بھنور میں پھنس رہی ہے کشتی دیں
تلاطم بحر ہستی میں بپا ہے
میرا ہر ذرہ ہو قربان احمدؐ
میرے دل کا یہی اک مدعا ہے
(حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
یحسرۃ علی العباد ما یاتیھم من رسول الا کانو بہ یستھزون
(یسین؛31)
ترجمہ۔وائے حسرت بندوں پر!ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا مگر وہ اس سے ٹھٹھا کرنے لگتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:۔
’’جو سچا ہے اسکے ساتھ ہنسی اور ٹھٹھا ضرور کیا جاتا ہے۔اگر یہ نہ کیا جائے تو خدا تعالیٰ کا کلام صادق نہیں ٹھہرتا۔ صادق کی یہ بھی ایک نشانی ٹھہری‘‘
(الحکم 17اگست 1901ء)
قارئین کرام
مامور من اللہ کی مخالفت، انکا استہزا بھی ایک سنت مستمرہ ہے۔ یہ مخالفت اور استہزا انبیاء کی سچائی کی علامت ہے۔ مخالفین انبیاء نے اپنی سنت برقرار رکھتے ہوئے آنحضرتﷺ کی ذات بابرکات اور آپؐ کی پاکیزہ تعلیمات پر نہ صرف اعتراضات کئے ہیں بلکہ انہوں نے بدنیتی اور تعصب کی بناپر جھوٹے الزامات لگانے سے بھی دریغ نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے غلاموں کے دل میں ایسی محبت وعشق پیدا کردیا کہ وہ دیوانہ وار آپؐ پر فدا تھے۔انہوں نے آڑے وقت میں حضرت موسی ؑ کے ساتھیوں کی طرح آپ ؑ سے یہ نہیں کہا کہ۔ فاذھب انت ربک فقاتلا انا ھا ھنا قاعدون (المائدہ۔25) پس تو اور تیرا رب دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔ بلکہ یہ نعرہ بلند کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی۔ آگے بھی لڑینگے اور پیچھے بھی اور دشمن ہماری لاشیں روندے بغیر آپ تک نہیں پہنچ سکتا۔یہی کیفیت ہر مخلص اور وفاء شعار صحابی رسولﷺ کی تھی۔وہ خدا کے رسول کی حفاظت اور آپؐ کی عزت وناموس کے لئے ہمیشہ کمر بستہ رہتے تھے۔ جسکی اللہ اور رسول ؐ نے انہیں تعلیم فرمائی تھی۔ دور حاضر میں رسول ﷺ کی ذات بابرکات کو جب ایک بار پھر ان حملوں کا نشانہ بنایا گیا تو خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے سچے عاشق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ کو آپؐ کے دفاع کے لئے کھڑا کیا اور آپؑ نے یہ اعلان فرمایا کہ۔
’’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہوکر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد ﷺ کو برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے ان سے ہم کیونکر صلح کریں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کرسکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کرسکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان و ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔خدا ہمیں اسلام پر موت دے ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے‘‘
(روحانی خزائن جلد23 ص459 پیغام صلح)
نیز آپؑ فرماتے ہیں۔
’’اور اس قدر بدگوئی اور اہانت اور دشنام دہی کی کتابیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزاں پڑتا اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلّی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام مال پر قبضہ کرلیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جوان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی دکھا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5 صفحہ 51 تا 52)
پھر ایک مقام پر آپؑ فرماتے ہیں۔
’’قرآن کریم کی تعلیم کے موافق ہمارا فرض یہ تھا کہ ہم بدزبان شخص کی بدزبانی کو الگ کرکے اس کے اصل اعتراضات کا جواب دیتے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے ادع الی سبیل ربک با الحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتی ھی احسن کیونکہ یہ امر نہایت پرخطر اور خوفناک ہے کہ ہم معترض کے اعتراض کو اپنی حالت پر چھوڑ دیں اور اگر ایسا کریں تو وہ اعتراضات طاعون کے کیڑوں کی طرح روز بروز بڑھتے جائیں گے اور ہزارہا شبہات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوجائیں گے ۔
(البلاغ ۔فریاد درد-روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 378 تا 379)
اسی طرح آپؑ فرماتے ہیں۔
’’اے بزرگو!یہ وہ زمانہ ہے جس میں وہی دین دینوں پر غالب ہوگا جو اپنی ذاتی قوت سے اپنی عظمت دکھاوے۔ پس جیسا کہ ہمارے مخالفوں نے ہزاروں اعتراض کرکے یہ ارادہ کیا ہے کہ اسلام کے نورانی اور خوبصورت چہرے کو بد شکل اور مکروہ ظاہر کریں ایسا ہی ہماری تمام کوششیں اسی کام کے لئے ہونی چاہئیں کہ اس پاک دین کی کمال درجہ کی خوبصورتی اور بے عیب اور معصوم ہونا بپا یہ ثبوت پہنچا دیں ۔
(البلاغ ,فریاد درد-روحانی خزائن جلد13 صفحہ382)
قارئین کرام!
عشقِ رسولؐ کا یہی جذبہ آپؑ نے اپنےجانشینوں اور اپنے ماننے والوں کو عطا کیا۔ چنانچہ آپ کے زمانے میں بے شمار پادریوں اور آر یو کی طرف سے بے شمار اعترضات کئے گئے جن کا آپ نے منقولی اور معقولی رنگ میں اپنی کتابوں میں جواب دیا۔ آپ کی جسمانی وفات کے بعد یہ عشق رسول کی لو آپ کے خلفاء اور متبعین میں جل رہی ہے اور دنیا بھر میں اس کا نور پھیل رہا ہے اور عشق رسول کی یہ داستان چار دانگ عالم میں پھیلتی جا رہی ہے اور دنیا کے ہر کونے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے آپ سے سچا پیار کرنے والے اور آپ کی طرف آنے والے ہر تیر کو اپنے سینوں پر لینے والے موجود ہیں اور پیدا ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اور ہر ایسے موقع پر جب دشمنان اسلام نے آپ پر حملہ کیا خواہ وہ امہات المومنین کی بد نام زمانہ کتاب ہو یا رنگیلا رسول کی یا اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی اور موقعہ۔ جماعت احمدیہ اور اس کے رہنماؤں نے قرآنی تعلیم کے مطابق صبر اور تقویٰ کے نمونے دکھاتے ہوئے بانی اسلام کا دفاع کیا ۔ ان بے شمار تعلیمات میں سے چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:۔ ’’اگر ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے ہیں تو ہماری خوشی اس میں ہونی چاہیے کہ ہم دنیا سے رسول کریم ﷺ کی نسبت شکوک اور شبہات کو دورکرنے میں کامیاب ہوں ۔سچی محبت قربانی کا مطالبہ کرتی ہے ۔۔۔۔ پس میں عام مسلمانوں کو عموما ًاور اپنی جماعت کے لوگوں سے خصوصا ًکہتا ہوں کہ ہمیں یہ مقصد سامنے رکھنا چاہئے کہ اسلام پھیلے اور آنحضرت ﷺ کی براءت ہو۔‘‘
(خطبات محمود جلد11 صفحہ نمبر141تا142)
نیزآپؓ نے فرمایا :۔
’’اسلام کی ترقی کے لئے تین باتوں کا عہد کرو۔ پہلی بات یہ کہ آپ خشیت اللہ سے کام لیں گے اور دین کو بے پرواہی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔ پہلے خود اپنے عمل ٹھیک کرو۔ دوسرے یہ کہ تبلیغ اسلام سے پوری دلچسپی لیں گے۔ اسلام کی تعلیم دنیا کے ہر شخص کو پتہ لگے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں، محاسن خوبصورت زندگی پتہ لگے، اُسوہ پتہ لگے۔ تیسرے یہ کہ آپ مسلمانوں کو تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لئے پوری کوشش کریں گے۔‘‘
(انوارلعلوم جلد9 ص556)
اپنی اس محبت کا اظہار آپ ؓاس رنگ میں کرتے ہیں:۔
محمدؐ میرے تن میں مثل جاں ہے
یہ ہے مشہور جاں ہے تو جہاں ہے
حضرت مرزا طاہر احمد خلیفتہ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:۔
’’پس میں احمدیوں کو اب یہ تلقین کرتا ہوں کہ صورتحال کے تجزیہ کے نتیجے میں وہ ایسی مؤثر او ر دیرپا کاروائی کریں جو آئندہ نسلوں تک پھیل جائے۔اگلی صدی، اس سے اگلی صدی، اس سے اگلی صدی۔ اب یہ ایک صدی کا معاملہ نہیں ہے۔محمد مصطفی ﷺ کا سارا زمانہ غلام ہے۔ اپنے پہلے زمانے کے بھی وہ بادشاہ تھے اور آئندہ زمانے کے بھی وہ بادشاہ ہیں۔ اس لئے ہمیشہ کے لئے جماعت احمدیہ ایسی کوششوں میں وقف ہو جائے جس کے نتیجے میں دشمن کے ہر ناپاک حملے کو ناکام بنایا جائے۔‘‘
(خطباتِ طاہر جلد8 ص130)
نیز آپؒ ایک مقام پر اس محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
دل آپ کا ہے ۔آپ کی جان۔ آپ کا بدن
غم بھی لگا ہے جاں کسل آپؐ کے لئے
قارئین کرام!
آج اس پُرامن پیغام کو اکناف عالم میں پہنچانے کا بیڑا اللہ تعالیٰ کے اذن سے جماعت احمدیہ نے اٹھایا ہوا ہے۔ اور اس کے سالار اعظم سید نا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں۔ آپ کی قیادت اور رہ نمائی میں آج یہ پیغام قریہ قریہ، بستی بستی سے لے کر دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں اور عالمی شہرت یافتہ تنظیموں تک پہنچ رہا ہے۔آپ کے چند ارشادات کو یہاں نقل کرتا ہوں۔
حضرت مرزا مسرور احمد خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
’’پس دشمن ہمیں جو چاہے کہتا رہے۔ ہم پر جو بھی الزام لگاتے ہیں لگاتے رہیں۔ ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے اور ہمیں سب سے بڑھ کر آپ کے خاتم النبیینؐ ہونے کا اِدراک ہے اور یہ سب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم دشمن کے ہر حملے اور ہر ظلم کے بعد پہلے سے بڑھ کر اپنے ایمان میں بڑھتے چلے جانے والے ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پہلے سے بڑھ کر بھیجنے والے ہوں تا کہ مسلمانوں کو بھی آپ کے اس مقام کا صحیح اِدراک حاصل ہو اور یہ بھٹکے ہوئے مسلمان بھی صحیح رستے پر آ جائیں اور دنیا میں بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم پھیلے‘‘
(خطبہ جمعہ 16؍ دسمبر 2016ء)
آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:۔
’’ہمارا رد عمل ہمیشہ ایسا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے جس سے آنحضرت ﷺ کی تعلیم اور اسوہ نکھر کر سامنے آئے۔قرآن کریم کی تعلیم نکھر کر سامنے آئے۔آنحضرت ؐ کی ذات پر ناپاک حملے دیکھ کر بجائے تخریبی کاروائیاں کرنے کے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے اس سے مدد مانگنے والے ہم بنتے ہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ 10 فروری 2006ء)
نیز ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں:۔
آپ میں سے ہر بچہ، ہر بوڑھا، ہر جوان، ہر مرد اور ہر عورت بیہودہ کارٹون شائع ہونے کے ردعمل کے طور پر اپنے آپ کو ایسی آگ لگانے والوں میں شامل کریں جو کبھی نہ بجھنے والی آگ ہو،جو کسی ملک کے جھنڈے یا جائیدادوں کو لگانے والی آگ نہ ہو جو چند منٹوں میں چند گھنٹوں میں بجھ جائے۔۔۔۔ ہماری آگ تو ایسی ہونی چاہیے جو ہمیشہ لگی رہنے والی آگ ہو۔وہ آگ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور محبت کی آگ جو آپؐ کے ہر اسوہ کو اپنانے اور دنیا کو دکھانے کی آگ ہو۔ جو آپ کے دلوں اور سینوں میں لگے تو پھر لگی رہے۔ یہ آگ ایسی ہو جو دعاؤں میں بھی ڈھلے اور اس کے شعلے ہر دم آسمان تک پہنچتے رہیں۔پس یہ آگ ہے جو ہر احمدی نے اپنے دل میں لگانی ہے اور اپنے درد کو دعاؤں میں ڈھالنا ہے۔
(خطبات مسرور جلد4 صفحہ86تا87)
اور اسی طرح آپ فرماتے ہیں:۔
’’بس آج ہر احمدی کی ذمہ داری ہے بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جس نے اِس زمانے کے امام کو پہچانا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی جذبے کی وجہ سے بہت زیادہ درود پڑھیں، دعائیں کریں، اپنے لیے بھی اور دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی تاکہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو تباہی سے بچا لے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد4 صفحہ116)
قارئین محترم!
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آنحضرتﷺ کے عاشق صادق امام الزمان حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کے خلفاء کرام نے نہ صرف ہمارے دلوں میں عشق مصطفی ﷺ کی مشعل کو روشن کیا ہے بلکہ آنحضرتؐ پر ہونے والے اعتراضات کے مدلل جوابات دے کر عشق حقیقی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔پس ہمارا فرض بنتا ہے کہ آج بھی اس کارواں کومزید آگے بڑھانے کے لیے خلافت راشدہ احمدیہ کی رہ نمائی میں اپنا کردار ادا کرتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق و سعادت عطا فرمائے۔ آمین۔
ہوئے ہیں گو ہزاروں انبیائے صادقیں پیدا
محمد مصطفی ؐ ان میں ہوئے اکمل تریں پیدا
نہ ہوتا آسماں پیدا، نہ ہوتی یہ زمیں پیدا
اگر ہوتے نہ اس دنیا میں ختم المرسلیں ؐ پیدا
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍوَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ
(مرسلہ: حلیم خان شاہد مربی سلسلہ پونے،مہارشڑا،انڈیا)