• 26 اپریل, 2024

میرے پیارے والد چوہدری عبد الرحمٰن صاحب

مورخہ 30اپریل 7 رمضان المبارک 2020 کو میرے بہت پیارے اور ہردلعزیز والد صاحب چوہدری عبد الرحمن صاحب ہم سب کو اشکبار چھوڑ کر اپنے پیارے خالق حقیقی سے جا ملے انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ہمارے والد صاحب 14 اپریل 1940 کو بھارت مین گرداس پور کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے والد صاحب بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے ان سے بڑے ایک بھائی اور ان سے چھوٹے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں ہمارے دادا کا نام چوہدری محمد شریف صاحب تھا اور ہمارے خاندان میں احمدیت ہمارے والد کے تایا جان جوکہ درویش سلسلہ تھےکے ذریعہ آئی۔ ہمارے والد صاحب کا اپنے تایا جان کے ساتھ بہت قریبی تعلق تھا اور ان کی شادی بھی انہوں نے ہی اپنے دوست چوھدری عبدالحمید صاحب، درویش قادیان کی صاحبزادی ،محترمہ نعیمہ صاحبہ سےطے کرائی

والد صاحب 1947 میں اپنے پھوپھا جان کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان منتقل ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والدین کے پاس شکرگڑھ کے قریب ایک گاؤں میں حاصل کی ،میٹرک کرنے کے بعدمزید تعلیم کے لے اپنی پھوپھی جان کے پاس فیصل آباد منتقل ہوگئے۔ وہ شروع سے ہی بہت محنتی تھے اور بی ایس سی کے دوران جب انہیں جاب آفرهوئ تو انہوں نے ٹیلیفون ڈیپارٹمنٹ جوائن کرلیا اور پھر اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھتے رہے اور ترقیات کا یہ سفر ۲۰۰۰ میں ختم ہوا جب وہ ایک ۱۹ گریڈ کے آفیسر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ اپنی جاب کے دوران تمام فرائض نہایت احسن طریقے سے سرانجام دیے وہ ایک نہایت محنتی اور ایماندار آفیسر کے طور پر مشہور تھے۔

والد صاحب بچپن ہی سے بہت اطاعت گزار اور عبادت گزار واقع ہوئے تھے ان کی تایازاد بنالی ہیں کہ بہت چھوٹی عمر سے ہی پانچ وقت نماز کے عادی تھے اور خاندان میں مثال بنی ہوئی تھی کہ جب کوئی بچہ چھوٹی عمر میں نماز پڑھتا تو کہا جاتا کہ یہ تو عبدالرحمن بن گیا ہے اطاعت گزاری کی وجہ سے والدین کے بہت پسندیدہ اور لاڈلے تھے اور اطاعت اور محبت اور خدمت کا یہ تعلق والد صاحب نے اپنے والدین کی آخری سانس تک اس خوبی سے نبھایا کہ خاندان میں والدین کی خدمت کا ایک نیا معیار قائم کردیا خاص طور پر اپنی والدہ سے عشق کی حد تک محبت کرتے۔

والد صاحب کی شخصیت ایسی ہمہ جہت اور مکمل تھی کہ ان کی تمام خوبیاں بیان کرنا ناممکن ہے میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں اس لے والد صاحب کے ساتھ بہت قریبی تعلق تھابچپن سے ہی میں نے محسوس کیا کہ ان کا خدا تعالی کے ساتھ بہت مضبوط تعلق تھا وہ جوانی سے تہجدگزار تھے ہر صبح ہماری آنکھ ان کی تلاوت اور ترجمہ کی آواز سے کھلتی ۔میں نے تمام زندگی میں کبھی نہیں دیکھا کہ وہ فجر کی اذان سے پہلے نہ اٹھے ہوں سوائے اپنی بیماری کے آخری ایام کے۔ نماز کے بعد باقاعدگی سے صبح کی سیر اور ورزش کرتے اور بچپن میں ہم بہن بھائیوں کو بھی اپنے ہمراہ لے جاتے

ہم ماشاءاللہ چار بہن بھائی ہیں میرے بعد ایک بہن اور اس کے بعد دو چھوٹے بھائی۔ میرے والد سراپا محبت و شفقت تھے۔ ہم سب بہن بھائیوں کے ساتھ بہت ہی محبت اور عزت سے پیش آتے اور ہر ایک کے بہترین دوست تھے انہوں نے تمام عمر کبھی ہمیں اونچی آواز سے نہیں ڈانٹا ہمیشہ بہت دلچسپ اور پاکیزہ گفتگو کیا کرتے تھے۔ انہوں نے خاص طور پر بچپن سے ہی ہم سب کو خلافت کے ساتھ بہت خوبصورتی سے منسلک کیا بچپن سے ہماری دینی اور دنیاوی تعلیم کا خاص خیال رکھا ۔ وہ رات کو ہمیں بے مقصد کہانیوں کی بجائے پیغمبران خدا کی باتیں بتایا کرتے۔ناظرہ قرآن کے بعد مجھے لفظی ترجمہ بھی شروع کروایا۔جمعہ کاخاص اہتمام کرتے۔ با قا عدگی سے نہ صرف رمضان بلکہ شوال کے روزے بھی رکھتے۔بڑی با قا عدگی سےدس روز تک اعتکاف کے لئےبیٹھتے تھےبلکہ امریکہ میں ڈیلس جماعت میں اعتکاف کی روایت کی بنیاد ہمارے والد صاحب نے ہی قائم کی تھی۔

ابو چو نکہ خود انجینئر تھے اس لئے سائنس سبجیکٹ خود پڑھاتے،امتحانوں میں صبح فجر کی اذان سے پہلے اٹھ کے ہمیں پڑھایا کرتے تھےورنہ شام کو باقاعدگی سےہمیں پڑھاتے، ان کی انتھک محنتوں اور دعاؤں کا نتیجہ ہےکہ ہم سب نے ماشااللہ، اللہ تعالی کے فضل سے اپنی اپنی جگہ اعلی ڈگریاں حاصل کیں۔

ہم دونوں بہنیں اللہ تعالی کے فضل سے ایم بی بی ایس کر کے پریکٹس میں گئیں اور میرے دونوں بھائی کمپیوٹرسائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ماشاءاللہ ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں ۔

ابو صرف نام کے عبدالرحمن نہیں تھے بلکہ صفت رحمانیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی تمام عمر ہم میں سے کسی کی فرمائش پرکبھی انکار نہیں کیا ہمارے علاوہ اپنے سٹاف کے غریب لوگوں کا بہت خیال کیا کرتے جماعت کے غریب لوگوں کی بہت مدد کرتے اور بہت عزت کیا کرتے ہمارے والدین کا آپس میں مثالی تعلق تھا جس کی بنیاد باہمی محبت و عزت اور اعتماد تھا۔ ہماری والدہ صاحبہ دریا کو کوزے میں بند کردیاہےکہ‘‘آپ کے والد نے تمام عمر مجھے پھولوں کی طرح رکھا۔’’

عاجزی، خوش خلقی، حلیمی اور مہمان نوازی ابو کی شخصیت کا بہت اہم حصہ تھیں۔ اگرکوئی دوست کھانے کے وقت آفس میں آجاتا تو گھر میں فون کر کے کھانے کا اہتمام ضرور کراتے جماعت سے ہمیشہ بہت گہرا اور پرخلوص تعلق تھا-جوانی سے ہی موصی تھےاور بہت با قا عدگی سے چندے دیتے تھے۔ نماز با جماعت کا گھر میں بہت اہتمام کرتے۔ ہمارا گھر پاکستان میں بھی نماز کا سنٹر تھا پھر جب امریکہ میں منتقل ہوئے توایک عرصے تک گھر میں سب کے لئے جمعہ کا اہتمام ہوتا۔ ماشاءاللہ یہ بات بھائیوں میں بھی اسی خوبی سے منتقل ہوئی اور اب ماشاءاللہ چھوٹے بھائی جماعت کے پریذیڈنٹ کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور بڑے بھائی جماعت کے اہم عہدوں پر فائز ہیں ۔ اپنی بہوؤں اور دامادوں سے مثالی تعلق تھا غرض والد صاحب نفس مطمئنہ کی مکمل تصویر تھے آپ کی شخصیت سراپانورکہ جو ملتا ان کا گرویدہ ہوجاتا،ایک شفیق مسکراهٹ ہمیشہ چہرے کا احاطہ کیے رکھتی، خاندان میں یہ بات مشہور تھی کہ عبدالرحمان صاحب تو ایک چلتے پھرتےفرشتہ ہیں ۔

فروری کے آخر میں ابو کی طبیعت خراب ہوئی اور ہسپتال میں داخل ہوئے پانچ دن کے بعد ڈسچارج ہوگئے اس کے بعد دوبارہ اسپتال داخل ہوئے، مارچ میں جب ملاقات کے لیے گئ تو مجھے سمجھانے لگے کہ بیٹا دنیا کا نظام اسی طرح چلتا ہے کچھ لوگ آتے ہیں اور کچھ جاتے ہیں سانس کا کیا بھروسہ آئے، نہ آئے۔

ابو نے اپنی بیماری کا وقت بہت صبر سے گزارا اور جب ہم پریشان ہوتے تو ہمیں حوصلہ دیتے تھے ہر عیادت کرنے والے سے نہایت خوش خلقی سے بات کرتے بلکہ پرمزاح گفتگو بھی کرتے۔

موت تو برحق ہے اور ہم خالق حقیقی کی رضا میں راضی ہیں کیونکہ لے جانے والا جانے والے سے بھی پیارا ہے ،لیکن والد صاحب کی وفات سے ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے ایک محبت کرنے والا شجرسایہ دار ہماری زندگی سے چلا گیا ہو جیسے چاندنی رات میں چاند کہیں چھپ گیا ہو، وہ ایک بہترین والد بہترین بھائی اور بہترین دوست تھے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ محض اپنے فضل الرحمٰن سے والد صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اورہمیں ان کی دعاؤں کاوارث بنائے آمین

(مرسلہ: ع چوہدری)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اکتوبر 2020