• 26 اپریل, 2024

تو مسلمان ہوجا امن میں آجائے گا

اَسْلِمْ تَسْلِمْ

اسلامک ا مادہ سَلِمَ ہے جس کے معنی سلامتی کے ہیں۔ اور مسلم کے معنی ہیں جو سلامتی میں ہو اور دوسرے اس سے محفوظ رہیں۔ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے فرمایا ہے اَسْلِمْ تَسْلِمْ تو مسلمان ہوجا امن میں آجائے گا۔

  • اور ایمان کا Root امن ہے۔ مومن جو خود بھی امن میں ہو اور دوسرے بھی اس سے امن میں رہیں۔ آنحضورﷺ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ تھے اور آپؐ کا شہر بلد امین تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِناً۔ جو اس میں داخل ہوگا وہ امن میں رہے گا۔

سورۃ حشر میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی صفات کا ذکر فرمایا ہے وہاں ’’سلٰم المؤمن‘‘ کی صفات بھی بیان فرمائی ہے کہ خدا ’’سلٰمٌ‘‘ یعنی سلامتی مہیا کرنے والا اور ’’المؤمن‘‘ امن دینے والا ہے۔ اور ایک دوسرے مقام پر ’’تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ‘‘ کہہ کر مسلمانوں کو تلقین فرمائی کہ اللہ کے اخلاق اور صفات سے اپنے آپ کو رنگین کرو۔ اگر وہ ’’سلام‘‘ ہے اور سلامتی مہیا کرتا ہے تو اے مسلمان! تو بھی دوسروں کے لئے سلامتی کا باعث بن۔ اور اگر تمہارا خدا ’’المومن‘‘ ہے یعنی امن دینے والا ہے تو اے مسلمان! تو بھی دوسروں کے لئے امن کا باعث ہو۔

یہاں یہ بات نوٹ کرنے والی ہے کہ مسلمان کو سلامتی مہیا کرنے اور امن دینے کی جو نصیحت کی گئی ہے۔ اس کا سفر انسان کی اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے۔ وہیں سے جہاد کا آغاز ہوتا ہے ۔ ہر انسان کے اندر ایک اور انسان موجود ہے اور جب تک وہ اندر کا پوشیدہ انسان، ظاہری انسان سے محفوظ نہیں تب تک وہ دوسروں کے لئے، دوسرے انسانوں کے لئے کیسے امن اور سلامتی کا باعث بن سکتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں
چپکے چپکے کرتا ہے پیدا یہ سامان دامار

اور آنحضرت ﷺ نے ’’مسلم‘‘ اور ’’مومن‘‘ کی جو تعریف فرمائی وہ اسلام اور ایمان کے معنوں کی صحیح عکاسی کر رہی ہے۔ کس پیارے انداز میں آپﷺ مسلمان کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ

(متفق علیہ)

اس تعریف میں لسان یعنی زبان کا ذکر پہلے کیا ہے اور ہمیشہ لڑائی جھگڑا یا تکرار میں زبان پہلے چلتی ہے۔ انسان بُرا بھلا، گالی گلوچ پر پہلے اُتر تا ہے۔

اس حدیث میں مُسْلِمُونَ سے عام مسلمان مراد ہیں ہی۔ مگر اس سے انسان کا اپنا نفس بھی مراد ہے اور اسی لئے اس حدیث میں زبان کا لفظ پہلے لائے کیونکہ انسان اپنے آپ کو ہاتھ سے کبھی نہیں مارتا ہاں زبان سے اپنے لئے سامانِ دامار پیدا کرتا رہتا ہے۔ کبھی جھوٹ بول کر، کبھی غیبت کرکے، کبھی گالی گلوچ اور کبھی دوسری بُرائیوں سے جن کا تعلق زبان سے ہے۔

ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ فرماتے ہیں: أُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِینَ کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے اول ٹھہروں۔ پھر ایک جگہ مومنین کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے یوں حکم ہوا کہ أُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ مِنَ المُوْمِنِیْنَ کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مومنوں میں سے ہوجاؤ۔

ہم آپؐ کی اقتداء میں انہی معنوں میں ’’مسلمان‘‘ بننے کی کوشش کرتے ہیں اور نماز کے اختتام پر ’’السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ‘‘ کہہ کر اپنے دائیں بائیں، قریب، دور بسنے والوں۔ واقفوں اور نا واقفوں، شہریوں، دیہاتیوں کو غرض اللہ کی ساری مخلوق کو سلامتی و امن کی دعا دیتے ہوئے یہ کہتے ہوئے کہ میری طرف سے کوئی تکلیف اور گزند نہیں پہنچے گی اور جب بارگاہ رب العزت سے باہر آتے ہیں تو ہم عملاً آنحضرتﷺ کی اقتداء میں أُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِینَ کہہ رہے ہوتے ہیں۔

  • پھر آئیں دیکھیں، مومن کی آنحضور ﷺ نے کیا تعریف فرمائی۔ فرمایا:

اَلْمُوْمِنُ مَنْ یَّاْمَنُہٗ النَّاسُ کہ مومن وہ ہے جس سے لوگ امن میں رہیں۔

وہ امن کی آماجگاہ جو بلد امین کہلایا اور اُس کا سالاراعظم ’’رسول امین‘‘ کہلایا۔ آج اس کے ماننے والے نہ اپنے ہاتھوں خود محفوظ ہیں اور نہ دوسرے اُن سے محفوظ۔

خانہ کعبہ جو امن کی درس گاہ تھا اور فتح مکہ کے روز یہ کہا گیا تھا جو اس میں آجائے گا وہ امن میں ہوگا۔ آج اس کی ظل مساجد بھی محفوظ نہیں ہیں اور آنحضورﷺ کی تعریف کے برعکس ایک مسلم کی مختلف تعریفیں گڑھ لی گئیں۔ مسئلہ ختم نبوت کو اس کا حصہ بنا گیا اور افسوس اس بات پر کہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کے ترجمہ میں (آخری) کا لفظ add کردیا گیا۔ اور انہی مختلف تعریفوں کی وجہ سے امت انتشار اور افتراق کا شکار ہے اور تشدد معاشرہ میں جگہ پاگیا ہے اور جگہ جگہ امت مسلمہ پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ اگر امت آنحضورﷺ کی بیان فرمودہ تعریف ‏الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ کو حرز جان بناتی تو آج امت نہ بٹتی۔

ہلاکو خاں نے 652ء میں جب بغداد پر حملہ ہوااور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی تو کچھ مسلمان ایک بزرگ کے پاس دُعا کی غرض سے حاضر ہوئے تو بزرگ نے جواباً کہا تھا کہ میں کیا کروں؟ جب بھی میں خدا سے دُعا کرنے لگتا ہوں مجھے غیب سے آواز آتی ہے۔ اَیُھَا الْکُفَارُ! اُقْتُلُ الْفُجَّار۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بغداد میں اس وقت شیعہ سنی فسادات رہتے تھے۔

اس کے بالمقابل جماعت احمدیہ کی تعلیم امن آشتی کی تعلیم ہے۔ جو اپنوں کے لئے امن کا موجب ہے اور غیروں کے لئے بھی امن کا باعث۔

73 سالہ تاریخ پاکستان گواہ ہے کہ باوجود مخالفتوں کے جو مذہب کی بناء پر کی گئیں جماعت احمدیہ نے امن کا دامن نہیں چھوڑا۔ ہمارے باپوں کو شہید کیا گیا۔ ہمارے بیٹوں کو باپوں کے سامنے مار دیا گیا۔ مساجد جلائی گئیں۔ جائیدادوں کو لوٹا گیا مگر اسوہ رسولؐ کے مطابق پُرامن رہے اور ہمارا پیغام بھی امن رہا۔

کسی صوفی شاعر نے کہا تھا کہ

ڈھادے مسجد ڈھادے مندر
ڈھادے جو کچھ ڈھیندا
اک بندے دا دل نہ ڈھائیں
رب دلاں وچ رہندا

ہمارا امن کا پیغام جوہے وہ اسلام کا پیغام ہے۔ حضرت محمدؐ کا پیغام ہے وہ تو اس سے بھی آگے ہے۔ ہمیں تو یہ حکم ہے کہ کسی مسجد کو نہیں گرانا۔ کسی مندر، کو چرچ کو، کسی گوردوارہ کو نقصان نہیں پہنچانا۔ جنگ کے دوران درخت نہ کاٹے جائیں۔ عمارتوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ عورتیں اور بچے محفوظ رہیں۔

ہماری گھٹی میں یہ بات ڈال دی گئی ہےکہ
گالیاں سُن کر دُعا دو پا کے دکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار

خلفائے احمدیت نے بھی یہی تعلیم دی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی تجدید فرمار ہے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے جماعت کو Love for all hatred for none کا ماٹو دیا۔ آج یہ سلوگن جماعت احمدیہ مسلمہ کی پہچان بن چکا ہے۔ برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ممالک کے جلسہ ہائے سالانہ میں وزراء اور ممبران پارلیمنٹ جماعت کے متعلق جب اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو اس سلوگن کا بطور خاص ذکر کیا کرتے ہیں۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلوگن میں جس محبت کا ذکر ہے وہ تمام دنیا کے انسانوں کے لئے ہے۔ اس میں موجود لفظ all میں اپنی آل اولاد کوبھی شامل کریں۔ عزیز و اقارب، دوست احباب سب شامل ہیں۔ کیونکہ اس کا آغاز اپنے نفس سے ، اپنی آل سے ہوتا ہوا محلہ، شہر، ملک اور ساری دنیا میں بسنے والے مسلمان اور انسانوں تک پھیلتا ہے۔

اگراپنے اپنے عزیزواقارب سے اس Love کی بنیاد ڈال کر آغاز کریں تو ماں بیٹے سے جو جھگڑا ہے وہ نہیں ہوسکتا۔ باپ بیٹے، بھائی بھائی، بھائی بہن، میاں بیوی، ساس بہو اور دیگر عزیزوں میں بھی جھگڑا نہیں ہوسکتا۔ گھر کا ہر فرد دوسرے سے امن میں رہے گا۔ سلامتی محسوس کرے گا۔ اس طرف ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مختلف تربیتی خطبات میں توجہ دلا رہے ہیں۔ اپنے خاندان سے نکل کر اللہ کے خاندان، اس کی عیال (تمام انسانوں) سے ہمدردی اور پیار کریں اور امن کے قیام کے لئے ہر وہ طریق اپنائیں جو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے ہمارے لئے اسوہ چھوڑا ہے۔ آپؐ نے تو صلح حدیبیہ میں اپنے نام کے ساتھ ’’رسول اللہ‘‘ کے الفاظ خود اپنے ہاتھ سے کاٹ دیئے تھے تا امن قائم ہو اور اپنی پہچان ’’عبد اللہ‘‘ بنائی۔

ایک صحابی نے آنحضورﷺ سے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ایمان کے ساتھ کوئی عمل بتائیں۔ آپؐ نے مختلف عملوں کا ذکر فرمایا۔ جس میں ایذاء رسانی سے لوگوں کومحفوظ رکھنے کا بھی ذکر تھا۔

(مستدرک حاکم)

احمدی کادل تو امن کا گہوارہ، سلامتی کا گھر، اطمینان کی نگری اور سکینت کی آماجگاہ ہے۔ اس لئے ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ ہم اسلام اور امن کے حقیقی معنوں کا لبادہ اوڑھ کر وہ مسلمان اور مومن بن جائیں جن کی نشان دہی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور آنحضورﷺ نے اپنے اسوہ اور ارشادات سےفرمائی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’پھر ایک حقیقی احمدی بننے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہر قسم کے ظلم سے بچنے کی طرف بھی خاص توجہ خاص طور پر دلائی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ اگر میری طرف منسوب ہونا ہے تو پھر کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ۔

(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ46-47)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ سب سے بڑا ظلم کون سا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کے حق میں سے ایک ہاتھ زمین دبا لے یعنی اس پہ قبضہ کر لے۔ اس زمین کا ایک کنکر بھی جو ہے، ایک چھوٹا سا ٹکڑا جو دو انگلیوں میں آ جاتا ہے جو اس نے ظلم کی وجہ سے لیا ہو گا، کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی قبضہ کیا ہو گا تو اس کے نیچے کی زمین کے تمام طبقات یعنی اس زمین کے نیچے زمین کی جتنی تہیں ہیں ان کے طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ جب اس کا حساب کتاب ہو گا ایک ہار بنایا جائے گا اور وہ ہار گلے میں ڈال دیا جائے گا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد2 صفحہ59-60 مسند عبد اللہ بن مسعود حدیث3767)

اب زمین کے نیچے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہزاروں میل کے طبقات میں ، اب انسان یہ تصور کرے کہ اس وجہ سے کتنے بڑے بوجھ انسان پر ڈلیں گے۔ اتنی بڑی سزا ہے کہ اس کا تصوّر بھی انسان نہیں کر سکتا۔ پس کسی کے حقوق دبانا بہت بڑا ظلم اور گناہ ہے۔ غیروں کو ہم اسلام کی خوبیاں بتاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے اعلیٰ ترین معیار اسلام کی تعلیم میں ہیں ۔ اسلام حقوق لینے کی بجائے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ لوگوں کو تو ہم بڑے بڑھ بڑھ کے یہ باتیں کہتے ہیں اور اگر ہمارے عمل اس سے مختلف ہیں تو ہم گناہگار ہیں اور جھوٹ بول رہے ہیں ۔ پس اس کا بھی باریکی کے ساتھ ہر احمدی کو جائزہ لینا چاہئے۔ ہمارے عمل ہماری تعلیم کے مطابق ہوں گے تو ہماری تبلیغ بھی پھل دار ہو گی۔ ہمارے اثرات لوگوں پر اچھے ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو معیار مقرر فرمایا ہے اور جیسا کہ یہ بیان ہوا ہے کہ ظلم کا خیال بھی دل میں نہیں لانا کجا یہ کہ کسی پر کسی بھی طرح ظلم کیا جائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 2نومبر 2018ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اکتوبر 2020