• 19 اپریل, 2024

ختم نبوت

تبرکات حضرت میر محمد اسحاق
(قسط 4)

اس سے حل ہو جاتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کن معنوں میں سمجھتے تھے۔ انہیں معنوں میں جن میں اپنے آپ کو خاتم الاولیاء کہتے تھے اور وہ اس طرح کہ میرے بعد کوئی ولی نہیں ہو گا مگر وہی جو میری جماعت سے ہو گا۔ اس کے مطابق خاتم النبیین کے یہ معنی ہوئے کہ کوئی نبی نہیں ہو سکتا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور غلامی کے ذریعہ۔

خاتم کے معنی لغت سے

اب ایک سوال رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ خاتم کے جو معنی کئے گئے ہیں ان کی لغت بھی تصدیق کرتی ہے یا نہیں۔ مجمع البحار لغت کی ایک کتاب ہے۔ اس میں یہ حدیث لکھ کر کہ اُوْتِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ وَ خَوَاتِمَہ، لغت والا لکھتا ہے کہ اَیْ حُجَّۃٌ عَلٰی سَائِرِھَا وَ مُصَدِّقٌ لَّھَا یعنی اس حدیث میں جو رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ میرا کلام خواتم ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ تمام پر حجت اور ان کی تصدیق کرنے والا ہے۔

اس سے معلوم ہو گیا کہ خاتم، تصدیق کرنے والے کو بھی کہتے ہیں۔

کیا یہ حدیث ضعیف ہے

حدیث جو میں نے لَوْ عَاشَ والی پیش کی ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ضعیف ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ملا علی قاری نے احادیث کے متعلق موضوعات (کے) نام (پر) ایک کتاب لکھی ہے اس میں وہ لکھتا ہے کہ بعض کا خیال ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے مگر یہ تین طریقوں سے ثابت ہے کہ صحیح ہے۔ چنانچہ اس کے متعلق اس نے خاص تذکرہ کیا ہے اور خوب بحث کر کے ثابت کیا ہے کہ ضعیف نہیں ہے۔

نبوت کا دروازہ کھلا ہونے پر دوسرا اعتراض

دوسری دلیل جو کسی نبی کے نہ آ نے کے متعلق پیش کی جاتی ہے یہ ہے کہ چونکہ شریعت مکمل ہو چکی ہے اس لئے اب کسی نبی کے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ:4)۔ اب اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ہر ایک نبی آتا ہی اس لئے ہے کہ شریعت لائے تو ہم اس دلیل کو ماننے کے لئے تیار ہیں مگر قرآن کریم کی کسی آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر ایک نبی کے لئے شریعت کا لانا ضروری ہے۔ بلکہ برخلاف اس کے یہ پایا جاتا ہے کہ کئی نبی ایسے آئے جو کوئی شریعت نہ لائے اور پہلی شریعت ہی کی پیروی کرتے رہے۔ چنانچہ خداتعالیٰ فرماتا ہے اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّ نُوْرٌ یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا (المائدہ:45) کہ ہم نے توارت کو اُتارا جس میں ہدایت و نور تھا۔ اس کے ساتھ نبی فیصلہ کیا کرتے تھے۔ یہ تو صاف بات ہے کہ توریت حضرت موسٰیؑ پر نازل ہوئی مگر کہا گیا ہے کہ دوسرے نبی بھی اس کے مطابق فیصلہ کیا کرتے تھے۔گویا وہ خود کوئی شریعت نہ لائے تھے۔ پھر دیکھئے توریت کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے تَمَامًا عَلَی الَّذِیْۤ اَحْسَنَ وَتَفْصِیْلاً لِّکُلِّ شَیْءٍ (الانعام:155)۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے وقت کے لئے وہ بھی مکمل تھی۔ پس اگر قرآن کے مکمل ہونے کی وجہ سے کسی نبی کے آنے کی ضرورت نہیں ہے تو پھر توریت کے وقت بھی کوئی نبی نہیں آنا چاہئے تھا۔ مگر حدیث میں آتا ہے کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمْ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل) کہ جب ایک نبی فوت ہو جاتا تو دوسرا کھڑا ہو جاتا۔ پس اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن کریم چونکہ مکمل کتاب ہے اس لئے اب کوئی نبی نہیں آ سکتا۔

حضرت مسیح موعودؑ کا فیصلہ

اب میں حضرت مرزا صاحب کا ایک حوالہ پیش کرتا ہوں۔ آپ شہادت القرآن میں فرماتے ہیں کہ ’’حضرت موسٰی سے حضرت مسیح تک ہزارہا نبی اور محدث ان میں پیدا ہوئے کہ جو خادموں کی طرح کمربستہ ہو کر توریت کی خدمت میں مصروف رہے۔ چنانچہ ان تمام بیانات پر قرآن شاہد ہے اور بائبل شہادت دے رہی ہے اور وہ نبی کوئی نئی کتاب نہیں لاتے تھے کوئی نیا دین نہیں سکھاتے تھے‘‘

(شہادت القرآن روحانی خزائن جلد6 صفحہ342)

پس ان حوالوں سے معلوم ہو گیا کہ آیت اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ کسی نبی کے آنے میں مانع نہیں ہے۔

کیا احادیث سے نبوت کا دروازہ بند ہونا ثابت ہوتا ہے

یہ تو میں نے قرآن کریم کے متعلق بیان کیا۔ اب ان احادیث کو لیتا ہوں جن کو نبوت کے بند ہونے کے متعلق پیش کیا جاتا ہے۔ سب سے مضبوط اور زبردست دلیل اس حدیث سے دی جاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو فرمایا تھا اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّا اَنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ (المسلم فضائل الصحابہ من فضائل علی) کہ تو میرے نزدیک ایسا ہی ہے جیسا کہ موسیٰ کے نزدیک ہارون۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

اس کے متعلق ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کا شان نزول کیا ہے اور کس موقع پر فرمائی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب تیس ہزار لشکر لے کر جنگ تبوک کو گئے تو اپنے بعد حضرت علیؓ کو خلیفہ مقرر کر گئے۔ جب آپؐ ایک منزل دور چلے گئے تو منافقوں نے حضرت علیؓ کو کہا کہ آپ کو عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر ثواب سے محروم کر دیا گیا۔ اس پر آپ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور جا کر عرض کی کہ مجھے کیوں عورتوں اور بچوں میں چھوڑا گیا ہے اور کیوں ثواب حاصل کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان فرمائی جس کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح موسٰیؑ جب طُور پر گئے تھے تو اپنے پیچھے ہارون کو چھوڑ گئے تھے اسی طرح میں جاتا ہوں اور تمہیں پیچھے چھوڑتا ہوں۔ لیکن چونکہ حضرت ہارونؑ نبی بھی تھے اور اسی حالت میں حضرت موسیٰ کے خلیفہ ہوئے تھے اور حضرت علی صرف خلیفہ تھے نبی نہیں تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا اِلَّا اَنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کہ تم میرے جانے کے بعد صرف خلیفہ ہی کی حیثیت سے ہو گے نہ کہ نبی کی حیثیت سے بھی۔ پس اس سے ثابت ہو گیا کہ اس حدیث میں صرف حضرت علی کے نبی ہونے کی نفی کی گئی ہے نہ کہ مطلق نبوت کی۔ کیونکہ اس وقت حضرت علیؓ ہی کے نبی ہونے کا شبہ پڑ سکتا تھا کیونکہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہارونؑ کی حیثیت دی تھی۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ ’بعد‘ کے معنی غیر حاضری کے بھی ہیں یعنی حضرت علیؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری غیر حاضری میں کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔ یعنی کہ تم کو جو میں اپنی غیر حاضری میں خلیفہ بنا رہا ہوں اور اس وجہ سے ہارون کی حیثیت دے رہا ہوں تو اس میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ ہارون تو موسیٰ کی غیر حاضری میں نبی کی حیثیت بھی رکھتا تھا لیکن میری غیر حاضری میں کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔

بعد کے معنی غیر حاضری کی تصدیق قرآن کریم سے ہی ہو جاتی ہے چنانچہ آتا ہے کہ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِنْ بَعْدِکَ وَ اَضَلَّھُمُ السَّامِرِیُّ (طٰہٰ:86)۔ حضرت موسٰیؑ کو کہا گیا ہے کہ آ پ کی غیر حاضری میں آپ کی قوم کو سامری نے فتنہ میں ڈال دیا اور گمراہ کر دیا تو یہاں بعد کے معنی غیر حاضری کے ہیں۔

خاتمہ

میرا مضمون تو ابھی بہت سا باقی ہے لیکن چونکہ میرے بعد ایک نہایت ضروری مضمون پر حضرت خلیفۃ المسیح ثانی تقریر فرماویں گے اس لئے میں یہیں اپنے لیکچر کو ختم کرتا ہوں۔

(الفضل قادیان 13اکتوبر 1917ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 دسمبر 2020