• 3 مئی, 2024

جب حضور علیہ السلام سامنے آ جاتے تھے، بے اختیار رونا آ جاتا تھا اور گویا حضور معشوق تھے اور یہ ناچیز عاشق

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت ماسٹر مولا بخش صاحبؓ ولد عمر بخش صاحب فرماتے ہیں کہ: مَیں مدرسہ سنگہونی ریاست پٹیالہ میں ہیڈماسٹر تھا۔ ماہ بھادوں (جو برسات کے بعد اگست کا مہینہ ہوتا ہے) کہتے ہیں اُس وقت موسمی تعطیلات ہوئیں۔ مجھے حضور کی خدمت میں حاضر ہونے کا شوق ہوا۔ میرا بچہ عبدالغفار مرحوم دو سال کا تھا۔ اُس کے بدن پر پھوڑے نکلے ہوئے تھے جو اچھے نہ ہوتے تھے۔ میں اُس کی پرواہ نہ کر کے وہاں سے چل پڑا اور سرہند کے مولوی محمد تقی صاحب کو ساتھ لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی۔ جب میں تقریباً ایک ماہ یہاں گزار کر گھر پہنچا تو مَیں نے لڑکے کو بالکل تندرست دیکھا۔ میری بیوی نے کہا کہ میں نے اس کو نہلانا چھوڑ دیا تھا، پھوڑے اچھے ہوگئے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ) جلدنمبر7 صفحہ146روایت حضرت مولا بخش صاحبؓ)

حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ فرماتے ہیں: مَیں نے 1898ء کے قریب ایک رؤیا دیکھی تھی کہ مَیں ایک بلند پہاڑ کی چوٹی پر رُو بہ مشرق کھڑا ہوں۔ میرے دونوں ہاتھ پوری وسعت کے ساتھ شانوں کے برابر پھیلے ہوئے ہیں اور میری دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر سورج کا زرّیں کُرّہ بلور کی طرح چمکدار موجود ہے اور چاند کا کُرّہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر تین فٹ کی بلندی پر آ پہنچا ہے۔ مشرق سے ایک دریا پہاڑ سے جانب جنوب ہو کر گزرتا ہے اور دریا اور پہاڑ کے درمیان میں وسیع میدان اور سبزہ زار ہے۔ بعد میں یہ تعبیر کھلی کہ پہاڑ سے مراد عظمت اور رفعت ہے۔ سورج سے مراد حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور چاند سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بدرِ کامل ہیں۔ اور دریا سے مراد علومِ آسمانی ہیں جو مشرق کی طرف سے مغرب کو فیضیاب کر دیں گے اور چاند کا تین فٹ دور ہاتھ سے بلند ہونا ظاہر کرتا تھا کہ تین سال کے بعد احمدیت نصیب ہو گی’’۔ 1898ء میں خواب دیکھی تھی چنانچہ 1901ء میں اُن کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا ہوئی۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ) جلدنمبر7 صفحہ200-202 روایت حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ)

حضرت شیخ محمد افضل صاحبؓ سابق انسپکٹر پولیس پٹیالہ فرماتے ہیں کہ سن 1900ء میں گرمی کا مہینہ تھا کہ ایک خادم مع ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے قادیان بارادہ بیعت گیا۔ مغرب کے قریب قادیان پہنچا۔ قادیان کے کچے مہمان خانے میں بستر رکھ کر مسجد مبارک میں گیا۔ حضرت مرزا صاحب نماز مغرب کے لئے اندرونِ خانہ سے تشریف لائے۔ چونکہ کچھ اندھیرا ہو گیا تھا، بہت فربہ معلوم ہوئے۔ کیونکہ خادم شہری آب و ہوا میں پرورش پایا ہے شیطان نے دل میں ڈالا۔ موٹا کیوں نہ ہو۔ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ)۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں ان کو خیالات آئے کیونکہ اندھیرے کی وجہ سے صحیح طرح نظر نہیں آیا۔ شیطان نے دل میں ڈالا کہ موٹے کیوں نہ ہوں۔ لوگوں کا ماس خوب کھاتے ہیں۔ پھر اندر سے بہت سی عورتوں کے بولنے کی آوازیں آئیں۔ پھر دل میں وسوسہ پیدا ہوا، شیطان نے ڈالا کہ اس کی نیک چلنی کا کیا پتہ ہے۔ نفس کے ساتھ سخت جدوجہد ہوئی کہ تمام بدن پسینہ پسینہ ہوگیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں نفس نئے سے نئے پلید خیالات لاتا تھا۔ میں نماز میں دعا کرتا رہا کہ اے خدا! اگر یہ شخص سچا ہے تو میں اس کے دروازہ سے نامراد اور ناکام واپس نہ جاؤں۔ مگر دل کی کوئی اصلاح نہ ہوئی۔ نماز کے بعد مہمان خانے میں واپس آ گیا اور فیصلہ کیا کہ ایسے حالات میں بیعت کرنا درست نہیں ہے۔ یہ یادنہیں کہ عشاء کی نماز پڑھی یا نہیں اور پڑھی تو کہاں پڑھی۔ مغموم حالت میں سو گیا۔ رات کے دو یا تین بجے کا وقت ہو گا کہ ایک شخص نے مجھ کو گلے سے پکڑ کر چارپائی سے کھڑا کر دیا۔ یعنی خواب میں یہ نظارہ دیکھ رہے ہیں۔ اور اس زور سے میرا گلا دبایا کہ جان نکلنے کے قریب ہو گئی اور کہا تُو نہیں جانتا کہ مرزا کون شخص ہے؟ یہ وہ شخص ہے جس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور اپنے دعوے میں بالکل صادق ہے۔ خبردار اگر کچھ اور خیال کیا اور مجھ کو چارپائی پر دے مارا۔ اور کہتے ہیں کہ ایسی دہشت والی خواب تھی کہ خوفزدہ ہو کے میری آنکھ کھل گئی۔ اُس وقت میری آنکھوں میں آنسو تھے اور گلا سخت درد کر رہا تھا جیسے فی الواقعہ کسی نے دبایا ہو۔ حالانکہ یہ سب خوابی کیفیت تھی۔ دل سے دریافت کیا کہ اب بھی مرزا صاحب کی صداقت میں کوئی شبہ ہے۔ دل نے کہا بالکل نہیں۔ صبح کو مرزا صاحب کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ تو کوئی فرشتہ آسمان سے اُترا ہے اور معمولی بدن کا انسان ہے اور اس کی ہر حرکت پر جان قربان کرنے کو طبیعت چاہتی تھی۔ جب حضور علیہ السلام سامنے آ جاتے تھے، بے اختیار رونا آ جاتا تھا اور گویا حضور معشوق تھے اور یہ ناچیز عاشق۔ بڑی خوشی سے بیعت کی اور خدا نے شیطان کے پنجے سے چھڑا کر مسیح کے دروازے پر زبردستی لا ڈالا۔ ورنہ میرے بگڑنے میں کیا کسر باقی رہی تھی۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ) جلدنمبر7 صفحہ219-220روایت حضرت شیخ محمد افضل صاحبؓ)

حضرت قائم الدین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے گاؤں کی مسجد سے نماز پڑھ کر اُٹھا ہوں تو لوگ کہہ رہے ہیں کہ ارے بھائی! ایک ایسی آفت آئی ہے کہ وہ تمام دنیا کو چَٹ کر جائے گی۔ میں بھی سن کر محسوس کر رہا ہوں کہ یہ تمام ہم لوگوں کو کھا جائے گی۔ سیاہ رنگ کی لکڑی سی ہے جو کہ تمام کھیتوں میں نظر آ رہی ہے۔ میں لوگوں کو کہتا ہوں کہ بھائی یہ تو ہم کو ضرور کھا جائے گی۔ کچھ خدا کو تو یاد کر لو۔ اُسی وقت (اُن آفتوں میں سے) ایک دو نے میرے دائیں ہاتھ کی انگلی پکڑ لی تو مجھے فکر ہوا کہ مجھے یہ نہیں چھوڑے گی۔ تو میں نے اس کیڑے سے پوچھا کہ کیا تم خدا کی طرف سے آئے ہو؟ اُس کیڑے نے انگلی پکڑ لی۔ اُس نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا کیا مرزا صاحب سچے ہیں یا نہیں؟ اُس نے کہا وہ سچے ہیں۔ اگر تُو مرزا صاحب کو نہیں مانے گا تو ہم تمہیں ضرور کھائیں گے کیونکہ وہ صادق ہیں۔ بار بار تین دفعہ آواز آئی کہ مرزا صاحب سچے ہیں۔ پھر آنکھ کھل گئی۔ وہ پھر کہتے ہیں کہ صبح اُٹھ کر میں نے اپنی اماں سے پوچھا کہ جمعہ کب ہے؟ انہوں نے کہا: پرسوں۔ چنانچہ جمعہ کے دن جا کر حضرت صاحب کی مَیں نے بیعت کر لی۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ) جلدنمبر7 صفحہ367خواب حضرت قائم الدین صاحبؓ بروایت سردار خان گجراتی صاحب)

(خطبہ جمعہ 12؍ اکتوبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

امبور ہسپتال میں جماعت احمدیہ کی طرف سےسرجیکل اشیاء کی تقسیم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 دسمبر 2021