حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر اس کی انتہااس دائرے کی اس صورت میں نظر آتی ہے جہاں بعض قومیں اور ملک اور حکومتیں اپنے تکبر کی وجہ سے ہر ایک کو اپنے سے نیچ سمجھ رہی ہوتی ہیں ۔ اورغریب قوموں کو، غریب ملکوں کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھا ہوتاہے۔اورآج دنیا میں فساد کی بہت بڑی وجہ یہی ہے۔ اگر یہ تکبر ختم ہو جائے تو دنیا سے فساد بھی مٹ جائے۔ لیکن ان متکبر قوموں کو بھی، حکومتوں کو بھی پتہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب تکبر کرنے والوں کے غرور اورتکبر کو توڑتاہے تو ان کا پھر کچھ بھی پتہ نہیں لگتا کہ وہ کہاں گئے۔
اللہ تعالیٰ قرآ ن شریف میں فرماتاہے: وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ (لقمان:۱۹)۔ اس کا ترجمہ یہ ہے :اور (نخوت سے) انسانوں کے لئے اپنے گال نہ پُھلا اور زمین میں یونہی اکڑتے ہوئے نہ پھر۔ اللہ کسی تکبر کرنے والے (اور) فخرومباہات کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
جیساکہ اس آیت سے بھی ظاہر ہے اللہ تعالیٰ ہمیں فرمارہاہے کہ یونہی تکبر کرتے ہوئے نہ پھرو۔ اپنے گال پھلاکر، ایک خاص انداز ہوتاہے تکبرکرنے والوں کا اور گردن اکڑاکر پھرنا اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں ۔بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنے سے کم درجہ والوں کے سامنے اکڑ دکھا رہے ہوتے ہیں اور اپنے سے اوپر والے کے سامنے بچھتے چلے جاتے ہیں ۔ تو ایسے لوگوں میں منافقت کی برائی بھی ظاہر ہو رہی ہوتی ہے۔تو یہ تکبر جوہے بہت سی اخلاقی برائیوں کا باعث بن جاتاہے اورنیکی میں ترقی کے راستے آہستہ آہستہ بالکل بند ہو جاتے ہیں ۔ اورپھر دین سے بھی دورہوجاتے ہیں ، نظام جماعت سے بھی دور ہو جاتے ہیں ۔اور جیسے جیسے ان کا تکبر بڑھتاہے ویسے ویسے وہ اللہ اور رسول کے قرب سے، اس کے فضلوں سے بھی دور چلے جاتے ہیں ۔
اللہ کرے کہ ہراحمدی عاجزی، مسکینی اورخوش خلقی کی راہوں پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحم کی نظر حاصل کرنے والاہو، اللہ تعالیٰ کی جنت میں جانے والاہو اور ہر گھر تکبر کے گناہ سے پاک ہو۔
ایک حدیث میں آتاہے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :عزت اللہ تعالیٰ کا لباس اور کبریائی اس کی چادر ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے پس جو کوئی بھی انہیں مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا مَیں اسے عذاب دوں گا۔
(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم الکبر)
تو تکبر آخرکار انسان کو خدا کے مقابل پر کھڑا کردیتاہے۔جب خدا کا شریک بنانے والے کو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ معاف نہیں کروں گا تو پھر جو خود خدائی کا دعویدار بن جائے اس کی کس طرح بخشش ہو سکتی ہے۔ تو یہ تکبر ہی تھا جس نے مختلف وقتوں میں فرعون صفت لوگوں کو پیدا کیا اور پھر ایسے فرعونوں کے انجام آپ نے پڑھے بھی اوراس زمانہ میں دیکھے بھی۔تو یہ بڑاخوف کامقام ہے۔ ہر احمدی کو ادنیٰ سے تکبر سے بھی بچنا چاہئے کیونکہ یہ پھرپھیلتے پھیلتے پوری طرح انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ وارننگ دے دی ہے، واضح کردیاہے کہ یہ میری چادر ہے، مَیں رب العالمین ہوں ، کبریائی میری ہے، ا س کو تسلیم کرو، عاجزی دکھاؤ۔اگر ان حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کروگے تو عذاب میں مبتلا کئے جاؤ گے۔
(خطبہ جمعہ 29؍ اگست 2003ء)