کے سلسلے میں گھر سے باہر یا دوسرے شہروں میں جاناہوتا تھا تو ہر وقت یہی فکر رہتی کہ امی جان انتظار کر رہی ہونگی اور یہی کشش مجھے کھینچے رکھتی تھی۔ آج جب وہ ہم سے جدا ہو کر اپنے خالق و مالک کے پاس چلی گئی ہیں تو گھر جیسے ویران سا ہو گیا ہے۔ آخری عمر میں بیماری کے باوجود ہر وقت اپنی نظروں کے سامنے رکھتیں اور بس دعائیں دیتی رہتیں۔میں اور میرے تمام بہن بھائی جس جس حالت میں ہیں اور جو مقام اور خوشحالی عطا ہے وہ سب ہماری والدہ کی بدولت ہے۔ 1984ء میں والد محترم کی وفات کے بعد تنے تنہا ہم بچوں کو سنبھالا پڑھایا لکھایا اور اس قابل بنایا کہ معاشرے کے اچھے فرد بن سکیں۔ آپ کی تربیت کا سب سے اہم پہلو اپنی ساری اولاد کو جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھنا ہے۔ اپنی زندگی میں بےشمار مخالفتوں، تنگیوں، تکلیفوں،اور مشکلات کو دیکھا، انتہائی غربت میں گزارا کیا، رشتہ داروں ور اہل علاقہ کی مخالفتوں کا سامنا گیا لیکن اس کے باوجود کبھی ایک لمحے کے لئے ہمیں خلافت اور احمدیت سے دور نہ ہونے دیا۔ میں یہاں امی جان کی چند خوبیوں کا ذکر کرنا چاہتاہوں جنہوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔

پابندی نماز

جب سے میں نے شعور کی آنکھ کھولی ہے امی جان کو نماز کا پابند پایا۔ ہمیشہ اول وقت میں نماز ادا کرتیں۔اور ساری اولاد کو بار بار تلقین کرتیں اور نماز کی ادائیگی کا پوچھتیں۔آپ کی قیام نماز کے لئے اس قدر فکر اور توجہ ہی کا اثر ہے کہ ہم سب بہن بھائی نماز کے پابند ہیں اور یہی عادت ہماری اولاد میں بھی ہے جو والدہ صاحبہ کی مسلسل نگرانی اور تلقین کی بدولت ہے۔

عشق قرآن

امی جان دنیاوی لحاظ سے ان پڑھ تھیں، شادی کے ایک عرصے بعد ناظر قرآن صحت کے ساتھ پڑھنا سیکھا اور پھر ہمارے والد صاحب کو بھی خود ناظرہ قرآن پڑھایا۔ پھر کوشش کر کے ترجمہ سیکھا۔باقاعدگی کے ساتھ تلاوت قرآن کرتیں تھیں۔جب آخری عمر میں بڑھاپے کی وجہ سے نظر اور صحت کمزور ہو گئی توجس قدر حصہ زبانی یاد تھا اسے پڑھتی رہتیں۔ ادعیہ ماثورہ اور ذکر الٰہی اور درود شریف ہر وقت پڑھتی رہتیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام کے جس قدر اشعار زبانی یاد تھے وہ پڑھا کرتیں۔ پڑھاپے میں آکر جب حافظہ کمزور ہو گیا تو میرے بچوں سے اکثر کہتیں کہ مجھ سے نماز، دعائیں سنو کہیں ان میں غلطی تو نہیں۔ اکثر ہم سب بہن بھائیوں اور ہماری اولاد کو تلاوت کرنے کی تلقین کرتیں رہتی اور پوچھتی رہتیں۔

جماعت سے محبت اور دینی غیرت

جب 1974ء میں فسادات شروع ہوئے تو اس کا اثر ہمارے علاقے پر بھی ہوا۔ جب مخالفت اور بائیکاٹ نے شدت اختیار کی تو کچھ لوگ مخالفت کو برداشت نہ کر سکے اور احمدیت کا انکار کر دیا۔ ان حالات میں ایک دن والد صاحب نے معاشرے کے شدید دباؤ کی وجہ سے کچھ کمزوری دیکھائی تو بڑی جرات اور ایمانی غیرت کے جذبہ سے سرشار ہو کر کہا کہ تم نے الگ ہونا ہے تو ہو جاؤ میں اور میری اولاد مرتے دم تک احمدیت کو نہیں چھوڑیں گے اگر تم نے احمدیت سے الگ ہونے کافیصلہ کیا تو میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی۔والدہ صاحبہ کی ایمانی غیرت اور جرات وبہادری نے والد صاحب کے دل کی وقتی کمزوری کو بھی دور کر دیا۔ یہ وقت انتہائی غربت اور بے کسی وبے بسی کاتھاحالات سے مجبور ہو کرامی جان ہم بہن بھائیوں کو لے کر 1978ء میں ربوہ آگئیں۔ تنگی اور کسمپرسی کے ان ایام میں خاندان مسیح موعود ؑ نے سہارا دیا۔اور پھر ایک عرصے بعد واپس اپنے گاؤں ہم سب کو ساتھ لے کرواپس آگئیں۔

جماعتی خدمات کی سعادت

اللہ تعالیٰ نے امی جان کو بطور صدر لجنہ اماء اللہ مجلس ہیلاں ضلع کوٹلی آزادکشمیر ایک لمبا عرصہ تک توفیق عطا فرمائی۔جب امی جان کو خدمت کا موقع ملا اس وقت سے پہلے ہیلاں اور آرام باڑی دونوں مقامات ایک ہی جماعت شمار ہوتے تھے۔جب یہ دونوں الگ الگ جماعتیں بنیں تو آپ ہیلاں جماعت میں مجلس لجنہ اماء اللہ کی پہلی صدر لجنہ بنیں۔

ان پڑھ ہونے کی وجہ سے فکر مند تھیں کہ میں کیسے خدمت کر سکوں گئی لیکن جب مربی صاحب نے کہا کہ آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ آپ کو خود ہی توفیق عطا فرمادے گاتو پھر تیار ہوگئیں۔اور کہنے لگیں آپ مجھے بتا دیا کریں میں ان شاء اللہ پوری کوشش کرویں گی۔ اس وقت جماعتیں تو الگ الگ بن گئی تھیں پر مسجد صرف آرام باڑی میں ہی تھی اس لئے نماز کے لئے سب آرام باڑی جاتے۔آپ تمام گھرانوں کو دورہ کرتیں اور عورتوں کو مسجد لے کر جاتیں۔نماز جمعہ اور رمضان المبارک میں درس کےلئے باقاعدہ دورہ کر کے لجنہ و ناصرات کو اکٹھا کر کے آرام باڑی جماعت کی مسجد میں لے کر جاتیں۔ عرصہ صدارت میں خوب دورے کر کے لجنات میں بیداری پیدا کی۔آپ کی انہی مسلسل کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ہیلاں میں قرآن کلاس کے لئے سینٹر کا قیام عمل میں آیا،پھر لجنہ وناصرات نےاس سینٹر میں آکر قرآن کریم سیکھنا شروع کیا۔

مہمان نوازی

امی جان حالات کے مطابق بھرپور مہمان نوازی کرتیں اور جہاں تک توفیق ہوتی مہمان کی خدمت کرتیں۔جماعتی مہمانوں کا خاص طور پر اکرام کرتیں تھیں، اور ہمیشہ جماعتی مہمانوں کی خدمت کر کے خوش ہوتیں۔ ہمارا گھر ہر وقت مہمانوں خو ش آمدید کہنے کے لئےتیار رہتا تھا۔اور اب تمام بہن بھائیوں میں یہ خلق امی جان کی کوششوں اور توجہ سے قائم و دائم ہے۔

مرکزی نمائندگان کا احترام وادب

اپنے علاقے میں بارعب اور سخت گیر شخصیت کے طور پر معروف تھیں۔تمام بڑے چھوٹے کیا احمدی کیا غیر احمدی سبھی آپ کا احترام کرتے تھے۔ایسی شخصیت ہونے کے باوجود ایک خوبی جو سب سے بڑھ کر امی جان میں دیکھی جو آپ کی زندگی کا خاصہ تھا۔وہ عہدیداران، مرکزی نمائندگان، مربیان ومعلمین کا ادب واحترام تھا۔ہم سب نے ہمیشہ دیکھا کہ آپ سب سے بڑھ کر عزت واحترام مرکزی نمائندگان مربیان ومعلمین کو دیتیں اور ہمیشہ عاجزی وانکسار کے ساتھ پیش آتیں تھیں۔ اہم امور میں ان سے مشورہ کرتیں۔اور ہمیشہ آہستہ اور دھمے لہجے میں ان سے بات کرتیں۔ہمیشہ واقفین کی فیملیوں اور ان کے بچوں کے متعلق تلقین کرتیں رہتیں کہ ان کا بھی خیال رکھا کرو اور جس قدر ممکن ہوتا اپنی طرف سے خیال رکھتیں۔حتی ٰ کہ آخری عمر میں جب نئے معلم صاحب کی فیملی آئی تو باوجود بیماری اور کمزوری کے مجھ سے کہا کہ مجھے معلم ہاؤس لے چلو میں خود معلم صاحب کے بیوی بچوں سے ملنے جاؤں گی۔اور انتہائی تکلیف برداشت کر کے پہاڑی سے نیچے واقع معلم ہاؤس آئیں اور بڑی دیر بیٹھ کر حال احوال لیتیں رہیں۔معلم صاحب کی اہلیہ نے کہا کہ اماں جی آپ نے کیوں اس قدر تکلیف اٹھائی میں خود آتی تو کہنے لگیں کہ یہ میرا فرض تھا آپ نئی آئی ہیں آپ مہمان ہیں۔

جذبہ تبلیغ

امی جان ان پڑھ تھیں لیکن جماعت کی محبت میں مربیان ومعلمین سے بہت سے دلائل سیکھ لئے تھے۔نڈر، بہادر اور بارعب عورت تھیں،تنے تنہا اردگرد کے عورتوں کو تبلیغ کرنے نکل جاتیں۔نظام جماعت اور سلسلہ کے لیے بہت غیرت رکھتی تھیں کوئی بات اگر ذرہ سی بھی نظام جماعت کی شان سے ہٹ کر سنتیں، کرنے والا خواہ کوئی ہو سخت رد عمل دکھاتیں اور اپنی غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ایک مرتبہ مربی صاحب کے ساتھ مقامی لوگوں نے ذرہ بدتمیزی کر دی اور ان کا راستہ روکا۔جب امی جان کو معلوم ہوا تو اکیلی ہی تنے تنہا معاند احمدیت کے گھر پہنچ گئیں اور اسے بڑی بلند آواز سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں کہ تمہیں جرات کیسے ہوئی کہ تم نے ہمارے مربی صاحب سے بدتمیزی کی اگر تم نے آئندہ کبھی ایسا کرنے کا سوچا بھی تو میں خود تمہارے لئے اکیلی ہی کافی ہوں گی، اور واپس آکر مربی صاحب سے کہا آپ بے فکر ہو کر رہیں کسی کی جرات نہیں کہ آپ کو کچھ کہہ سکے۔

شکر گزاری

1984ء میں والد صاحب وفات پاگے۔ تب سے وفات تک ایک لمبا عرصہ بیوگی کی حالت میں گزارا مگر کبھی اپنی خوداری پر آنچ نہ آنے دی۔سخت سے سخت غربت اور تنگی کے حالات آئے،بیمار ہوئیں،جوان بیٹے کی وفات اور عزیزو اقارب کی جدائی کے صدمات بھی برداشت کئے۔ہر حال میں ہمیشہ زبان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ہی رہا۔کبھی کسی حالت میں امی جان کو ناشکری کرتے نہیں سنا۔ آخری کچھ عرصہ بغیر سہارے کے چل نہیں سکتیں تھیں،دانت گر چکے تھے اس کے باوجود کبھی بھی کسی لمحے ناشکری کے الفاظ زبان پر نہ لاتیں اور نہ ہی بلند آواز سے اپنی بیماری یا تکلیف کا اظہار کرتیں۔وفات سے چند ہفتوں قبل عید سے ایک دو روز قبل شدید بیمار ہو گئیں۔ہسپتال لے جایا گیا چاند رات کو گھر واپس لے آئے اگلے دن عید پر نئے کپڑے پہن کر تیار ہو کر بیٹھ گئیں کہ جب عید ملنے جماعت کے افراد اور رشتہ دار آئیں گے تو کوئی دیکھ کر خوشی کے دن پریشان نہ ہو۔جب ہر کوئی طبیعت کا پوچھتا تو بس یہی کہتیں کہ الحمد للہ شکر ہے اللہ کا ٹھیک ہوں۔ صرف اسی دن نہیں بلکہ ہمیشہ یہی جواب رہتا تھا۔ گویا ہر حال میں خدا تعالیٰ کی رضا میں راضی رہنے والیں تھیں۔

خلافت سے محبت

امی جان کو خلافت سے بے حد محبت تھی۔ خلیفۃ المسیح کے لئے باقاعدہ دعا کیا کرتیں تھیں۔اور حضور انور کو دعا کے لئے خط لکھوایا کرتیں تھیں۔جب اللہ تعالیٰ نے خوشحالی عطا کی اور ہمارے بھائی بیرون ملک گے تو اللہ تعالیٰ نے خلیفۂ وقت سے ملاقات کرنے کی امی جان کی دلی خواہش کو پورا کرنے کا انتظام بھی کر دیااور 4 بار یو۔ کے جلسہ میں شرکت کر کے حضور انور سے ملاقات کرنے کی سعادت بھی نصیب ہو گئی۔

حج بیت اللہ

ہمارے بھائی محمد اعظم کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی تو وہ امی جان کو حج بیت اللہ کے لئے لے کر گے۔اس طرح امی جان کو حج بیت اللہ کر نے کی سعادت بھی مل گئی۔

نظام وصیت

حضور انور نے جب افراد جماعت کو نظام وصیت میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تو امی جان نے بھی وصیت کی لیکن پہلی بار نظام وصیت میں شمولیت کی منظوری نہ مل سکی۔ لیکن آپ کی شدید خواہش تھی چنانچہ بار بار کوشش جاری رکھی گئی اور آخر کار تمام شرائط کو پورا کرنے کے بعد آپ کی وصیت منظور ہو گئی۔

امی جان نے اپنی زندگی میں ہی تمام حصہ جائیداد ادا کر دیا تھا، اور چندہ حصہ آمد بھی مکمل ادا تھا۔وفات کے بعد بہشتی مقبرہ جدید میں تدفین عمل میں آئی۔

اولاد

اللہ تعالیٰ نے امی جان کو سات بیٹے اور تین بیٹیوں سے نوازا تمام کی تمام اولاد صاحب اولاد ہے۔اللہ تعالیٰ نے امی جان کی آنکھوں کو اولاد کی طرف سے بھی ٹھنڈک عطا فرمائی اور اپنی اولاد کی اولاد سے بھی آنکھوں کی تسکین پائی۔اس وقت تک امی جان کے سات بیٹوں اور تین بیٹوں کی اولاد سے 21 پوتے، 17 پوتیاں، 17 نواسے اور 9 نواسیاں ہیں۔

درخواست دعا

یہ چند سطریں تحریر کرنے کے بعد میں تمام قارئین الفضل سے امی جان کے لئے دعا کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔دعا کریں اللہ تعالیٰ امی جان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اپنی رحمت و بخشش کا سلوک کرتے ہوئے اپنے قرب سے نوازے، اور بلند درجات عطا فرماتا رہے۔آمین

(محمد فاروق)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ