• 26 اپریل, 2024

آنکھوں میں آنسوؤں کی جھلّی نہ آ گئی ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پس دیکھیں اس عاشق صادق اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند کی محبت جو آپ کو اپنے آقا اور محبوب سے تھی کہ بے انتہا درود بھیجا کرتے تھے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے نوازا جیسا کہ اس سے ظاہر ہے۔

پس آج ہمیں بھی اس محبت کے نمونے قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ دنیا کو جلد سے جلد اس آقا کی غلامی میں لا سکیں جو تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوا ہے تاکہ دنیا میں امن اور محبت کی فضا پیدا ہو۔

اب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت اور آپ کے لئے غیرت کی چند اور مثالیں جو روایات ہیں بچوں کی اور دوسری پیش کرتا ہوں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ جو آپ کے منجھلے بیٹے، دوسرے بیٹے تھے فرماتے ہیں کہ: ’’یہ خاکسار حضرت مسیح موعود کے گھر میں پیدا ہوا اور یہ خدا کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کے شکریہ کے لئے میری زبان میں طاقت نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ میرے دل میں اس شکریہ کے تصور تک کی گنجائش نہیں۔ مگر مَیں نے ایک دن مر کر خدا کو جان دینی ہے مَیں آسمانی آقا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میرے دیکھنے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر بلکہ محض نام لینے پر ہی حضرت مسیح موعود کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھلّی نہ آ گئی ہو۔ آپ کے دل و دماغ بلکہ سارے جسم کا رُوواں رُوواں اپنے آقا حضرت سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق سے معمور تھا‘‘۔

(سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ صفحہ 27-26)

پھر ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ: ’’ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مکان کے ساتھ والی چھوٹی سی مسجد میں جو مسجد مبارک کہلاتی ہے اکیلے ٹہل رہے تھے اور آہستہ آہستہ کچھ گنگناتے جاتے تھے اور اس کے ساتھ ہی آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی تار بہتی چلی جا رہی تھی۔ اس وقت ایک مخلص دوست نے باہر سے آ کر سنا تو آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت حسانؓ بن ثابت کا ایک شعر پڑھ رہے تھے جو حضرت حسانؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر کہا تھا اور وہ شعر یہ ہے

کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرُ
مَنْ شَآءَ بَعْدکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ

یعنی اے خدا کے پیارے رسول تو میری آنکھ کی پتلی تھا جو آج تیری وفات کی وجہ سے اندھی ہو گئی ہے اب تیرے بعدجو چاہے مرے مجھے تو صرف تیری موت کا ڈر تھا جو واقع ہو گئی۔

راوی کا بیان ہے کہ جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس طرح روتے دیکھا اور اس وقت آپ مسجد میں بالکل اکیلے ٹہل رہے تھے تو میں نے گھبرا کر عرض کیا کہ حضرت یہ کیا معاملہ ہے اور حضور کو کونسا صدمہ پہنچا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مَیں اس وقت حسانؓ بن ثابت کا یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہو رہی تھی کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا‘‘۔

(سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم۔ اے۔ صفحہ28-27)

تو یہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت آپ کو۔ یہ کھوکھلے نعرے، دعوے اور تحریریں نہیں تھیں۔ آج مخالف اٹھ کے یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ تو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو کم رہے ہیں۔ آج اگر اس مقام کو کسی نے پہچانا ہے اور اس کو بلند کرنے کی کوشش کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی غیرت رکھی ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی غیرت کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میری عمر اس وقت 17سال کی تھی کہ کسی جلسہ میں بھیجا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک وفد کی صورت میں۔ فرمایا میری عمر اس وقت 17سال کی تھی مگر وہاں مخالفین نے کچھ باتیں کیں۔ فرمایا کہ مَیں اس بد گوئی کو سن کر برداشت نہ کر سکا اور اور مَیں نے کہا کہ میں تو ایک منٹ کے لئے بھی اس جلسہ میں نہیں بیٹھ سکتا، مَیں یہاں سے جاتا ہوں۔ اکبر شاہ صاحب نجیب آبادی مجھے کہنے لگے کہ مولوی صاحب تو یہاں بیٹھے ہیں اور آپ اٹھ کر باہر جا رہے ہیں۔ اگر یہ غیرت کا مقام ہوتا تو کیا مولوی صاحب کو غیرت نہ آتی۔ مَیں نے کہا کچھ ہو مجھ سے تویہاں بیٹھا نہیں جاتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ سخت کلامی مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتی۔ وہ کہنے لگے کہ آپ کو کم سے کم نظام کی اتباع تو کرنی چاہئے۔ مولوی صاحب اس وقت ہمارے لیڈر ہیں اس لئے جب تک وہ بیٹھے ہیں اس وقت تک نظام کی پابندی کے لحاظ سے آپ کوا ٹھ کر باہر نہیں جانا چاہئے۔ ان کی یہ بات اس وقت کے لحاظ سے مجھے معقول معلوم ہوئی اور میں بیٹھ گیا۔ جب یہ وفد واپس قادیان پہنچا اور حضرت اقدس کی خدمت میں اس جلسہ کی رپورٹ پیش کی تو حضور کو اس قدر رنج پہنچا کہ الفاظ میں اسے بیان کرنا مشکل ہے۔ جو صحابہ اس موقع پر موجود تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس کی زبان فیض ترجمان سے بار بار یہ الفاظ نکلتے تھے کہ ’’تمہاری غیرت نے یہ کیسے برداشت کیا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف گالیاں سنتے رہے۔ تم لوگ اس مجلس سے فوراً اٹھ کرباہر کیوں نہ آ گئے‘‘۔ (حیات نور صفحہ 308) تو یہ ہے آپ کی تعلیم، آپ کے دلی جذبات اور آپ کا عملی نمونہ آنحضرتﷺ کی محبت میں سرشار ہونے کا اور آپ کی خاطر غیرت دکھانے کا۔

(خطبہ جمعہ 10؍ دسمبر 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اکتوبر 2020