• 6 مئی, 2024

محترمہ ماریہ آرینز کی یاد میں

1989ء کے شروع میں ہم جرمنی کے صوبہ رائن لینڈ فالز کے علاقہ آئفل کے ایک چھوٹے سے گاؤں میولن باخ کے ایک پیارے سے گھر میں حکومت کی طرف سے ملنے والے گھر میں رہائش پذیر ہوئے۔ تھوڑی سی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ آس پاس بھی بہت پیاری پیاری فیملیاں آباد تھیں۔ ہمارے چونکہ دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے اس وقت اور بالکل سامنے والی فیملی کا بھی ایک بچہ تھا، ایک دو سال بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں پیاری سی بیٹی سے بھی نواز دیا۔ بچوں کی دوستیاں ہو گئیں تو ہمارا بھی آنا جانا زیادہ اسی فیملی سے تھا۔ دوسرا نئی اور مشکل زبان، کچھ سمجھ بھی مشکل سے ہی آتی۔ اس لئے کچھ عرصہ تک تو کسی اور سے کوئی رابطہ نہ ہوا۔ ہمارے گھر کی بالکونی کے بالکل سامنے ایک فیملی کے گھر کا پچھواڑے کا بڑا سا گارڈن تھا۔ کچھ سالوں بعد نظر پڑی تو وہاں کبھی کبھار ایک بڑی معزز، باوقار پیاری سی جرمن خاتون نظر پڑتیں۔ کبھی کبھار سر کے اشارے سے، کبھی ایسے ہلکی سی ہیلو ہائے ہو جاتی۔ سالوں پہ سال گزرے تو سلام دعا تھوڑی بڑھی۔ کبھی کبھار میں چکن پلاؤ بنا کے انہیں دیتی جو انہیں بےحد پسند آتا۔ ان کی بات کرنے کے انداز میں بے پناہ اپنائیت اور سادگی تھی۔ ایک دن کہنے لگیں کہ چاول تم نے بغیر بوٹی کے دے دینے تھے، گوشت مہنگا ہے اپنے بچوں اور میاں کو دینا تھا۔ مجھے دل میں بہت پیار آیا انکی اس بات پہ۔ (اس زمانہ میں ہمیں جرمنی میں بہت سست سماں لگتا تھا کیونکہ ہر چیز چند مارک کے عوض ملتی تھی جبکہ پاکستان میں ہم سینکڑوں میں خریدتے آئے تھے)۔

ماریہ آرینس صاحبہ سے بات تو کبھی کبھار ہی ہوتی تھی۔ وہ بھی ایسے کہ میں بالکونی میں اور وہ اپنے وسیع و عریض گارڈن کے آخری کونے تک اگر کبھی آئیں تو پھر۔ خیر ایک دن انہوں نے مجھے اپنے گھر کافی کیک پہ آنے کی دعوت دی۔ میں مقدور بھر ان کے لئے دعا بھی کرتی رہتی تھی۔ میں گئی تو مجھے لئے گارڈن میں ہی آ گئیں۔ وہ معتدل مزاج مذہبی بھی تھیں۔ ایک بات انہوں نے کہی جو مجھے آج بھی یاد ہے۔ کہنے لگیں کہ آج ایک کبوتر میرے گارڈن میں آیا تھا ایسے لگا کہ وہ میری آنکھوں میں دیکھ رہا ہے۔ آج ہی تم بھی آئی ہو۔ تو کیا ان دونوں باتوں میں کوئی مماثلت ہے۔ میں نے انہیں ٹوٹی پھوٹی زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا بھی بتایا ہوا تھا۔ ویسے تو بات سن کر تصدیق ہی کرتی تھیں۔

انتہا درجہ کی شریف النفس خاتون تھیں۔ شرافت ان کے چہرہ پہ لکھی نظر آتی۔ غالباً جوانی میں ہی بیوہ ہو گئی تھیں اور پھر ساری زندگی بیوگی میں ہی بسر کی۔ دو بیٹے تھے جن سے بہت پیار تھا۔ ایک دن مجھے بتانے لگیں کہ جاتی سردیوں کے دن تھے۔ میں گارڈن میں آئی، سردی تو تھی، لیکن دھوپ بھی تھی۔ میں وہیں بینچ پہ لیٹ گئی۔ لیٹے لیٹے آنکھ لگ گئی اور پتہ ہی نہ چلا۔ آنکھ کھلی تو میرے پہ رضائی تھی۔ کسی وقت بیٹا آیا، دیکھا کہ میں سو رہی ہوں تو آہستگی سے آرام سے رضائی میرے پہ ڈال کر چلا گیا۔ بڑی مطمئن تھیں اس بات سے کہ بیٹے بھی میرے سے پیار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے بیٹوں کو اپنے رستوں پہ چلنے والا بنا لے۔

یہ دنیا تو فانی ہے۔ جو یہاں آیا ہے اس نے جانا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پہ چلنے والا بنائے، دین و دنیا کی حسنات سے بے حساب نوازے، آمین

(مرسلہ: مبارکہ شاہین۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ